حضرت اقدس سیدنورزمان شاذلی نقش بندی مدظلہ العالی کسی
تعارف کے محتاج نہیں ،پاک وہند میں سلسلہ شاذلیہ کانام آتے ہی ذہن میں ان
کا تصور آتاہے۔سلسلہ شاذلیہ صوفیا کا ایک سلسلہ ہے، جس کے بانی ابوالحسن
علی نورالدین شاذلی بن عبد اﷲ شریف حسینی المغربی تھے جو قریہ
غمارہ(اسکندریہ )میں پیدا ہوئے۔ اور ملک یمن کے صحرائے عیذاب میں ساحل کے
قریب بمقام مخا رحلت فرمائی۔۔ابوالحسن علی بن عبد اﷲ الشاذلی کا 17 واسطوں
سے نسب حضرت سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ملتا ہے۔ اس سلسلے کے
بنیادی اصول یہ ہیں:اخلاص،توبہ،نیت،اتباع کتاب و سنت،خلوت،جہاد بالنفس و
دشمنان دین،تربیت نفس،دنیا سے بے رغبتی،عبودیت،طاعات،علم الیقین،ذکر ،تقوی،قلب
کوغیراﷲ سے خالی کرنا،توکل علی اﷲ اور محبت الہٰی!
سیدنورزمان شاذلی نقش بندی قطب الارشاد فقیہ العصرحضرت مولانامفتی
رشیداحمدلدھیانوی ؒکے فیض یافتہ اور سیداحمد علی شاہؒکے خلیفہ مجاز
ہیں۔انھیں سید صاحب سے چار سلاسل میں خلافت حاصل ہے۔سید صاحب خلیفہ ہیں
حضرت علی المرتضیٰ گدائی شریف والے کے ،اور وہ خلیفہ ہیں پیران پیر قطب
الاقطاب حضرت مولانا سید فضل علی قریشی ؒ کے۔سلسلہ شاذلیہ کی خلافت حضرت
سید نورزمان صاحب کوتین بدنی اسناد(سید احمد علی نواسہ مولانا فضل علی
قریشی،خواجہ عبدالرحمن سندھی ؒ اوراپنے شیخ حضرت سیداحمد علی شاہ ؒ )کے
ساتھ بھی حاصل ہے اور وہبی طور پرسلسلے کے بانی ابوالحسن علی نورالدین
شاذلی بن عبد اﷲ شریف حسینی المغربی ؒ سے بھی۔اویسی سند کی اہمیت ماہرین
سلوک وتصوف بخوبی جانتے ہیں۔
سید نورزمان صاحب ہی کی مساعی ٔجمیلہ کانتیجہ ہے کہ سلسلہ مختصرعرصے میں
ہندوپاک میں بڑی تیزی اور سرعت سے پھیلاہے۔ان کے خلفامیں علمائے کرام کی
بھی ایک بڑی تعدادشامل ہے۔
میرے رفیق مولاناامان اﷲ شاذلی نقش بندی،جو میرے شاگرد بھی ہیں، سیدنورزمان
شاذلی نقش بندی مدظلہ کے اجل خلفامیں سے ہیں،ان کے توسط سے حضرت سے ملاقات
ہوئی۔اتنی عظیم نسبتوں کے حامل ہونے کے باوجودان میں تصنع وبناوٹ نام
کونہیں،سادگی وبے نفسی کاپیکرہیں،سراپااتباعِ سنت وشریعت کامرقع،بلاشبہ
ایسے لوگوں کو دیکھ کراﷲ یاد آجاتا ہے۔
تعجب ہے ان لوگوں پر،جو اس عظیم سلسلے کے سرخیل باصفا اﷲ والے پر کیچڑ
اچھالتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کا ذرا بھی خوف نہیں کرتے،بلکہ منبر ومحراب میں
جھوٹ والزام تراشیوں کی وہ انتہا کردیتے ہیں کہ الامان!ان لوگوں کی دیدہ
دلیری پر حیرت ہوتی ہے،جو ایسی باصفا ہستیوں پر بے سروپا الزامات
لگاتے،انھیں نماز وروزہ تک کا تارک بتاتے ہوئے ذرا بھی اﷲ کا خوف نہیں
کرتے۔جس شخص کی تہجدواشراق اور چاشت واوابین بھی حضر ہی نہیں ،سفر میں بھی
قضا نہیں ہوتی،جو لوگوں کو اﷲ کا نام سکھاتا اور اس کی محبت کے جام پلاتا
ہے،وہ نماز روزے جیسے اہم ترین فرائض کا تارک ہوگا؟اے کمال افسوس ہے،تجھ پر
کمال افسوس ہے!
ان کوقریب سے دیکھ کراندازہ ہواکہ اﷲ تعالیٰ نے سلسلے کی ترویج کاکام اتنے
بڑے پیمانے پرلینے کے لیے ان کاجوانتخاب فرمایاہے،وہ اس کی پوری صلاحیت
رکھتے ہیں۔مختلف موضوعات پران کی گفتگوسننے کابھی موقع ملا۔ان کی باتوں میں
علمیت کارنگ صاف نظرآیا، ان کے کتب خانے میں رات کاآدھاپہربیت جانے کے
باوجودمطالعے کے شوقین مریدوخلفا ئے کرام مختلف کتب کی ورق گردانی میں
مصروف تھے،جس سے ان کی علم پروری کا اندازہ ہوا۔آئیے!آپ کوبھی اس بابرکت
محفل میں لیے چلتے ہیں۔
فرمایا:یہ رجحان پاک وہندمیں کافی زورپکڑتاجارہاہے کہ اکابرکی عربی فارسی
کتب کے تراجم کیے جارہے ہیں،ہمارے اعتمادکے لیے تواتناہی کافی ہے کہ وہ
ترجمہ کسی مستندادارے سے شایع ہواہو،لیکن احتیاط کاتقاضایہ ہے کہ متن بھی
ساتھ میں دیاجائے،تاکہ اہلِ علم متن اورترجمہ کوملاکرمزیدتسلی کرلیں،نیزیہ
امکان بھی ختم ہوجائے کہ مترجم نے اپنی طرف سے بھی کچھ ملاوٹ کی ہے۔جیساکہ
اہلِ باطل کی طرف سے ہوتارہاہے۔
فرمایا:اگرعقیدہ بھی درست ہواوراسلاف کے ساتھ عقیدت بھی تودیوبندی
بنتاہے،بریلویت میں نِری عقیدت اورغیرمقلدیت میں سارازورعقیدے پرہے،حالاں
کہ اسلاف سے بدگمان ہوکرعقیدہ بھی درست نہیں رہ سکتا۔
فرمایا:لوگ کہتے ہیں:یہ سلسلے سے جوڑتاہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم بندے
کاتعلق اﷲ سے جوڑتے ہیں۔
فرمایا:آپسی اختلافات کوعوام میں لے جانااناڑی کے ہاتھ میں ہتھیاردینے کے
مترادف ہے۔اہلِ علم کواس سے اجتناب کرنااورباہم گفت وشنیدسے معاملات کوحل
کرناچاہیے،اسی میں بھلائی ہے۔ |