انتخابات میں دھاندلی کا نیا طریقہ

بدھ کے دن عام انتخابات تو ہوگئے۔ کہیں دھماکہ ، کہیں کریکر حملہ، کہیں جھڑپ اور کہیں امن۔ کہیں پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی اور کہیں وقت پر شروع ہوئی۔ ووٹر کا ٹرن آؤٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت زیادہ رہا اور ااس مرتبہ عوام نے اپنی مرضی سے ووٹ دیا۔ کہیں کوئی زبردستی کا واقعہ سامنے نہیں آیا۔ جس طرح الیکشن کا عمل امن ، سکون اور شفاف طریقے سے جاری تھا تو اس سے تو یہی معلوم ہورہا تھا کہ ضرور بالضرور یہ الیکشن تاریخ کے منفرد الیکشن ہوں گے اور اس کے نتائج پر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا۔ لیکن انتہائی افسوس ہے کہ اس الیکشن کو جس قدر شفاف سمجھا جارہا تھا، اسی قدر نئے انداز سے دھاندلی رچائی گئی۔ اس مرتبہ وہ کام کیا گیا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بعض پولنگ اسٹیشن کے حوالے سے یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ وہاں ووٹر ز کو اس وقت تک اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا جب تک وہ پی ٹی آئی کے کیمپ سے کارڈ بنواکر نہ لے آئے۔ اگر کوئی ووٹر کسی اور پارٹی کا کارڈ دکھا تا تو اسے باہر نکال دیا جاتا۔ اسی طرح دھاندلی کی چند ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی نظر آئیں کہ کس طرح خواتین نے دھاندلی کی۔ تقریباً ہر پولنگ اسٹیشن پر انتخابات کا عمل انتہائی سست روی کا شکار رہا۔ اس سست روی میں بھی دھاندلی کا نیا انداز پوشیدہ تھا۔این اے ۲۵۳ اور پی ایس ۱۲۴ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر خواتین نے ایک نیا طریقہ اپنا یا ہوا تھا۔ دوپہر کے بعد جب وہاں خواتین کا رش ہونے لگا تو وہاں موجود خواتین عملے نے یہ طریقہ اپنا یا کہ جو خاتون ووٹ ڈالنے کے لیے آتی تو اس کا شناختی کارڈ لے کر لسٹ سے نام کاٹ دیاجا تا اور انگوٹھے کا نشان لے کر اوپر سیاہی لگادی جاتی ، پھر کہا جاتا کہ بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر میں بلاتے ہیں ۔ اسی طرح سب کے ساتھ کیا اورسب کو انتظار میں کھڑا کردیا۔ کسی کو بھی بیلٹ پیپر نہیں دیا اور سب کے شناختی کارڈ جمع کرکے ٹیبل پر سجادیے۔ اب جن خواتین کو معلوم تھا کہ بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے انہوں نے شور شرابا کرکے بیلٹ پیپر لے لیا اور ووٹ کاسٹ کردیا لیکن جو سادہ خواتین اس طریقے سے نا آنشا تھیں تو انہیں اس طرح بیوقوف بنایا گیا کہ تمہارا ووٹ ہوتو گیا ، یہ دیکھو تمہارے انگوٹھے پر نشان بھی ہے۔ یہ لو اپنا شناختی کارڈ اور جاؤ۔ وہ بیچاری سادہ خواتین اپنا کارڈ لے کر چلتی بنیں۔ اس طرح کئی خواتین کو بیوقوف بناکر بغیر ووٹ ڈالے بھیج دیا گیا۔ اسلام آباد الیکشن کمیشن کو بھی اس طریقے سے آگاہ کیا گیا۔ کراچی میں بھی آر۔ او کو اس سے آگاہ کیا گیا، لیکن نہیں معلوم کہ کس حد تک اس پر قابو پایا گیا۔ بہرحال یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایک قوی امید تھی کہ ووٹوں کی گنتی شفاف طریقے سے ہوگی۔ لیکن جب پریزائڈنگ آفیسرز نے مختلف پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹس کو قانو نی تقاضے پورے کیے بغیراور فارم پینتالیس کی کاپی دیے بغیر پولنگ اسٹیشن سے باہر نکالنا شروع کیا تو اس وقت احساس ہوا کہ انتخابات اتنے شفاف ہوگئے ہیں کہ اب الیکشن کمیشن کو خود دھاندلی کرنی پڑرہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ پریزائڈنگ آفیسرز کو کیا ضرورت پڑی کسی کو باہر کرنے کی؟ وہ تو الیکشن کمیشن کے حکم کے تابع ہیں، انہیں جو حکم دیاجائے گا وہی کریں گے۔ پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ بند کمرے میں اپنی مرضی کے نتائج تیار کیے جارہے ہیں۔تحریکِ انصاف کے علاوہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، ایم کیوایم ، پاک سر زمین پارٹی اور تحریک لبیک نے بھی انہیں خدشات کا اظہار کیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا جارہا ہے اور سادہ کاغذ پر نتیجہ لکھ کر دیا جارہا ہے اور فارم ۴۵ نہیں دیا جارہا ۔ حالانکہ پور ا دن کسی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ لیکن جیسے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تواکثر جماعتوں نے اس عمل کو دھاندلی قراردے دیا۔ اور بعض پارٹیوں نے اس کے نتائج کو یکسر مسترد کردیا۔ اور احتجاج اور دھرنوں کی کال دے دی۔ اس موقع پر تمام جماعتوں کا احتجاج برحق ہے۔

فوج کے تعاون سے پورا دن الیکشن کا عمل شفاف رہا لیکن آخر میں آکر اس کو مشکوک بنادیا گیا۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹیوں کا مینڈیٹ چوری کیا جارہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کے اس عمل سے وہ پارٹیا ں بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں جن کا مینڈیٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مذہبی جماعتوں میں تحریک لبیک پاکستان کو بالکل پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جن علاقوں میں تحریک لبیک کی اکثریت اور جیت یقینی تھی تو ہاں کا رزلٹ تیار کرتے وقت ان کے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا۔ اس تحریک سے نفرت کا عالم یہ ہے کہ کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود اس کی پوزیشن واضح نہیں کی جارہی۔ میڈیا پر اس تحریک کا نام لینا بھی گوارا نہیں کیاجارہا۔ الیکشن سے پہلے بھی اس جماعت کو منظر سے غائب رکھا گیا۔ لیکن جب عوام کی عدالت نے اس جماعت کے حق میں فیصلہ دیا تو اس فیصلہ کو بھی چھپایا جارہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غیر جانبدارانہ صحافت کرنے کے دعوے دار بھی یہاں جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ کرنا ہی تھا تو الیکشن کے نام پر حکومت او ر عوام کے اربوں روپے کیوں خرچ کروائے گئے ؟ صرف فوج کی تعیناتی میں کئی ارب روپے خرچ ہوئے ، لیکن شفاف انتخابات کروانے کے بعد رزلٹ شفاف کیوں نہیں بنایا گیا؟ تحریکِ انصاف کو زبردستی بھاری اکثریت دینے کی کوشش کیوں کی گئی ؟ شفاف انتخابات کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو رزلٹ بنے وہ سامنے آجانا چاہیے۔ غیرجانبدارانہ انتخابات میں جانداری کا مظاہرہ کیوں کیاگیا؟

نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کو اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے،وہ بھی ایسے حالات میں جہاں عوام کا شعور بیدار ہوچکا ہو۔ عوام جانتی ہے کہ انہوں نے کس کو ووٹ دیا ہے اور نتیجہ کیا آنا چاہیے۔ اب حالات پہلے کی طرح نہیں ہیں کہ پارٹیاں دھاندلی کا الزام لگا کر خاموش ہوجایا کرتی تھیں۔ پہلے صرف پارٹی کے سربراہ میدان میں ہوتے تھے اور الزام لگاکر خاموش ہوجاتے تھے اور پہلے سب کو معلوم ہوتا تھا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے ۔ لیکن اس مرتبہ عوام نے خود اپنی مرضی سے آزادانہ ناحول میں ووٹ دیا ہے ، عوام اب خود میدان میں ہے جو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے جب انتخابات کو شفاف بنانے کی پوری کوشش کی ہے تو پھر حتی الامکان اس کے نتائج میں بھی شفافیت کا عنصر ہونا چاہیے تھا۔ تمام جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے گنتی ہوتی اور سب فارم ۴۵ پر نتیجہ لے کر اورقانونی تقاضے پورے کرکے باہر آتے تو یقینی طور پر حالات خوشگوار ہوتے۔ پولنگ ایجنٹس کو نکالنے کا عمل اگر الیکشن کمیشن کی طر ف سے نہیں تھا تو الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف سخت نوٹس لینا چاہیے جنہوں نے یہ جرم کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام صرف ایک یا دو پولنگ اسٹیشن پر نہیں ہوا بلکہ پورے پاکستان کے متعدد پولنگ اسٹیشن پر یہ غلطی کی گئی، اس سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اوپر سے آرڈر کیا گیا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ عوام کے ساتھ مذاق کیا گیااور انہیں دھوکہ دیا گیا ۔الغرض الیکشن کمیشن کی اس غلطی نے ملک میں دھرنوں اور احتجاج کونئی ہوا دی ہے۔ ملکی حالات ویسے ہی خراب ہیں۔ ایسے حالات میں اگر دھرنے اور احتجاج شروع ہوجائیں تو پاکستان مزید خطرات سے دو چار ہوگا ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کیاجائے اور جو جس کاحق ہے اسے دیا جائے۔

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 86820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.