دو کتابوں ’’رئیس احمد صمدانی کی رشحات قلم‘‘ اور’’ پر محمد سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ‘‘پر تبصرہ

ڈاکٹر رئس احمد صمدانی کی کتاب ’’رشحاتِ قلم‘‘پر تبصرہ
ہمارے بہت ہی اہم اور محترم صحافتی ساتھی جناب ریئس احمد صمداانی کی شخصیت پر لکھنا سورج کو آئنہ دکھانے کے مترادف ہے۔اس حوالے سے چند بے ترتیب جملے لکھ کر میں اپنی ذاتی حیثیت میں اہمیت کا اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ڈاکٹر صمدانی نے رشحاتِ قلم کے عنوان سے روز نامہ جناح میں شائع ہونے والے اپنے یکم اکتوبر 2015تا 5 مارچ 2016 کے قالمزشائع فرمائے ہیں۔ جو میری نظر میں بے حد شُشتہ ہیں اُن کو پڑھ کر دل و دماغ کو نئی توانائی ملتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ کتاب میں چھاپے گئے تمام ہی مضامین قابلِ توجہ اور شاہکار ہیں۔تحریر ایسی کہ لگتا ہے سیلِ روان جاری ہے۔مگر جہاں ٹہراؤ کی ضرورت ہے وہاں پر ایسا سکوت ہے کہ قاری کی حیرانی بھی دیدنی ہوتی ہے۔کتاب کی اشاعت فضلی سنز ایسے مشہور ادارے کے ذریعے کی گئی ہیجو ایک سو گیارا صفحات پر مشتمل ہے۔کتاب کا ٹائٹل خوبصورت ہے۔ اور کاغذ کا ستعمال بھی عمدہ ہے۔جس پر قاری کی نظر پڑتے ہی قاری کو کتاب پڑھنے پرآمادہ اور مجبور کر دیتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی کتاب کی قیمت کاغذ اور گیٹ اپ کے لحاط سے نہایت مناسب لگتی ہے۔جس سے کتاب قاری کے لئے بہت اٹریکشن دکھائی دیتا ہے۔کتاب کو پڑھنے کے بعد لائبریری کی زینت بناتے ہوئے بھی فخر کااحساسہوتا ہے۔صحافتی دنیا کے ساتھیوں نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر پر نہایت ہی خوبصورت تبصرے کئے ہیں۔جس سے اس کتاب کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے کتاب کی ابتداء عالمی و ملکی سیاسی حا لتِ حاضرہ کے عنوان سے کی ہے۔ڈاکٹر صاحب کا پہلا مضمون ہی’’اقدار واقتدار کی سیاست ‘‘مجھ جیسے صحافتی اناڑی کو تحریر کے خوبصورت رخ دکھاتا ہے۔آپ کا دوسرا مضمون ’’دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی،بے حد عمدہ تحریر ہے۔غرض یہ کہ کتاب کے بتیس کے بتیس عنوانات معلومات کا عظیم خزینہ ہیں۔مگر ان تمام عنوانات میں سے ’’حکیم محمد سعید تحقیق کے آیئنے میں‘‘ کتاب کا پندرہویں نمبر کا آرٹیکل جو 18,17 اور19،اکتوبر 2015 کوتین اقساط میں شائع ہوئے ،کتاب کی جان ہیں۔جن میں ڈاکٹر صاحب نے سونح نگاری کا حق ادا کرتے ہوئے حکیم محمد سعید شہیدِ پاکستان کی زندگی پرسیر حاصل بحث فرماکر قاری کے لئے شہید کی زندگی کے تمام ہی پہلووں پر روشنی ڈال کر سوانح نگاری کا حق ادا کرتے ہوئے حکیم محمد سعید کی زندگی پر سیر حاصل بحث فرما تے ہوئے دریا کو کُوزے میں بند کر کے اپنی سونح نگاری پر مہارت اور معلومات کا سمندر بہا کر سب کے لئے آسانیاں پیدا کردی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس کاوش میں دہشت گردی ،میڈیا کی آزادی ،منشیات اور کتاب میلہ اور کتاب کلچر جیسے عنوانات عنوانات کو پذیرائی دے کر اپنی کتابوں سے محبت و آگاہی کا بھر پور ثبوت دیا ہے۔جو تمام ہی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کتاب کا آخری عنوان بھی ’’شاہد دہلوی پر ایک عمدہ کتاب ‘‘ہی ہے۔ دیا۔مذکورہ کتاب ہر لائبریری کی زینت بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔ڈاکٹر صمدانی کے لئے ایک جملہ’’اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید اور محمد احمد ترازی کی’’ پر محمد سلیماناشرف بہاری اور دو قومی نظریہ‘‘

ہمارے بہت ہی پیارے دوست محمد احمد ترازی جو صحافتی میدان کے بھی شہسوار ہیں کئی تحقیقی کتب کے مولف ہیں۔ان کی تحریریں اس قدر خوبصورت ہوتی ہیں کہ ہر پڑھنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں ان کی باغ و بہار شخصیت ہمارے دوستوں میں ایک عظیم سرمایہ ہے۔جو دوستوں کی بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور دوستی کا حق ادا کرنے میں کہیں آگے دکھائی دیتے ییں۔میں ان کی دوستی اور رفاقت پر جتنا فخر کروں کم ہے!احمد صاحب سے ایک شکایت تمام ہی دوستوں کو ہے کہ اپنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے وہ دوستوں کووقت بہت کم دے پاتے ہیں۔جس کی وجہ سے ہرکوئی ان سے جدائی کے بعد ملاقات کی تشنگی محسو س کرتا ہے۔

احمد ترازی کی محقیقانہ کاوش زیرے نظر کتاب ’’محمد سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ ‘‘ برِ عظیم کی ملی تحریکات کے تناظر میں ایک اہم تجزیاتی مطالعہ ہے۔ جو نہایت اہمیت کی حامل تحقیقاتی کوشش ہے۔پروفیسر محمد سلیمان اشرف بہاری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہِ دینیات سیوابستہ تھے۔جو تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ایک بہت اہم حوالہ مانے جاتے ہیں۔کتابِ مذکور میں برِ عظیم ہند و پاکستان کے تناظر میں محمد سلیمان اشرف بہاری کی کاوشوں کا حوا لہ جاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس کاو ش پر محمد احمد ترازی کو علی گڑھ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی (اعزازی )سند دی جانی چاہئے۔کتابِ مذکور ہ 446 صفحات پر مشتمل ہے جس کو دارالنعمان پبلیشر ز لاہور نے شائع کیا ہے۔کتاب کا گیٹ اپ اور کاغذ نہایت عمدہ ہے۔یہکتابِ تاریخ و تحریکِ پاکستان کے طلباء کے لئے ایک نہایت گراں قدر سرمائیکی حیثیت رکھتی ہے۔

کتاب مذکور سات ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں مولف نے ’’کتابِ زندگی‘‘کے نام سے مرتب کیا ہے۔جس میں سلیمان اشرف بہاری کی زندگی کا بھر پور خاکہ پیش کیا ہے۔ وہ علی گڑھ کی ملازمت سے لے کر آخری عمر تک یونیورسٹی سے وا بسطہ رہ کر طلبِ علم کے متوالوں کی آبیاری کرتے رہے ۔ترکِ موالات پر بریلوی مکتبہِ فکر کی بھر پور ترجمانی بجا طور پر کی۔پروفیسر سلیمان شرف بہاری 1878میں صوبہ بہار کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 26اپریل 1939کو بہار ہی میں ہوئی ۔پروفیسر بہاری کی تصانیف میں المبین،الرشاد ،النور ،البلاغ، الانہار،السبیل ،الخطاب وغیرہ شامل ہیں۔باب دوم کو ’’ دو قومی نظریہ کا آغاز و ارتقاء‘‘ کا خوبصورت نام دیا گیا۔جس میں محدث دہلوی شاہ عبدالحق سیلے کر قائد اعظم محمد علی جناح تک دو قومی نظریہ کی کھل کر وضاحت کرتے ہوئے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔جس سے دو قومی نظریئے کی وضاحت میں بھی مدد ملتی ہے۔اس کتاب کا تیسرا باب’’ شعورِ بیداریِ ملت‘‘ کے نام سے باندھا گیا ہے۔جس میں عالمِ کُفر کی طاغوتی قوتوں کی وضاحت کرتے ہوئے اور اہلِ مغرب کے جبر و استبداد کی وجوہات بتاتے ہوئے کلمہ گو مسلمانوں کے فرضِ منصبی کی کھل کر وضاحت کرتے ہوئے مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا راستہ دکھایا گیا ہے۔تاکہ ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ میں دو قومی نظریہ پر کار بند رہتے ہوئے مسلمانوں کاسیاسی شعور بیدار کیا جائے۔مولف نے چوتھے باب میں آل انڈیامحمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسرسلیمان کے کنٹریبیوشن کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔مگر مولف نے مکتبہ دیو بند چند اکابر کی انگریزی تہذیب و زبان دشمنی کو بھی خوب حدفِ تنقید بنایا ہے۔در حقیقت انگریزی تہذیب و تمدن کی مخالفت دو قومی نظریہ کا ہی حصہ مانی جاتی تھی۔بہر حال یہ بات دو قومی نظریہ کے حوالے سے قابلِ قبول ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کانگرسی ذہنیت کے پروردہ تھے۔پروفیسر سلیمان اشرف در اصل سر سید احمد خان کی سوچ و فکر سے زیادہ نزدیک تھے۔مگر خود بھی’’ مغرب کے نظامِ تعلیم کو اس لئے غیر موثر اور بے روح خیال کرتے تھے‘‘ اس بیانئے سے وہ انگریزاور انگریزی لادینی نظامِ تعلیم کے صریح مخالف نظر آتے ہیں۔کتاب کا باب پنجم پوراکا پوراترکِ مولات اورترکَ گاؤ کشی کی مخالفت میں تحریر کیا گیا ہے۔جس سے ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ کلی طور پر خسارے میں رہی،اور ہندو کو اس سے زبر دست فائدہ پہنچا، مسلمان ہر لحاظ سے بر بادی سے ہمکنارہوئے۔اس باب میں احمد ترازی کے لکھے گئے شعر ’’منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘‘سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔بہر حال گاؤ کُسی کے حق میں پروفیسر صاحب نے بہترین دلائل پیش کر کے گاندھی کے ایک قومی نظریہ کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ذبحہِ گائے ترک کرنا کسی طرح بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔مولف نے چھٹے باب میں ہندو مسلم اتحاد کے حوالے سے سیر حاصل بحث کر کے جمعیتِ علمائے ہندکے بعض اکابرین کی ایک قومی نظریئے کی کھل کر مخالفت کی ہے اور جوجمعت علماء ہند سے کٹ کر قائدِ اعظم کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ جمیعتِ علمائے اسلام کے ان اکابرین سے اغماض برتا گیا۔جنہوں نے 1936-37 سے قائد اعظم محمد علی جناح کی دینی تربیت و حمایت کا بیڑا اُٹھائے رکھا ہواتھا۔اور تحریکِ پاکستان میں اپنے قائد کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ ساتویں باب کو ملی تحریکات کے نام سے باندھا گیا جس میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عالمی سازشوں کا ذکر تو ملتا ہے مگر تحریکِ خلافت کی شدت سے مخالفت محض گاندھی کے ہمرکاب ہونے پرکی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر ابواب میں بھی یہ نکتہ دیدنیرہا۔ یہ موضوع بار بار لا کر ایک مذہبی اور طبقاتی کشمکش کو ابھارا گیا ہے،جو بلا جواز لگتی ہے۔تحریکِ خلافت میں گاندھی کو مسلمانوں کا ہیرو نہیں مانا گیا تھا۔بلکہ مسلمانوں کی آواز کو مضبوط بنانے کی ایک وقتی کوشش تھی۔رسولِ کریم ﷺ نے مدنی زندگی میں ہی اہلِ کفر سے بعض معاملات اور معاہدے تحریکِ اسلامی کو مضبوط کرنے کی خاطر فرمائے تھے۔

کتاب مذکور کے مطالعے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پروفیسر سلیمان اشرف بجا طور مسلمانوں کا دل میں دردرکھنے والے استاد تھے۔مگر کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی تحریک کا سارا زور ترکِ موالات اور تحریک ِخلافت کیخلاف دکھائی دیتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ احمد ترازی کی محنتِ شاقہ اور کوششوں میں کوئی کلام نہیں اپنی اس تالیف سے انہوں نے بہترین رائٹر ہونے کا ثبوت اپنی اس مایہ ناز تحریر سے فراہم کر دیا ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے حوالہ جات اور فٹ نوٹس کے ذریعے اپنے محققانہ ذہن عکاسی کی ہے۔یہ وصف ہر محرر میں نہیں ہوتا ہے۔میں احمد ترازی کو اس بہترین کاوش پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں جس کے وہ بجا طور پر مستحق بھی ہیں۔محمد احمد ترازی ایسے نابغہِ روز گارفی زمانہ کم ہی دیکھے جاتے ہیں۔اﷲ کرے زورِکلام اور زیادہ۔

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.