جب گردنوں میں سریا فٹ ہوجائے ‘ عوام سے نفرت حد سے زیادہ
بڑھ جائے ‘ رابطے ختم ہوجائیں ‘ مسائل حد سے زیادہ بڑھ جائیں ‘ صحت و صفائی
کا نظام ابتر ہوجائے ‘ بیماریوں کی یلغار عروج پر ہو ‘ علاج معالجے کی
سہولتیں ناپید ہوجائیں ‘ کھانے کو روٹی نہ ملے اور پینے کو صاف پانی نہ ملے
تو عوام کے تیور بھی بدل جاتے ہیں ۔ عوام کے پاس انتقام لینے کے لیے سوائے
ووٹ کے اور کچھ بھی نہیں ۔ 2013ء کے الیکشن میں جو حال پیپلز پارٹی کا ہوا
تھا وہی حال طاقت کے نشے میں بدمست مسلم لیگی امیدواروں کا ہوا ۔جو شاید یہ
سمجھ بیٹھے تھے کہ مسائل حل کرو یا نہ کرو ۔عوام سے رابطہ کرو یا نہ
کرو۔ووٹ تو نواز شریف کے نام پر مل ہی جاتے ہیں ۔ عوام کی قائدین سے محبت
اپنی جگہ‘ امیدواروں کو عوام سے رابطے بحال ضرور رکھنے چاہیئں لیکن سب مسلم
لیگی اراکین اسمبلی ‘ پانچ سال تک عوام سے دور بھاگتے رہے۔ جس کا نتیجہ
بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا ۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ یہ الیکشن
مسلم لیگ ن کھلم کھلا فوج کے خلاف لڑ رہی تھی ۔سوشل میڈیا پر یہ مہم عروج
پر تھی کہ شیر پر مہر لگانا پاک فوج کو شکست سے ہمکنار کرنا ہے ۔ اگر فوج
کوشکست ہوجاتی تو یہ اقدام ملک کو انتشار کے دہانے پر پہنچانے کے مترادف
ہوتا ۔ امریکہ اور بھارت تو یہی چاہتے ہیں کہ فوج کے خلاف عوامی سطح پر
مخالفانہ نعرے لگیں ‘ فوج کمزور ہوگی تو پاکستان کو تباہ کرکے مسلکی اور
قومیتی اختلاف کو فروغ دے کر خانہ جنگی کروانا آسان ہوجائے گا۔ ہمیں یہ بات
نہیں بھولنی چاہیئے کہ مضبوط فوج ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے بے حد ضروری
ہے ‘ فوج کے مخالفین کو ووٹ دینا اپنے ملک کو شام بنانے کے مترادف ہے ۔ ہم
پاکستانی ‘ پاک فوج کو دل و جان سے محبت کرتے ہیں جو شخص یا پارٹی پاک فوج
کے خلاف بیان دیتی اور مخالفت میں کھل کر سامنے آتی ہے تو پاکستانی عوام
اسے یکسر مسترد کردیتے ہیں ۔فوج سے والہانہ محبت کااظہار دوران الیکشن ہر
جگہ پردیکھاگیا جس کی چند تصویریں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے بھی اپنی
ٹویٹ میں دکھائیں۔نواز شریف پاکستان کو بھی ترکی سمجھ بیٹھے تھے جو ان کی
غلط فہمی تھی ۔ الیکشن میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شہباز شریف ملک
گیر سطح پر الیکشن کمپیئن ہی نہیں چلا سکے جبکہ عمران خان پشاور سے لے کر
کراچی اور اندرون سند ھ میں بھی جلسے کرتے رہے ان کی کامیاب مہم کا سب سے
مقبول نعرہ" کرپشن کا خاتمہ , تھاجسے بلاشبہ عوام نے پسندکیا ۔کیونکہ کرپشن
اور رشوت خوری نے ملک کو آسیب کی طرح جکڑ رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں
چاروں صوبوں سے ووٹ ملے ۔ مسلم لیگی حکومت کے دور میں ہی ممتاز قادری کو
پھانسی دی گئی ۔نماز جنازہ میں پورے ملک سے لاکھوں افراد نے شرکت کی ‘
حکومت نے نہ صرف راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ ٹی وی کوریج سے میڈیا کو
روک دیا ۔ن لیگ حکومت کا یہ اقدام ناپسندیدہ قرار پایا آج بھی ممتاز قادری
کے چاہنے والے نواز شریف کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ن لیگ حکومت کے
دور میں ہی ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی گئی جس پر ہر مسلمان سراپا
احتجاج ہوا ۔ ختم نبوت کے حوالے سے یہ ترمیم کس نے کی اور کون اس کا ذمہ
دار تھاابھی تک ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی بلکہ وہ لوگ اب بھی لیگی صفوں
میں موجود ہیں ۔ عوام کاایک وسیع حلقہ ن لیگ سے اس وجہ سے بھی ناراض تھا ۔
بلکہ نواز شریف ‘ احسن اقبال اور خواجہ آصف اس ناراضگی کا شکار بھی ہوئے
۔شکست کی ایک اور وجہ یہ بنی کہ نواز شریف پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام
تھا ۔ نواز شریف کے زہر آلود بیانات نے جلتی پر تیل ڈالا ۔کوئی محب وطن
پاکستانی‘ بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتا بلکہ قدم قدم پر بھارتی دشمنی کے
واقعات ہر پاکستانی کے ذہن میں زخموں کی طرح تازہ ہیں ۔بھارت کی آبی جارحیت
‘ کشمیر میں بھارتی فوج کی درندگی ‘ کنٹرول لائن پر روزانہ گولہ باری اور
بے گناہ پاکستانیوں کی شہادتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ بھارت کبھی ہمارا
دوست نہیں ۔لیکن نواز شریف کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی رہی کہ بھارت سے تجارت
اور دوستی پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ جہاں تک نواز شریف کا یہ الزام کہ
عمران خان کی کامیابی میں فوج کا عمل دخل ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔
پاکستان کے کونسے الیکشن ہیں ‘ جس میں ایسا نہیں ہوا ۔فوج وطن عزیز
اورایٹمی پروگرام کی محافظ ہے ‘ وہ سیاست دانوں سے بہترجانتی ہے کہ کون
ہمارا دوست ہے اورکون دشمن ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستانی سیاست دان
قومی مفادات کے حوالے سے کبھی قابل اعتمادنہیں رہے ۔وہ بک بھی جلدی جاتے
ہیں اور مفادات کی جنگ بھی ہار جاتے ہیں ۔ ابتداء سے ہی پاک فوج نے دفاع
اور خارجہ امور کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ۔ مسلم لیگ ن کا ایک نعرہ
الیکشن کے دوران گونجتا رہا "ووٹ کو عزت دو"یہ نعرہ لگانے والے جب لندن میں
ہوتے ہیں تو پیدل ہی سڑکیں عبور کرتے نظر آتے ہیں‘ پاکستان پہنچتے ہی
درجنوں گاڑیوں کے قافلے میں نقل و حرکت کرتے ہیں ۔ ان کے محلات کئی میل دور
تک سیکورٹی زون قرار پاتے ہیں ۔نواز شریف اگر فوج اور عدلیہ کے خلاف نہ
بولتے تو شاید چوتھی بار وزارت عظمی کی کرسی ان کی منتظر ہوتی ۔ اب جبکہ
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان جیت چکے ہیں تو ان پر بہت بھاری ذمہ
داریاں عائدہوتی ہیں ۔ بطور خاص ‘ کشمیر کی آزادی کے لیے عالمی سطح پر
کاوشیں کرنا ‘ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ‘ بھارتی آبی جارحیت کو روکنا ‘
قیمتی پانی کے ضائع کو روکنے کے لیے تمام صوبوں میں ڈیموں کی تعمیر کرنا ‘
پینے کے پانی کی قلت کو دور کرنا ‘غیر ملکی قرضوں کی واپسی ‘ سوئزرلینڈ کے
بنکوں میں جمع شدہ 200 ڈالر کی واپسی ‘ سادگی اختیار کرتے ہوئے کابینہ کو
مختصر رکھنا ‘ پروٹوکول کا خاتمہ ‘ اوپر سے نیچے تک کرپشن اور رشوت ستانی
کا خاتمہ ‘ پولیس کو عوام کی خادم بنانا ‘یکساں نظام تعلیم ‘ سرمایہ کاری
کو فروغ دینا ‘ صحت کی یکساں سہولتیں فراہم کرنا ‘ باعزت روزگار کی فراہمی
‘ خواتین کی عزت و ناموس کا تحفظ اور تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی
‘ٹیکس اصلاحات ‘ کسانوں کی خوشحالی کے لیے اہم ترین منصوبوں کی شروعات ‘
ماحولیات ‘ سیاحت اورشجرکاری کی ملک گیر سطح پر مہم شروع کرنا شامل ہے ۔ دو
نہیں ایک پاکستان ‘ جس کی تشہیر عمران خان ہر جلسے میں کرتے رہے ہیں قدرت
نے انہیں اب موقع فراہم کرہی دیاہے تو انہیں اس موقع سے فائدہ اٹھتے ہوئے
پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر بدل دینی چاہیئے اگر وہ بھی مسلم لیگ ن
اور پیپلز پارٹی کی طرح مصلحتوں کاشکار ہوکر وزیر اعظم ہاؤس تک محدود ہوگئے
تو پھر ان کا انجام بھی پہلی دو حکومتوں سے مختلف نہیں ہوگا ۔ عوام کا
انتقام اور احتساب بہت سخت ہوتا ہے ۔ ہارنے والوں کی جانب سے دھاندلی کا
شور مچانا قومی مفاد میں ہرگز نہیں ۔ اب یہ تکرار ختم ہونی چاہیئے اور
عمران خان کو فری ہینڈ ملنا چاہیئے تاکہ وہ قومی مسائل کے حل اور سی پیک
جیسے اہم ترین منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے بارے میں سنجیدگی سے
فیصلے کرسکیں ۔عمران خان سے ایک گزارش یہ بھی ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف
کے دور میں جو منصوبے زیر تکمیل رہ گئے ہیں ۔ اورنج ٹرین پراجیکٹ بطور خاص
شامل ہے ‘ اس کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت ضروری ہے کیونکہ اس
میگا پراجیکٹس پر پاکستانی قوم کے پیسے خرچ ہوئے ہیں اور پاکستانی قوم کو
ہی اس کا قرضہ ادا کرنا ہے ۔عمران خان کی پہلی پریس کانفرنس تو قابل تعریف
تھی کاش وہ اپنی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں پر قائم رہیں اور پاکستان کو
مدینہ جیسی ریاست بنائیں۔حضرت عمر ؓ کی طرح سر کے نیچے اینٹ رکھ کر درخت کی
چھاؤں میں بے خوف سونے کی روایت کو زندہ کریں ۔ |