اک چھوٹی سی نیکی

علی آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا.اور آج جب گھر آیا تو کافی پریشان تھا اور اُداس بھی تھا ....ماں نے بہت پوچھا کے بیٹا کیا بات ہے لیکن بیٹے نے نہیں بتایا ... ماں نے بہت کہا مجھے بتاؤ کیا بات ہے.... لیکن وہ نہی بولا۔ اور بس ایک بات کی ضد کی۔ کے مجھے بس گنجا ہونا ہے... اور آج ہی ہونا ہے۔ یہ بات ماں نے سُنی تو پریشان ہوئی... کے کیا کہ رہا ہے ۔ کیوں کے سردی کے دن ہیں اور کافی سردی ہورہی ہے.. خیر ماں تو ماں ہوتی ہے ماں نے لاکھ منانے کی کوشیش کی لیکن وہ نہی رکا. اور ضد ہی کرتا رہا.... ماں نے علی کے ابو کو فون کیا کے آج اسد بہت تنگ کر رہا ہے اور میری سُن نہی رہا ہے.. انہوں نے پوچھا کے کیا بات ہے کیوں تنگ کر رہا ہے ۔تو ماں بولی کے یہ کہتا ہے کہ میں نے آج کے آج ہی گنجا ہونا ہے .. لیکن میں نے بہت بہت سمجھانے کی کوشیش کی۔ لیکن یا مانتا ہی نہی ہے ...اتنی سردی ہورہی ہے اور اسے گنجا ہونا ہے۔ آپ گھر آجائیں......علی کے ابو نے یہ که کر فون بند کر دیاکہ اچھا ٹھیک ہے تم اسے باہر جانے نہی دینا میں آرہا ہوں بس گھر..... کچھ ہی دیر میں علی کے ابو گھر آگئے ...اور بیٹے سے کہنے لگے ۔کہ میں یہ کیا سُن رہا ہوں بیٹا .... بیٹا سردی بہت ہے اور تمہارے بال تو اچھے ہیں... پھر کیوں کٹوا رہے ہو...؟ علی بولا وجہ میں نہی بتاؤ گا اور میں آج گنجا ہو کر ہی رہونگا... علی کے ابو نے بہت غصہ کیا.. لیکن وہ نہیں مانا ..اور اسی دن شام میں اس نے بال کٹوا دیۓ.... اب ماں باپ پریشان تھے کے اب اس کی بہت حفاظت کرنی ہوگی اگر ایسا نہیں کیا تو اسے سردی لگ جاۓگی۔ اور بیمار پڑھ جاۓگا .......خیر علی نہ سر ڈکھا۔ اور نہ ماں کی بات مانی اور اسیوقت ہی اسکول چلا گیا۔ ماں باپ سخت پریشان تھے.. کہ اس نے یہ کیا۔ کیا .... اور اب یہ ہماری کوئی بات بھی نہی مان رہا ہے .......خیر علی کے والدین کے دل میں شک آیا اور انہوں نے مل کر ایک پلین بنایا ...اور اسی ہی دن اس کے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا ۔اور اس کا پیچھا کیا..... اور اس کے پیچھے پیچھے اسکول پہنچ گئے.... دور سے کھڑے رہ کر دیکھا کے بیٹا کیا کرتا ....علی اسکول پوہنچا ہی تھا.... کہ ... پرنسپل صاحب مل گئے... اور علی سے پوچھا کے کیا ہوا یہ تم گنجے کیوں ہوگئے ہو... یہ کون سے نئی شرارت ہے اب تمہاری اگر ہمہیں سمجھ نہیں ہے۔ تو تمہارے والدین کوتو سوچنا چاہیۓ .... علی کچھ بولنا چاہ رہا تھا.. لیکن پرنسپل صاحب نے کچھ کہنے نہیں دیا... اور علی کو خوب سنا نے لگے.....یہ سب باتیں علی کے ماں باپ سُن رہے تھے ۔اور ایک دوسرے کو دیکھ کر کہ رہے تھے۔ کے یہ دن بھی آج ہماری اُولاد کی وجہ سے دیکھنا پڑھا..... خیر یہ بات ہورہی تھی۔ کے وہاں پر عمران نامی ایک بچہ آیا جو اپنے ماں باپ کے ساتھ تھا.. اور آتے ہی دیکھا کے۔علی کو پرنسپل صاحب سنا رہے ہیں ... اورعلی آج گنجا ہے ... علی نےعمران کو دیکھ کر کہا کے اب میں بھی گنجا ہوگیا ہوں...یہ بات سُن کر پرنسپل صاحب اور غصہ ہوے کے یہ تم دونوں کی کون سی نئی شرارت ہے .... عمران کے ماں باپ بولے کے پرنسپل صاحب۔آپ علی کو کچھ نہ کہیں۔ عمران کے پاپا نے کہا میں بتاتا ہوں کے کیا بات ہے... یہ کیوں گنجا ہوا ہے پرنسپل صاحب بہت حیران ہوے کے علی کے گنجا ہونے میں عمران کے پاپا کو کیا پتا ہے .......خیر عمران کے پاپا نے کہا کے میرے بیٹے کو بلڈ کینسر ہے ۔۔۔۔اور اس کی ٹریٹمنٹ میں سب بال جھڑ گئے ہیں... اس لیے یہ گنجا ہوگیا ہے ۔۔۔اور اس کو اسکول کے بچے بہت تنگ کرتے ہیں... اس کے بعد علی خود بولا کے۔۔۔ سر ۔۔کل میں نے اسکول میں اُوپر سے نیچے آتے ہوے خود دیکھا تھا.. کے بہت سے بچے عمران کا مذاق بنا رہے ہیں.... اور اس وجہ سے کل عمران نے کہا کے میں کل سے اسکول نہیں آونگا... سب میرا مذاق اڑاتے ہیں ۔۔ میں پڑھائی چھوڑ دونگا.....اور پھر میں نے عمران کو بہت سمجھایا ۔۔۔ لیکن وہ نہیں مانا ۔اور میں نے پھر یہ بات سوچی.... کے اگر میں خود گنجا ہوگیا تو عمران کی یہ پرابلم دور ہوجایگی۔ اور یہ اسکول بھی آئیگا... اور اس کا کوئی مذاق بھی نہی بنائیگا...اور پھر میں نہ یہ سب کیا ......یہ بات سن کر پرنسپل صاحب نے کہا.. کے مجھے فخر ہے تم پر علی تم جتنے بھی شرراتی ہو۔۔ لیکن تم اپنے ہر دوست کا خوب خیال رکھتے ہو ...عمران کے پاپا نے کہا ۔کے اس کے ماں باپ بہت خوش نصیب ہیں. جن کو علی جیسا بیٹا ملا ....یہ بات سُن کر علی کے ماں باپ سامنے آگئے..اور آ کر اپنے بیٹے کو گلے. سے لگایا .اور کہا کے بیٹا مجھے فخر ہے تجھے پر اور عمران کے پاپا سے کہا کے یہ میرا بیٹا ہے .. اور پھر علی سے پوچھا کے بیٹا تم نے بتایا کیوں نہیں .. کے ایسی بات ہے .علی نے بہت خوبصورت جواب دیا کے پاپا مجھے دادا جی نے ایک بات سمجھائی تھی.. کے جب بھی نیکی کرو تو ایسے کرو کے سدھے ہاتھ سے کرو تو الٹے ہاتھ کو بھی پتا نہیں چلے... اس لیے . میں یہ بات نہیں بتا رہا تھا .......بیٹے کی یہ بات سُن کراس کے ابو نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اسے گلے لگایا۔ اور پھر وہ لوگ گھر چلے گئے. اور علی اور عمران ہنسی خوشی اپنی کلاس میں چلے گئے

..تو پیارے پیارے بچو ........اس چھوٹے بچے نے وہ کام کیا جو کوئی بڑے سے بڑا انسان نہیں کر پاتا..اور اس بچے کی وجہ سے اس کے ماں باپ کو اس پر فخر ہوا .. ...اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے ۔تو دوسروں کے لیے بھی جینا سیکھیں. اپنے لیے تو ہر انسان جیتا ہے۔۔۔ لیکن دوسروں کے لیے کوئی کوئی جیتا ہے .....اس بچے کو اس کے ماں باپ نے یہ نہیں کہا تھا کے تم ایسا کرو... نہیں ۔۔ اس بچے کے دل میں خود یہ بات پیدا ہوئی۔اور وہ اس لیے کے ...کہیں نہ کہیں اس بچے نے اپنے گھریلو ماحول میں یہ بات ضرور دیکھی ہوگی...کے دوسروں کے کام آنا ہی خوبصورت زندگی گزارنے کا طریقہ ہے .... اس کہانی میں ایک لائن بہت امپورٹنٹ ہے ..وہ یہ کہ ...انسان کو نیکی ایسے کرنی چاہئے ..کے ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہیں چلے ..... بچے ہمیشہ اپنے بڑوں کو فالو کرتے ہیں۔ اس لیے ہنسی مذاق میں بھی ان کی بہتر سے بہتر تربیت کی جا سکتی ہے .....اس بچے نے صرف ایک بات پر عمل کیا اور کتنا بڑھا نیکی کا کام کر دیکھایا ۔۔۔۔...
اللّه پاک میرے پیارے وطن کے ہر بچے ایسا بنائے ۔۔آمین

Aneeqa Tahir
About the Author: Aneeqa Tahir Read More Articles by Aneeqa Tahir: 4 Articles with 9724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.