حماقت اور ہلاکت

تحریک انصاف سے وابستہ ایک دوست نے لکھا ہے کہ رائے دیں کہ پنجاب کے چیف منسٹر کے لئے کونسا شخص موزوں ہے۔الیکشن میں تحریک انصاف کے سو سے زیادہ بندے منتخب ہوئے ہیں۔ میں ذاتی طور پر چند ایک کے علاوہ بہت کم لوگوں کو جانتا ہوں۔اس لئے کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہوں، البتہ بہت سے دوستوں نے اپنے رائے کا اظہار کیا ہوا تھا۔زیادہ تر لوگوں کی رائے پرویز الہی اور علیم خان کے بارے میں تھی۔ مجھے بڑا عجیب لگا۔ پرویز الہی ایک دوسری جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان کی خوبصورت مینجمنٹ کا کمال یہ ہے کہ ان کی زیر قیادت پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ایک ہی الیکشن میں ایسی تتر بتر ہوئی کہ تلاش کرنے کے باوجود اس کا سراغ نہیں مل سکا۔ لیکن دنیا بھر میں یہ روایت ہے کہ کمزور مینجمنٹ کے باوجود کوئی اپنی کمزوری تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے کسی اندھے کے ہاتھ میں غلطی سے کوئی بٹیر آ جائے تو وہ لوگوں میں خود کو شکاری بتاتا ہے۔ اسی طرح بیساکھیوں کے سہارے کوئی حکومت کو چند دن کھینچ لے تو وہ بھی خود کو شاندارمنتظم سمجھتا ہے۔چوہدر ی صاحب میں مروت ہے، دید لحاظ ہے، وفاداری ہے اور بہت کچھ ہے مگر وہ منتظم بہت اچھے نہیں ان کی پارٹی بھی بس نام کی ہے۔لیکن اس بحث سے قطع نظر ایک سو بیس سیٹوں والی پارٹی کا اپنا حق سے پانچ چھ سیٹوں والی پارٹی کے لئے دستبردار ہونا انتہائی غلط ہے۔

پاکستان تحریک انصاف احتساب کے نعرے کے ساتھ میدان عمل میں تھی۔ یہی نعرہ اس کی کامیابی کا سبب ہے۔ عمران خان کل بھی اسی موقف پر تھے کہ کوئی وہ نیب کو انتہائی فعال بنائیں گے۔ اگر وہ اپنے اس نعرے میں مخلص ہیں اور اپنے موقف پر قائم ہیں تو جو لوگ نیب کو مطلوب ہیں ان کا تعلق چاہے ان کی اپنی جماعت سے ہو کسی رعایت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ جب تک وہ نیب سے کلیر نہیں ہوتے ان کے لئے کوئی بھی عہدہ حرام قرار دینا چائیے۔ بلکہ عمران خان کو خود یہ دیکھنا ہو گا کہ ان کی حکومت کی آڑ میں کوئی اپنا اثر رسوخ نیب پر استعمال نہ کرے۔میں نہیں سمجھتا کہ علیم خان موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے لئے نیک نامی کا باعث ہوں گے۔چنانچہ بہت سے دوستوں کی آراء کے بعد میری رائے یہ تھی کہ ،
’’موجودہ حالات میں پرویز الہی کی نامزدگی حماقت اور علیم خان کی نامزدگی ہلاکت ہو گی۔‘‘

کسی ایک آدھ شخص نے ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام بھی دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ تو صوبائی اسمبلی کی ممبر ہی نہیں اس لئے بظاہر اس ریس میں ان کی شرکت ممکن نہیں لیکن اگر یہ ممکن ہو تو چیف منسٹر کے لئے سب دوسروں سے بدرجہا بہتر انتخاب ہیں۔ پاکستان کے باہر کام کرنے والے ہزاروں ڈاکٹر ان کے انتخاب کی صورت میں دل کھول کر حکومت کی اخلاقی اور مالی امداد کرنے کو تیار ہونگے۔ باقی فیصلہ تو پارٹی نے کرناہے ۔ جو پیا کو من بھائے وہی سہاگن۔ میری اور میرے جیسے لوگوں کی رائے کو سنتا اور مانتا ہے۔ دوچار دن میں پتہ چل جائے گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

سیاسی پارٹیوں کا یہ المیہ ہے کہ الیکشن لڑتے وقت ان کا معیار بڑا مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت وہ ایسے لوگ تلاش کرتے ہیں جن میں گوسب عیب ہوں ، وہ اشتہاری ہوں، بدمعاش ہوں، دھوکے باز ہوں مگر پارٹی کی ملک گیر انتخابی مہم کے لئے پارٹی کومعقول سرمایہ فراہم کر سکیں ۔ دوسرا اپنے ذاتی الیکشن کے لئے ان کے پاس بہت دھن دولت، گاڑیوں کا فلیٹ اور بدمعاشوں کا ایک نیک نام گروپ ہو۔ نیک نام بدمعاش شاید کسی کو عجیب لگے مگر اس ملک میں کوئی بدمعاش جب پولیس اور عدالتوں پر حاوی ہو جاتا ہے تو لوگ اس کا احترام کرنے اور اس کی لوٹ مار کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں ۔ یہ نیک نام بدمعاش ہوتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لئے یہ لوازمات بہت ضروری ہیں۔ہر پارٹی اسی معیار پر امیدواروں کا انتخاب کرتی ہے۔ یہی لوگ الیکٹربیل ہیں۔

الیکشن ختم ہوتے ہیں ایک قومی المیہ شروع ہوتا ہے۔ جیتنے والوں کو ملک چلانے کے لئے عقل سمجھ اور فہم و فراست رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اپوزیشن کو ایسے ذہین اور فطین درکار ہوتے ہیں جو حکومتی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لیں اور بہتر سے بہتر چیزیں تجویز کریں ۔ اب پتہ چلتا ہے کہ الیکشن تو گزار لیامگر اب پوری مقننہ میں نہ فہم ملتی ہے نہ فراست ۔ ایسے لوگ اب کہاں سے آئیں۔ گونگے بہرے ممبران جو کسی دیوانے کی طرح ’بکار خویش ہشیار‘۔ ان کی ذاتی مسائل حل ہونے ضروری ہوتے ہیں۔وہ صرف ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہر بندہ وزیر بننا چاہتا ہے۔ اہلیت کی بات ہو تو وہ لسٹ لے آتا ہے کہ دیکھو، یہ یہ لوگ وزارتیں چلا گئے تو مجھ میں ان کی نسبت کیا کمی اور کیا برائی ہے۔اسے اکاموڈیٹ کرنا حکومتی مجبوری ہوتی ہے اور اس مجبوری کا خمیازہ ہمیشہ عام آدمی بھگتتا ہے۔ حکومت ایک آدھ بندہ چلاتا اور اندھا دھند چلاتا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

تاریخ کا یہ پہیہ ایک عرصے سے اسی طرح چل رہا ہے مگر اب لوگوں کو عمران خان بہت امیدیں ہیں۔ہر شخص کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر خالصتاً میرٹ پر کرنا ہو گا چاہے جو بھی مشکل پیش آئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پیسے کے بل پر سب خریدنے والے کاروباری حکومت سے الگ تھلگ ہوں اور ان پیشہ ور خوشامدی لوگوں سے، جو ہر نئے حکمران کو جھوٹی تعریفوں اور فرضی کہانیوں کے سبب تباہی کی طرف لے جاتے ہیں،فوراً نجات حاصل کی جائے۔مزید یہ کہ مختلف شعبوں کے ایکسپرٹ ایسے بے نیاز لوگوں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک لگاتار کام کرے جو حکومت کو بہتر سے بہترین اصلاحی تجاویز دے مگر وہ لوگ اپنی ذاتی تشہیر سے بالا ہوں۔ گو ایسے لوگوں کی کمی ہے مگر قحط الرجال بھی نہیں۔ایسے لوگ حکمرانوں کے ارد گرد نہیں ہوتے ، حکمرانوں کو محنت سے خود ڈھونڈھنا ہوتے ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500411 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More