پردہ داری

انسان تنگ نظری اور تعصب کی عینک پہن لے تووہ کچھ بھی دیکھنے سے معذور ہو جاتا ہے ۔اس میں ضد اور ہٹ دھرمی کے جراثیم سرائت کر جاتے ہیں اوروہ اپنی بات کو ہی حرفِ آخر سمجھنے لگ جاتا ہے لہذا ہر قسم کی دلیل اور منطق اس کیلئے غیر اہم ہوجاتی ہے۔وہ اپنے جذبات کی رو میں حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے جذبات کا اسیرہو جاتاہے۔سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی محبت کی شدت کے سامنے کسی دلیل اور منطق کو سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔اپنے موقف کے حق میں اس کی آواز اونچی ہوتی جاتی ہے جو اس کے جذبات کی آئینہ دار تو ضرور ہو تی ہے لیکن اس سے بات کی سچائی کا سراغ نہیں ملتا۔پاکستانی معاشرہ جہاں پر اعلی تعلیم کا تناسب پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے وہاں پر ہٹ دھرمی ،ضد اور گالی گلوچ کا کلچرہر سو پھن پھیلائے دیکھا جا سکتا لہذا یہاں پر لوگ دلیل کی قوت کو وزن دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہر انسان کا ایک ووٹ ہو تا ہے لیکن ضدی انسان اپنی سوچ کو بائیس کروڑ انسانوں پر منطبق کرنا چاہتا ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کے لئے زیادتی اور نا انصافی کی بات ہے۔اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانا اور اپنی بات کی صداقت کا علم بند کرنا تو ہر کسی کا حق ہے لیکن بزورِ قوت و جبروت دوسروں کی رائے کو دبانا اور اسے کوئی اہمیت نہ دینا جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ہمیں تحمل اور بر دباری سے معاملات کو پرکھنا اور دوسروں کی رائے کو اہمیت دینے کا سبق سیکھنا ہو گا تبھی تو جمہوریت اس ملک میں پھل پھول سکے گی ۔جمہوریت جذباتیت کا نام نہیں بلکہ دوسروں کی رائے کے احترام کا نام ہے جو ہماری سوسائٹی میں بالکل ناپید ہے۔ہماری قوم جس قائد کی تقلید کرتی ہے اس میں دنیا جہاں کی خوبیاں تلاش کر لیتی ہے اور اسے ہر قسم کے خواص کا حامل قرار دے کر اس کی پرستش شروع کر دیتی ہے جو کہ بنیادی طور پر نا مناسب اور غلط ہے۔اب اگر کوئی شخص ان کے محبوب قائد پر کوئی تنقید کرتا ہے تو وہ تنقید ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے۔کیونکہ ان کی نظر میں ان کا قائد ہر تنقید سے بالا تر ہو تا ہے۔ایسے لگتا ہے کوئی فرشتہ آسمان سے زمین پر اتر آیا ہو جس میں کسی قسم کی غلطی اور خطا کا کوئی شائبہ نہیں۔محب اپنے محبوب میں کسی بھی خطا کے مکان کو بالکل مسترد کر دیتاہے حالانکہ غلطی اور خطا انسان کے ساتھ جڑی ہو ئی ہے ۔ہمیں قائدین کو انسانوں کے دائرے میں ہی رہنے دینا چائیے اور ان کی شخصی کمزوریوں کو مدِ نظر رکھنا چائیے تبھی معا شرہ ارتقاء پذیر ہو سکے گا۔مجھے پچھلے چند دنوں میں ایسے فراد سے بھی واسطہ پڑا ہے جو زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنے قائدین سے مافوق الفطرت افعال کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جادو کی ایک چھڑی ہمارے قائدین کے ہاتھ میں ہے جسے گھمانے سے سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے لہذا ایسے افراد کے خوابوں کو چکنا چور ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا کیونکہ وہ جو توقعات اپنے من میں سجائے بیٹھے ہیں ان کی برو مندی کا کہیں شائبہ نہیں ہوتا۔امریکی صدر روزویلٹ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر میرے ساٹھ فیصد فیصلے درست قرار پائیں تو میرا شمار کامیاب ترین انسانوں میں ہو نا چائے۔یہ ٹھیک ہے کہ کسی شخصیت سے توقعات وابستہ کرنا اور آنکھوں میں خواب سجانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن اس میں بھی افرط و تفریق سے اجتناب بہت ضروری ہے جس کا ہمارے معاشرے میں خیال نہیں رکھا جاتا۔ایک د فعہ کسی قائد کو کو سر پر اٹھا لیں گے تو پھر اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں گے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اسی محبوب شخصیت کو زمین پر پٹخ دیں گے اور اسے ہی ساری برائیوں کا منبہ بنا دیں گے۔ امیدیں حدود ناآشنا ہو جائیں تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔،۔

۲۵جولائی ۲۰۱۸؁ کے انتخابات پر میں ایک علیحدہ کالم لکھوں گا لیکن فی الحال اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ پولنگ کی حدتک یہ انتخابات پر امن اور شفاف تھے اور ان میں دھاندلی کا کوئی عنصرشامل نہیں تھا۔ کم از کم میرے مشاہدہ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے جسے بنیاد بنا کر ان انتخابات پر دھاندلی کا الزام چسپاں کیا جا سکے ۔یہ بات درست ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بروقت اعلان میں تاخیر کی گئی اور اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس سے ان شکوک و شبہات کو تقویت ملی کہ نتائج میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ نتائج تبدیل ہوئے ہیں تو اپوزیشن کو اس کے شواہد پیش کرنے چائیؓ تا کہ دادھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ الیکشن کمیشن جس پر ہم نے اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ کئے وہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو گیا۔پوری قوم ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھی نتائج کا انتظار کر رہی تھی لیکن نتائج ندارد۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ ہم اپنا کام کرنے کی بجائے دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس سے کام بر وقت انجام نہیں پاتا اور نہ ہی اس میں پرفیکشن آتی ہے ۔ الیکشن کمیشن اس کام کو جوپانچ سالوں میں صرف ایک دفعہ ہوتا ہے اسے سلیقہ سے سر انجام نہ دے سکی۔سسٹم کے فیل ہو جانے کی جو بھونڈی توجیہہ پیش کی گئی وہ بھی غیر تسلی بخش ہے ۔ایسا ہی منظر ہم نے مئی ۲۰۱۳؁ کے انتخابات میں بھی دیکھا تھا جس کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف وزارتِ عظمی پر فائز کئے گئے تھے اور جسے عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں اچھا لا تھا ۔سسٹم کے بیٹھ جانے کا رونا پانچ سال پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔گویا کہ پانچ سالوں میں ہم اپنے سسٹم میں کوئی بہتری نہیں لا سکے۔الیکشن کمیشن نے دعوے تو بہت کئے تھے لیکن افسوس کہ عملی طور پر وہ بالکل باطل ثابت ہوئے۔تین دن گزر جانے کے باوجود بھی حتمی نتائج کا اعلان نہ ہونا حیران کن امر ہے۔الیکشن کمیشن کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہو گا تا کہ قوم یکسوئی سے اپنے معمولات کی طرف لوٹ سکے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سیدھے سادھے معاملے کو بھی شکوک کی نذر کر دیتے ہیں۔کچھ حلقوں کا اعتراض ہے کہ ووٹنگ کے بعد نتائج تبدیل کئے گئے ہیں اور ان کے پاس سب سے مضبوط دلیل یہی ہے کہ کئی گھنٹوں تک نتائج روک لئے گئے اور فارم ۴۵ جو کہ قانونی اور بنیادی دستاویز ہے اسے ایجنٹ حضرات کے حوالے نہیں کیا گیا۔ انھیں زبردستی الیکشن ہالوں سے باہر نکالنا ایک معمہ بنا ہوا ہے تا کہ من پسند نتائج سے جس مخصوص جماعت کو جتوانامقصود ہے اسے جتوا دیا جائے۔اگر الیکشن نتائج میں بے قاعدگیاں نہیں ہوئیں توپھر الیکشن نتائج میں تاخیر کے کیا معنی ہیں؟نتائج میں تاخیر نے پورے الیکشن کو مشکوک بنادیا ہے جس پر اپوزیشن سراپا احتجاج بنی ہو ئی ہے۔پی ایم ایل(ن) کو شکائت ہے کہ راتوں رات اس کے جیتنے والے امیدواروں کو ہروایا گیا ہے جس کا واحد مقصد میاں محمد نواز شریف کو نیچا دکھانا اور یہ باور کروانا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی کے بغیر پاکستان میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ان کا کہنا ہے کہ پی ایم ایل (ن)واضح اکثریت سے جیت رہی تھی لیکن ان کی جیت پر شب خون مارا گیا اور جس طرح کے کلوز رزلٹ سنائے گئے ہیں وہ حقیقت کے بالکل بر عکس ہیں ۔پاکستان میں پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹھہرانے کا رواج ہے لہذا نتائج میں تاخیری حربوں سے جان بو جھ کر اسٹیبلشمنٹ کومتنازعہ بنوا دیا گیاہے ۔ پاکستان میں جمہوریت اب بھی بہت کمزور ہے اور اس کے خلاف سازشوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ادارے کی جو بھی ذمہ داری ہے وہ اسے احسن طریقے سے سر انجام دے ۔پی ٹی آئی ان انتخابات کی سب سے بڑی جماعت ہے اورا پنے اتحادیوں اورآزاد ممبران کی مدد سے مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔اسے سادہ اکثریت تو نہیں مل پائی لیکن بڑی جماعت ہونے کے ناطے حکومت سازی اسی کا حق ہے اور اپوزیشن نے اس کا یہ حق کھلے دل سے تسلیم کر لیا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ الیکشن میں فرشتے ووٹ ڈالتے ہیں جبکہ میاں محمد نواز شریف اسے خلائی مخلوق کی کارستانی کہتے ہیں۔تاریخی حقائق کی روشنی اور موجودہ روش کے درمیان بہت سے معاملات اب بھی غیر واضح ہیں جن کی وضاحت بہت ضروری ہے ۔ من پسند نتائج کا حصول اگر مقصود نہیں تھا تو پھر عوام کو شب بھر اندھیر ے میں رکھنے کا کیا جواز تھا؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.