کوئی ایک مہینے کی تنخواہ دینے کا اعلان کرتا ہے کوئی ایک
دن کی! سرکاری ملازمین کی گردنیں چاہتے نہ چاہتے سب سے زیادہ کٹتی ہیں،
حرام خوروں کو علیحدہ کرنے کے بعد خوفِ خدا رکھنے والے جو باقی بچتے ہیں ان
بے چاروں کی تنخواہیں ہی کتنی ہوتی ہیں، دو دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہو تے
ہیں تب جاکر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پا ل پاتے ہیں۔ قرض سنوارو ملک
سنوارو اور ڈیم بناؤ ملک بچاؤ جیسی سکیموں کیلئے کہاں سے دیں ؟ لیکن پھر
بھی دیتے ہیں اپنی اپنی استعداد سے بڑھ کر، مگر دھوکہ کھاتے ہیں ہر بار ،
کیونکہ نہ ملک سنورتا ہے نہ خزانہ بھرتا ہے نہ ڈیم بنتے ہیں !
فی الوقت معیشت کو سنبھالا دینے اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے ملک کو پینتیس
ارب ڈالر کی اشد ضرورت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ نئی حکومت یہ رقم کہاں سے لائے
گی ؟ ظاہر ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح آئی ایم ایف سمیت عالمی
اداروں سے بھیک مانگے گی، عوام سے عطیات جمع کرے گی یا اوورسیز پاکستانیوں
کو کوئی نیا لالی پاپ دے کر ان سے بٹورے گی ۔ ایک اور آپشن بھی ہے بقول
شخصے اگر پی ٹی آئی کی ممکنہ حکومت اپنے ہر ووٹر سے ایک ایک ہزار روپے جمع
کر لے تو پینتیس ارب ڈالر اکٹھے کر کے وطنِ عزیز کو فی الفور مالی بحران سے
نکالا جاسکتا ہے ۔ نیا جال ہے ، شکار آسانی سے دام میں بھی آ جائے گا !اندرون
و بیرون ِ ملک مقیم پاکستانیوں کی چمڑی اتارنے کے یہ سب زنگ آلود اور پرانے
حربے ہیں، لیکن کھوٹے سکے کی مانند ہر دور میں کارآمد رہتے ہیں ، ممکن ہے
نئی آنے والی حکومت بھی ان آسان اور کامیاب ترکیبوں پر عمل درآمد کرنے کی
کوشش کرے،لیکن ان کارستانیوں سے ملک کا بھلا ہونے والا نہیں!
پاکستان کو قرضوں سے نجات دلانے اور ڈیموں کی فوری تعمیر کا صرف ایک ہی حل
ہے کہ مختلف حیلے بہانوں اور جزباتی سلوگنوں کے زریعے مظلوم عوام کی جیبیں
مزید صاف کرنے کی بجائے غریب عوام کا چوری کیا ہوا پیسہ جو باہر کے بینکوں
میں پڑا ہے وہ برآمد کر کے واپس لایا جائے۔ سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر عالمی
بینکوں میں کن کن چوروں اور لٹیروں کا کالا پیسہ باہر پڑا ہے سب جانتے ہیں،
نئی آنے والی حکومت کڑے احتساب کا آغاز کر سکے تو بہتر ہے ورنہ بہت ہو چکا
اب وقت آگیا ہے کہ ریاست سامنے آئے اور اپنا کردار ادا کرے۔ انڈونیشیا اور
نائجیریا لوٹا پیسہ واپس لاسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں ؟
|