تمام تر تحفظات کے باوجود اس بات کو ماننا پڑے گا کہ عوام
نے بھی تبدیلی کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا ہے،بھلے الیکشن کمشن کی نااہلی
کی وجہ سے کہیں دھاندلی ہوئی ہے کم ہوئی یا ذیادہ،مگر جو رزلٹ سامنے آیا اس
کے مطابق عمران خان اس ملک کے متوقع وزیر اعظم ہیں،پی ٹی آئی کے دوستوں کو
مبارک ہو ،دوسری طرف ن لیگ کے لوگوں کو بھی بالکل دل چھوٹانہیں کرنا چاہیے
کیوں کہ ہر میدان میں اگر دو لوگ مد مقابل ہوتے ہیں تو ایک کی کامیابی کے
بعد ایک کی شکست ازلی اصول ہے،تاہم ن لیگ کو اس حوالے سے ضرور داد دینی
چاہیے کہ ان کے لیڈر کے جیل میں ہونے اور شدید ترین دباؤ کے باوجود جس طرح
سے انہوں نے مقابلہ کیا اور کلین سویپ کی خواہش کو خواہش تک ہی محدود رہنے
دیا اس لحاظ سے وہ بھی تحسین کے مستحق ہیں،تیسرے نمبر پرپاکستان پیپلز
پارٹی ہے جو قائداعظم کے بعد سب سے بڑے عوامی لیڈر بھٹو کی میراث ہے،اس کا
حشر اس کے اپنے لوگو ں نے کیا جو کچھ بھی کیا تاہم عوام نے اس الیکشن میں
یہ ثابت کیا کہ جب بھی اس پارٹی کو ذرا دم خم والا اور صحیح جیالالیڈر مل
گیا یہ پارٹی اگلے پچھلے حساب برابر کر دے گی ،اہل قیادت اور نظریاتی
ورکروں کی عدم موجودگی و دلچسپی کے باوجود ان کا رزلٹ بھی اتنا برا نہیں کہ
دستیاب مال سے اتنا کچھ ہی کمایا جا سکتا ہے، اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے
کہ چوتھے نمبر پر ہماری وہ قیادت ہے جسے پہلے نمبر پر ہونا چاہیے تھا،کبھی
وقت ملے تو مجلس عمل کے بزرگوں کو الیکشن اور جوڑ توڑ کے علاوہ اس بات پر
بھی ایک لمبی بیٹھک کرنی چاہیے کہ نکاح سے لیکرطلاق تک اور پیدا ہونے سے
مرنے تک لوگوں کو مولویوں کی ضرورت رہتی ہے ،اور وہ جب لوگوں کے گھروں میں
ان میں سے کسی موقع پر جاتے ہیں تو لوگ انہیں صاف شفاف چادر والی چارپائی
پراپنے سرہانے بٹھاتے ہیں بلکہ اکثر ان کی چارپائی پر کوئی دوسرا نہیں
بیٹھتا اور ان کی کہی گئی کسی بات کا جواب تک نہیں دیا جاتا ہاں میں ہاں
ملائی جاتی ہے مگر جب بھی الیکشن آتا ہے تو وہ سرخ پائیوں کے پلنگ پر
بٹھانے والے انہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے اس پر انہیں ضرور غور کرنا چاہیے،آج
کا کالم تحریک انصاف کے نام ہے سو آج بات بھی انہیں کی کرتے ہیں ،الیکشن پر
لاکھ تحفظات ہوں مگر اب تمام جماعتوں سے گذارش ہے کہ خدارا احتجاج کا طریقہ
صرف وہ اپنائیں جو آئینی اور قانونی ہے،عمران خان اگر کچھ نئے انداز کی
حکمرانی کا آغاز کرتے ہیں تو آپ بھی احتجاج کا ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کر سکتے
ہیں ،کیوں کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سامنے اولین مقصد ملک کی بہتری اور بقا
ہونا چاہیے،ہم نے ہمارے جیسے اور کئی سرپھروں نے بطور صحافی عمران خان کے
دھرنوں اور لاک ڈاؤن نما احتجاج کی شدید ترین مخالفت کی اور ڈٹ کر جمہوری
حکومت کا دفاع کیا پی ٹی آئی کے دوستو ں سے گالیاں اور گلے بھی سنے مگر جو
سچ سمجھا وہ لکھا اور بولا اب اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ کل تک دھرنوں کے
خلاف لکھنے بولنے والے آج حق میں بولنے لگ جائیں گے تو یہ وہم وہ اپنے دل
سے نکال دیں،جو کام کل غلط تھا وہ آج کسی بھی صورت صحیح نہیں ہو سکتا،دو
غلط ملکر ایک صحیح نہ کبھی ہوئے ہیں نہ ہو سکتے ہیں،ہماری ترجیح کل بھی
جمہوری حکومت کا دفاع تھا اور آج بھی یہی ہے،ہم آج بھی اسی نقطے پر قائم
دائم ہیں کہ جمہوریت مظبوط ہو گی تو ادارے مظبوط ہوں گے ادارے مظبوط ہوں گے
تو ملک مظبوط اور خوشحال ہو گا،البتہ جہاں جمہوری حکومت ٹریک سے اترے وہاں
بھرپور آواز اٹھانا ہمار فرض ہے جو ہم احسن انداز سے انجام دینے کی پوری
کوشش کریں گے،عمران خان کا خطاب ایک لیڈر کا خطاب تھا اور یہ صرف خطاب نہیں
بلکہ پوری قوم کی آواز تھی،قوم نے اس پر لبیک کہا لیکن خان صاحب کو یاد
رکھنا ہو گا کہ اس سے قبل بھی اس قوم سے وعدے بڑے ہی خوبصورت اور کمال کے
ہوتے رہے ہیں ،مزہ تب ہے کہ اب کی بار ان خوابوں کی تعبیر بھی ملے جو دوران
الیکشن عوام کو دکھائے گئے،عمران خان سے لوگوں نے بہت ذیادہ توقعات وابستہ
کر رکھی ہیں وہ اب اس قوم کی آخری امید ہیں ،انہیں ایک طرف جارحانہ حکمت
عملی اپنانا ہو گی اور تیز اننگز کھیلنا ہو گی تو دوسری طرف ہر قدم پھونک
پھونک کر رکھنا ہو گا،الیکشن جیتنے کی حد تک الیکٹیبلز کی ضرورت تھی اب ان
کو نکرے لگائیں کہ بس جناب اب آپ اسمبلی کے ٹھنڈے فلور پر بیٹھ کر مجھے اور
میری ٹیم کو کھیلتا دیکھیں،مخالف ٹیم سے ملے کسی بھی کھلاڑی کو نزدیک بھی
نہ پھٹکنے دیں ،ہر اہم عہدہ صرف اس شخص کو دیں جو اس کا اہل ہو،جس کو بھی
ترقیاتی فنڈز ملیں تو ان فنڈز کی کڑی نگرانی کا شاندار میکنزم بنائیں تاکہ
وہ اپنی صحیح جگہ ہر استعمال ہوں ،سب سے پہلے اس ملک کے باسیوں کی وی آئی
پی کلچر سے جان چھڑائیں، یقین کریں جس دن ان لوگوں کو شیر اور بکری ایک
گھاٹ پر پانی پیتے نظر آگئے اس دن اصل تبدیلی آئے گی اس دن لوگ تسلیم کر
لیں گے کہ ہمارا نظام بھی خلفائے راشدین کے نظام کی طرف جاتا نظر آ رہا
ہے،آپ نے کہا تھا دو نہیں ایک پاکستان ،تو ایک پاکستان میں کوئی ریڈ زون
اور نیلا پیلا زون نہیں ہونا چاہیے صرف ایک زون ہو سبز زون پاکستان زون اور
بس،کسی بھی عام پاکستانی اور شریف شہری کے لیے ملک کا کوئی بھی کونہ نو گو
ایریا نہیں ہونا چاہیے،قانون غریب کے لیے لوہا اور امیر کے لیے موم کی ناک
نہ ہو،آپ نے کہا کہ میرا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ لوگ خط غربت سے نیچے رہیں
اور میں پی ایم ہاؤس میں رہوں تو آگے بڑھیے ابتدا کیجیئے لوگ آپ کو اپنی
پلکوں پر بٹھائیں گے ان سفید ہاتھیوں پی ایم ہاؤس اور پریذڈینٹ ہاؤس سے
لوگوں کی جان چھڑائیے جن کا سالانہ خرچ ایک ارب روپے سے زیادہ ہے نہ صرف یہ
بلکہ چار گورنر ہاؤس اور ہر شہر میں قائم ڈی سی او اے سی ہاؤ سز( جو صحیح
معنوں میں انگریز کی باقیات ہیں )اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایکڑ قیمتی اراضی
جو ان بڑے گھروں نے دبا رکھی ہے ان سے واگزار کروا کے یہ زمین عوامی فلاحی
مقاصد کے لیے استعمال کیجیئے جب آپ نے خود پی ایم ہاؤ س میں ہیں رہیں گے تو
ان تمام لوگوں کو بھی ہر شہر میں موجود عام سرکاری رہائش میں شفٹ کیجیے،اس
ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ علاج اور صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی ہے
آپ ملک کے تما م ہسپتالوں کے تمام لوگوں کے لیے اوپن کریں وی آئی پی وارڈز
کا خاتمہ کریں ،ہر شخص یا عام ہو یا خاص ایک قسم کے سلوک کا مستحق ہے، اب
آپ اس ملک کے حاکم ہیں اور عوام اب آپ کی ذمہ داری ہے آپ جس نظام کی بات کر
رہے ہیں اس میں حاکم خادم اور خادم حاکم ہو تا تھا ،خلیفہ خادم کے اونٹ کی
مہار پکڑ کر چل کر جب بیت المقدس پہنچا تو آگے سے لوگوں نے بغیر لڑے چابیاں
حوالے کر دیں ،تعلیم آپ کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے آپ نے کہا تھا پورے
ملک میں ایک سلیبس اور ایک نظام تعلیم ہو گا اب وقت آگیا ہے کہ یا سارے الف
ب ت پڑھیں یا سارے اے بی سی ،قرآن اور اسلام کی تعلیم کو لازمی تعلیم میں
شامل کریں،غریب امیر کی تمیز ختم کرنے کا وقت آن پہنچا،اس کے علاوہ سب سے
اہم بات کہ آپ قانون سب کے لیے برابر کریں اور کسی بھی شخص سے کسی بھی سطح
پر انتقامی کاروائی نہ ہونے دیں ،خلفائے راشدین کے نظام میں گورنر نااہلی
پر بکریاں چرانے پر معمو ر کیے گئے،نواز ریف اور مریم نواز کا ہر صورت میں
فئیر ٹرائل کروائیں کہیں کسی بھی سطح پر امتیازی سلوک نہ دیں اپنے لوگوں کی
تربیت کا مناسب بندوبست کر کے گالی گلوچ کا کلچر ختم کر دیں اس کے علاوہ
باقی کرپٹ لوگو ں پر بھی ہاتھ ڈالیں اور نیب میں بارگین سسٹم کو ختم کر کے
چوروں کو کٹہرے میں لائیں اور بلا تفریق لائیں اس میں اگر کوئی آپ کی جماعت
کا بھی ہے تو مت رعایت کریں ،احتساب وہ کریں جو انتقام کی بجائے احتاب نظر
آئے،کسی کو پی ٹی آئی کا ہونے کا فائدہ نہ ملے کیوں کہ بہت سے ایسے لوگ جو
عشروں لوٹ مار میں مصروف رہے اور اب بھاگ کر آپ کی جماعت جائن کر کے دوبارہ
ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں ہیں آپ نے خلفائے راشدین کا نظام لانے کی بات کی
ہے تو یاد رکھیے گا کہ اس نظام میں ایک بدو مسجد میں کھڑا ہو کر وقت کے
حاکم سے پوچھتا تھا کہ یہ ایک فالتوچادر آپ کے پاس کہاں سے آئی،آگے بڑھیے
قوم نے آپ کو مینڈیٹ دے دیا ہے مبارکبادیں سمیٹیئے اور کمر بستہ ہو جایئے
اگر ارادے نیک ہو ں تو کوئی منزل بھی دور نہیں ا اﷲ آپکا حامی و ناصر ہو،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
|