از:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی (بانی
ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
چار ہزار سال قبل پہاڑوں کے دامن میں ایک قافلہ اُترا تھا؛ جو صرف تین نفوس
پر مشتمل تھا۔ایک باپ ، ایک بیٹا اورایک اس بچے کی والدہ۔اﷲ سے مانگ مانگ
کرفرزند لیا؛ لیکن بچہ جوں ہی اس بزمِ گیتی میں قدم رکھتا ہے؛ حکم ہوتا ہے
اس کو ایسی وادی میں لے جاؤ جہاں کوئی سبزہ نہ ہو، جہاں کوئی ہم سایہ نہ
ہو، جہاں شجرِ سایہ دار، شجرِ پھل دار نہ ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس قافلے کو لے کر یہاں پہنچے۔ رات گزری۔ صبح
کاسپیدہ طلوع ہوا تو اﷲ کی بارگاہ میں دعا کی : اے میرے رب! مَیں یہاں اپنی
ذریت کو چھوڑ کے جارہا ہوں۔ ایسی وادی میں جہاں سبزہ نہیں ہے۔ اے میرے
مالک! ان کی حفاظت فرمانا۔ اورمَیں ان کے لیے دعا کرتا ہوں کہ یہ نماز قائم
کریں اور دلوں کے رخ ان کی سمت پھیر دے۔ اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس پلٹے تو پاک باز خاتون نے اپنے شوہرِ نام
دار کا دامن تھام لیا۔ اور پوچھا اس تنہائی اور غربت میں ہمیں چھوڑ کے کہا
جارہے ہو؟…… ننانوے سال کی عمر میں فرزند ملا اور اب ا س کو اس غربت اور
تنہائی میں چھوڑ کے، کس کے سپرد کرکے ہمیں کہاں جارہے ہو؟ تو حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے جواب دیا؛ تمہیں اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔ تو پاک باز خاتون نے
کہا اذاً لا یضیعنا اگر تم ہمیں اس رب کے سپرد کرکے جارہے ہو تو خیر سے جاؤ
؛ وہ ہمیں کبھی بھی ضائع ہونے نہیں دے گا۔
حرم کی یہ داستان ان تین نفوس سے شروع ہوتی ہے ۔ ماں اپنے بیٹے کے لیے پانی
کی تلاش میں صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک کا سفر کرتی ہے۔ سات چکروں کے
بعد بیٹے کی طرف بے تابانہ دوڑتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ بیٹے کے پاؤں میں
پانی کا چشمہ پھوٹ رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند اور اپنی
زوجۂ محترمہ کو چھوڑ کر واپس شام کی سمت روانہ ہوجاتے ہیں ۔
بچے کی عمر تیرہ سال ہوتی ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ اپنی سب سے پیاری چیز میرے
راستے میں قربان کرو۔آپ اﷲ کے راستے میں اونٹ ذبح کرتے ہیں؛ لیکن خواب
مسلسل آرہا ہے۔ سمجھ گئے کہ اس دھرتی پر سب سے زیادہ محبوب شَے تو مجھے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات ہے۔ تیرہ سال کے بعد اس وادی کی طرف چلے؛
جہاں اس بچے کو اور اپنی زوجہ کو چھوڑ ا تھا اور آکے اپنی زوجہ سے کہاکہ
جلدی سے بچے کو تیار کردو ؛ مَیں اسے کسی دوست کی دعوت پہ لے جارہا ہوں۔
باپ بیرونِ ملک گیا ہو؛ سالوں کے بعد جب پلٹتا ہے تو کئی اقسام و انواع کے
کھلونے اپنی اولاد کے لیے لے کر آتا ہے۔ لیکن قدرت کی نیرنگیاں دیکھیے اﷲ
کی طرف سے اپنے خاص بندوں پر جو امتحان پڑتے رہے ہیں؛ ان کے انداز دیکھیے۔
کہا تم جاؤ تو چھری لے جاؤ، رسی لے جاؤ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام تیار
ہوگئے ؛ ساتھ لیا۔ شیطان نے سمجھا شاید اس خاندان کو ورغلانے اور راہِ حق
سے ہٹانے کا اس سے بہتر موقع مجھے نہ ملے ۔ ممتا کی مجبوریوں سے فائدہ حاصل
کرنے کے لیے حضرت ہاجرہ رضی اﷲ عنہاکے پاس آیا اور کہنے لگا جانتے ہو کہ
بیٹاکہاں گیا ہے؟ حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اس کے والد دوست کی دعوت کے لیے لے
گئے ہیں۔ شیطان کہتا ہے نہیں وہ اسے ذبح کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت ہاجرہ بولیں
کہ کوئی کرنے والے بات کرو! بھلا کوئی باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کرتا ہے!
اورپھر بیٹا بھی وہ جس کو مانگ مانگ کے لیا ہو۔ زندگی کی کمائی، ننانوے سال
جس کے لیے ہاتھ اٹھا اٹھا کے سحری کے وقت پکارتے رہے ؛ میرے مالک! میرے گھر
میں بھی اجالا کردے۔ مجھے بھی فرزند دے دے ۔ تو کیا آج وہ اس فرزند کی گردن
پہ وہ چھری پھیر دے گا!؟…… کیسی عجیب بات کررہے ہو۔ شیطان کہنے لگا اس نے
ایک خواب دیکھا ہے اور خواب کے اندر اسے جو حکم ملا وہ اسے اﷲ کا حکم سمجھ
کے ایسا کرنے پہ آمادہ ہوا ہے۔ تو حضرت ہاجرہ نے کہا ظالم! تو کہیں شیطان
تو نہیں! کاش! آج میری گود میں ہزاراسماعیل ہوتے ……!
شیطان نے سمجھا کہ یہاں تو وار نہیں چلا ۔ پھر حضرت ابرہیم علیہ السلام کے
پاس پہنچا۔ کہنے لگا رب کو راضی کرنے کے اور بھی طریقے ہیں؛ کیا بیٹے کی
گردن پہ چھری پھیر کے ہی رب راضی ہوتا ہے؟ ایک خواب کو تم فیصلہ کن مرحلے
میں داخل کر رہے ہو۔ خواب خواب ہی ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
پتھر اٹھایا اور اس کی طرف تین دفعہ مارا۔ کہا پیچھے ہٹ جا میرے اور میرے
رب کے راستے میں نہ آ۔ میرے پاس صرف ایک اسماعیل ہے؛ ہزاروں اسماعیل بھی
ہوتے تو راہ خدا میں قربان کردیتا۔ اب منیٰ کی وادی میں باپ اور بیٹا
پہنچے؛ قرآن نے اس واقعہ کو بیان کیا۔ باپ نے اپنے بیٹے کو منیٰ کی وادی
میں پہنچ کے آگاہ کیا؛ کہ اے بیٹا! مَیں نے خواب دیکھا ہے کہ مَیں تجھے ذبح
کررہا ہوں۔ اب تُو بتا کہ تیری رائے کیا ہے؟ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی۔(سورۃ
الصافات، آیۃ۱۰۲ ) تُو اپنی رائے بتا؛ تیری رائے کیا ہے اس معاملے میں؟
یہ آسان بات نہیں ہے۔ مَیں اور آپ بھی اپنے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل رکھتے
ہیں۔ ہمارے آنگن اولاد سے بھرے ہوئے ہیں۔ہم اپنی اولاد کے چہرے کو دیکھ کر
قلب اور روح کی تسکیں کا ساماں کرتے ہیں۔ ان کے معمولی سے دکھ پر ہمارے دل
غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ …… منیٰ کی وادی ہے، پہاڑوں کا دامن ہے، حضرت ابراہیم
علیہ السلام اپنے بیٹے کو کَہ رہے ہیں : بیٹا! مَیں نے دیکھا ہے کہ مَیں
تجھے ذبح کررہا ہوں؛ اب تُو بتا تیری رائے کیا ہے؟بیٹا اس بات کو سن کر
خاموش ہو جاتا، جواب نہ دیتا تو یہ بھی بڑی بات تھی۔ بیٹا سرِ تسلیم خم
کردیتا اور دَبی سی آواز میں کہتا ؛ اچھا جو تمہاری مرضی ۔تو یہ بھی
امتثالِ امر تھا، حکم کی تعمیل ہی تھی۔ بیٹا بخوشی کہتا، ہاں ابو جی ! جو
حکم ملا ہے مجھے ذبح کر دیجیے۔ تو یہ بھی پورا ادب تھا اور حکم کی پوری
پوری تعمیل تھی۔…… لیکن بیٹے کا جواب سنیے اور بیٹے کا انداز تو دیکھیے! جب
باپ نے کہا بیٹا ! مَیں تجھ کو ذبح کرنا چاہتا ہوں؛ تو بیٹا یہ نہیں کہتا
یا ابا تذبح۔ ہاں میرے باپ مجھے ذبح کردیجیے۔ سوال ذبح کا تھا۔ اس کاجواب
بھی ذبح سے دے دیا جاتا تو سوال کا مکمل جواب تھا۔ یہ نہیں کہا کہ اے میرے
باپ ! آپ ذبح کرنا چاہتے ہیں، ہاں! مجھے ذبح کر دیں۔ بلکہ قرآن مجید کھولیے
جواب کتنا عالی نسب ہے اور الفاظ کی ترتیب کے اندر دھڑکتے ہوئے دل کی کیسی
صدا سنائی دے رہی ہے! قَالَ یٰا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُنِیْ
اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ۔ (سورۃ الصافات، آیۃ ۱۰۲)کہا میرے
باپ ! ذبح کیا جو بھی حکم ہے کرو۔ فقط ذبح ہی نہیں میرے بدن کے ٹکڑے بھی
کرنا چاہو تو اسماعیل حاضر ہے، مجھے آگ میں جلانا چاہو تو اسماعیل حاضر ہے۔
یٰا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤمَرُ میرے باپ جو کرنا ہے کر گذریے سَتَجِدُنِیْ
اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ۔ آپ دیکھیں گے کہ مَیں صبر کرکے
دکھاؤں گا۔ ع
یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آدابِ فرزندی
کہا جو کرنا ہے کرو ؛مجھے آپ اس کے لیے بالکل تیار پائیں گے۔ جو بھی حکم ہے
اس کی تعمیل کرو۔
اب وادیِ منیٰ ، پہاڑوں کا دامن ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں
چھری؛ اور حضرت اسماعیل نے کہا میرے باپ! مجھے رسیوں سے جکڑ لو۔ کہیں ایسا
نہ ہو کہ شدت درد سے تڑپنے لگوں اور آپ کو اﷲ کا حکم تعمیل کرنے میں، اس کا
حکم پورا کرنے میں دیر ہوجائے۔ اور میرے باپ! اپنی آنکھوں پہ بھی پٹی باندھ
لو؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا خوب صورت چہرہ ذبح کے لیے رکاوٹ بن جائے۔ محبت
آپ کے سینے کے اندر اس طرح جوش مارے کہ آپ کی چھری رک جائے۔
باپ نے آنکھوں پہ پٹی باندھ لی، بیٹے کو رسیوں سے جکڑ لیا گیا۔پھر بیٹا
کہنے لگا ابو جی! میری رسیاں کھول دو ۔ کہا بیٹا کیا ہوا؟ ارادہ تو نہیں
بدلہ ؟ کہا نہیں میرے باپ! کل کا مؤرخ لکھے گا کہ باپ ذبح کرنا چاہتا تھا؛
بیٹا ذبح ہونا نہیں چاہتا تھا؛ باپ نے باندھ کے ذبح کیا ہے۔ میری رسیاں
کھول دو؛ نہیں تڑپوں گا۔…… اب قرآن کھولیے ارشاد فرمایا فَلَمَّا اَسْلَمَا
وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔(سورۃ الصافات، آیۃ ۱۰۳) جب دونوں راضی ہوگئے۔ باپ
ذبح کرنے پہ راضی ہوگیا اور بیٹا ذبح ہونے پہ راضی ہوگیا۔ …… یہ راضی ہونا
کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کوہِ ہمالہ کا کلیجہ بھی ہوتا تو پھٹ جاتا۔ منیٰ کی
وادی تھر تھر کانپ رہی ہے۔ مالک! قیامت آنے والی ہے! وہ بیٹا جس کو مانگ
مانگ کر لیا تھا، آج اس فرزند کو باپ نے لٹایا ہوا ہے۔ اور اس کی چھاتی پہ
اپنا گھٹنا رکھا ہے ۔فَلَمَّا اَسْلَمَا جب د ونوں راضی ہوگئے۔…… فلاں
کوٹھی خرید لیں، فلاں ماڈل کی گاڑی خرید لیں۔نہیں نہیں! باپ ذبح کرنے پہ
راضی ہے۔ بیٹا ذبح ہونے پہ راضی ہے۔ جب دونوں راضی ہوگئے وَتَلَّہٗ
لِلْجَبِیْنِ اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا۔ مفسرین نے ا س پہ دو
قول بیان فرمائے ہیں۔ایک تو یہ کہ پیشانی کے بل لِٹا یا اور اوپر سے ذبح
کرنا چاہتے تھے؛ گردن کے پیچھے سے؛ تاکہ بیٹے کا چہرہ سامنے نہ ہو۔ یہ ہے
پیشانی کے بل لِٹانے کا ایک انداز۔ اور دوسرا انداز مفسرین فرماتے ہیں کہ
جس طرح آپ جانوروں کو ذبح کرتے ہیں؛تو اس کی گردن کو خم دے کر پیچھے زمین
پہ لگالیتے ہیں تاکہ اس کی رگیں تنگ ہوجائیں ، گردن کُھل جائے اور ذبح کرنے
میں آسانی ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نو نہال کی ریشم جیسی گردن کو خم دے کر
پیچھے پتھر پہ ساتھ پیشانی لگائی اور جب وہ گردن تن گئی اس کو کہتے
وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ اورباپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ ہاتھ میں
چھری ہے اور جب حضرت خلیل نے بیٹے کی گردن پہ چھری رکھی تو دھرتی کا کلیجہ
کانپنے لگا، حوروں کی چیخیں نکل گئیں، عرشِ معلی تھرّانے لگا، فرشتے کانپنے
لگے۔مالک! قیامت تو نہیں آنے والی؟ کہا میرے بندے کی ذرا باقی ادا بھی تو
دیکھو۔ تم کہتے تھے سجدے ہم کریں گے، تم کہتے تھے رکوع ہم کریں گے یہ تو
دھینگا مستی اور فساد کریں گے۔ ذرا دیکھو! باپ اپنے بیٹے کو میرے حکم پر کس
طرح ذبح کرنے کے لیے تیارہے۔ کائنات کا کلیجہ کانپ رہا تھا، سورج بادلوں کی
اوٹ میں منہ چھپانے کو کوشش کرہا تھا، دوپہر کا وقت، منیٰ کی وادی، پتھر کی
اوٹ، حضرت خلیل کے ہاتھ میں چھری، ریشم سے نازک گلے کے اوپر چھری رکھی ۔
بیٹا بھی وہ؛ جس کو مانگ مانگ کر لیا تھا۔اتنا حسین بیٹا کی جس کی پیشانی
میں نبوت کا نور چمک رہا تھا۔فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ
اور جب پیشانی کے بل لٹالیا؛ حضرت خلیل نے چھری تیز کرکے بیٹے کی گردن پہ
رکھی اور پوری قوت کے ساتھ چھری کو پھیر دیا۔ لیکن چھری نے ایک بال بھی
نہیں کاٹا۔ جلدی سے پاس پڑے ایک پتھر پر چھری کو مارا اے چھری! کیا ہو گیا
کیوں نہیں کاٹتی؟ کہا الخلیل یامرنی و ا لجلیل ینہانی۔خلیل مجھے کاٹنے کا
کہتا ہے اور جلیل کہتا ہے کہ خبردار! اگر ایک بال بھی کاٹا تو۔ کہا: چھری
تیرا کام تو کاٹنا تھا۔ کہا: آگ کا کام بھی تو جلانا تھا۔ جس رب نے آگ کو
جلانے سے روک دیا تھا؛ آج اس نے مجھے کاٹنے سے روک دیا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں سمجھیں کہ چلو جان چھوٹ گئی، راستہ مل گیا۔ کہا شاید
مَیں نے ذبح کرنے میں دیر کر دی۔ اور اﷲ نے چھری کو روک دیا۔ پھر استغفار
پڑھا، معافی مانگی اور پھر چھری کو تیز کیا اور حلق کے اوپر اس کی نوک رکھ
کر پوری ہمت کے ساتھ اپنا سارا زور اس کے اوپر انڈیل دیا۔ گَلا کٹ گیا،
حضرت ابراہیم علیہ السلام خوش ہوگئے، اور کلیجہ پھٹ بھی رہا ہے۔ لیکن جب
آنکھوں سے پٹی کھولی تو دیکھا کہ ذبح ہونے والا دنبہ ہے۔ اورحضرت اسماعیل
علیہ السلام پاس کھڑے مسکرا رہے ہیں اور حضرت جبریلِ امین بھی کھڑے ہیں۔ تو
دل خوشی سے سرشار ہوگیا۔ کہ حضرت جبریل امین کا کھڑا ہونا اس بات کی غمازی
کررہا تھا کہ یہ دنبہ اﷲ کی طرف سے آیا ہے۔ اور بیٹا بچ گیا اور اس کی جگہ
پہ فدیۃً دنبہ دے دیا گیا۔ تو دل راضی ہوا اور اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف
سے اس عین موقع پر سدا بھی آئی وَ نٰدَیْنٰہٗ اَنْ یّٰاِبْرٰھِیْمُ قَدْ
صَدَّقْتَ الرُّءْ یَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔(سورۃ
الصافات، آیۃ ۱۰۵) کہا ابراہیم! تو نے واقعی خواب پورا کر دکھایا۔
وَ نٰدَیْنٰہٗ یہ ’واو‘ حالیہ ہے؛ علماء بیان کرتے ہیں۔ اس حال میں جب بیٹا
زندہ سلامت کھڑا تھااور دنبہ ذبح پڑا ہوا تھا، جبرئیلِ امین پاس کھڑے مسکرا
رہے تھے۔ اس حال میں ہم نے ندا دی تاکہ مزید ازعان و یقین پیدا ہوجائے،
مزید یقین کی کیفیتیں پیدا ہوجائیں۔ اس حال میں ہم نے ندا دی۔ لیکن اعلیٰ
حضرت اس کا ترجمہ کرتے ہیں؛ اعلیٰ حضرت پہ روح فدا ہو۔ سب نے یہ ترجمہ کیا
کہ ’’اِس حال میں ہم نے ندادی۔‘‘ آپ(اعلیٰ حضرت) نے لکھا ’’(پھر) اس وقت کا
حال نہ پوچھ جب ہم نے اسے ندا فرمائی۔‘‘(کنزالایمان)کہ اے ابراہیم! تُونے
حد کر دی۔ تونے واقعی خواب پورا کر دکھایا۔ اور آگے فرمایا سَلَامٌ عَلیٰ
اِبْرَاہِیْمَ اے ابراہیم! تیرے اوپر میری سلامتیاں نازل ہوں۔
یہ حرم کا قافلہ تھا؛ جس کا آغاز قربانی سے ہوا تھا۔اﷲ اکبر!…… نسلِ
اسماعیل کو باقی رکھنا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ چوں کہ
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیشانی میں نورِ مصطفی ﷺ چمک رہا تھا۔ سلسلہ
وار یہ نور حضرت عدنان کی پشت میں پہنچا اور وہاں سے منتقل ہوتا ہوا یہ نور
حضرت عبدالمطلب کی پشت میں پہنچا۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا فرمائے ۔
انہوں نے منت مانی تھی کہ اے اﷲ! اگر تو مجھے دس بیٹے دے اور وہ جوان ہوں،
تن و من ہوں؛ تو مَیں ایک بیٹا تیرے راستے میں قربان کردوں گا۔جب حضرت
عبداﷲ؛ جو حضرت عبدالمطلب کے چھوٹے فرزند تھے۔ ان کی عمر اٹھارہ سال ہوئیں
تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی۔ انہوں نے اپنے دس بیٹوں کو بلایا۔
کہا بیٹا مَیں نے کعبہ کے رب سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اﷲ مجھے اگر دس بیٹے دے
گا تو مَیں ایک بیٹا اﷲ کی راہ میں قربان کروں گا۔ اب تم بتاؤ تمہاری رائے
کیا ہے؟
حرم کی کہانی دوبارہ دہرائی جارہی ہے۔کہا رائے بتاؤ۔ دس کے دس بیٹوں نے
گردن خم کردی۔ کہا ایک بیٹے کو ذبح کرنا ہے۔ کہا جس کو چاہو۔ کہا نہیں میں
قرعہ ڈالتا ہوں۔ جب قرعہ ڈالا تو حضرت عبداﷲ کے نام قرعہ نکل آیا۔ فرشتے
پھر دم بخود تھے؛ کہ مالک تو نے ان کی پشت میں امانت رکھی ہے اورآج اس کو
بھی ذبح کیا جائے گا ؟ کائنات پر پھر کہرام مچنے لگا۔ حضرت عبدالمطلب
آستینیں چڑھا رہے ہیں۔ ہاتھ میں چھری ہے۔ یہ خبر پورے مکے میں پھیل گئی؛
سارے سردار دوڑے ہوئے آئے۔ کہا عبدالمطلب! یہ رسم تو نہ ڈالو۔ اس کا ادا
کرنا مشکل ہوجائے گا۔ کہا مَیں نے کعبے کی رب سے یہ منت مانی تھی اور اﷲ نے
وہ منت پوری کردی۔ مَیں نے جب قرعہ نکالا تو میرے اس فرزند کے نام قرعہ نکل
آیا۔ مَیں تواس منت کو ہر صورت میں پورا کروں گا۔ لوگ اکٹھے ہوگئے۔ منت
سماجت کر رہے ہیں۔ لیکن حضرت سیدنا عبدالمطلب ہر صورت میں اپنی اس منت کو
پورا کرنے کے لیے مصرہیں۔ پھر کہا کہ حجاز کے عرافہ کے پاس چلتے ہیں۔ اور
اس کے سامنے یہ مسئلہ رکھتے ہیں۔ بعض نے لکھا کہ حجر کی کاہنہ کے پاس جاتے
ہیں۔ بہ اختلافِ روایات وہ حجاز کی عرافہ کے پاس پہنچے۔ جب اس کا پتا کیا
تو وہ خیبر میں تھی۔
اس کے پاس سارے سردار اکٹھے ہوکے گئے کہ ہمارے سردار نے اس طرح منت مانی
تھی ۔ اب وہ بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ تم بتاؤ کہ اس کے بارے میں
ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ کل آنا؛ میرا تابعی آئے گا تو مَیں اس
سے پوچھوں گی؛ جو مجھے کہے گا وہ مَیں تمہیں بتادوں گی۔ اگلے دن یہ سردار
پھر اس عرافہ کے پاس پہنچے۔اس نے کہا کی میرا تابعی آیا تھا ۔ پہلے تم یہ
بتاؤ تمہارے یہاں کسی شخص کی دِیّت کتنی ہے؟ جو شخص مقتول ہو اس کی دِیّت
قاتل کتنی دیتا ہے؟ انہوں نے کہا: دس اونٹ۔ کہا جاؤ پھر ایک طرف دس اونٹ
رکھو اور ایک طرف عبداﷲ کا نام رکھو۔ اور قرعہ ڈالو۔ اور دس اونٹوں کی طرف
قرعہ نکل آیا تو دس اونٹ ذبح کردینا۔ اور اگر عبداﷲ کی طرف نام نکل آیا تو
پھر دوبارہ دس اونٹ ادھر او رکھنا یعنی بیس رکھنا۔ اور اس طرح دس دس اونٹ
بڑھاتے جانا۔ جب قرعہ عبداﷲ کے نام سے ہٹ کر اونٹوں کی طرف نکلا تو پھر
اتنے اونٹ ذبح کردینا۔ میرے تابعی نے یہی حل بتایا ہے۔
سرداروں نے کہا ٹھیک ہے۔آئے اور ساری بات سنائی۔ دس اونٹ ایک سمت رکھے گئے۔
اور حضرت عبداﷲ کا نام ایک سمت رکھا گیا۔ جب قرعہ نکالا تو حضرت عبداﷲ کے
نام نکلا۔ پھر بیس اونٹ رکھے گئے۔پھر قرعہ نکالا تو حضرت عبداﷲ کے نام
نکلا۔ پھر تیس اونٹ رکھے گئے۔ قرعہ حضرت عبداﷲ کے نام نکل رہا ہے۔ چالیس
اونٹ رکھے گئے ، پچاس رکھے گئے، ساٹھ، ستّر ؛ یہاں تک کہ سَو اونٹ رکھے
گئے۔ سَو اونٹ جب اِدھر رکھے گئے؛ پھر جب قرعہ نکالا تو اونٹوں کے نام نکل
آیا۔ سارے خوش ہوگئے۔ کہ اب قرعہ اونٹوں کے نام نکل آیا۔ عبداﷲ کی جان بچ
گئی۔
لیکن حضرت عبدالمطلب فرمانے لگے کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا۔ کہا کیا کرو
گے؟ کہا ایک مرتبہ نکلا ہے تین مرتبہ قرعہ ڈالو۔ اگر تینوں مرتبہ عبداﷲ کے
نام کی بجائے اونٹوں کے نام نکلا تو پھر مَیں سمجھوں گا کہ اﷲ کی طرف سے
یہی مرضی ہے۔ ورنہ مَیں اپنے بیٹے کی گردن پہ چھری رکھ دوں گا۔ اﷲ اکبر!!!
مکہ کے اندر سردار بھی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ اُمِ ایمن بھی دعا مانگ رہی
ہے۔ مکہ کے پربت دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ دعائیں مانگ رہا
ہے…… قرعہ جب ڈالا گیا تو دوسری مرتبہ بھی قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔اب
تیسری مرتبہ جب قرعہ ڈالا گیا تو ہر ایک کا دل دھڑک رہا ہے۔ حضرت عبدالمطلب
تیار ہیں؛ اگر تیسری مرتبہ قرعہ اونٹوں کے نام نہ نکلا تو مَیں اپنے بیٹے
کی گردن پہ چھری پھیر دوں گا؛ چوں کہ مَیں نے کعبے کے رب سے منت مانی ہے۔
جب تیسری مرتبہ قرعہ ڈالا گیا تو وہ بھی اونٹوں کے نام نکلا۔ سو اونٹ ذبح
کر دیے گئے۔ حضرت عبداﷲ جو کہ حضور کی امانت کے امانت دار تھے؛ ان کی زندگی
محفوظ ہوئی ۔ حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے انا ابن الذبیحَین۔ لوگو!
مَیں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں۔ ایک ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہیں اور ایک
ذبیح میرے والد حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔
حضرت عبداﷲ کی شادی کی گئی۔حضرت آمنہ سلام اﷲ علیہا سے آپ کا نکاح ہوا۔
شادی کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ شام کی طرف
تجارت کی غرض سے گئے۔ واپس جب مدینہ طیبہ پہنچے تو ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔
تو وہ چند دن وہاں رک گئے۔ قافلہ بھی رکا۔ لیکن پھر طبیعت سنبھل بھی نہیں
رہی تھی۔ قافلے والوں نے انہیں وہیں چھوڑا اور واپس آگئے۔ کچھ دنوں کے بعد
خبر پہنچی کہ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مدینے میں انتقال ہوگیا۔
حضور علیہ السلام شکم مادر میں ہیں۔ فرشتوں نے کہا: مالک ! تیرے نبی تو شکم
مادر میں یتیم ہوگئے ۔ اے اﷲ! تیرا نبی تو شکم مادر میں یتیم ہوگیا۔ آواز
آئی انا حفظہ و انا ناصرہ و انا کافلہ تم کیوں پریشان ہورہے ہو؛ مَیں اس کی
حفاظت بھی کروں گا، اس کی مدد بھی کروں گا، اس کی کفالت بھی کروں گا۔ حضرت
آمنہ رضی اﷲ عنہا کے دل میں یہ خیال تھا کہ مَیں اپنے شوہرِ نام دار ؛ جس
کے چہرے کو جی پھر کے دیکھا بھی نہیں تھا؛ اس کی قبر پر جاؤں۔ لیکن جو
امانت تھی اس امانت کے تقاضے ان کو اس سفر سے روک رہے ہیں۔ حتیٰ کے حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی آقا کریم کی عمر جب چھ سال ہوئی تو اب ان
کے دل میں یہ جذبے اور یہ احساس اجاگر ہوا اور یہ جذبہ بڑھ گیا کہ مَیں
جاؤں اور اپنے شوہرِ نام دار کی قبر پہ حاضر ہوؤں۔
حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا اپنے نونہال فرزند کو لے کر اُمِ ایمن؛ جو کہ حضرت
عبداﷲ کی کنیز تھیں؛ ان کو لے کر آپ پہنچے ۔ مدینۃ المنورۃ کچھ عرصہ گزارا۔
اﷲ کے محبوب علیہ السلام کو کسی یہودی نے دیکھاتو اس نے یہ خبر گرم کردی کہ
وہ جو موعود نبی ہے؛ جس کا وعدہ ہماری سابقہ کتابوں میں ہے؛ وہ یہی ہے۔ لوگ
جوق در جوق دیکھنے آنے لگے۔ تو حضرت آمنہ پریشان ہوئی اور جلدی ہی مکے کی
طرف عازم سفر ہوئیں۔ ابھی مکے سے دیڑھ سَو کلو میٹر کا فاصلہ باقی ہی تھا
کہ ’ابواء‘ کے مقام پر حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کو سخت بخار ہوگیا۔ اور حضرت
آمنہ سمجھیں کہ یہ میرا بخار جان لیوا ثابت ہو گا۔ تو انہوں نے امِ ایمن کو
بلایا۔ کہا لگتا ہے کہ یہ بخار میری موت کا باعث بنے گا۔ مَیں تمہیں وصیت
کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کو بہ حفاظت امیرِ قریش عبدالمطلب تک پہنچا دینا۔
اور اس کے بعد حضور کو حضرت آمنہ نے بلایا۔ اپنے سامنے بٹھایا سر پہ ہاتھ
رکھا۔ حضرت آمنہ حضور سے کچھ باتیں کرنا چاہ رہی تھیں۔ وادیِ ابواء کے اندر
یہ منظر بڑا دل گداز تھا۔ حضرت آمنہ نے حضور کے سر پہ ہاتھ رکھا اور روتے
ہوئے کہا؛ آنکھیں چھلکنے لگیں۔ کہا: بیٹا ہر نئی چیز نے پرانی ہو جانا ہے۔
اور ہر باقی نے فنا ہو جانا ہے۔ مَیں بھی جارہی ہوں ؛ لیکن سنو! میرا ذکر
نہیں مٹے گا؛ مَیں تیرے جیسا پاکیزا بیٹا چھوڑکے جا رہی ہوں۔ یہ آخری لفظ
تھے حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے۔ اس کے بعد حضرت آمنہ نے آخری ہچکی لی
اور حضور سے ماں بھی جدا ہوگئی۔
آقا کریم علیہ السلام نے اُمِ ایمن کے ساتھ مل کے اپنی والدہ کو وہاں دفن
کیا۔ جیسے بھی ہوسکا؛ وہ کیاکسی نے کہا تھا: ’’تجھے کن پھولوں سے ہم کفن
دیں تو جدا ہی ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ پھولوں سے خالی تھے۔
‘‘آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھیں چھم چھم برس رہی ہیں۔ حضرت ام ایمن
حضور کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور مکۃ المکرمہ پہنچ کے حضور کے دادا کے سپرد
کیا۔
دو سال تک انہوں نے حضور علیہ السلام کو اپنی کفالت میں رکھا ؛ کعبۃ اﷲ کے
سائے میں ان کی مسند بچھتی تھی۔ ان کے بیٹوں میں سے اور قوم کے کسی فرد کو
یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس مسند کے اوپر بیٹھیں؛ دور ہٹ کے بیٹھتے تھے۔
لیکن حضور جب آتے تو اس مسند کے اوپر چڑھ کے بیٹھ جاتے۔ حضور کے چچا اور
حضور کے دیگر عزیز و اقارب کہتے کہ بیٹا نہ چڑھو تو حضرت عبدالمطلب کہتے:
رہنے دو یہ بڑی شان والا بیٹا ہے۔ ان سے محبت کرتے ، ان کو اپنے ساتھ
سلاتے۔ آٹھ سال حضور کی عمر شریف ہوئی کہ امیرِقریش کا بھی انتقال
ہوگیا۔ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ جب امیرِ قریش کا انتقال ہوا توسوگ میں مکے
کے بازار بند ہوگئے۔ پورا شہر جنازے میں امنڈ آیا۔ لیکن آٹھ سال کا بچہ تھا
بِلک بِلک کے رو رہا تھا۔ آج وہ سایہ بھی اُٹھ گیا۔ پھر چچا کی کفالت میں
گئے۔ اور انہوں نے جس انداز سے کفالت کی اور محبتوں کا ثبوت دیا۔ وہ الفتوں
کی ایک لمبی داستان ہے۔
چالیس سال کی عمر ہوئی تو اﷲ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو نبوت کی ذمہ
داریوں کے اعلان اور لوگوں تک پیغامِ حق کے ابلاغ کا حکم دیا۔ آقا کریم
علیہ السلام جب پیغامِ حق لے کرکے میدان میں آئے تو گلی کوچوں اور بازاروں
کے اندر مخالفتیں ، نکتہ چینیاں، نا موافق حالات کے جکڑ، اور مخالفتوں کی
آندھیاں چلنے لگیں۔ آپ سنتے رہتے ہیں کہ حضرت بلال حبشی کے ساتھ کون سا
سلوک کیا جاتا رہا۔کس انداز کے ساتھ ان کے سینے کے اوپر پتھر رکھ دیا
جاتا۔حضرت خباب بن ارت کے ساتھ کون سا سلوک کیا جاتا رہا۔ کون کون سے دکھ
تھے جو روا نہ رکھے گئے۔ حضرت زُنیرہ کے گلے کے اندر کوڑا ڈال کر۔ کوڑے کی
رسی کو تاؤ دیے گئے۔ یہاں تک کہ کہ ان کی آنکھیں باہر آگئیں۔ اور آنکھوں کی
روشنی جاتی رہی۔ ابو جہل بولا کہ اب بلا نا اپنے محمد کو! جو تیری آنکھوں
کی روشنی کو واپس کرے۔ زُنیرہ نے ہاتھ پھیلا لیے اور کہا عرش کے رب! اِن
آنکھوں کا نور کیا، میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ؛ کبھی بھی تیرے سے زندگی
نہ مانگتی۔ لیکن اب تیرے نبی کی عزت کا سوال ہے۔ میری آنکھوں کی روشنی واپس
کردے۔ روایات میں آتا ہے کہ اﷲ نے حضرت زُنیرہ کی آنکھوں کی روشنی واپس
کردی۔
تکلیفیں آئیں ، دکھ آئے، مکے کے چوک کے اندر حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر ابو
جہل نے شہید کیا۔ یہ اسلام کی پہلی شہیدہ تھیں۔ جن کا خون مکے کے ریگ زار
کے اندر گِرا۔ حضرت یاسر کو شہید کیا گیا؛ یہ حضرت عمار ابن یاسر کے والد
تھے اور حضرت سمیہ ؛ حضرت عمار ابن یاسر کی والدہ ماجدہ تھیں۔حضرت عمار ابن
یاسر کو تختۂ ستم پہ رکھا گیا اور کوڑوں سے ان کی تواضع کی گئی۔ آقا کریم
آئے ، عمار ابن یاسر دکھوں اور اذیتوں سے دو چار تھے۔ آقا کریم نے سر پہ
ہاتھ رکھا اور کہا صبراً آل یاسر! صبراً آل یاسر! ان موعدکم الجنۃ۔ کہا اے
آلِ یاسر صبر کرو۔ آل یاسر صبر کرو۔ مَیں تمہیں جنت کا وعدہ دیتا ہوں۔
تکلیفیں آئیں ، دُکھ سہے، اس راستے کے اندر مکہ کی گلیوں میں حضور کے ساتھ
جو سلوک ہوا؛ کون بھو ل سکتا ہے۔ کبھی کانٹے بِچھ رہے ہیں۔کبھی حضور کی
راہوں میں گڑھے کھودے جارہے ہیں۔ کبھی بدنِ اطہر پر اوجھڑیاں ڈالی جارہی
ہے۔ ابو لہب اپنے گھر کا کوڑا اُٹھا کر حضور کی دہلیز پر ڈال جاتا ہے۔عقبہ
بن ابی معیط حضور کے گلے میں کپڑا ڈال کر اس کو تاؤ دیتا ہے۔ حضور فرماتے
ہیں جتنے دکھ اِس نے مجھے دیے ہیں؛ اتنے کسی نے نہیں دیے۔
اذیتوں کی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔ آقا کریم علیہ السلام کے شفیق چچا بھی
انتقال کرجاتے ہیں۔جب گھر آتے ہیں تو اپنی زوجہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا سے دُکھڑے کہتے۔ وہ بھی انتقال کر جاتی ہیں۔ اس سال کا نام
’’عام الحزن‘‘ رکھا جاتا ہے ، دکھوں کا سال! مصیبتوں کا سال !
آقا کریم بہت دل برداشتہ ہوئے قوم سے۔پھر سوچا کہ طائف چلتا ہوں۔ اور طائف
والوں کو پیغام حق دیتا ہوں۔شاید میری آواز پر وہ لبیک کَہ دیں۔ حضرت زید
بن حارثہ کو ساتھ لے کر ایک مہینے کا سفر کرکے طائف پہنچے۔ ان کے تین سردار
تھے۔ عبد یالیل بن عمرو، حبیب بن عمرو اور مسعود بن عمرو؛ اُن کے پاس جاکر
پیغام حق دیا۔ کہا تمہاری بھلائی کا سندیسا لے کر بڑی دور سے چلا ہوں۔ میری
دعوت کو قبول کرلو۔ دنیا میں بھی کامیابی اور آخرت میں بھی کامرانی تمہارا
مقدر ہوگی۔ یہ دعوت پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری دعوت کو مسترد کرتے
ہیں۔ ایک بولا کہ اور کوئی بندہ نہیں تھا زمانے میں جس کو نبوت ملتی ؛ تجھے
ہی ملنی تھی!
کسی نے کچھ کہا، طعنے دیے، حضور کا دل دُکھایا۔ آقا کریم نے فرمایا اذ
فعلتم ما فعلتم فاکتموا عنی۔ تم نے جو مجھ سے کہا سو کہا ۔ تم نے جو سلوک
میرے ساتھ کیا وہ تمہاری مرضی۔ اتنا میرے سے وعدہ کرو کہ یہ بات کہ مَیں
تمہارے پاس آیا ہوں دعوت دین دینے کے لیے تمہیں پیغام حق دینے کے لیے؛ اس
کو پوشیدہ رکھو گے، مخفی رکھو گے۔ تاکہ؛ مکہ والے میرے دشمن ہیں اور انہیں
جب پتا چلے کہ طائف گئے ہیں اور طائف والوں نے بھی دعوت قبول نہیں کی؛ تو
وہ تمسخر کریں گے۔ مجھے نشانۂ تضحیک بنائیں گے۔ لہٰذا جو کہا سو کہا۔ اپنے
اندر اس بات کو راز رکھو۔ انہوں نے کہ ہم کیوں راز رکھتے پھِریں؟ انہوں
افشاں کیا۔ بلکہ اوباشوں کے ہاتھوں میں پتھر دیے ۔
حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا؛ محبوبۂ محبوبِ
کائنات (ﷺ) کہتی ہیں کہ ایک دن مَیں نے حضور سے پوچھا کہ آقا! اُحد کے دن
سے بھی سخت دن کبھی آپ کی زندگی میں آپ پر آیا ہے؟ فرمایا ہاں عائشہ! جب
طائف کے بازاروں میں تیری قوم نے مجھے پتھر مارے تھے۔ یہ دن اُحد کے دن سے
بھی سخت تھا۔ حضور فرماتے ہیں کہ جب مَیں طائف سے باہر نکلا تو ان کے غنڈے
دورویا قطاروں میں کھڑے تھے۔ ہاتھوں میں پتھر تھے اور جب مَیں درمیان سے
گزرنے لگا تو وہ میرے پاؤں میں پتھر مارتے۔ مَیں پاؤں اُٹھا لیتا تو دوسرے
پاؤں پہ پتھر مارتے تھے۔ پھر مَیں شدت درد اور احساس کرب سے بیٹھ جاتا تو
ان کے دو غنڈے آگے بڑھتے مجھے کندھوں سے پکڑ کے اُٹھاتے اور پھر مجھے پتھر
مارتے۔ فرمایا اے عائشہ! یہ دن اُحد کے دن سے بھی سخت تھا۔ جب تیری قوم نے
طائف کے بازاروں میں مجھے پتھر مارے۔
اُحد کے اندر جب حضور کے چچا شہید ہوئے؛ وہ دن بھی تاریخِ اسلام کا درد ناک
دن ہے۔آقا کریم کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں آنسوں تھے۔ اور
بار بار پوچھتے تھے ما فَعَلَ عَمی ! میرے چچا کی بات سُناؤ! …… جب بتایا
گیا کہ حضور! حضرت حمزہ شہید ہوگئے ہیں؛ تو آقا کریم اُن کی لاش پہ گئے۔
دیکھا کہ ان کا پیٹ چاک ہے۔ ان کی ناک کاٹ دی گئی ہے۔ ان کی زبان کاٹ دی
گئی ہے۔ ان کا دل نکال لیا گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں نیزیں چُبھوئے گئے ہیں
اور ان کے کان کاٹ لیے گئے ہیں۔
آقا کریم کی آنکھوں میں اشک تھے اور ما فعل عمی میرے چچا کا کیا ہوا؟ آقا
کریم اپنی زبان پہ یہ لفظ لارہے تھے۔ اور پھر جب حضرت صفیہ آئیں اور ان کے
پاس دو کفن کے کپڑے تھے۔جب حضرت امیر حمزہ کو کفن دیا جانے لگا کہا ساتھ
انصاری کی لاش پڑی ہوئی ہے؛ کہاانہیں بھی کفن دو۔ میرا حمزہ دو کپڑو ں میں
اور اسے ایک کپڑا بھی نصیب نہ ہو ! ……محمد عدل کرنے آیا ہے، انصاف کرنے
آیا۔ اب جب کپڑے پھیلائے گئے تو ایک کپڑا لمبا تھا ایک کپڑا چھوٹا تھا۔ عرض
کی حضور! یہ جو بڑا کپڑا ہے یہ حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دے دیں
اور چھوٹا انصاری کو دے دیں۔ کہا نہیں مَیں انصاف کرنے آیا ہوں۔ قرعہ ڈال
لو؛ کہ کس کے حصے میں کون سا کپڑا آتا ہے۔ اور جب قرعہ ڈالا گیا تو چھوٹا
کپڑا حضرت امیر حمزہ کے حصے میں آیا اوربڑے کپڑے میں اس انصاری صحابی کو
کفن دیا گیا ۔ اب وہ (چھوٹا) کپڑا؛ جب اس سے حضرت امیر حمزہ کا سرڈھانپتے
تھے تو پاؤں ننگے ہوجاتے ۔ پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہوجاتا۔ آقا کریم نے
فرمایا کہ کپڑا سر کی طرف کردو۔ اور اذخر گھاس لے کر پاؤں کی طرف ڈال دو۔
اﷲ کے محبوب علیہ السلام اس دن اتنے غمزدہ تھے کہ جب دوبارہ مدینے پہنچے تو
حضور کو پکڑ کر خچر سے سواری سے اُٹھا کر حضور کو نیچے رکھا گیا۔ سخت تکلیف
میں تھے، دکھوں کی زندگی، طائف کے بازار……!
پھر مدینے کے اندر جب وہ ماحول آیا۔ خوب صورتیاں آگئیں، روشنیاں آگئیں ،
آسمان سے ہر دم نور اُترنے لگا۔ وہ وقت گیا جب لوگ پتھر مارتے تھے ۔ اب حکم
ہوگیا خبردار! میرے نبی کی آواز سے آواز بھی اونچی نہیں کرنی۔ خبردار! تم
نے میرے نبی سے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو پہلے صدقہ لو پھر فقیر ڈھونڈو پھر
خیرات کرو پھر میرے نبی کی چوکھٹ پہ آؤ؛ تمہیں پتا چلے کہ کس چوکھٹ پہ آرہے
ہیں، کس در پہ آرہے ہیں۔
آقا کریم علیہ السلام اس ماحول کے اندر گھر میں خوش ہیں۔ آنگن میں خوشیاں
ہیں۔ پھول کھِلے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہ؛ حضور کے شہزادے حضور
کی ران پہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت امام حسین بھی دوڑتے دوڑتے آئے اور وہ بھی
حضور کی ایک ران پہ بیٹھ گئے۔ حضور کبھی حسین کو دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے
فرزند کو دیکھتے ہیں۔ کبھی حسین کو دیکھتے ہیں ، کبھی حسین کے ماموں کو
دیکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ؛ دونوں
کو دیکھ کر اﷲ کے محبوب خوش ہورہے ہیں۔ فرشتہ نے اذن مانگا۔ آقا کریم نے
اذن دیا۔ اس نے عرض کی حضور! ان دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک کو ایک کے
بدلے میں قربانی دینا ہوگی۔
اب قربانیوں کی وہ داستان جو حرم سے چلی تھی ؛ وہ تسلسل ٹوٹنے نہیں پارہا
ہے۔ وہ تسلسل جاری ہے۔ حضور نے ایک نظر حضرت ابراہیم کو دیکھا اور پھر ایک
نظر حضور نے حضرت امام حسین کو دیکھا پھر حسین کو پکڑ کر سینے سے لگا یا
اور پھر کہا کہ مَیں اپنے اِس بیٹے پہ اپنے اِس بیٹے کوقربان کررہا ہوں۔
چند دن کے بعد حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا۔ حضور کو جب خبر پہنچی آقا کریم
کی آنکھیں آنسوں برسا رہی تھیں۔ و عین رسول اللّٰہ تدمعان حضور کی آنکھوں
میں آنسو جاری تھے۔ اور حضور اپنے بیٹے کے سرہانے بیٹھے پیشانی پہ ہاتھ
رکھا اور کہا بیٹا آنکھیں رو رہی ہیں، دل غم زدہ ہے لیکن زبان سے وہی کہوں
گاجس سے رب راضی ہوگا۔ لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب و دعا بدعوی
الجاہلیہ جو گریبان نوچتا ہے، منہ پہ تھپڑ مارتا ہے، سینہ کوبی کرتا ہے؛
کہا ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آنکھوں کا غم اور دل کا غم رحمان
کی طرف سے ہے۔ ہاتھوں کا غم اور زبان کا واویلہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔کہا
بیٹا آنکھیں رو رہی ہیں، دل غم زدہ ہے؛ لیکن زبان سے وہی کہوں گا جس سے رب
راضی ہوگا۔
اب امام حسین حضور کی گود میں کھیلتے ہیں۔ کبھی حضور اپنی زبان ان کے منہ
میں دے رہے ہیں۔ کبھی حضور ان کو اپنے کندھوں پہ سوار کرا رہے ہیں۔کسی
صحابی نے کہا کتنی اچھی سواری ملی ہے۔ کہا سواری دیکھ رہے ہو سوار بھی تو
دیکھو۔ کبھی سجدے میں ہیں تو حسین پشت پہ آکے سوار ہوجاتے ہیں۔ آقا سجدے کو
طول دے رہے ہیں۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ؛ رات کافی بیت چکی تھی؛
مَیں حضور کے در پہ گیا۔ صحابہ حضور کے در پہ دستک نہیں دیا کرتے تھے ۔
حضور کی چوکھٹ پہ لگ کے بیٹھ جاتے۔ آقا کریم اپنی مرضی سے آتے ۔ صحابہ
دکھڑا کَہ لیتے، جو پوچھنا تھا پوچھ لیتے۔ لیکن اگر کبھی حالت ناگزیر ہوتی،
کبھی ایمرجنسی حالات بنتے تو صحابہ اپنی انگلیوں کے پوروں کے ساتھ حضور کے
دروازے پہ دستک دیتے۔ کانت تقرع ابواب النبی بالاظافر۔……اﷲ اکبر!
حضور تشریف لائے۔ حضور سے اپنی حاجت کہی۔ یہ چودھویں صدی کی مصیبت ہے کہ
نبی سے مانگنا نہیں چاہیے۔ اگر نبی سے نہیں مانگنا تو پھر کس سے مانگے؟ اور
کون سی چوکھٹ ہے ؟ کس در پہ جھولی پھیلائیں؟ کون سا دوار ہے؛ جہاں کشکول
پھیلاکے کہیں کہ ہماری جھولی بھر دی جائے؟
اور جتنے بھی سہارے ہیں سبک کرتے ہیں
عزت نفس بڑھاتا ہے سہارا تیرا
ہر آسرا ذلیل کرتا ہے۔ نبی کا آسرا بندے کو سر بلند کرتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں میری حاجت پوری ہوگئی۔ لیکن مَیں نے کیا ماجرہ
دیکھا؟ جب حضور گفتگو کر رہے ہیں؛ دورانِ گفتگو ؛ اﷲ کے محبوب چادر اوڑھے
یوں ہی آگئے تھے؛ حضور کے دائیں بائیں سے حرکت کا احساس ہوتا ہے۔ جس طرح
اندر کوئی چیز ہے۔ میری حاجت پوری ہوئی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ مَیں نے پوچھ
لیا ۔ مَیں نے کہا بندہ نواز! یہ کیا ماجرہ تھا آپ چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور
اندر سے کسی کی حرکت کا احساس ہے۔ فکشفہ، حضور نے چادر کو کھول دیا۔ فاذا
الحسن و الحسین علی ورکیہ۔ تو ایک پہلو سے امام حسن لپٹے ہوئے تھے ؛ایک سے
امام حسین لپٹے ہوئے تھے۔ کہا یہ میرے بیٹے ہیں۔ یہ میری بیٹے کے بیٹے ہیں۔
اے اﷲ! مَیں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کر۔ اور جو اِن سے پیار
کرے میرے مالک! تُو اُ س سے بھی پیار کر۔ ایک دن فرمایا حسین منی و انا من
حسین۔ لوگو! حسین مجھ سے ہے اور مَیں حسین سے ہوں۔
لمحے بیتتے گئے۔ پھر وہ جاں گداز لمحے بھی آئے جب صحابہ کی چیخیں نکل رہی
تھیں۔ جب حجرۂ عائشہ کے اندر اﷲ کے محبوب اپنے رب کے یہاں جانے کی تیاریاں
کر رہے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ کے لبوں یہ لفظ تھے
صبت علیَ مصائب لو انھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
میرے اوپر اوپر اتنی مصیبتیں پڑیں؛ اگر یہ دنوں پہ پڑتی تو وہ بھی کالی
راتیں بن جاتے۔ حضور علیہ السلام کا جب جسد اطہر اُٹھا تو صحابہ کی جو حالت
تھی وہ اس انداز سے تھی کی صحابہ کے کلیجے پھٹ رہے تھے۔ روحیں گداز ہورہی
تھیں۔ ایک فرد ہاتھ اُٹھا کے دعا مانگ رہا تھا اﷲم اذہب بصری حتی لا اری
بعد حبیبی محمد(ﷺ) احدا۔ اے اﷲ! مجھے اندھا کردے مجھے اندھا کردے۔ میرے
آنکھوں کی بینائی اُچک لے۔ میرا محبوب تہِ مزار چلا گیا۔ مَیں نے آنکھوں کی
روشنی کو کیا کرنا ہے۔ وہ دن بھی آئے ؛ حضرت سیدنا صدیق اکبر کا کلیجہ بھی
پگھل رہا ہے۔ وہ بھی غمِ رسول میں رو رہے ہیں۔ صحابہ تڑپ رہے ہیں۔ وہ
اونٹنی غصبا نامی اونٹنی جس پہ حضور سواری کرتے تھے ؛ وہ حضرت فاطمہ کے
دروازے کے اوپر سر رکھ کے رو رو کے مَر گئی۔ جب محبوب نہیں رہے تو ہم نے جی
کیا لینا ہے۔ کائنات اُجڑ گئی۔ جہان میں ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا چھا
گیا۔ لیکن روشنی کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ آج بھی روشن ہیں۔ جن کو دیکھ کر
مصطفی یاد آتے ہیں۔ لوگ ان شہزادوں کو دیکھ لیتے ہیں ۔ اور حضور کی یاد کو
تازہ کر لیتے ہیں۔
وقت گزرتا گیاپھر وہ لمحے بھی آئے کہ جب حضرت امام حسن کو زہر دیا گیا۔ اور
آپ کا کلیجہ کٹ کٹ کے کئی سَو حصوں میں باہر آیا۔ آپ سے آخری لمحے حضرت
امام حسین نے پوچھا کہ میرے بھائی کوئی وصیت؟ کہا بیٹا ! کوفے والوں سے بچ
کے رہنا۔ ان کے دغے سے بچ کے رہنا۔ لمحے بیت گئے۔ ۶۰ ؍ ہجری کو یزید تخت
نشین ہوا۔ تخت نشین ہوگیا تھا۔ لیکن اس نے یہ چاہا کہ حضرت امام حسین رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ میرے لیے بیعت کر لیں۔ اور اس نے مدینے کے گورنر ولید بن
عتبہ کو خط لکھا خط کا مضمون یہ تھا کہ امام حسین کو بلاؤ اور ان سے میرے
لیے بیعت لو۔ اور اگر وہ بیعت نہیں دیتے تو اس خط کے جواب کے ساتھ ان کا سر
بھیج دو۔ ولید بن عتبہ محبِ اہل بیت تھے انہوں نے رات کی کافی تاریکی کے
اندر حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیجا۔ حضرت امام حسین نے
حضرت عبداﷲ ابن زبیر سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا اس وقت گونر کا بلانا خیر
نہیں۔ صبح جائیں گے۔ آپ نے فرمایا نہیں مَیں ابھی جاتا ہوں۔ کچھ سواروں کو
ساتھ لیا۔ کہا تم دارالامارت کے باہر کھڑے ہوجانا ۔ اگر مَیں آواز دوں تو
تم دیواریں پھلانگ کے اندر آجانا۔
ولید بن عتبہ کے پاس امام حسین پہنچے۔ آپ نے کہا کہ سناؤ کیا معاملہ ہے۔ تو
اس نے کہا کہ یہ خط ہے جو یزید نے بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں صبح
بتاؤں گا۔ ولید بن عتبہ نے کہا ٹھیک ہے۔ امام حسین پلٹنے لگے تو مروان بن
حکم جو گورنر کے پاس بیٹھا ہوا تھا؛ کہنے لگا کہ یہ چلے گئے تو دوبارہ ہاتھ
نہیں آئیں گے۔ اب موقع ہے؛ اب ان کو پکڑ لو اور ان سے زبردستی بیعت لے لو۔
یہ بات حضرت امام حسین کے کانوں میں پڑی۔آپ پلٹے۔ نیام سے تلوار نکالی۔
حیدری کچھار سے محمدی شیر نکل آیا۔ اور حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے اس وقت جو جملے کہے تاریخ کے اوراق کے اندر وہ جملے محفوظ ہیں۔ حضرت
امام حسین نے کہا ایھا لأمیر ! اے امیر! تو جانتا نہیں کہ ہم کون ہیں؟ ان
معدن الرسالۃ و مہبط الوحی و مختلف الملائکۃ۔ مَیں وہ ہوں جس کے گھر میں
جبریل آتے تھے۔ ہمارے گھر میں وحی اترتی رہی ہے۔ و یزید ابن المعاویہ رجل
فاسق فاجر قاتل النفس مولد بالفسق شارب الخمر و مثلنا لا یبایع ۔ کہا اور
یزید شرابی ہے۔ یزید مسلمانوں کا قاتل ہے۔ یزید فاسق معلن ہے۔ اے امیر!
میرے جیسا شخص جھک کر بیعت نہیں کر سکتا ……اﷲ اکبر!
حضرت امام حسین نے جب یہ بات کہی جو باہر لوگ کھڑے تھے وہ بھی چاک و چوبند
ہوگئے۔ اس نے کہا حضور! آپ جائیے۔ مروان مشورے دیتا رہا۔ لیکن حضرت امام
حسین کو گونرِ مدینہ نے کہا کہ آپ جائیے۔ حضرت ا مام حسین رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ واپس پلٹے۔ حضرت امام حسین کی ہمشیرہ سیدہ زینب بھائی کا انتظار کرہی
تھی۔ پوچھا کیا ماجرہ ہے؟ کہا حالات بگڑ گئے ہیں۔اب ہمارا مدینے میں رہنا
محال ہے۔ صبح سحری سے قبل قبل شہرِ مدینہ چھوڑ دیں۔ورنہ ہمارے خون سے نبی
کا حرم لالہ زار بنے گا۔ حضرت امام ہمام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت کی
مشاورت سے یہ فیصلہ کرلیا۔ کجاوے کَسے جانے لگے۔ سامان تیار ہوگیا۔ حضرت
محمد بن حنفیہ کو کہا کہ تم یہاں رہو اور تم خبر پہنچانا کہ پیچھے کیا
ماجرے ہوتے ہیں۔ اور مَیں مکہ کی طرف سفر کر رہا ہوں۔
کہانی لمبی ہورہی ہے اور وقت کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ یہ بتاؤں
کہ کس طرح شہرِ مدینہ چھوڑا ہوگا۔ حاجی جاتے ہیں آٹھ دن ۔ اور آٹھ دن کے
بعد مدینہ چھوڑتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھو! کہ مدینہ چھوڑنا کتنا مشکل ہے؟ وہ
کیا کسی حاجی کو لوگ مبارک باد دے رہے تھے۔ اس نے کہا تھا
مبارک دے رہے ہو دوستو! حج و زیارت کی
میرا غم بھی تو دیکھو! مَیں مدینہ چھوڑ آیا ہوں
جو آٹھ دن مدینہ رہتا ہے؛ اس سے مدینہ چھوڑا نہیں جاتا۔ اور جس کی ولادت
مدینے میں ہوئی ہو۔ جو کھیلتا تھا تو مدینے کی گلیوں میں۔ جس کے گھر کا
دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔ اُس حسین کو مدینہ چھوڑنا قیامت ہوگی!……
شہرِ مدینہ چھوڑا۔ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مکۃ المکرمہ پہنچے۔
وہاں رمضان گزرا۔ حالات وہاں بھی بگڑتے گئے۔ مسلسل خط آتے رہے کوفے سے۔
کہانی طویل ہے۔
۸؍ ذو الحجۃ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوفے کے طرف عازم سفر
ہوئے۔ حضرت عبداﷲ ابن عمر ، عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور دیگر
صحابی ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوگئے۔ بلکہ حضرت عبداﷲ ابن عباس نے تو یہاں تک کَہ
دیا کہ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ وہاں تمہیں شہید کیا جائے گا۔ آپ اگر ضرور
جاتے ہیں تو ان بچوں کو چھوڑ دیں۔ حضرت امام حسین فرماتے ہیں کہ
میرے غم گسارو! میرے پیارو! مجھ کو جانے دو
مجھے نانے کے دیں کی ڈوبتی کشتی بچانے دو
مَیں جاتا ہوں کہ دنیا پر وفا کا نام رہ جائے
مَیں رہوں نہ رہوں پر عظمتِ اسلام رہ جائے
مَیں نہیں جاتا تو نبی کے گھر کی آن جاتی ہے
تمہارا دین جاتا ہے مری غیرتِ ایمان جاتی ہے
کہا مجھے جانا ہوگا۔ ۸؍ ذو الحجہ کو لوگ کعبہ کی طرف آرہے ہیں۔ کعبہ دلہن
کی طرح سنورا ہوا ہے۔ طواف کرنے والوں کا جھرمٹ ہے۔ حاجی حج کرنے آرہے ہیں۔
لیکن حضرت امام ہمام کسی اور حج کی تیاری کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ حج تو
کر جائیں۔ اتنی مرتبہ مدینے سے پیدل چل کے آئے۔ اور آج تو مکۃ المکرمہ میں
موجود ہیں۔ کہا پیچھے ہٹو! جو حج مَیں کرنے جارہا ہوں وہ انوکھا ہوگا۔ وہ
نرالا ہوگا۔ تم بھی طواف کروگے۔ مَیں بھی طواف کروں گا۔ تم طواف کعبۃ اﷲ کا
کروگے ۔ اور مَیں خیموں کا طواف کروں گا۔ ایک حج تمہارا ہے ۔ ایک حج میرا
ہے۔ تم بوسے لو گے۔ کس کے؛ حجرِ اسود کے۔مَیں اپنے فرزند کا منہ چوموں گا۔
لوگو! ایک طواف تمہارا ہوگا۔ ایک طواف میرا ہوگا۔ تم آبِ زم زم پیؤ گے۔
مَیں پیاسا رہوں گا۔ اور تم کبھی صفا پہ کبھی مروہ پہ دوڑو گے۔ مَیں کبھی
علی اکبر کی لاش اُٹھانے جاؤں گا۔ کبھی مَیں قاسم کی لاش اُٹھانے جاؤں گا۔
کبھی عون و محمد کے تڑپتے ہوئے لاشے اُٹھانے جاؤں گا۔ لوگو! ایک حج تمہارا
بھی ہے اور ایک حج میرا بھی ہے۔ جب تم حج کرلو گے تمہاری سعی مکمل ہوجائے
گی ؛ تم سَر منڈھا کے احرام کھول دو گے۔ اور جب میری سعی مکمل ہوجائے گی ؛
مَیں سر کٹا کے احرام کھول دوں گا۔ تم سفید احرام پہنو گے؛ مَیں سرخ احرام
پہنوں گا۔ اور وہ حج قیامت تک کے آنے والے حجوں کی آبرو ہوگا۔
حسین اگر نہ شہید ہوتا
تو آج گھر گھر یزید ہوتا
اسلام کی عظمت عیاں نہ ہوتی
خدا کے گھر میں اذاں نہ ہوتی
اے بارِ الٰہ! نوحہ سناتا پھرتا
تا روزِ جزا اشک بہاتا پھرتا
امداد نہ کرتے اگر کربلا میں حسین
اسلام ترا ٹھوکریں کھاتا پھرتا
کربلا کی تپتی ہوئی ریگ زار میں حضرت امام حسین نے جبر و ظلم کے خلاف جس
قوت سے کھڑے ہوکر عزیمت کی داستانیں رقم کیں ۔ ۱۰؍ محرم کا دن تھا۔ جمعہ کا
یومِ سعید تھا۔ بیچ کربلا کے میدان میں؛ دوپہر کے وقت جب نبی کا خاندان اجڑ
رہا تھا، ایک ایک کلی اس چمن کی کٹ رہی تھی ۔ ۷۲؍ افراد؛ ۲۲؍ ہزار کے لشکرِ
جرار کے مقابلے میں کھڑے تھے۔ وہ یزید جس نے اس کے علاوہ بھی بڑے جرم کیے۔
جس نے ۱۷۰۰؍ صحابہ کو مکۃ المکرمہ میں شہید کیا۔ جس نے سات سو حفاظ کرام کو
شہید کیا۔ جس نے حضرت ابو سعید خذری کی داڑھی نوچ لی۔ جس نے مدینہ میں مسجد
نبوی کے اندر گھوڑے باندھے۔ جس نے تین دن تک مسجد نبوی کے اندر اذان نہ
ہونے دی۔ وہ یزید آج کربلا کے تپتے ہوئے ریگ زار میں آل رسول کے ساتھ ظلم
کی وہ داستان رقم کر رہا تھا کہ قیامت تک آنسو اور سسکیاں نہیں تھمنے پائیں
گی۔ یزید مَر گیا۔ اس کا نام مِٹ گیا۔ اس کا تشخص مِٹ گیا۔ لیکن حسین کا
نام آج بھی زندہ ہے۔ اس کا پیغام آج بھی زندہ ہے۔ یہ ہزاروں کا مجمع، یہ
اُمنڈتے ہوئے محبتوں کے جذبات، اِن آنکھوں کا آنسوؤں کا خراج دینا؛ کیا یہ
حسین ابن علی کی زندگی کی دلیل نہیں ہے؟
کون ہے جو یزید کا نام لیتا ہے؟ آج اگر کوئی یزید کا نام لیتا بھی ہے تو سر
جھکا کے لیتا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کیسا تمہارا لیڈر ہے؟ جس کا نام لینے سے
قبل شرمندہ ہوتے ہو۔ جس کا نام لیتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہو۔ جس کا نام لینے
کے بعد پسینہ پسینہ ہوتے ہو۔ تم اپنے قائد اور لیڈر کا نام لیتے ہوئے
جھجھکتے ہو۔ گردن جھکا کے دائیں بائیں دیکھ کے نام لیتے ہو۔ اور جب ہم اپنے
آقاکا نام لیتے ہیں سَر اُٹھا کے لیتے ہیں۔
اے حسین ابنِ علی تم پر سلام
نازشِ آلِ نبی تم پر سلام
صاحبو! کربلا کا تپتا ہوا منظر ہے۔ اتنے دکھ آگئے …… حضرت سرّی سقطی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے جب کائنات کو بنایا ۔ انسانوں کو
تخلیق کیا۔ تو انسانوں کو پوچھا کہ بتاؤ تم میرے ہوؤ گے ؟ سب نے کہا ہاں !
مالک ہم تیرے ہیں۔ لیکن جب دنیا کو پیدا کیا تو ۹؍ حصے دنیا کی طرف ہوگئے۔
ایک حصہ اﷲ کی طرف رہ گیا۔ پھر جب عقبیٰ کو پیدا کیا ؛ جو دسواں حصہ تھا اس
میں سے پھر ۹؍ حصے آخرت کی طرف ہوگئے۔ جنت دوزخ کی لالچ میں ہوگئے۔ اور صرف
ایک حصہ کہنے لگا کہ نہ ہم جنت کو دیکھے ہیں نہ دوزخ کو دیکھتے ہیں۔مالک!
ہم تو تجھے دیکھتے ہیں۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے بلاؤں کو پیدا کیا آزمائشوں
اور امتحانوں کو پیدا کیا؛ تو دسویں حصے کے اُس دسویں حصے میں پھر ۹؍ حصے
وہ پیچھے ہٹ گئے۔ ایک حصہ ایسا تھا جس نے گردن جھکا کر کہا کہ زمین و آسمان
کی بلائیں بنا کے ہمارے گلے کا طوق بنا دے (پھر بھی) ہم تیرے راستے سے نہیں
ہٹیں گے …… کربلا کے تپتے ہوئے ریگ زار میں وہ منظر رقم ہونے والا ہے۔ ایک
قربانی منیٰ میں ہوئی تھی؛
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
وہاں دنبہ آگیا۔ آگے ۱۰۰؍ اونٹ آگئے۔اور آج حضرت امام حسین کربلا کے تپتے
ہوئے ریگ زار میں ۲۲؍ ہزار کے لشکر کے سامنے کھڑے ہیں۔کہا لوگو! میرا حق
پہچانو! میرے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگو! مجھے پہچانتے ہو کہ مَیں کون ہوں؟
کہا لوگو! جلدی نہ کرو! میرے حق کو پہچانو۔ اس وقت روئے زمین پر کسی نبی کی
بیٹی کا بیٹا موجود نہیں ہے۔ لوگو! میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ میرے خون سے اپنے
آپ کو ابدی بد بختیوں کا شکار نہ کرنا۔ بلکہ آپ نے نام لے لے کے فرمایا ک
اے فلاں بن فلاں؛ نام لے کر کہا۔ کہا کہ تم نے خود ہی خط لکھے تھے۔ انہوں
نے کہا کہ ہم نے خط نہیں لکھے۔ آپ نے چمڑے کے تھیلے کو اُلٹ دیا۔ کہا یہ
تمہارے خط ہیں۔ اور آج تم مکر گئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ سیدھی سی بات ہے کہ
یا تو بیعت کرو یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔
حضرت امام حسین نے کہا کہ کیسی بات کرتے ہو؛ اگر مَیں نے بیعت کرنی ہوتی تو
مدینہ کیوں چھوڑتا؟ اس جائے پناہ کو کیوں چھوڑتا؟ دولت کی تجوریاں کھول دی
گئیں۔ پیش کشیں کی گئیں۔ حضرت امام حسین نے فرمایا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
جسے صرف حق ہی قبول ہو؛ یہی جس کا اصلِ اصول ہو
جو نہ بِک سکے جو نہ جھک سکے اسے کربلائیں ہی راس ہیں
پھر جبر کی آندھی چلی۔ ایک ایک کرکے جاں نثار راہِ خدا میں قربان ہوتا گیا۔
پھر خاندانِ نبوت کی باری آئی۔ حضرت علی اکبر؛ حضرت امام کے جواں سال بیٹے؛
راہ خدا میں جان پیش کرتے ہیں۔ بھتیجے قاسم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جان قربان
کرتے ہیں۔ حضرت عباس کے بازو قلم ہوتے ہیں۔ جو خود جا سکتے تھے وہ خود اپنی
قربانی پیش کرتے ہیں۔ اور صاحبو! اب یارا نہیں؛ جو خود جا نہیں سکتے تھے آپ
خود ہاتھوں پہ اُٹھا کے فرات کے کنارے پہ لے جاتے ہیں۔ کہا جو آسکتے تھے وہ
تو قدموں پہ چل کے آگئے۔ اور جو قدموں پہ نہیں چل سکتے تھے؛ مَیں اُنہیں
اُٹھا کے لے آیا ہوں۔ پھر ایک دو شاخہ تیر حلقِ علی اصغر میں پیوست ہوتا
ہے۔ خون چُلّوں میں لے کر آسمان کی طرف اُچھالتے ہیں۔ اور پھر اﷲ کی بارگاہ
میں عرض کرتے ہیں ربنا تقبل منا ھذا القربان۔ میرے مالک! حسین کی یہ قربانی
بھی قبول فرمالے…… یہ کام آسان نہیں ہے۔ جگر پارہ ہاتھوں میں تڑپ کے ٹھنڈا
ہوجائے اور پھر بھی صبر کا مظاہرہ کیا جائے؛ اور اﷲ کی رضا پہ راضی ہوجائے۔
اب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تنہا رہ گئے۔ ایک ایک کو رخصت کر رہے
تھے؛ شہادت کا دولہا بنا کر۔ لیکن اب امام حسین کو رخصت کرنے والا کوئی
موجود نہیں ہے۔ آپ گھوڑے پہ سوار ہوئے۔ میدان کربلا کی طرف ایڑ لگائی۔ خیمے
کے اندر جو خواتین تھیں؛ وہ جانتی تھیں کہ جو اس راستے گیا پھر پلٹ کے نہیں
آیا۔اس کی لاش حضرت امام اپنے کندھوں پہ اُٹھا کے لائے ہیں۔ اب اِس حسین
ابن علی کی لاش کون اُٹھائے گا؟ سب نے کہا کہ حسین ابھی نہ جائیو۔ کہا مَیں
نانے کے دین کے لیے جا رہا ہوں۔ میدانِ عمل میں گئے۔ تیغِ براں چمکی۔ لوگوں
کے سَر کاٹ رہی ہے۔ آواز آرہی ہے
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
لباس ہے پھٹا ہوا غبار سے اَٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چھِدا ہوا کٹا ہوا
نبی کا نورِ عین ہے ، یہ بالیقیں حسین ہے
حسین ابن علی نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگ زار کے اندر وہ عزیمت کی داستانیں
رقم کیں اور پھر تیروں کی بوچھار ، ایک تنہا سید زادہ اور ہزاروں تیر چاروں
سمت سے ان کے اوپر برسنے لگے۔ کسی نے نیزہ مارا کسی نے تیر مارا۔ جب حضرت
امام حسین گھوڑے کی زین سے نیچے اُترے تو اس وقت آپ کے بدن پر ۳۳؍ زخم
تلواروں کے تھے، ۳۴؍ نیزے کی اَنیاں آپ کے جسم کے اندر گُھپی ہوئی تھیں۔
اور محتاط روایات کے مطابق جب بعد میں آپ کا پیرہن اُتارا گیا تو اس کے
اندر ۱۱۳؍ سراخ تیروں کے نکلے۔ اور وہ تیر جسم میں پیوست تھے۔اور جب گھوڑے
کی زین سے فرشِ زمین پر تشریف لائے ؛ لگا جس طرح رحل سے قرآن تشریف لارہا
ہو۔ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب گھوڑے کی زین سے فرشِ زمین پر
تشریف لائے تو وہ تیر جو جسم میں گُھپے تھے وہ اور پیوست ہوگئے۔ خونِ مشک
بو ریت کے ذروں پہ بہنے لگا، اسلام کا دل دھرتی کے اوپر ہے۔ کائنات رعشہ
میں آگئی۔ کربلا کی دھرتی کا کلیجہ کانپ رہا ہے۔
حضرت امِ سلمہ کو حضور نے کربلا کی مٹی دی تھی اور کہا تھا کہ یہ جب خون بن
جائے تو سمجھ لینا کہ میرا حسین شہید کردیا گیا ہے۔ وہ مدینے کے اندر خواب
دیکھتی ہیں کہ آقا کریم علیہ السلام کی داڑھی مبارک کے اندر گرد و غبار پڑی
ہوئی ہے۔ اور بال اُلجھے ہوئے ہیں ۔ گھبرا کے اُٹھ کھڑی ہوئیں کہ کیا ماجرا
ہے؟ اور جلدی سے اس شیشی کو دیکھا تو اس شیشی میں جو مٹی رکھی ہوئی تھی وہ
خون بن گیا تھا۔ اور آپ نے کہا کہ اے اہل مدینہ سن لو! حضرت امام حسین شہید
کر دیے گئے ہیں۔ ادھر امام حسین خون اور خاک میں تڑپ رہے ہیں اور آپ کے جسم
نازک پہ برچھیوں تیغوں اور تلواروں کے ساتھ لوگ وار کرہے ہیں۔ سنان بن انس
نخعی آگے بڑھا لیکن سر کاٹنے کی ہمت نہ پڑی اس نے نیزہ مارا اور آپ کے گلے
کے قریب وہ نیزہ پار کر گیا۔ اور خون کا فوارہ پھونٹا۔ اور ایک یزیدی نے آپ
کی پیشانی پہ نیزہ مارا۔ آپ گھبرا کے گرے ، اٹھے اور پھر گر گئے۔ اور پھر
آپ نے اپنی پیشانی سجدے میں رکھ دی۔ اپنا خون جو تھا وہ چہرے پہ مل لیا۔
حسین نے سرخ رنگ کے خون کا جو خضاب تھا وہ اپنی داڑھی پہ لگا لیا۔ کہ مَیں
اپنے نانا کو یہ رنگت بھی دکھاؤں گا۔
حرم کی وہ داستاں؛ جو منیٰ سے شروع ہوئی تھی آج اس کی تکمیل ہورہی ہے۔ وہ
غریب و سادہ اور رنگیں داستاں؛ حضرت امام حسین رقم کررہے ہیں۔ خون سے داڑھی
رنگ گئی۔ اور آپ کے ماتھے کے اوپرجو نیزہ مارا گیا تھا؛ اس سے آپ سنبھل نہ
سکے۔ اُٹھ کے پھر نیچے گرے۔ پیشانی کو سجدے میں رکھا اور سجدے میں رکھ کے
اﷲ کی بارگاہ میں آخری لفظ جو میرے امام کی زبان کی سے نکلے؛ دلوں کی
تختیوں پہ نوٹ کرلو۔ اور دیکھو اﷲ تعالیٰ کے بندے حضرت خلیل نے جو دعا
مانگی تھی کہ اے میرے مالک! مَیں اس جگہ پہ اپنی ذریت کو، اولاد کو چھوڑ کے
آباد کرکے جارہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ نماز کو قائم رکھے۔ آج اس دعا
کی تکمیل کا منظر لوگوں کے سامنے ہے۔ کہ ایک۱۱۳؍ تیر جسم میں گُھبے ہیں۔
۳۴؍تلواروں کے گھاؤ اور وہ بھی راوی کہتے ہیں کہ ایک ایک گھاؤ میں کتنے
کتنے تلواروں کے زخم تھے اور نیزے کی اَنیاں جسم میں گُھبی ہوئی تھیں۔ آپ
کے کلیجے کے اندر نیزے کی اَنی کو توڑ دیا گیا تھا۔ اس موقع پہ حضرت امام
حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو سنبھال کے پیشانی کو ریت کے اوپر
رکھا۔ اور اﷲ کی بارگاہ میں آخری لفظ حضرت امام حسین کے لبوں پر جو سج رہے
ہیں؛ خون نکل رہا تھا اور خولی بن یزید آگے بڑھ کے سَرِ انور کو جُدا کرنے
کی تیاریاں کر رہا تھا۔ سنان بن انس نخعی آگے بڑھا لیکن کپکپا کے پیچھے
ہوگیا۔ خولی بن یزید آگے بڑھا وہ بھی پیچھے ہوگیا۔ پھر شمر آیا اور شمر آپ
کے جسمِ نازک کے اوپر بیٹھ گیا۔ حضرت امام حسین نے دیکھا تو اس کے بدن کے
اوپر برص (پھول بیری)کے نشان تھے۔ تو حضرت امام حسین کی زبان سے نکلا صدق
اللّٰہ و صدق رسول اللّٰہ میرے اﷲ اور میرے آقا نے سچ کہا۔ اُس نے پوچھا
کیا سچ کہا؟ فرمایا کہ ایک دن مَیں حضور کی خدمت میں حاضر تھا۔ تو حضور نے
فرمایا تھا کہ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ایک چت کبرا کُتا میری اولاد کے خون
میں منہ مار رہا ہے۔ آج مَیں دیکھ رہا ہوں کہ مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
کا وہ فرمان پورا ہورہا ہے۔ وہ غصے میں آیا۔ امام نے جلدی اپنی پیشانی سجدے
میں رکھی۔اور اﷲ کی بارگاہ میں امام کے آخری لفظ تھے اللّٰھم رضاً بقضائک و
صبراً علیٰ بلائک تسلیماً لأمرک سبحان ربی الاعلی سبحان ربی الاعلی سبحان
ربی الاعلی مالک! بھائی ، بیٹے ، بھتیجے، بھانجے، جاں نثار، اعیان و انصار،
سب کچھ لُٹا کے، عباس کے بازو کٹا کے، جو جاسکتے تھے انہیں بھیج کے ، جو جا
نہیں سکتے تھے اُنہیں خود اُٹھا کے لے جاکر کے؛ یہ ان خیموں کے اندر بچیاں
یتیم ہوگئی ہیں، سہاگ اُجڑ گئے ہیں؛ میرے مالک! سب کچھ لُٹا کے، نبی کا گھر
اُجڑ گیا، ایک ایک پتّی جھڑ گی؛ جن کو بُلایا گیا تھا آج ان کی میزبانی تیر
و تلواروں اور نیزوں سے ہوئی۔ لیکن مالک! تُو نے دیکھا کہ میری زبان پہ
ہائے نہیں آئی۔ مَیں نے اُف تک نہیں کی
زخم پہ زخم کھا کے جی خونِ جگر کے گھونٹ پی
آہ نہ کر! لبوں کو سی یہ عشق ہے دل لگی نہیں
یہ محبت ہے۔ یہاں لوگ مصلوب بھی ہوتے ہیں۔ یہاں لوگ سولی بھی چڑھتے ہیں۔
حکم ہوتا ہے خبر دار اگر آہ بھی کی تو صابروں سے نام کاٹ دوں گا۔ کہا مالک!
اللّٰھم رضاً بقضائک جو تقدی تھی مَیں اس پہ راضی ہوگیا۔ و صبراً علیٰ
بلائک مالک ! تُو نے دیکھا کہ مَیں نے صبر بھی کیا۔ تسلیماً لأمرک مجھے
مالک سے ناراضی بھی کچھ نہیں؛ جو تیرا حکم تھا مَیں نے اس کو تسلیم بھی
کرلیا۔ سبحان ربی الاعلی مالک ! تُو بڑا ہے تُو بڑا۔ حسین سب کچھ لٹاکے، سر
کٹاکے،بازو کٹا کے، گھر اُجاڑ کے؛ مالک! تیری بارگاہ میں حاضر ہورہا ہے اور
اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی تیرے پہ راضی ہے۔ میرے مالک! تُو بھی بتا کہ
تُو بھی حسین سے راضی ہوا ہے بھی کہ نہیں ہوا ہے؟ تُو بھی حسین سے راضی ہوا
ہے کہ نہیں ہوا؟ آواز آئی
اس پیاسے پر علی شیرِ خدا کو ناز ہے
اس نواسے پر محمد مصطفی کو ناز ہے
اوروں نے بھی سجدے کیے، اس کا عجب انداز ہے
اس نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے
میرے ساتھ مل کر کہو
اے حسین ابن علی تم پر سلام
نازِشِ آلِ نبی تم پر سلام
یہی وقت تھا؛ جب خاندانِ نبوت لُٹ رہا تھا۔ دوپہر کا وہی سما ، وہی لمحے ،
ان ہواؤں کو ہاتھ جوڑ کے کہو کہ ہمارا سلام کربلا والے آقا کے حضور پہنچا
دے۔اور عرض کرو
اے حسین ابن علی تم پر سلام
نازِشِ آلِ نبی تم پر سلام
تم پہ لاکھوں رحمتیں لاکھوں سلام
اے شہیدانِ محبت کے امام
لالہ روٗ لالہ بدن لالہ کفن
اے چمن اندر چمن اندر چمن
زندگی ہی زندگی تیری حیات
اے حیات اندر حیات اندر حیات
افتخارِ ملتِ بیضا ہے تُو
ربِ کعبہ کی قسم یکتا ہے تُو
فخر کا دل میں دریچہ باز کرنا چاہیے
جن کا تو آقا ہے ان کو ناز کرنا چاہیے
ہم ’’واہ حسین‘‘ والے ہیں؛ ’’آہ حسین‘‘ والے نہیں ہے۔ واہ حسین تیرے عظمتوں
کو سلام۔ کوہِ ہمالیہ کا کلیجہ بھی پھٹ جاتا۔ شق ہوجاتا۔ لیکن اتنے زخم
کلیجے پر ؛ جواں بیٹے کی لاش کو کندھوں پہ اُٹھا کے لانا کوئی مذاق تو نہیں
ہے!…… حضرت امام حسین نے جبر کے خلاف کھڑے ہوکر قیامت تک کے لیے ایک راہِ
عمل چھوڑا۔حضرت اقبال خراج پیش کرتے ہیں :
آں امامِ عاشقاں پورِ بتول
سروِ آزادِ زِ بستانِ رسول
اﷲ اﷲ بائے بسم اﷲ پدر
معنیِ ذبحِ عظیم آمد پسر
سرخ رو عشقِ غیور از خونِ اُو
شوخیِ ایں مصرع از مضمونِ اُو
تا قیامت قطع استبداد کرد
موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد
اقبال کہتا ہے کہ عشقِ غیور کے چہرے پہ جو سرخی اور بانک پن ہے ؛ وہ حسین
ابنِ علی کے خون کا صدقہ ہے۔ قیامت تک کے لیے جبر کے خلاف جتنی بھی قومیں
اُٹھیں گی؛ اور جتنے بھی لوگ میدانِ عمل میں آئیں گے مَیں ہر سال کہا کرتا
ہوں کہ سب کا قائد حسین ابنِ علی ہوگا۔ گاندھی جی نے جب اپنی قوم کو کہا کہ
برطانوی سامراج کے خلاف کھڑے ہوجاؤ اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک ہندو
گاندھی جی نے کہا تھا کہ تم کہو گے کہ وہ حکومت جس سلطنت میں سورج طلوع اور
غرب بھی ہوتا ہے۔ اس سے ٹکرانا حماقت ہے۔ خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن
اس کے با وجود مَیں کیوں کَہ رہ ہوں؟ کہ اس سامراج کے خلاف کھڑے ہوجاؤ ۔
گاندھی جی نے کہا تھا اس لیے کہ میرے سامنے حسین ابن علی کا کردار موجود
ہے۔
آج پوری دنیا کے اندر ظلم اور جبر کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ اور اس وقت امت
مسلمہ کو کردارِ حسین ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نام حسین ابن علی کا
لیں اور کرتوتیں اور لچھن سارے یزید والے ہوں؛ تو لفظ لفظ حرف حرف اور قدم
قدم حضرت امام ہمام سے منافقت ہے ۔ آؤ! اگر مَیں نامِ حسین لیتا ہوں تو گھر
بھی اُجڑ جائے تو بھی حق کا پرچم کبھی نہ گرنے دوں۔ مَیں اور آپ اس عزم کے
ساتھ میدانِ عمل میں اُتریں۔ ادارۃ المصطفیٰ کسی تنظیم کا نام نہیں۔ یہ ایک
فکر کانام ہے۔ ایک تحریک کا نام ہے۔ ایک مشن اور ایک انقلاب کا نام ہے۔ یہ
روحوں میں ہلچل پیدا کرنے کے جذبوں کا نام ہے۔ یہ مصطفی کریم کے در پر
سلامی دینے کا نام ہے۔ یہ اپنا سب کچھ مصطفی جانِ رحمت پہ قربان کردینے کا
نام ہے۔ آؤ ! ادارۃ المصطفیٰ کے پلیٹ فارم سے میدانِ عمل میں نکلیں۔ حضرت
حسین نے اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو تھام لیا۔ اور جبر کی آندھیوں کے
مقابلے میں بھی اس پرچم کو خم نہیں ہونے دیا۔ آج مَیں اور آپ ان کا مشن ان
کی فکر لے کر میدانِ عمل میں نکل آئیں۔ قرآن کا پھریرا بنا کر قرآن کا پرچم
سینوں میں تھام کر اہلِ بیت کی محبت اپنے سینوں میں لے کر میدانِ عمل میں
نکلیں اور قرآن کی دعوت گھر گھر دیں۔ اب رکنا نہیں ، اب تھمنا نہیں ، فردوس
میں جاکے دم لینا۔
آفاق کے ہر ہر گوشے میں قرآن سنا کے دم لینا
اب رکنا نہیں اب تھمنا نہیں فردوس میں جاکے دم لینا
یہ اُٹھنے والے قدم آگے بڑھتے رہیں۔ یہ درس قرآن کا جو قافلہ ملک کے طول و
عرض کے اندر رواں داں ہے؛ اس میں ایک جوش پیدا ہوجائے اور اس کے اندر ایک
انقلاب پیدا ہوجائے؛ کوئی گھر ایسا نہ رہے؛ کوئی بستی ایسی نہ رہے؛ کوئی
کان ایسا نہ رہے کہ جس کان تک قرآن کا نغمہ نہ پہنچنے پائے۔ ادارۃ المصطفیٰ
کے جواں سال مبلغ گلی گلی کوچے کوچے پھیل جائیں اور جو داعی ہیں، دعوت دینے
والے ہیں اگر وہ خود پیغام پہنچا سکتے ہیں تو اسہد بلال عند اللّٰہ اشہد
بلال کی اسہد بھی اﷲ کو قبول ہے۔ وہ ٹوٹے پھوٹے لفظ لے کر میدانِ عمل میں
نکل آئیں؛ ورنہ وہ سی ڈیز لے لیں، وہ اور کوئی کتب لے لیں،وہ دین کا نعرہ
لے لیں، وہ پیغامِ حق لے لیں؛ اور گلی گلی کوچہ کوچہ اُسوۂ شبیری اور نامِ
حسین کی دُہائی دیتے چلے جائیں۔
آج میرے وطن میں منافرت کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ صوبائی عصبیتوں کے طوفان
اُٹھ رہے ہیں۔اسلامی حکومت کا جو حامی ہے؛ حرامی ہے حرامی ہے؛ کے نعرے گونج
رہے ہیں۔ اس وقت حکومتوں کو اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ ملک لُٹتا ہے ، لوگ
روٹی کے نوالے کے لیے ترستے ہیں، اٹھارہ اٹھارہ روپیے میں روٹی بِک رہی ہے؛
ان کو کچھ پرواہ نہیں ہے۔ انہوں نے ملک نہیں بنایا انہوں نے ملک میں عیش
کیا۔ ملک کے وسائل کو لوٹا۔ مجھے تو وہ بزرگ یاد آرہے ہیں؛ جنہوں نے اپنی
جوانیاں اس ملک کے لیے وقف کردیں۔ لا الہ الااﷲ کی سر بلندی کے لیے ماؤں نے
اپنی ممتا بھری گودیاں قربان کردیں۔ کسی نے اپنا سہاگ اُجاڑ دیا۔ اس وطن کے
لیے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ آج اس وطن کے اوپر مشکل حالات ہیں۔ آؤ!
ہمیں مل کر اس ملک کو بچانا ہے۔ روحِ حسین سے خراج مانگیں۔ اور حضرت امام
حسین سے عرض کریں کہ اے امامِ پاک! ہمارے جذبوں کو قوت دے دو۔ اپنے خون کی
حرارت؛ ہمارے خون میں ڈال دو۔ اور ہمارے دلوں کو حریمِ قدس سے آشنا کردو۔
اﷲ مجھے آپ کو اپنی راہوں کا مسافر بنائے۔
کارِ ما آخر شد و آخر ز ما کارِ نہ شد
مشتِ خاکِ ما غبارِ کوچۂ یارِ نہ شد
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین!
31-07-2018٭٭٭
|