آسام این آر سیNational Register of Citizens کی فائنل
فہرست آج جاری ہوگئی ہے جس میں صرف 2.9 لاکھ عوام کو ہندوستانی شہری تسلیم
کیاگیاہے بقیہ 4007707 شہری کو غیر قانونی تصور کیاگیاہے ۔ 32991384 لوگوں
نے شہریت کے اندراج کیلئے درخواست دی تھی ۔این آر سی کی پہلی فہرست 31
دسمبر 2017 میں جاری کی گئی تھی جس میں 1.9 کروڑ لوگوں کا نام تھا آج 30
جولائی 2018 کی پہلی والی لسٹ کو ضم کرکے فائنل فہرست جاری کردی گئی ہے جس
میں 3.29 کروڑ میں سے 2898367لوگوں کا نام شامل ہے ۔جن لوگوں کا فائنل
فہرست میں نام شامل نہیں ہے اپنی شہریت کے ثبوت کا ایک اور موقع دیاجائے
گاجس کا آغاز سات اگست سے ہوگا ۔
ہندوستان میں پہلی مرتبہ قومی رجسٹر برائے شہریت پر 1951 میں کا م ہواتھا
جس کا مقصد ہندوستانی شہریوں قانون کے دائرے میں لاناتھا،اس فہرست میں 9151
تک ہندوستان آنے والے تما م لوگوں کو شامل کیاگیاتھا ، سٹیزن شپ ایکٹ1955کے
ذریعہ اس فہرست کو حتمی شکل دے گئی اور تمام لوگوں کو شہری تسلیم کیاگیا ۔
1979 میں آل آسام اسٹوڈینٹ یونین All Assam Student Union (AASU) اور آل
اسام سنگرام گن پریشد All Assam Gan Sangram Parishad نے یہ تحریک چھیڑی
دکہ لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیشی آسام میں آکر پناہ لے چکے ہیں ،ان کی
وجہ سے آسام کی آبادی خطرے میں ہے ،انتخابات موثر ہورہے ہیں انہیں برطرف
کیاجائے ۔آسو اور اے اے جی ایس پی کی یہ تحریک پور ے صوبے میں پھیل گئی ،ان
لوگوں نے الزام عائد کیاکہ 1971 میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے
درمیان جوجنگ ہوئی تھی اس کے بعد لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیشی آسام میں
آکر پناہ لے چکے ہیں اور دوبارہ وہ یہاں سے نہیں گئے ہیں ۔ ان کی وجہ سے
آسام کا جغرافیہ تبدیل ہوجائے گا ،آدی واسیوں کی وجہ سے پہلے سے ہی آسامیوں
کو پریشانیوں کا سامنا ہے بنگلہ دیشی مسلمانوں کی وجہ سے مزید مسائل بڑھ
جائیں گے ۔
یہ احتجاج مسلسل بڑھتا رہاہے،اسی دوران آسام گن پریشد پارٹی کا وجود عمل
میں آگیا ،مرکزی حکومت مظاہرین کے سامنے گھٹنہ ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔چھ
سالوں کے بعد1985میں مرکزی حکومت ۔ آسو اور اے اے جی ایس پی کے درمیان ایک
معاہدہ عمل میں آیاجسے آسام اکورڈ Assam Accordکہا جاتاہے ۔ اس معاہدہ میں
اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ 1951 میں جن لوگو ں کا اندراج ہواتھا،اس کے
علاوہ 1951 سے 1961 اور 1961 24؍مارچ 1971 تک جو لوگ آسام میں تھے سبھی کو
آسام اور متحدہ ہندوستان کا شہری تسلیم کیا جائے گا ۔ معاہدہ میں یہ بھی طے
پاتا تھاکہ قومی رجسٹر برائے شہریت کا کام دوبار ہ شروع کیا جائے گا اور25
مارچ 1971 کے بعد ہندوستان آنے والوں کا شہری تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔24
مارچ کی تاریخ ڈیڈلائن بنائی گئی تھی کیوں کہ 25 مارچ کو ہندوستان نے مشرقی
پاکستان کے ساتھ ملکر جنگ کا اعلان کیاتھا ۔
صوبہ میں دس سالوں تک کانگریس کی حکومت رہی جس نے این آرسی کے کاموں پر
کوئی توجہ نہیں دی ۔مسلسل ہورہے احتجاج اور مظاہرے کے بعد سپریم کورٹ نے
2015 میں اپنی نگرانی میں این آرسی کا کام شروع کرنے کا حکم دیا تاہم اس
میں کوئی تیزی نہیں دیکھی گئی ۔2016 میں جیسے ہی آسام میں بی جے پی کی
حکومت بن گئی این آر سی اور غیر ملکی شہریت کا مسئلہ وہاں ایشو
بنادیاگیااور این آرسی کاکام شروع کردیاگیا ۔این آر سی میں نام کے اندراج
کیلئے ایک خاکہ تیار کیاگیا تھا اور سولہ طرح کے دستاویزات کو معتبر ماننے
کا فیصلہ کیاگیاتھا جس میں ووٹر آئی ڈی کارڈ ،پین کارڈ ،برتھ سرٹفیکٹ،ڈگری
جیسی دستاویزات کے ساتھ پنچایت سرٹفکیٹ کو بھی معتبر ماناگیاتھی۔آسام کی بی
جے پی حکومت نے پنچایت سرٹفیکٹ کو معتبر ماننے سے انکاکرتے ہوئے خارج
کردیااور کہاکہ پنچایت سرٹفکیت این آر سی میں اندراج کیلئے کافی نہیں ہے جس
کے بعد جمعیۃ علماء ہند آسام، ایم پی مولانا بدرالدین اجمل ،مولانا ارشد
مدنی اور کئی تنظیموں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاجہاں سے یہ فیصلہ
آیاکہ پنچایت سرٹفکیٹ کو بھی معتبر ماناجائے ۔آج جب این آر سی کی فائنل
فہرست جاری کی گئی ہے تو اسے دیکھ کر ایسالگتاہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات
کو نظر انداز کردیاگیاہے ۔
چندماہ قبل این آر سی کیس کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے ملت ٹائمز سے ایک
مباحثہ کے دوران نے بتایاتھاکہ این آرسی میں ناموں کے اندراج کے وقت جانب
داری اور تعصب سے کام لیاجارہاہے ،ناموں کی اسپیلنگ میں غلطی ہونے کی وجہ
سے رجیکٹ کردیاجارہاہے جبکہ آسام میں بیشتر مسلمانوں کا نام غلط لکھ
دیاگیاہے ،غربت ،جہالت اور دیہات ہونے کی وجہ سے دس سال پہلے تک برتھ
سرٹفیکٹ بنانے کا کوئی تصور نہیں تھا نہ ہی تعلیم کی جانب توجہ تھی ایسی
کچھ مجبور یاں ہیں جس کی بنیاد پر کچھ لوگوں کے پاس سرٹفکیٹ نہیں ہے لیکن
اس بات کے حتمی ثبوت ہیں وہ کئی نسلوں سے آسام میں آباد ہیں ،پنچایت سے
سرٹفیکٹ بھی ان کیلئے جاری کردیاگیاہے اس کے باوجود انہیں پریشان
کیاجارہاہے ۔آسام کانگریس لیڈر محترمہ بے نظیر عارفہ نے آج ملت ٹائمز سے
بات کرتے ہوئے بتایاکہ جن چالیس لاکھ لوگوں کا نام این آرسی میں نہیں ہے ان
میں بیشتر مسلم خواتین ہیں ،کئی فیملی ایسی ہیں جہاں باپ ،ماں اور کئی رشتہ
داروں کا نام ہے لیکن لڑکی کا نام نہیں ہے ۔
جمہوریت کی سب بے بڑی طاقت ووٹ دینے کا اختیار ہوتاہے ،اگر کسی شہری سے یہ
اختیار چھین لیاجاتاہے تو پھر اس کی حیثیت مہاجر او ر دوسرے درجے کے شہری
کی ہوتی ہے ،چند ماہ قبل پروفیسر امیر اﷲ خان نے اپنی تحقیق میں بتایاکہ
تھاکہ ہندوستان کے بیس فیصد مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ میں نہیں ہے ۔ ووٹر
لسٹ میں نام کا نہ ہونا یا ووٹنگ کا اختیار حاصل نہ ہونا الیکشن پر سب سے
زیادہ اثر انداز ہوتاہے اور ایک مخصوص نظریہ کی پارٹی کو اس کا سب سے زیادہ
فائدہ ملتاہے ، مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور دیگر سیاسی لیڈروں
کے اس موقف میں سچائی جھلک رہی ہے کہ ووٹ بینک کی خاطر بی جے پی نے چالیس
لاکھ لوگوں کا نام این آر سی سے حذف کردیاگیاہے ۔آسام حکومت نے اس بات کی
یقین دہانی کرائی ہے کہ جن لوگوں کا نام آخری ڈرافٹ میں نہیں ہے انہیں 7
اگست سے 30 اگست کے درمیان دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع دیاجائے گا
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کیا بعد میں جن لوگوں کو شہری تسلیم کیا جائے گا
انہیں بھی وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو این آر سی کی فائنل فہرست میں
شامل افراد کو ہے؟،جو لوگ شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جبکہ وہ
برسوں سے یہاں نہ صرف آباد ہیں بلکہ یہاں کے شہری ہیں ان کے ساتھ کیا کیا
جائے گا ؟کیا آسام میں بھی برما جیسی کہانی دہرائے گی ؟ ایسے تمام سولات کا
تشفی بخش جواب ملناابھی باقی ہے ؟۔ |