ملک میں بی جے پی کے اثر و رسوخ بڑھنے کا مطلب صرف یہ
نہیں ہے کہ اس کا نظریہ اور سنگھ پریوار کا نظریہ کا دائرہ وسیع ہو جائے گا
یا بڑھ گیا ہے ، صرف اس کا حلقہ بڑھ جانا نہیں ہے، یا ہر جگہ شاکھاہوں کا
کھل جانا نہیں ہے یا اس کے ہر جگہ شیشو مندر، شیشوبال مندر کا کھل جانا
نہیں ہے بلکہ ان تمام حلقوں پر پڑنے والے مضر اثرات بھی ہیں جو نفرت کی شکل
میں منتج ہورہے ہیں۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت اخلاقی اقدار پر مبنی
ہے ، ہندوستانی اقدار کی علمبردار ہے یا دیش بھکت تنظیم ہے وہ جہالت کے
اندھیرے میں ہیں،اس کے صرف چند لوگوں کو دیکھ کر یہ نظریہ قائم کرلیتے ہیں
کہ وہ بہت با اخلاق، زمینی آدمی، انسانوں کا احترام کرنے والے،لوگوں کا کام
آنے والے اور ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں
کچھ ہمارے کچھ بھی لوگ بھی ہیں،جو اس کے بہکاوے ،اس کے چھلاوے،اس کے فریب
اور اس کی مکاری میں آجاتے ہیں اور اس کے اخلاق اور انسانیت کی بات کرتے
ہیں اور اس کی خدمت کی بات کرتے ہیں لیکن اس تنظیم کو کبھی بھی اور کسی بھی
صورت میں انسانیت نواز،محب وطن اور اخلاقی اقدار کا حامل نہیں کہا جاسکتا
جو باغ کے خاص خاص پھول سے محبت کرے اور باقی سارے پھول کو روندنے پرآمادہ
ہو، ایک طبقے سے محبت کرے اور دوسروں سے نفرت کرنا سکھائے، جس تنظیم میں
عورتوں کومحض بچہ پیدا کرنے والی مشین سمجھا جائے، اس کے حقوق و اختیار کی
بات بالکل نہ کی جائے، عورتوں کو جانوروں سے تشبیہ دی جائے،جس تنظیم کی نظر
میں عورتوں کا علاج صرف ڈنڈا قرار دیا جائے وہ تنظیم جانوروں ، درندوں،
وحشیوں اور حیوانوں کی تنظیم تو ہوسکتی ہے لیکن انسان کی تنظیم قطعی نہیں
ہوسکتی ۔ منوسمرتی آر ایس ایس کی رہنما کتاب ہے اور اسی سے وہ اپنے شعبہ
حیات میں رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ آر ایس ایس والے دلتوں، مہادلتوں،
کمزورطبقوں اور خواتین کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ اس کی رہنما
کتاب منوسمرتی سے ہوتا ہے۔منوسمرتی ہندوستان کی ایک قدیم مذہبی کتاب ہے جس
میں پہلی بار ہندوستانیوں کے سامنے ایک نظام زندگی رکھا گیا تھا۔ ذات پات
کی تقسیم اس کتاب میں بدرجہ اتم موجود ہے۔منوسمرتی کے مطابق٭ شودر (اور
اچھوت) برہمن کے پاؤں سے پیدا ہوئے لہٰذا وہ ذلیل ترین ذات ہے۔٭ شودر کتنا
ہی ذہین اور باصلاحیت ہو، وہ دولت و جائداد جمع نہیں کر سکتا۔٭ شودر پر
تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔٭ براہمن چاہے، تو وہ شودر سے رقم چھین سکتا
ہے۔اسی طرح ہندوؤں کی کتاب مقدس منوسمرتی نے بدترین قانون اس پر لاگو کیا
کہ عورت کو ماہواری کے ا ایام میں نجس خیال کیا جاتا ہے اور وہ اس دوران
الگ تھلگ کردی جاتی اور شوہر کی موت کے بعد اس کا زندہ رہنا گناہ سمجھا
جاتا ہے۔یہی وجہ سے بی جے پی دلتوں سے ووٹ لینا جانتی ہے لیکن ان کو ان کے
حقوق سے دستبردار رکھنے کے لئے طرح طرح سے جتن کرتی ہے۔ بی جے پی کا اصلی
مالک آر ایس ایس ہے اور بی جے پی آر ایس ایس کی سیاسی بازو ہے جس کے ذریعہ
وہ اپنے ایجنڈے کا نفاذ کرتا ہے۔بہار کے مظفرپور میں 34بچیوں کی آبروریزی
کا واقعہ بی جے پی حکمرانی میں لگنے والاایک اور کلنک ہے۔اسلئے کہ جب سے
بہار میں بی جے پی کی حکومت میں آئی ہے وہاں درندگی اورآبروریزی کے واقعات
بڑھ گئے ہیں۔ دس پندرہ سال آ بروریزی کے واقعات کبھی کبھار ہی سننے میں آتے
تھے لیکن مجرموں کی دلیری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ نہ اس گھناؤنا واقعہ کو
انجام دے رہے ہیں بلکہ اس کا ویڈیو بھی ڈال رہے ہیں۔بی جے پی حکمرانی والی
ریاست میں بی جے پی کے لیڈران چکلہ چلاتے،لڑکیوں کی سپلائی،چھیڑ خانی کرتے
اورآبروریزی کے الزام میں گرفتارکئے گئے ہیں۔
مظفر پور بالیکا گھر(شیلٹر ہوم)میں رہنے والی 44 لڑکیوں میں سے 42 کی
میڈیکل جانچ کرائے جانے پر ان میں سے 34 کے جنسی استحصال کی تصدیق ہوئی ہے۔
دو لڑکیوں کے بیمارہونے کی وجہ سے ٹیسٹ نہیں کرایا گیا ہے۔ مظفر پور بالیکا
گھر کو چلانے والا اور سیوا سنکلپ سمیتی کا مالک برجیش ٹھاکر سمیت کل 10
ملزمان کرن کماری، منجو دیوی، اندو کماری، چندا دیوی، نیہا کماری، ہیما
مسیح، وکاس کمار اور روی کمار روشن کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ایک اورمفرور دلیپ کمار ورما کی گرفتاری کے لئے اشتہارات دیئے گئے ہیں۔بہت
شور شرابے کے بعد جب پولیس برجیش ٹھاکر سے پوچھ گچھ کے لئے ریمانڈ کی
درخواست دیتی ہے لیکن کورٹ نے ریمانڈ کی اجازت نہیں دی۔ پولیس نے دوبارہ
ریمانڈ کی درخواست کی تو عدالت نے کہا کہ جیل میں ہی پوچھ گچھ کیجیے۔ بعد
میں پولیس کہتی ہے کہ جیل میں برجیش ٹھاکر پوچھ گچھ میں کوئی تعاون نہیں
کرہاہے۔اس معاملہ کا انکشاف نہیں ہوتا اگر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے سماجی
سائنس اس کی تفتیش نہیں کرتی۔اس نے تفتیش کرکے اپنی رپورٹ کو 23 اپریل کو
بہار سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں پیش کی تھی لیکن کوئی خاص کارروائی نہیں
ہوئی۔اگر کشش نیوز نے اس کا انکشاف نہیں کیا ہوتا تو کسی کو بھنک تک نہیں
لگتی اور بچیوں کی عصمت دری ہوتی رہتی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بچیوں کی
آبروریزی ہوتی رہی ہے اور بہار سوتا رہا۔ آبرویزی کا شکار ہونے والی اس
شیلٹر ہوم میں لڑکیوں کی عمر 7 سے 15 سال کے درمیان ہے ۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ
آف سوشل سائنس جیسے ادارے نے اس لڑکی کے گھر کی سماجی تفتیش کی جس میں کچھ
لڑکیوں نے جنسی زیادتی کی شکایت کی ۔ اس کے بعد سے 28 مئی کو ایک ایف آئی
آر رجسٹر کیا گیا۔ یہاں رہنے والی لڑکیوں کی عصمت دری اور مسلسل جنسی
استحصال کی تصدیق کی گئی۔بچوں کے بیانات کو رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے،
تمام لڑکیوں نے برجیش ٹھاکر کے جنسی استحصال اورظلم و ستم کی بات کہی ہے ۔
اس کے علاوہ، حیران کن چیز یہ ہے کہ ہر رات لڑکیوں کو دوائیاں کو دی جاتی
تھی تاکہ لڑکیوں کو نیندآجائے جب وہ صبح اٹھتی تھی تو اس کے کپڑے بے ترتیب
، کھلے ہوتے تھے اور وہ شرمگاہ میں درد محسوس کرتی تھی۔لڑکیوں نے کہاکہ رات
کو آبروریزی کرتے تھے اور چھت پر لے جاکر ننگا کردیتے تھے اور سگریٹ سے
داغتے تھے۔ 16 صفحات کی تحقیقاتی رپورٹ میں، پولیس نے بچیوں کے گھر میں
لڑکیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی
ہے۔بہت سی لڑکیوں نے کہا کہ تنظیم میں کام کرنے والی خاتون کرن ان کے ساتھ
غلط کام کرتی تھی ۔ برجیش ٹھاکر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، بہت سی لڑکیوں
نے ایک بڑا پیٹ والا یا ہنٹر والے انکل کہا۔ رپورٹ میں برجیش ٹھاکرکے بارے
میں لکھا گیا تھا کہ اس کی پہنچ بہت زیادہ تھی ۔ اس کے پاس سیاسی، انتظامی،
پولیس، غنڈہ ہر طرح کی طاقت تھی اوریہاں تک کے میڈیا تک رسائی تھی ۔ برجیش
ٹھاکر اس بچیوں کے گھر کے علاوہ وہ بہت سے این جی او کا کرتا دھرتا تھا۔
برجیش ٹھاکر کے میڈیا تک رسائی کی وجہ سے میڈیا نے بھی اس معاملے کو صحیح
طریقے سے پیش نہیں کیا۔
لڑکیوں نے یہ بھی کہا کہ ہنٹر والے انکل کے ساتھ نیتاجی بھی آیا کرتے تھے
اور ان کی آبروریزی کیا کرتے تھے۔ نیتاجی کی شناخت سوشل ویلفیئر کی وزیر
منجو ورما کے شوہر چندریشور ورماکے طور پر ہوئی ہے۔ دراصل مظفر پور کے تحفظ
اطفال افسر روی کمار اس معاملے میں ملزم ہیں اور 10 ملزمان میں، روی کمار
کو بھی گرفتار کیا گیا ہے لیکن اب روی کمار کی بیوی نے الزام لگایا ہے کہ
سوشل ویلفیئر کی وزیر منجو ورما کے شوہر چندریشور ورما اکثربچیوں کے گھر
(بالیکاگھر) میں آتے تھے۔ الزام لگایا گیا ہے کہ چندیشور ورما کئی بار آتے
تھے۔ وہ اپنے افسران کے ساتھ وہاں آتے تھے لیکن سب کو نیچے چھوڑ کر خود
بالیکا گھر میں اوپرچلے جاتے تھے ۔ ایساانہوں نے کئی بار کیا۔ وہیں ان کا
ایک آڈیو ٹیپ بھی ہونے کی بات سامنے آئی ہے ۔تاہم، اس معاملے میں چندریشور
ورما نے میڈیا سے بات چیت میں اپنی صفائی میں کہا کہ وہ اپنی بیوی کے وزیر
بننے کے بعدایک بار بچیوں کا گھر آئے تھے لیکن پھر بچیوں کا گھر تو چھوڑیں
مظفر پوربھی کبھی نہیں آئے۔ بہار حکومت نے معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی سے
کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ تحفظ اطفال کمیشن کی صدر
ہرپال کور نے 21ستمبر 2017کو مظفرپور کے اس لڑکیوں کا گھر کا معائنہ کیا
تھااور اس پورے معاملے کی رپورٹ مظفر پور کے ڈی ایم کو دی تھی لیکن ڈی ایم
نے اس رپورٹ پرخاطیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔2013 سے2018تک کئی
ٹیمیں اس بالیکا گھر کی جانچ کی لیکن کسی ٹیم نے یہاں ہونے والے انسانیت
سوز اور پورے بہار کو شرمسار کرنے والے سانحہ کے بارے میں رپورٹ پیش نہیں
کی۔ اس سے صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برجیش ٹھاکر کی کہاں تک اور کن
لوگوں تک پہنچ تھی۔
ملک میں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے یا حکومت رہ چکی ہے یا اثر رکھتی ہے
وہاں جرائم کا اڈہ ہے اور بی جے پی کے بیشتر کارکنان، لیڈران، ایم پیز ،
ایم ایل ایز اور رہنما براہ راست یا بالواسطہ طور پر جرائم میں ملوث پائے
گئے ہیں خاص طور پر بی جے پی حکمرا نی والی ریاستوں میں خواتین کا استحصال
عام بات ہے۔اترپردیش کی ہی مثال لے لیں وہاں کے کئی رکن اسمبلی میں
آبروریزی کے معاملے میں جیل میں بند ہیں اور 45فیصد وزراء داغی ہیں۔ بی جے
پی کے بیشتر لیڈران پر پولیس کیس درج نہیں کرتی اور متاثرین کو تھانے سے
ڈرا دھمکا کریا مار پیٹ کر بھگا دیتی ہے اگر دباؤ میں کرتی بھی ہے تو ان پر
اتنی آسان دفعات کے تحت معاملہ درج کرتی ہے کہ ایک دو سماعت میں ہی ان کو
ضمانت مل جاتی ہے اور بے چارے متاثرین انصاف کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے پر
مجبور ہوتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کو ہی لے لیجئے خواتین اور بچیوں کے ساتھ
آبروریزی کے واقعات وہیں سب سے زیادہ پیش آتے ہیں ۔ یہ قومی جرائم بیورو کے
اعداد و شمار ہیں۔ اترپردیش میں یوگی حکومت کے آنے کے بعد کس طرح خواتین
اور لڑکیوں کے سلوک کیا گیا۔ سنگھ پریوار سے وابستہ غنڈے لڑکیوں کے ساتھ
چھیڑخانی اور جسمانی استحصال کرکے اس کا ویڈیو وائرل کیا۔اس وقت ماب لنچنگ
، چھیڑ خانی، قتل، شکل بدل کر مندروں کو گوشت پھینکنا، فرقہ وارنہ تشدد اور
دیگر جرائم میں بی جے پی یا سنگھ پریوار سے وابستہ افراد ہی ملوث پائے گئے
ہیں۔ اس سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں قانون کا قطعی خوف نہیں ہے
کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں جرائم کرنے والے، قتل عام کرنے
والے وزیر اعلی سے وزیر اعظم تک بنتے ہیں تو ان کو قانون کا کیوں خوف ہوگا۔
مظفرپور شیلٹر ہوم آبروریزی معاملہ سامنے آنے کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ
سارے شیلٹر ہوم، تمام ناری نکیتن (عورتوں کی پناہ گا)باباؤں کے تمام آ
شرموں، مندر میں موجود دیواداسیاں، برہما کماریاں اور اس طرح دیگر جگہوں پر
رہنے والی خواتین کی حقیقی صورت حال صورت حال ایک اعلی سطحًی سماجی کارکنوں
پر مشتمل کمیشن تشکیل دی جائے تاکہ وہ پتہ لگاسکیں کہ حقیقت ان جگہوں پر
خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔کیوں کہ بابا خود کو بھگوان کہہ
کر لڑکیوں اور عورتوں کا جسمانی استحصال کرتے ہیں۔ اس کا حال چال پوچھنے
والا کوئی نہیں ہے۔ جمہوریت کے چاروں ستونوں کا رویہ دیکھ ایسا محسوس ہونے
لگا ہے کہ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے جی
جان سے لگ گئے ہیں، خواہ اس کے لئے ملک کیوں نہ برباد ہوجائے۔ پوری دنیا
میں ہندوستان کو ایک ریپستان اور لنچستان کے طور پر کیوں نہ یاد کیا جائے۔
پوری دنیا ہندوستان میں ہندتوا کے علمبرداروں کے کرتوت دیکھ رہی ہے گرچہ کے
یہاں کا میڈیا ہر واقعہ پر لیپا پوتی کرتا ہے اور سنگھ پریوار کے غنڈوں کو
بچانے کی آخری حد تک کوشش کرتاہے اس لئے پوری دنیا میں ہندوستانی میڈیا کا
وقار بھی گرگیا ہے۔ہندوستانی میڈیا وہی ہوگیا ہے جسے حالیہ ٹی وی مباحثے
میں کانگریس کے ترجمان راجیو تیاگی نے اینکروں کے لئے استعمال کیا تھا۔ چند
کو چھوڑ کر پورا میڈیا حقیقی معنوں میں وہی ہے جو راجیو تیاگی نے کہا ہے۔
بہار میں آبروریزی کے واقعہ نے پورے ملک اور دنیا میں بہار کی ناک کٹوادی
ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان بچیوں کو نہ صرف وہاں کے افسران، لیڈران
بھیجا جاتا ہے بلکہ خبریہاں تک ہے کہ ان کو دہلی تک بھیجا جاتا تھا۔ دس
پندرہ برسوں میں جب سے بی جے پی کی جکومت بہار میں قائم ہوئی ہے خواتین کے
ساتھ آبریزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ بی جے پی اور جرائم ایک
دوسرے کے لئے لازمہ ہیں۔ |