عائشہ طارق
نئی نسل کو کسی بھی قوم کا مستقبل سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ان کو آگئے
بڑھنے اور اپنی قوتوں کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ اس کو بڑا ہونے
ہی نہیں دیا جاتا ۔ ہمارے بڑے، بوڑھوں کو نئے دور کی جدیدیت پسند نہیں۔ وہ
چاہتے کہ نئی نسل ان کے تجربات، نظریات اور افکار کے مطابق زندگی گزارے۔ ہر
باپ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اس جیسی بننے۔ وہ ان کے افکار کی پیروں کار
بنے۔ مگر وہ اس بات کا بھول جاتے ہیں کہ وہ تو اپنا وقت گزار چکے ہیں۔ مگر
ان کی یہ ضد ہے کہ نئی نسل ان کے خیالات مطابق زندگی بسر کرے۔ نئی نسل کو
اس کے دور سے بہت پیچھے کر دیا ہے ۔ ہمارے بڑے نئی نسل میں سے کیڑے نکالتے
وقت اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ نئی نسل میں سے نہیں اپنے مستقبل میں سے
کیڑے نکال رہے ہیں۔ وہ اس بات کو مانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ نئی نسل
ان کا مستقبل ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بھی نئی نسل کو قوم کا
مستقبل قرار دیا ہے۔ نئی نسل کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتی ہے۔ مگر بڑے
اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اس کو رد کر دیتے ہیں۔
بڑوں نے کبھی نئے دور کے حالات حاضرہ کو نہیں سمجھا ۔انہوں نے کبھی اس
حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ بچے کا جوان بننا، جوان سے نوجوان بننا اور
پھر بڑا بننا ایک process ہے۔۔۔۔ ایک ارتقائی عمل ہے جس میں ہر دور کے
انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے دور کو جیے، اپنے دور کو دل کھول کر اپنائے۔
اگر وہ اپنے دور کو اپنا کر بڑا نہیں ہو گا تو اس کی تکمیل نہیں ہوگی۔ ہر
باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ بڑا ہو کر اس کے جیسا بنے کیونکہ وہ سمجھتے
ہیں کہ انہوں نے جس دور میں زندگی گزاری ہے وہ بہتر ہے اور آنے والا دور بد
تر ہے ۔ کوئی باپ یہ نہیں سوچتا کہ میں اپنے بچے کو ایسا بناؤں کہ اس میں
اپنے دور کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت پیدا ہو ۔ ہر فرد کے لیے اپنا
دور جینا ضروری ہوتا ہے ورانہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا دور اس کو
تسلیم ہی نہیں کرتا اور وہ اپنے دور کے لوگوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ اپنے
دور کو جیے بغیر کسی فرد کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ سب اور ہم اس حقیقت
کو دیکھتے اور جانتے تو ہے مگر پھر بھی ا اس کو دیکھ کر نظر انداز کر دیتے
ہیں۔ کیونکہ ہمارے بڑوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ایسی حقیقت کو دیکھ سکے
اور تسلیم کر سکیں۔
بلقیس محمود جو کے ایک شاعر ہیں۔ وہ نئی نسل اور اپنے بیٹے کے جذبات کو اس
طرح بیان کرتی ہے۔
مجھے لگتا ہے امی
میں
بڑھاپے سے بھری بستی میں آ کر
پھنس گیا ہوں
یہاں ہر شخص بوڑھا ہے
یہ چودہ سال کی بہنا
یہ سولہ سال کا بھائی
یہ دونوں آپ۔۔۔۔۔
یہ گہرے سلیٹی رنگ کی
بے رنگ سی دنیا
خدایا میں کہاں پر آگیا ہوں
یہاں ہنسنا ہنسانا جرم لگتا ہے
یہاں خوشی کے گیت گانا
بین ہے شاید
مرا کیا جرم ہے امی
مجھے لگتا ہے امی! آپ سب صیاد ہیں میرے
میرے پر کاٹ کر
پنجرے میں رکھ لینے کی اک خواہش
بس اک خوش رنگ سا طوطا
میاں مٹھو
کہ جب چاہا
میاں مٹھو میاں مٹھو کہا
بہلایا
خوش کر آیا
آج تک کبھی کسی نے سوچا جسے بڑے، بوڑھے اخلاقی پابندیاں سمجھتے ہیں اس کے
بارے میں نئی نسل کیا رائے رکھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو دور جدید ہے
یہ ہماری نوجوان نسل کا فتنہ ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ فتنہ صرف
ہمارے ہاں ہی نہیں آیا بلکہ اس طوفانی آندھی کا شکار تو پوری دنیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فتنہ مغربی تہذیب کی پیداوار ہے یہ بات کسی حد تک ٹھیک
بھی ہے۔ مگر اس بات کا شعور نہیں رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس کی زد میں آئے
ہوئے ہیں۔ وہ ہم سے زیادہ اس سے زچ ہو رہے ہیں۔
اہل مغرب خود حیران ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے اور کس اصول کے
تحت ہو رہا ہے۔ انھیں خود سمجھ نہیں آ رہا۔
آج سے چند سال پہلے مغرب میں عجیب الخلق کلچر پیدا ہو گیا تھا جسے ہپی کلچر
کہتے تھے۔ مغربی زندگی کے جو بنیادی ستون تھے، جو مغربی زندگی کے محور تھے،
جن کے گرد مغربی زندگی گھومتی تھی، ہپی کلچر ان بنیادی روایتوں کے خلاف
بغاوت تھی۔ انھوں نے سٹیٹس کو بھی رد کر دیا اور پڑ واسیوں یعنی خانہ
بدوشوں کی زندگی بسر کرنی شروع کر دی۔ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے تھے، رات
کو فٹ پاتھوں پر پڑے رہتے۔ یہ تحریک دراصل مغربی تہذیب کے بڑے راونوں کے
خلاف احتجاج تھی، وارننگ تھی۔ دولت، سٹیٹس اور آرام پسندی کے خلاف وارننگ۔
ہمارے دینی رہنماؤں کی عادت ہے کہ وہ جدید دور کی ناگوار باتوں پر غور نہیں
فرماتے۔ صرف " لاحول ولا " پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ وہ انھیں مسائل سمجھتے
ہی نہیں۔ وہ انھیں "لاحول ولا" سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی دینے پر
تیار ہیں۔ ان کے مطابق یہ اہل مغرب کی اسلام کے خلاف سازش ہے ۔ ان کے ذہین
میں اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے ، وہ یہ کے اس شیطانی عمل کو روکو۔ انھیں اس
بات کا شعور ہی نہیں ہے کہ جدید دور ایک دھارا ہے اور دھارے کو کبھی روکا
نہیں جاسکتا۔ البتہ اس کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔ ہمارے علمائے دین نے مغرب کو
ہمیشہ شر سمجھا ہے حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اہل
مغرب میں ہماری نسبت خیر کا جذبہ ذیادہ ہے۔ میں حکومتوں کی بات نہیں کر رہی
۔ لوگوں کی کر رہی ہوں۔ انہوں نے بڑی نیک نیتی سے آزادی اور مساوات کی ایک
پالیسی بنائی تھی۔ عورتوں کی آزادی، بچوں کی آذادی کی، خیالات کی آزادی،
اظہار کی آزادی، جنس کی آزادی۔ لیکن بدقسمتی سے اس تجربے کو کامیابی حاصل
نہ ہوئی، الٹا اس نے اک آگ لگا دی۔ایسی آگ جس کی جھلسن دنیا کے کونے کونے
میں پہنچ چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آگ صرف ہمیں جھلسا رہی ہے۔ یہ ہماری
بھول ہے۔ یہ آگ خود سب سے زیادہ اہل مغرب کو جلا رہی ہے مگر وہ اس بات کا
شعور رکھتے ہیں کہ ان کا گھر اس آگ سے جل رہا ہے۔ وہ اس پرابلم سے نپٹنے کے
لیے آپس میں صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ سوچ رہے ہیں، مائل بہ عمل ہیں۔
ہمارے علمائے دین سمجھتے ہیں کہ لاحول پڑھنے سے مصیبت ٹل جائے گی۔ وہ کہتے
ہیں لاحول ولا پڑھو مغرب پر، نئی نسل پر، دور حاضرہ پر۔ کاش انھیں علم ہوتا
کہ لاحول ولا کا مطلب کیا ہے۔
بڑے جب نئی نسل پر لاحول پڑھتے ہیں تو انھیں لاحول کے مفہوم کا احساس ہی
نہیں ہوتا۔ وہ لا شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ شیطان نئی نسل کو ورغلا رہا
ہے۔
اگر وہ لاحول کے مفہوم پر غور کریں تو انھیں احساس ہو کہ یہ سب مشیت ایزدی
ہے۔ یہ جو نئی نسل میں شدت پیدا ہورہی ہے، یہ شیطان کا کارنامہ نہیں ہے۔
شیطان بہکا سکتا ہے، وہ مخلوق کا رنگ بدلنے پر قادر نہیں۔
کسی نے نئی نسل کی شدت کے بارے میں کیا خوب کہا ہے: "ہمارے دور میں اللہ نے
اپنا پاؤں بریک پر رکھا ہوا تھا اب ایکسلریڑ پر رکھ لیا ہے۔"
نئی نسل مردو نہیں مظلوم ہے
نئی نسل کے رویے پر پوری دنیا نالاں ہے نئی نسل میں شدت ہے بلا کی شدت ۔۔۔
بلا کی بے چینی ہے۔ قیام سے محرومی، حرکت، مسلسل حرکت، جلدی اور جلدی۔ جلدی
چلیں، جلدی پہنچیں، جلدی لوٹیں، جلدی جئیں، جلدی مریں ۔۔۔۔۔۔ ان کی کوئی
منزل نہیں۔۔۔۔ صرف جلدی ۔ ان کا کوئی رخ نہیں، صرف حرکت۔
یہ شدت ہم پر عائد کی گئی ہے۔ لگتا ہے جیسے پہلے اللہ تعالیٰ کا پاؤں بریک
پر تھا، اب ایکسلریڑ پر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ
کائنات گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے تجربات اکثر کیا کرتا ہے۔
اخباروں میں اکثر خبریں آتی ہیں کہ نوجوان جرم کی طرف مائل ہوتے جارہے ہیں۔
موٹر سائیکل 120 میل کی رفتار سے چلاتے ہیں۔ تفریحا پلانڈ چوریاں کرتے ہیں۔
ڈکیتیاں کرتے ہیں۔ مقصد لوٹ مار نہیں ہوتا، چوری نہیں ہوتا۔ صرف ایڈونچر
ہوتا ہے ۔ نئی نسل کو بےقدری اور بے کاری کے عذاب میں مبتلا کیا جارہا ہے۔
اس لیے وہ ایڈونچر کی تلاش میں تخریب کاریوں کی جانب رخ کر رہی ہے ۔ ہم نئی
نسل کچھ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہم صلاحیتوں سے بھر پور، لیکن مظلوم۔ ہمارے
معاشرے نے ہمیں رد کر دیا ہے۔ ہمیں مغرب کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔ اسلام دشمن
قرار دیا ہے۔
نئی نسل پر ظلم علماء دین اور بڑے کر رہے ہیں۔ ہر کوئی ہمیں اپنی مرضی سے،
اپنے مطابق چلانا چاہتا ہے۔ جس کا نتیجہ صرف تباہی ہے ۔ ہمیں ہمارے دور کے
مطابق زندگی گزارنے نہیں دی جاتی۔ ہمیں ہماری ذات کی تکمیل کا موقع نہیں
دیا جاتا۔ خدایا ہم دور کے تقاضوں کو تسلیم کرو۔ ہمیں اپنے خیالات کی غلام
سے آزاد کرو۔
اقبال بھی کہہ گئے ہیں۔
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
|