ایک بزرگ سے کسی نے سوال کیا کہ
محبوب کون ہوتا ہے؟
جواب ملا کہ
" جس کا نا ٹھیک بھی ٹھیک لگے"
پہلی دفع پڑھ کر تو بہت عجیب لگی مگر کچھ دن بعد سمجھ آئ کہ کتنا درست جواب
تھا
اُس وقت میں نے اس کو اپنی ذاتی زندگی پر پرکھا تو اس بات پر والد صاحب
پورے اُترے
آج یہ بات حالیہ انتخابات پر پوری اتری
میری تمام سوچ دھڑام سے نیچے گری کہ شائد انتخابات کے نتائج سابقہ کارکردگی
کی بنیاد پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں
جو نتائج ہر صوبے میں سامنے آۓ اُس سے اندازہ ہوا کہ ووٹ محبت اور زاتی
پسند نا پسند کی بنیاد پر پڑتے ہیں جس کا کارکردگی سے دور کا بھی واسطہ
نہیں ۔
کوئ کام کرے منصوبے بناۓ ، کچھ بھی نہ کرے یا کچھ بُرا کرے ، جو جس کا
محبوب ہے اُس کو ہی ووٹ دینا ہے
یہ ایک پیار ہے جو جس سے کرے
تم ہی ہو محبوب میرے
میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں
میرا پیار یاد رکھنا !
اگر لیڈر یاد نہ بھی رکھے تو عوام کا یکطرفہ پیار جاری رہتا ہے اور عقل سے
عاری رہتا ہے اور اُمیدوار ووٹوں سے بھاری اور آزاد امید وار نوٹوں سے
بھاری رہتا ہے۔
اب جیتنا تو کسی ایک نے ہی ہوتا ہے اور وہ ایسٹیبلشمنٹ کو پیارا ہوتا ہے
اور جو مخالفت کرے وہ اللّہ کو پیارا بھی ہو سکتا ہے
الیکشن کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر انسانیت
سے پیار کیا جاۓ تو ہر صورت جیت آپ کا مقدر ہے
|