تحریر: ساحر مرزا
باباجی بولے جارہے تھے اور میں ان کو سنے جارہا تھا اور ان کی طرف غور سے
دیکھے جارہا تھا۔
وہ کہہ رہے تھے،بیٹا جب میں جوان تھا تو اس دور میں پڑھائی اتنی اہمیت نہیں
رکھا کرتی تھی بلکہ ہم تو اس جوان سے باقاعدہ متاثر ہوا کرتے تھے جو کسی فن
میں طاق ہوا کرتا تھا، چہ جائیکہ وہ پڑھا لکھا نہیں ہوتا تھا مگر کوئی بھی
کام سیکھتا تھا تو اس کی مہارت کو پانے کی کوشش کرتا تھا، میں نے بھی اپنی
نوجوانی میں ہی ایک بڑھئی کی شاگردی اختیار کی تھی، میرا اُستاد پورے شہر
میں اپنے فن کی مہارت میں یکتا تھا، اس کی شاگردی میرے لئے سند کی حیثیت
رکھتی تھی، اس دور میں اس کے پاس تمام اوزار بیش قیمت و جدید ترین تھے۔
بابا وہی پرانے دور کے اوزار جو آج کل پرانے ’’مستری‘‘ استعمال کرتے ہیں،
میں نے پوچھا۔بابا جی بولے …… ہاں بیٹا وہی اوزار جو لکڑی کے تنے کو
خوبصورت نقش نگار کے ساتھ مزین فرنیچر میں بدلتے تھے اور آج بھی اس کو فن
پاروں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ مگر اب ……! اب تو مشینوں کا دور ہے۔بابا جی نے
ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
میں نے ان کی آنکھوں میں ایک کرب دیکھا، نمی دیکھی، میں بھی ششدر رہ گیا۔
مگر بابا مشینیں تو بڑی تیزی کے ساتھ فرنیچر بنادیتی ہیں اور وہ خوبصورت
بھی ہوتا ہے، پرانے اوزاروں کے ساتھ تو مہینوں لگتے تھے، میں نے جلدی سے
کہا۔
بابا مسکرا کر کہنے لگے۔ بیٹا تو بھی صحیح کہتا ہے، پھر تجھے پتہ ہے اب ان
مشینوں کو چلانے کیلئے پہلے ڈھیر سا پڑھتا ہے، پھر بھی مہارت نہیں آتی۔
نئی مشینیں آئی، اس کے ساتھ نئے کتابچے، نئی خصوصیت، سب کچھ نیا، پھر سے
سیکھنا شروع۔ بابا اس سے تو علم بڑھتا ہے، پڑھنے میں کیسی قباحت؟ میں نے
جلدی سے توجیہہ پیش کی۔
مگر بابا ہنسے، ہنستے ہوئے انکی آنکھوں کی نمی سے دو موتی جھریوں بھرے
رُخساروں پر پھسلتے چلے گئے، کہنے لگے۔
بیٹا پھر جب پڑھتے ہی رہنا ہے تو پھر مہارت کہاں سے آئے گی، جب ہر گزرتے دن
نئے اوزاروں کی خصوصیات لئے مشین کو سیکھنے بیٹھو گے تو کام میں پختگی تو
نہ آئے گی۔
تو اس کا مطلب بابا …… آپ ان مشینوں سے نفرت کرتے ہیں، انہیں چھوڑ کر
دوبارہ اسی پتھر کے دور میں جانا چاہتے ہیں، میں نے تنگ آکر تلخ لہجے میں
کہا۔
بابا نے ہنوز مسکراتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے بولے،نہیں
بیٹا یہ تو نہیں چھوڑی جاسکتیں۔
مگر خود بتاؤ …… کیا یہ مشینیں تمہاری ثقافت اور تہذیب سے جڑی وہ مہارت، وہ
جذبات رکھتی ہیں، ایک بڑھئی جب اپنا کام کرتا تھا ، تو وہ اپنے کام میں ڈوب
جایا کرتا تھا، اپنی ثقافت، تہذیب سے لگاؤ، اپنے اسلاف سے سیکھے تمام گُر
وہ آزماتا تھا، اسے اپنے فن سے اپنے فن پاروں سے محبت تھی، لگاؤ تھا……، وہ
کام سیکھتا تھا تو اپنی تہذیب و ثقافت بھی سیکھتا تھا، اسے اوڑھ لیتا تھا
اور پھر جب مہارت آجاتی تھی تو وہ اپنی ثقافت و تہذیب کو اپنے فن کی بدولت
اپنے فن پاروں میں ڈھالتا تھا۔
بس بیٹا …… یہ باتیں آج ان مشینوں کو تو سمجھ نہیں آتی نا ……خیر چھوڑ ان
باتوں کو بتا لسی پیئے گا…… اور اتنا کہہ کر بابا اپنی چوکی سے اُٹھے اور
اس پرانی سے ورکشاپ کے پچھلے حصے کی طرف جانے لگے۔
مگر میں اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ یہ بابا جی کیا کہہ گئے تھے، ان کے
آنسوؤں میں ایسا کیا تھا،بے چینی، دکھ یا کچھ اور ۔۔۔ یہ ان میں پرانے دور
کی یادیں تھی یا ۔۔ نئے دور کی اُداسی ۔۔! |