عائشہ طارق
توہم پرستی، ایسی دیمک ہے جو افراد اور معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر کے
بالکل کمزور کر دیتی ہے۔ اگر ایک شخص کالی بلی کے راستہ کاٹنے پر گھر واپس
آجاتا ہے تواس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بلی زیادہ طاقتور ہے اور انسان اس کے
مقابلے میں حقیر اور کمزور مخلوق ہے۔ اس طرح توہم پرست اپنے آپ کو ہر چیز
کے مقابلے میں گرا دیتا ہے۔
آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے شمار ترقی کے باوجود ہمارے معاشرے کے لوگوں
میں توہم پرستی کے جذبات شدت سے پائے جاتے ہیں۔ سائنس جو صرف تحقیق کو
مانتی ہے جس کا کہنا ہے کہ ہر کام یا عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور
ہوتی ہے۔ مگر اس سب کے باوجود لوگ آج بھی اچھے اور برے شگون کو مانتے ہیں۔
لوگ آج بھی اپنے ساتھ اچھا اور برا ہونے کا بلیم حالات اور چیزوں کو دیتے
ہیں۔ اگر آپ توہم پرستی کی تاریخ دیکھے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ اسلام کے
آنے سے پہلے سے موجود ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے عرب لوگ بیٹی کی پیدائش کو
منحوس سمجھتے تھے۔
اسلام نے آ کر انسان کو بتایا کہ اچھا اور برا شگون کچھ نہیں ہوتا ہے۔ یہ
سب صرف انسان کی سوچ ہے۔ مگر اس سب باوجود آج بھی اسلامی معاشرہ توہم پرستی
کا زیادہ شکار ہے۔ لوگ توہم پرستی کو زیادہ ماننے لگے ہیں۔ اس کے پیچھے کچھ
ہاتھ ہندو کلچر کا بھی ہے جو ان سے الگ ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میں
رچا بسا ہے۔ اور اس کے پیچھے کچھ ہاتھ ہمارے میڈیا کا بھی ہے۔ جو مختلف
چیزوں سے اس کو جسٹیفائی کرتا ہے۔ کبھی ستاروں کا حال بتا کر، اور کبھی
مستقبل کی پیشگوئی کرکے۔ ہمارے پیروں، فقیروں نے بھی اپنا دھندہ چمکنے کے
لیے اس توہم پرستی کا سہارا لے رکھا ہے۔ ہم عام لوگ اپنے کمزور عقیدوں اور
آدھے ادھورے ایمانوں کی وجہ سے ان سب باتوں پر یقین کر بیٹھتے ہیں اور
حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ
" ایمان کا نہ ہونا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا کہ آدھ ادھورا ایمان ہونا "
میں بھی کبھی اس بات کو سمجھ نہیں پاتی تھی کہ آدھ ادھورا ایمان خطرناک
کیسے ہوتا ہے۔ کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ کچھ ہونا کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے
مگر ہمارے معاشرے کے دن با دن خراب ہوتے حالات نے میری سوچ کو بدل دیا ہے۔
ہم چیز کو، لوگوں کو، خیر اور شر سے منسوب کرتے ہیں۔ جبکہ خیر اور شر تو
انسان کے خود کے کمائے ہوئے ہیں۔ انسان کے اندر خیر اور شر دونوں پائے جاتے
ہیں۔ آج کے دور کا انسان آج بھی بدروحوں کو مانتا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے
مختلف قسم کے تعویذ گنڈے خریدتا ہے۔ ہم لوگ سمجھتے ہی نہیں کہ ہم اپنی
بدشگونی کے چکر میں اپنا کتنا بڑا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
بدشگونی اور توہم پرستی کو ماننے والے صرف اسلامی معاشرے میں ہی نہیں پائے
جاتے بلکہ ان کو ماننے والے ترقی یافتہ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لوگوں
نمبر 13 کو منحوس سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کالی بلی راستہ کاٹ لے تو
سفر نہیں کرنا چاہیے۔ شیشہ ٹوٹ جائے تو وہ بد شگونی کی علامت ہوتا ہے۔ لوگ
فال نکالنے اور ستاروں حال کا جاننے میں اپنا وقت اور پیسہ دونوں برباد کر
دیتے ہیں۔ اسلام میں ان سب کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے ۔ کیونکہ اسلام
میں ان سب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں
کہ۔
" اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا اور جو نقصان پہنچے
وہ تیری ہی (شامت اعمال کی) بہ دولت ہے۔"
اور اس کے بارے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" جو شخص کسی چیز میں بد فعالی پکڑا کر اپنے کام سے پیچھے ہٹ گیا تو اس نے
شرک کیا "
انسان سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی میں دکھ کا آنا یا کسی کام میں ناکامی کے
پیچھے کوئی نحوست یا کوئی شیطانی عمل ہے جبکہ ایسا نہیں ہے قرآن اور تحقیق
کہتی ہے کہ ناکامی کی وجہ کوئی بدشگونی یا شیطانی عمل نہیں ہوتا بلکہ
ہوسکتا ہے کہ آپ کی کوششوں میں کمی رہ گئی ہو جو آپ کی ناکامی کی وجہ بن
گئی ہو ۔ اور دکھ تو وہاں پر ہی ہوتا ہے جہاں پر سکھ ہوتا ہے یا دونوں ایک
دوسرے سے الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ کوئی بھی کام بغیر
کسی وجہ کے نہیں ہوتا ہر کام کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ ہمیں اس
وجہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور توہم پرستی کی وجہ سے اپنی زندگیوں
میں موجود بےجا خوف سے باہر نکالنے ۔ اور آنے والے وقت کا بغیر کسی خوف و
خطرے کے دل سے استقبال کرنے کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ ہم سب کو توہم پرستی سے
بچائے۔ آمین |