ملک انتخابی عمل سے گزررہا ہے، تاہم اس بار انتخابی
گہماگہمی نظر نہیں آرہی۔ اس کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کی پس مردگی اور
نوازشریف کی گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔ انتخابی عمل میں پیپلز پارٹی اور جماعت
اسلامی کا ورکر ہی رنگ بھرتا تھا۔ جماعت اسلامی کی ایم ایم اے میں شمولیت
سے لگتا ہے کہ کارکنوں کی تائید حاصل نہیں۔دہشت گردی کے واقعات اور لوٹوں
کی باجماعت عمران خان کے پلڑے میں دھکیلے جانے نے بھی انتخابی عمل کو متاثر
کیا ہے۔ اس بار مہم گلیوں محلوں کے بجائے سوشل میڈیا پر چلائی جارہی ہے۔
میڈیا کمرشل ازم کا شکار ہونے کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں کوریج
نہیں مل رہی۔ الیکٹرانک میڈیا اپنی غیر جانبداری کھو چکا ہے اور ناظرین
جانتے ہیں کہ کون سا چینل اور کون سا اینکر پرسن کس کا سپانسر ہے۔ اس لیے
میڈیا پر عوامی اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کچھ میرے جیسے بھی ہیں جو ٹی
وی دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔
عدلیہ کے یکطرفہ احتساب نے نظام عدل کو بھی عوام کی نظر میں داغدار کردیا
ہے۔ مقتدر حلقوں کے بارے میں جس ڈھٹائی سے میڈیا باالخصوص سوشل میڈیا پر
تبصرے ہورہے ہیں ، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ عوام کی اکثریت خاموش تماشائی
بنی ہوئی ہے، جس کا اظہار ۵۲ جولائی کو ووٹ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایک
خدشہ یہ بھی ہے کہ اس بار ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی ماضی کے مقابلے میں بہت
کم ہو۔ عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت بینظیر بھٹو، نوازشریف اور قاضی حسین
احمد کو حاصل تھی۔ ان تین شخصیات کے بعد عمران خان نے ایک مخصوص طبقے کو
متحرک تو کرلیا ہے ، اس کے باوجود انتخابی گہماگہمی برپا نہیں ہوسکی۔
شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخاب کا خواب تو امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک
میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ مقتدرہ ہر ملک میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل
کرتی رہی ہے۔ ہمارے ہاں اس کا تناسب ہمیشہ ضرورت سے زیادہ رہا ہے۔ اب کی
بار ان اداروں کی سیاست میں مداخلت عملا کس قدر ہے، اس کو جانچنا تو ممکن
نہیں البتہ معاشرے میں موجود لبرل اور فوج مخالف طبقہ سوشل میڈیا پر جس
انداز میں مقتدرہ کو گھسیٹ رہا ہے، وہ ہمارے مجموعی مزاج سے متصادم اور
ہمارے سیکورٹی تحفظات کے لیے نقصان دہ ہے۔ پاکستان جوں جوں امریکی گرفت سے
نکلنے کی کوشش کررہا ہے توں توں پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔
افغانستان، بھارت اور ایران سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف جو کاروائیاں
ہورہی ہیںان کا تقاضا ہے کہ ملک میں اتحاد واتفاق قائم کرتے ہوئے اہل
پاکستان سیسہ پلائی دیوار کی مانند پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہوں ، جبکہ
زمینی حقائق کچھ اور خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔
پاکستان اب تیزی سے ترقی کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ نوجوان نسل
تعلیم اور ہنرمندی میں ترقی کررہی ہے۔ پاک چائنا اشتراک عمل اور سی پیک سے
ترقی کے جو امکانات پیدا ہورہے ہیں، ان سے استفادہ کرنے کے لیے ایک متعدل
مزاج اور اداروں کے درمیاں بہترین ورکنگ ریلیشن قائم کرنے والی قیادت کی
ضرورت ہے۔موجودہ سیاسی منظر نامے میں ایسی قیادت کا ابھرنا ممکن نظر نہیں
آرہا۔ سیاست دان ملک کی ترقی سے زیادہ سیاسی انتقام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
لوٹوں کو جس انداز میں ایک مخصوص جماعت کی گود میں ڈالا گیا ہے، اس سے یہ
خطرہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں انتخابات کا آخری مرحلے پر
بائیکاٹ کردیں یا انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیں۔ ہر دو صورتوں
میں جس طرح کی انارکی پیدا ہونے کا خدشہ ہے، وہ ملک کی ترقی میں ایک بڑی
رکاوٹ ثابت ہو گی۔
مقتدرہ، عدلیہ اورایوان صحافت کو اپنی غیر جانبداری ثابت کرنا ہوگی بصورت
دیگر عوام کی دلوں میں بے اعتمادی کی جو آگ جنم لے رہی اور کسی بھی وقت
بھڑک سکتی ہے۔ میں ذاتی طور پر الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حامی نہیں ہوں۔ جس
نظام میں سیاسی جماعتوں کو ووٹر تک رسائی، انتخابی عمل کی شفافیت اور
کاروبار مملکت کی انجام دہی سب ہی کچھ شکوک و شبہات سے عبارت ہو، وہاں ووٹ
ڈالنے کا عمل محض دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس ملک کی آبادی کی محدودتعداد
انہی خدشات سے دوچار ہے جبکہ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کا ووٹ تبدیلی کا
ذریعہ ثابت ہو گا۔ ووٹ ڈالنے میں برادری، دھڑا بندی ، فرقہ وارانہ عصبیت
اور علاقائی تعلق بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں
میں ووٹ ڈالنے کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔
ان سارے خدشات کے درمیان امکانات کی نوید بھی موجود ہے۔ نوجوان نسل سوشل
میڈیا کی وجہ سے باخبر اور قومی معاملات میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ اس فرسودہ
نظام سے چھٹکارے کی بھی خواہش مند ہے۔نئی نسل برادری، دھڑے اور علاقائیت کے
بتوں کو بھی قابل پرستش نہیں سمجھتی۔ ایسے میں اس پوٹینشل سے استفادہ کرنے
کی ضرورت ہے۔ ملک کی ترقی ، خوشحالی اور دفاع کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے
اختلافات کو انتخابی نتائج کے بعد بھول کر ملک کی تعمیر میں بھرپور کردار
ادا کریں۔ ان بات کا انحصار مستقبل میں منتخب حکومت پر ہے۔ ایک مخلوط حکومت
گزارہ تو کرسکتی ہے لیکن کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتی ۔
قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے جس حکمت، دانائی اور ویژن کی
ضرورت ہے وہ مخلوط گروہ فراہم نہیں کرسکتا۔
حالات کا تقاضا ہے کہ ملک میں ایک مضبوط، باصلاحیت اور باعمل قیادت منتخب
کی جائے اور عسکری اداروں اور قوم میں مثالی محبت اور رواداری کا اہتمام
کیا جائے۔ملکی دفاع جتنا اہم ہے قومی یکجتیب اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل
ہے۔ جب بیلٹ باکس کا اعتماد ختم ہوگیا تو پھر فتنوں کو روکنا ناممکن ہو
جائے گا۔
|