بالآخر خدا خدا کرکے الیکشن 2018ء کا معرکۂ عظیم سر ہوا ۔
اسے معرکۂ عظیم اس لیے بھی کہنا چاہیے کہ یہ طویل سیاسی جنگ کے بعدبرپا ہوا
اور اس لیے بھی کہ اس سے پہلے شاید ہی اتنا سخت مقابلہ ہوا ہو کہ مد مقابل
کو بچھاڑنے کے لیے اتنے جتن کرنے پڑے ہوں ۔تاہم نتائج عوام کے سامنے ہیں ۔
اب اصل مسئلہ نئی بننے والی حکومت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا ہے اور
عالمی حالات کے تناظر میں یہ ایک ایسا نازک وقت ہے کہ حکمران جماعت کو ان
چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پہلے سے کئی گناہ زیادہ سخت مقابلے کے لیے تیا
ررہنا ہوگا ۔ اس لیے کہ پورے عالم اسلام پر عالمی قوتوں کی طرف سے جو
ایجنڈا مسلط کیا گیا ہے اور نائن الیون کے بعد اس کے نفاذ میں جو تیزی آئی
تھی ، ڈونلڈ ٹرمٹ کے امریکی صدر بننے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔
اور اسی تناسب سے اسلامی ممالک پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے ۔ عراق ، شام ، مصر
اور لیبیا تو اس عالمی ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں بچھا دیے گئے اب وہاں
وہی کچھ ہو گا جو طاغوتی قوتیں چاہیں گی۔ جبکہ افغانستان میں ابھی بھی
مزاحمت جاری ہے ۔ دوسری طرف عالمی قوتیں بھی اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے
لیے کسی طور پر تیار نہیں ہیں ۔جب بارودی اسلحہ سے مزاحمت کو کمزور نہیں
کیا جا سکا تو اب نظریاتی ہتھیاروں کو آزما تے ہوئے افغان مزاحمت کی اخلاقی
اور نظریاتی سپورٹ کو ختم کرنے اور میدان میں ہاری ہوئی جنگ کو مذاکرات کی
میز پر جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور سعودی عرب کسی نہ
کسی لحاظ سے مضبوط تھے اور عالمی ایجنڈے کے خلاف کسی حد تک مزاحم تھے لیکن
اب ان کے خلاف بھی گھیرا مزید تنگ ہو چکاہے ۔ سعودی عرب میں وہی ایجنڈا
ماڈرنائزیشن کے نام سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان پرایک طرف FATFکا شکنجا
کسی جارہاہے اور دوسری طرف قادیانیوں کے حوالے سے عالمی دباؤ کا سامنا ہے ،
تیسری طرف افغانستان میں عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے سلسلے میں بھی پاکستان
پر دباؤ ہے اور ان سب آزمائشوں کے اوپر سب سے بڑی آزمائش قرضوں کا بوجھ ہے
۔ جنہیں اُتارنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضوں اور مہلت کی ضرورت ہوگی اور
یہ دونوں چیزیں عالمی ایجنڈے کے نفاذ سے مشروط ہیں ۔
ان سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اور اس کی نئی
حکومت کو تاریخ کے مشکل ترین دور کا سامنا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔FATFکی گرے
لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کے لیے جو چیلنجز درپیش ہیں ، اول تو انہیں پورا
کرنا مشکل ہے اور اگراس سمت میں جس قدر بڑھنے کی کوشش کی گئی تو اسی قدر
قومی یکجہتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اگر اس جانب کوئی قدم نہ
اُٹھایا گیا تو لازماً اس کا نتیجہ پاکستان پر سخت ترین پابندیوں کی شکل
میں سامنے آئے گا اور موجودہ کمزور معاشی حالات میں پاکستان ان پابندیوں کا
متحمل ہو ہی نہیں سکتا ۔اسی طرح کا پیچیدہ مسئلہ قادیانیوں کے حوالے سے
عالمی دباؤ کا بھی ہے اور اب اس دباؤ میں پہلے سے زیادہ شدت کا خدشہ ہے جس
کو نظر انداز کرنا حکومت کے بس میں شاید نہ ہو ۔جبکہ اگر اس دباؤ کو کم
کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا لازمی اثر ختم نبوت کے قوانین پر پڑے گا اور
اس صورت میں عوام کا شدید ردعمل حکمرانوں اور حکمران جماعتوں کی ساکھ کو
ایک جھٹکے میں بہا لے جائے گا ۔تیسرا اہم مسئلہ افغانستان کے حوالے سے
امریکی پالیسی کا موثر جواب دینا ہے اور یہ اتنا پیچیدہ ایشو ہے کہ بھارت
بھی اس معاملے میں امریکہ کا ساتھ دینے سے کنی کترا کر نکل گیا ہے ۔صاف
ظاہرہے کہ بھارت محض امریکہ کی خاطر خطہ میں اپنے مفادات کو خطرے میں ڈالنا
نہیں چاہتا ۔لیکن وہی کام اگر ہم امریکہ کی خاطر کریں گے تو یہ ایک ناقابل
معافی اور ناقابل تلافی تاریخی غلطی ہوگی جس کا خمیازہ شاید پاکستان کو
اپنی سلامتی کا سودا کرکے بھگتنا پڑے اور اس کے باوجو دبھی امریکہ کی تاریخ
سے ظاہر ہے کہ وہ کبھی پاکستان کا دوست نہیں بن سکے گا ۔بلکہ اس کا اصل
مقصد پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ہی ڈالنا ہے ۔لیکن ہماری سب سے بڑی
کمزور ی ہم پر بڑھتا ہوا قرضوں کا بوجھ ہے جو ہمیں عالمی قوتوں کے سامنے
جھکنے پر مجبور کر رہا ہے لہٰذا اسی وجہ سے عالمی ایجنڈے پر عمل درآمد کو
یقینی بناناموجودہ حکومت کی مجبوری بن سکتاہے اور اس صورت میں خدا نخواستہ
امن و امان ، قومی یکجہتی ، ملکی سلامتی اور مستقبل سمیت سب کچھ داؤ پر لگ
جائے گا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے کہ سانپ بھی مرجائے
اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔اس حوالے سے ہمارے سامنے موجودہ دور کی دو مثالیں
ہیں ۔ ایک ترکی کے طیب اردگان ہیں جو کمال اتا ترک کے عالمی ایجنڈے سے ہم
آہنگ سیکولر ترکی کو آہستہ آہستہ اسلامی ترکی کی طرف اس طرح لے کر جارہے
ہیں کہ ان کی حالیہ جیت کو عالمی سطح پر The Rise of Islam in Turkey قرار
دیا جارہاہے۔ جبکہ دوسری مثال ہمارے سامنے سعودی عرب کے محمد بن سلمان کی
ہے جو عالمی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کمال اتا ترک کے ماڈرنائزیشن کے تجربے
کو سعودی عرب میں آزمانے کا عزم رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ کمال اتا
ترک کی طرح ہی ایک طرف صیہونیوں سے تعلقات بڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف ملک
میں سیکولراور لبرل بنیادوں کو مضبوط کر رہے ہیں ۔کمال اتاترک کی جواں ترک
تحریک کے ماڈرنائزیشن کے تجربے کا نتیجہ توبالآخرخلافت عثمانیہ کے خاتمے
اور لوزان ٹو معاہدے کی صورت میں نکلا جس نے ترکی کو اگلے سوسال کے لیے
اقتصادی ، سیاسی اور مذہبی طورپر یہودو نصاریٰ کے ہاتھوں باندھ کر رکھ
دیاتھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے محمد بن سلمان کمال اتا ترک کے نقش قدم پر چل کر
کیا نتیجہ حاصل کرتے ہیں ۔زمینی حقائق تو یہی بتا رہے ہیں کہ ترکی کو
100سال قبل یہود ونصاریٰ کے ایجنڈے یعنی ماڈرنائزیشن اور سیکولرازم پر چل
کر جو تلخ تجربہ حاصل ہوا تھا اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس نے اپنی درست
سمت کا تعین کر لیا ہے۔ یعنی عالمی ایجنڈے پر عمل درآمد کے برعکس قومی اور
ملی ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے ۔ کمال اتا ترک نے عالمی ایجنڈے کے تحت ترکی
میں اسلام کا گھونٹا تھامگر طیب نے اسلام کو تازہ فضا مہیا کی ہے ۔ اتا ترک
نے مذہبی تعلیم کو ختم کیا تھا جبکہ طیب کے قائم کردہ امام حاطب مدارس میں
اب تک 10لاکھ بچے داخل ہو چکے ہیں ۔ اتا ترک نے کمر عمر بچوں کے حفظ قرآن
پر پابندی عائد کی تھی جبکہ طیب نے پرائمری سطح سے حفظ قرآن کا اہتمام کیا
ہے۔اس کے علاوہ طیب اردگان نے اتا ترک کی پردے پر عائد پابندی کو ختم کیا
ہے ،2002ء سے اب تک 19ہزار نئی مساجد تعمیر کی ہیں اور بے شمار مساجد از سر
نو تعمیرکی ہیں ، شراب کی خرید و فروخت پر بھی روک لگائی ہے اور سرمایہ
دارانہ سودی نظام کے مقابلے میں وہ اسلامی بینکنگ سسٹم کی طرف بڑھ رہے ہیں
۔گویا طیب اردگان نے اپنے عمل کی بنیاد دینی اور ملی اساس پر رکھی ہے تو اس
کے ثمرات بھی ترکی کو حاصل ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔وہ نہ صرف معاشی طور پر
مضبوط ہو رہاہے بلکہ بحیثیت مسلمان ملک اپنی مذہبی شناخت بھی بنا رہا ہے
اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ترکی کی حکومت کو عوام کی بھی اس قدر حمایت حاصل ہے
کہ 2016ء میں جب عالمی قوتوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے ترکی کی حکومت کو
گرانے کی کوشش کی تو عوام نے ٹینکوں تلے لیٹ کر حکومت کا کامیاب دفاع
کیا۔جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کو عالمی ایجنڈے کی راہ پر چل نکلنے کے اثرات
کا بھی ابھی سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ ایک طرف ملک میں بڑھتا ہوا انتشار
اور خلفشار کسی تباہ کن طوفان کا پیشہ خیمہ بن رہا ہے اور دوسری طرف خود
حکمران اپنے ذاتی محلوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ عالمی میڈیا کے مطابق
پچھلے دنوں محمد بن سلمان پر اس کے محل میں قاتلانہ حملہ ہوا جس میں محمد
بن سلمان زخمی ہو کر کئی دن تک روپوش رہا جبکہ اس کا بیٹا اس حملے میں
زندگی کی بازی ہار گیا ۔نتیجہ واضح ہے کہ مسلم حکمران اگر قومی اور ملی
اساس کو چھوڑ کو عالمی ایجنڈے پر چلیں گے تو نہ ملک میں استحکام رہے گا اور
نہ ان کا اقتدار محفوظ رہے گا۔ جبکہ اگر اپنی قومی اور ملی بنیادوں پر کھڑے
ہو کر عالمی دباؤ کا مقابلہ کریں گے تو نہ صرف ملک میں استحکام آئے گا بلکہ
عوام اپنی جانیں قربان کرکے بھی ان کے اقتدار کی حفاظت کریں گے ۔ اب دیکھنا
یہ ہے کہ پاکستان کے نئے حکمران درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے کون سا
راستہ اختیار کرتے ہیں، محمد بن سلمان کا یا طیب اردگان کا ۔اﷲ ہم سب کا
حامی و ناصر ہو ۔آمین !
|