آپریشن فیئر پلے کی یہ حیرت انگیز کہانی پاکستان کے
سب سے مقبول اور تاریخی ڈائجسٹ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ستمبر 1977ء سے اخذ کی
گئی ہے ۔ جس کو لفظوں میں پرونے کا اعزاز پاکستان کے ممتاز ادیب و دانش ور
جناب الطاف حسن قریشی صاحب کو حاصل ہوا ۔ چونکہ آپریشن فیئر پلے کی کہانی
کا دو متضادشخصیات (ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیاء الحق )کے گرد
گھومتی ہے۔ اس لیے اسے تاریخ میں ہمیشہ اہمیت حاصل رہے گی ۔بلکہ موجودہ اور
آنے والی نسلوں کے لیے یہ ایک انکشاف ثابت ہوگا ۔ لیجیئے آپ بھی پڑھیئے
*************************
’’وہ ایک خاموش اور پرسکون رات تھی مگر اس کے بطن سے سربستہ راز تخلیق ہوئے۔
دراصل ہمارا مشن بہت کٹھن تھا۔ وہ اس لئے کہ میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ
فوج کو سیاست میں داخل نہ ہونے دوں گا اور نہ ہی اقتدار سنبھالوں گا اور
سیاسی مسائل یا بحران کو سیاسی عمل کے ذریعہ حل ہونے میں مدد دوں گا۔ 10
مارچ 1977ء کو اپوزیشن نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو صورت حال
سنگین ہو گئی۔ چنانچہ ہم نے راولپنڈی میں اعلیٰ فوجی افسروں کا ایک اہم
اجلاس بلایا اور معاملات کے سارے پہلو زیربحث آئے۔ اس وقت ہم نے کئی متبادل
تجاویز پر غور کیا۔ ان تجاویز میں اقتدار سنبھالنے کی بات بھی تھی۔ تمام
افسروں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ہم سیاست میں ملوث ہونے سے بہرصورت گریز
کریں گے اور صرف آخری چارۂ کار کے طور پر حکومت پر قابض ہونے کا پروگرام
بنائیں گے۔
اس اہم اجلاس کے بعد ہم سیاسی صورت حال کا جائزہ لیتے رہے۔ عوامی تحریک کے
بارے میں اطلاع دی گئی کہ وہ ہفتہ عشرہ میں دم توڑ دے گی مگر حکومت کے
اندازے غلط نکلے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں حدت پیدا ہوتی گئی۔ مارچ کے
آخر میں کراچی اور حیدرآباد کناروں سے باہر نکل آئے۔ فوج کو بادل ناخواستہ
محدود آپریشن کرنا پڑا۔ اس شہر میں بعض اہم افسروں کا ایک اجلاس ہوا‘ جس
میں یہی طے پایا کہ فوج کو سیاسی حوادث سے ہرممکن طور پر الگ تھلگ رکھا
جائے۔ مشرقی پاکستان کا تجربہ ہمارے سامنے تھا۔
21 اپریل کے بعد ہمارا دائرۂ کار تین شہروں میں وسیع ہو گیا۔ مئی کے پہلے
ہفتے میں انار کلی لاہور میں گولی چلی تو حالات نے ایک نیا رخ اختیار کر
لیا۔ تین بریگیڈیئر بڑے مضطرب تھے۔ چنانچہ میں خود لاہور پہنچا۔ انہوں نے
کہا کہ خدا کے لئے ہمیں یہاں سے تبدیل کر دیجئے۔ ان کی خواہش کا احترام کیا
گیا۔ میرے لئے سب سے اہم اور نازک مسئلہ فوج کے اندر مکمل نظم وضبط برقرار
رکھنا تھا۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں وفاداروں پر اثر نہ پڑے۔ چنانچہ اس
زمانے میں میرے اپنے قلم سے چھ سے زائد احکام جاری ہوئے۔ میرے احکام براہ
راست بٹالین کمانڈر کو بھیجے گئے۔ یہ تجربہ پہلی بار کیا گیا تھا۔ ورنہ چیف
آف سٹاف براہ راست صرف کور کمانڈروں کو ہدایات بھیجتا ہے اور انہیں سمجھ
بوجھ کے مطابق آئین سے وفاداری کا کہتا رہا۔ مئی کے پہلے عشرے میں کور
کمانڈروں کا ایک اور اہم اجلاس ہوا۔ حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے یہ فیصلہ ہوا کہ مسٹر بھٹو کو سیاسی تصفیئے کی ضرورت کا شدید احساس
دلایا جائے۔ میں نے مارچ کے آخر میں ان سے کہہ دیا تھا کہ سیاسی مذاکرات کے
ذریعے معاملات طے کئے جائیں۔ وہ یہی کہتے رہے کہ ’’مجھے کچھ وقت دیجئے۔ اگر
اس وقت میں نے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیش کش کی یا ان کی ایک آدھ بنیادی
بات مان لی تو ملک میں ایسی افراتفری پھیلے گی کہ جس پر قابو نہ پایا جا
سکے گا۔‘‘ میں نے سوچا کہ یہ معقول بات ہے‘ چنانچہ فوج نے بھی خاصا سہارا
دیا۔ مسٹر بھٹو نے یوں تو مذاکرات کا ذکر شروع ہی میں کر دیا تھا لیکن
باقاعدہ دعوت اپریل کے آخر میں دی۔ دس بارہ مئی کے لگ بھگ انہوں نے مجھ سے
رابطہ قائم کیا اور کہا کہ ’’میں حالات سدھارنے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہوں
لیکن اپوزیشن کا رویہ غیرمنطقی اور غیرجمہوری ہے۔ مجھے کچھ اور وقت درکار
ہے۔‘‘ انہی دنوں انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کی اور عام انتخابات کے
بجائے ریفرنڈم کی تجویز پیش کر دی۔ اس کے خلاف تقریباً ہر سطح پر شدید
ردعمل ہوا۔ فوجی افسروں اور جوانوں کے جذبات صاف پڑھے جا سکتے تھے۔ اس
مرحلے پر ہم نے مسٹر بھٹو پر واضح کر دیا کہ یہ طرز عمل مناسب نہیں۔ قوم
انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اور آپ ایک نیا ایڈونچر کرنا چاہتے ہیں۔ اس
بار ہمارے پیغام میں قدرے سختی اور شدت تھی۔ ہماری بات کا خاطرخواہ اثر ہوا
اور بھٹو صاحب نے مولانا مفتی محمود صاحب سے ملاقات کی اور ازسرنو انتخابات
کی بنیاد پر مذاکرات کی دعوت دی۔
مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ مسٹر بھٹو میری سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے
ہیں۔ چیف آف سٹاف ہاؤس کے سامنے ہمیشہ دو تین آدمی بیٹھے رہتے تھے۔ اس لئے
احتیاط اور بھی زیادہ درکار تھی۔ جون کے پہلے عشرے میں ہمیں احساس ہو گیا
کہ حکومت مذاکرات میں مخلص نہیں چنانچہ جون کے وسط میں اہم ترین فوجی
افسروں کا اجلاس اس مکان (چیف آف سٹاف ہاؤس) میں ہوا۔ میں نے تمام
کورکمانڈروں کو رات کھانے پر بلایا اور ساری تفصیلات ان کے سامنے رکھ دیں۔
ہم سب نے اتفاق رائے سے طے کیا کہ اب آپریشن پہلے سے زیادہ ناگزیر نظر آتا
ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کو ابھی اور مہلت دی جائے۔ اگر معاملات خوش اسلوبی
سے طے پا جاتے ہیں تو فوج کا کام ختم۔ اگر حالات کے بگاڑ میں اور شدت اور
وسعت پیدا ہو جائے تو پھر آپریشن سے اجتناب نہ کیا جائے۔ اس رات میں آپریشن
کا نام ’فیئر پلے‘‘ تجویز ہوا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ آپریشن کے وقت کا تعین
چیف آف سٹاف کریں گے۔ ہم نے یہ راز صرف اپنے آپ تک محدود رکھا اور سی جی
ایس کو بھی ہم راز نہ بنایا۔ میرے سٹاف افسر بھی اس آپریشن سے کلیہ بے خبر
تھے۔
جون کے آخری دنوں میں مسٹر بھٹو نے فوجی جرنیلوں کو کابینہ کے اجلاس میں
بلانا شروع کر دیا۔ بعض مواقع پر عجیب وغریب باتیں سننے میں آئیں۔ ایک رات
مسٹر کھر اور مسٹر پیرزادہ نے کہا کہ ’’اپوزیشن شرارت سے باز نہیں آتی‘ اس
کے لیڈر فتنے اٹھا رہے ہیں‘ ہم ان سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘ ٹکا خان کے لب
ولہجہ میں اور بھی تیزی تھی۔ ان کا ارشاد تھا کہ ’’دس بیس ہزار افراد
پاکستان کی خاطر قتل بھی کر دینے پڑیں تو کوئی بات نہیں۔‘‘ مسٹر بھٹو بار
بار کہتے ’’جنرل صاحب دیکھا آپ نے میری کابینہ کا موڈ۔ میں ان حالات میں
اپنے وزیروں کا ساتھ دینے کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
ایک رات کابینہ کی پھر میٹنگ ہوئی۔ بھٹو صاحب خاصے پریشان تھے۔ دل کی بھڑاس
نکالنے کے بعد بولے ’’آیئے جنرل صاحب! آپ بھی اقتدار میں شامل ہو جایئے۔
زیادہ تر اختیارات آپ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ بس ایک بار اپوزیشن کو چھٹی
کا دودھ یاد آ جائے۔‘‘ اس نوع کی باتیں اب ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھیں۔
یکم جولائی کو یہی تماشا رات کو ڈیڑھ بجے تک ہوتا رہا۔ 2 جولائی کو بھی اس
ڈرامے کی ریہرسل کی گئی۔ تین جولائی کی رات کو میرے اعصاب نے حقیقی خطرہ
بھانپ لیا۔ چنانچہ میں بڑے اقدام کا جائزہ لینے لگا۔ حکومت کی ذہنی کیفیت
میرے سامنے تھی۔ اب صرف اپوزیشن کے نقطہ نظر کا انتظار تھا۔ (4 جولائی کو)
شام کے پانچ بجے مجھے معلوم ہوا کہ نوابزادہ نصراﷲ خاں پریس کانفرنس سے
خطاب کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس وقت پوری رپورٹ حاصل کی گئی۔ ان کا ردعمل وہی
تھا جس کی مجھے توقع تھی۔ چنانچہ ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں نے راولپنڈی
سے باہر احکام جاری کر دیئے کہ رات بارہ بجے نقطہ آغاز ہو گا۔
شام آٹھ بجے پرائم منسٹر ہاؤس سے ٹیلی فون آیا کہ آج رات کابینہ کا اجلاس
ہو گا اور آپ کی شرکت ضروری ہے‘ جلد ہی وقت بتا دیا جائے گا۔ اگر اجلاس
بارہ بجے جاری رہا اور میں بھی اس میں شریک ہوا تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہو
سکتی ہیں۔ چنانچہ راولپنڈی کے لئے میں نے وقت آگے بڑھا دیا۔
ایک ایک لمحہ جسم کے اندر کانٹے کی طرح پیوست ہوا جاتا تھا۔ لاکھو ں وسوسے‘
ہزاروں خدشات‘ یہ بھی اندیشہ تھا کہ ہمارے منصوبہ کا اگر کسی کو علم ہو گیا
تو کچھ بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ یہ راز صرف چند افراد تک محدود تھا۔ اور
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عجب طرح کا سماں منڈلانے لگا۔
خیال کی ایک لہر اٹھی کہ ضیاء کہیں تم غلطی پر تو نہیں؟ کیا تم پاکستان کو
مارشل لاء سے بحفاظت تمام گزار سکو گے؟ میں نے وضو کیا اور خشوع وخضوع کے
ساتھ نماز ادا کی۔ نماز میں ایک ایسی لذت نصیب ہوئی‘ جو پہلے کبھی میسر نہ
تھی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب خیال آیا کہ پرائم منسٹر ہاؤس سے رابطہ کر کے
کابینہ کے اجلاس کے بارے میں پوچھا جائے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ہاٹ
لائن پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ وزیراعظم دوسرے سرے پر تھے۔ انہوں نے
نوابزادہ نصراﷲ خان کی پریس کانفرنس کا ذکر کیا اور حسب معمول اپوزیشن کے
رویوں کی شکایت کرتے رہے۔ میں نے پوچھا کہ کابینہ کی میٹنگ کتنے بجے ہو رہی
ہے۔ جواب ملا آج رات کو نہیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور راولپنڈی کو
بھی احکام جاری کر دیئے۔
پرائم منسٹر ہاؤس میں تین طرح کے ٹیلی فون ایکسچینج تھے۔ ایک عام ایکسچینج‘
دوسری گرین لائن اور تیسری ہاٹ لائن۔ ایکسچینج تو ہماری گرفت میں تھا لیکن
باقی دو لائنوں پر ہمارا کوئی اختیار نہ تھا۔ چنانچہ عام ایکسچینج کی
لائنیں کاٹ دی گئیں۔ صرف دو ٹیلی فون کنکشن اسی طرح رہنے دیئے گئے۔
رات کو بارہ بجے میں خود جنرل ہیڈکوارٹرز پہنچ گیا اور پورے آپریشن کی تنہا
نگرانی کی۔ اس رات ممتاز بھٹو بڑی دیر تک پرائم منسٹر ہاؤس میں رہے۔ رات
گئے گھر پہنچے تو فوج کی پراسرار نقل وحرکت دیکھی۔ ادھر وزیراعظم کے ملٹری
سیکرٹری میجر جنرل امتیاز نے فوجی دستوں کو غیرمعمولی سرگرم پایا۔ جنرل
امتیاز نے مجھے فون کیا۔ میں نے بتا دیا کہ یہ سب کچھ میرے حکم سے ہو رہا
ہے اور تم ہدایت لینے کے لئے میرے پاس چلے آؤ۔
اتنے میں مسٹر ممتاز بھٹو گرین لائن پر مسٹر بھٹو سے رابطہ قائم کر چکے
تھے۔ وزیراعظم نے مجھ سے بات کی۔ میں نے کہا ’’سر! اس کے سوا کوئی چارہ نہ
رہا تھا۔ اب آپ ہمارے ساتھ تعاون کیجئے۔ دوسری صورت میں ہمیں طاقت استعمال
کرنا ہو گی۔‘‘
’’نہیں۔ یہ نوبت نہیں آئے گی۔‘‘ انہوں نے پرسکون لہجے میں کہا۔
’’آپ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’بس‘ آپ کو حراست میں لیں گے۔ صبح تک چک لالہ رکھیں گے پھر مری لے جائیں
گے۔‘‘
’’میرے بچے آج رات ہی آئے ہیں۔ میں تو اچھی طرح ان سے مل بھی نہ سکا؟‘‘
’’آپ آرام سے یہ رات پرائم منسٹر ہاؤس میں گزاریئے۔ اگلے روز مری کے لئے
تیار ہو جایئے۔‘‘
’’ہاں ہاں! شکریہ!‘‘
ٹیلی فون بند ہو گیا اور تاریخ کا ایک باب بھی۔ |