سیاسی قبلہ سے وفاداری،نیا پاکستان اور راجہ فاروق حیدرخانصاحب کی جذباتیت اور۔۔

قارئن!راجہ فاروق حیدرخان اکثر و بیشترپاکستان اور افواج پاکستان کیلئے ولولہ انگیز الفاظ میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔یہ الفاظ آزادکشمیر کے ہر دور کے حکمران کی ’’ضرورت‘‘چلے آئے ہیں۔وجہ سب جانتے ہیں۔اور پھر پاکستانی ادارے بھی شاید ’’زبانی کلامی‘‘اظہار اُلفت ‘‘کے خطرناک نتائج سے زیادہ کوئی سروکار نہیں رکھتے۔۔شایداسی وجہ سے ’’خطہ ‘‘کے زمینی حقائق کا ادراک کرنے کاتکلف شاید نہیں کیا جاتا۔یا پھر ادراک کے باوجود ۔۔۔۔بہرحال وقت کیساتھ ساتھ پاکستان کیلئے آزادکشمیر میں عوامی سطع پر روایتی جوش وجذبہ کہاں کھویا ہے؟یہ بہت اہم سوال ہے۔مگر صرف اُنکے لئے جنہیں پاکستان کیلئے ایثار و قربانی کے جذبے نصیب ہوں۔اور جنہیں مقبوضہ کشمیر میں جوانوں کے لاشے پاکستانی پرچم میں لپیٹے لاکھوں لوگوں کے جم عفیر کیساتھ دکھائی دیتے ہوں ۔جنہیں یہ معلوم ہو۔تحریکیں زبانی کلامی خدمت (جمع خرچ)سے نہیں چلتیں۔جو خدمت ہمارے صدر /وزیراعظم /وزراء کرام عموماََ جاری رکھتے ہیں ۔تحریک آزادی کے غم میں ہلکان آزادخطہ کی قیادت کو احساس ہے،کہ ایک جون کی لاش جس باپ کے کندھے پر آجائے ۔اُسکا بوجھ کتنا ہوتا ہے۔کہ کشمیریوں کو آئے روز اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اُٹھانا پڑتی ہیں ایک ماں کا لخت جگرجب خون میں نہا جاتا ہے ۔اُسکے دِل پر کیا گزرتی ہے؟؟ایک بھائی کی بہن درندگی کی شکار ہواُس پر کیا بیتتی ہے؟چلیں ایک مثال دیتے ہیں۔مظفرآباد سے منسلک ایک حلقہ انتخاب میں دوران الیکشن لڑائی مار کٹائی ہوتی ہے ۔شاید ایک ادھ بندہ ایندھن بن جاتا ہے۔چند بپھرے ہوئے جوان ریڈیو اسٹیشن چوک میں آکر ناصرف راجہ فاروق حیدر خان کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں ۔بلکہ غصے میں پاکستان کا پرچم میں جلا دیتے ہیں۔اس مثال سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رنج و غم ،مظلومیت کی گھڑی میں جب کسی جوان کشمیری کی لاش اُسکے باپ ،بھائیوں کے کندھے پر آتی ہے۔تو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹی ہوتی ہے ۔جو ایک ناقابل تدید و تاویل اعلان ہے۔کیا اس اعلان کی حقیقت سے آزادخطہ کا کوئی رشتہ ہے؟؟تحریک کی راہ میں خون دینے والے غصہ بھی کرتے ہیں ،اُن میں جوش بھی زیادہ ہے۔مگر اتنا ہوش ہے۔کہ پاکستان کو اپنی منزل قرار دینے کیلئے تحریک کے شہیدوں کے لاشے تک سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ دئیے جاتے ہیں۔جبکہ ہمارے جوش وجذبے کا یہ عالم ہے سیاسی مقامی وجوہ کی لڑائی ہوتی ہے ۔اور جھنڈا پاکستان کا جلا دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔کوئی قومی دن ہویا تحریک کی تقویت کیلئے موقع ۔۔۔دارالحکومت کا شہری عملی طور پر لاتعلق نظر آتا ہے۔سرکاری ملازم چھٹی انجوائے کررہا ہوتا ہے۔جبکہ متاثرین آزادی ،برہان وانی چوک میں پریس کلب کے سامنے کھڑے تحریک آزادی کو تقویت دے رہے ہوتے ہیں۔یہ بیس سے پچاس ،سو سے دو سو اور شاید دو تین بار پانچ سو سے ہزار کا عدد عبور کرپائے۔اُن کے علاوہ کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ چھ لاکھ شہریان مظفرآباد میں سے ہی سہی کبھی پانچ ہزار لوگ ہی ’’مقبوضہ کشمیر‘‘کی تحریک مزاحمت کی حمایت میں سڑکوں پر آئے ہوں ۔اِنھی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے شہدائے وطن میڈیا سیل اے کے زون نے گذشتہ سال سے بارہا وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان سے مطالبہ کیا کہ ریاست کے تمام سرکاری اداروں کواہم ایام قومی/ریاستی دنوں پر سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے تا کہ بیس کیمپ کا حقیقی کردار بحال ہو،پاکستان کیساتھ آزادخطہ کے باشندوں کا رشتہ کمزور نہ ہو،اورمقبوضہ کشمیرتحریک آزادی کو تقویت ملے۔ایسا تب ممکن ہے۔جب ایگزیکٹو آردڈر کے ذریعے قومی /ریاستی دنوں پر سرکاری چھٹی ختم کرکے ایک تمام سرکاری محکمہ جات کو جُملہ سرگرمیوں میں شرکت یقینی بنائی جائے۔اگر یہ تاریخی اقدام کرلیں تو راجہ فاروق حیدر خان کانام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔اب تازہ ترین خبر کیمطابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے نومبر سے تمام قومی /ریاستی دنوں کی مناسبت سے علامتی سرگرمیوں کو نئی جہت دینے کیلئے منصوبہ بندی کئے ہوئے ہیں۔
قارئن! انتخابی مُہم کے دوران وزیراعظم آزادکشمیر پنجاب میں مصروف رہے۔اور میاں برادران کی محبت میں کسی احیتاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کا تاثر قائم کرچکے۔پاکستان میں عمران خان کی جیت اور’’ نئے پاکستان‘‘ کے قیام کے مینڈیٹ کیساتھ قومی اُفق پر ’’وارد‘‘ہوتے ہی کچھ لوگوں نے راجہ فاروق حیدرخان کیلئے کنویں کی کھدائی کا کام شروع کرنے کیلئے صلاح و مشورے شروع کردئیے ہیں۔یا ر لوگ راجہ فاروق حیدر خان کی اپنے سیاسی قبلہ سے وفاداری اور اِسی وفاداری کے اظہار کیلئے مختلف اوقات میں کہے گئے الفاظ سے برپا ہونیوالے طوفان سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں ہوئے ہیں ،یا نہیں ،مگر اتنا ضرور ہے کہ ’’راجہ صاحب ‘‘کے بعض ارشادات سے بہت سے اُنکے مخالفین فائدہ اُٹھانے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔آزادکشمیر کی ایک بڑی سیاسی شخصیت سردار ابراھیم خان کی برسی کے موقع پر وزیراعظم راجہ فاروق حیدرخان صاحب نے مظفرآباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کیلئے سخت جُملوں کا استعمال کیا۔جس پر راجہ صاحب کے بدخواہوں کی تو جیسے لاٹری نکل آئی ہے۔جبکہ اُنکے دوستوں میں سے کچھ تو فکرمند ہوئے ،کچھ خاموشی کو سب سے بہتر حکمت مان کر ایک طرح سے گوشہ نشین ہوچکے۔لیکن جب صدر ریاست جناب سردار مسعود خان کی طرف متوجہ ہوں تو دِل کو تشفی ہوتی ہے کہ چلو ہماری قیادت میں کسی موقع سے فائد اُٹھانے کا وصف بھی موجود ہے۔مثلاََ جب راجہ فاروق حیدرخان ن لیگ برداران کیلئے مصروف رہے۔تو جناب صدر نے اپنے دو صدارتی مشیران کا تقرر فرما دیا۔ سیاسی تجزیہ نگار پاکستان میں ’’ووٹ‘‘کے ذریعے آنیوالی اس تبدیلی کوجہاں راجہ فاروق حیدر خان کی وزارت عظمیٰ کیلئے بدشگونی قرار دے رہے ہیں۔تو دوسری طرف صدر ریاست کیلئے انتخابی مرحلہ کی تکمیل تک میسر آنیوالا سنہرادور اُنکے لئے کسی لاٹری سے کم نہیں ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راجہ فاروق حیدرخان عمران خان کیخلاف اس قدر سخت روئیے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ’’نئے پاکستان‘‘سے کسی قسم کا سروکار رکھنے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرچکے۔اب جبکہ ن لیگ کا دوراقتدار ختم ہوچکا۔ میاں برادران سے اپنی وفاداری کے تناظر میں راجہ فاروق حیدر خان اپنے ہی کہے ہوئے ’’ارشادات‘‘بارے کیا عذر اپنائیں گے؟فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔تاہم تجزیہ نگاروں کے خیال میں موصوف خود کو رائیونڈ کاسچار وفادار ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے اندر بڑے نام جن میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے شاہ غلام قادر کے علاوہ طارق فاروق ہیں کسی طرز کی مُہم جوئی سے باز رہے۔مگر پاکستان میں ن لیگ کا بوریا بستر گول ہونے کے بعد راجہ صاحب کیخلاف لیگ کے اندر سے محاذ گرم ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔جسے’’اِن ہاؤس تبدیلی‘‘کا نام دیا جائیگا۔چونکہ وزیراعظم کئی بار عمران خان کے پاکستان کے حوالے سے کچھ زیادہ بولے ۔اس لئے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو اُنھیں عمران خان کے نئے پاکستان کے بارے میں ارشادات پر پکڑ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئیگی ۔کیونکہ راجہ فاروق حیدر خان صاحب اپنے سٹائل کی بدولت ’’زبان سے ‘‘بہت کچھ کہہ جانے کے بعد نتائج و حساسیت کا ادراک کرتے ہیں۔لہذا آزادکشمیر میں اب ’’اِن ہاؤس تبدیلی‘‘کیلئے سلسلہ چلے گا۔اور یہ کام ن لیگ کے اندر سے ہوگا۔ایک وزیر کے استعفیٰ کو اسی سلسلہ کا نقطہ آغاز باور کیا جارہا ہے۔اگر تبدیلی نہ بھی آئے ۔مگر راجہ صاحب کے سر پر ایک تلوار لٹکتی رہے گی۔ ایک حلقہ کا کہنا ہے کہ مسلم کانفرنس کے سربراہ عتیق احمد خان شیخ رشید صاحب اور عمران خانصاحب کیساتھ تعلقات سے اتنا ضرور فائدہ اُٹھائیں گے ۔کہ راجہ صاحب کو رخصت کیا جائے ۔چونکہ فاروق حیدر خان قبل ازیں کہہ چکے ہیں وہ دوبارہ ’’وزیراعظم ‘‘نہیں بنیں گے ۔اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک اپنے کارکنوں(ووٹرز+سپورٹرز)کیلئے قابل ذکر ’’صلے‘‘کا اہتمام کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔اس لئے لیگی صفوں میں مایوسی/انتشار پایا جاتا ہے۔یہ صورتحال فاروق حیدر خان کے اقتدار اور آئندہ کی سیاسی زندگی کیلئے سود مند نہیں ۔

ذمہ دار رائے میں نواز شریف ،پاکستان افواج کیساتھ سخت اور فیصلہ کن جنگ لڑتے رہے ۔کشمیر کا ذکر تک پسند نہیں کیا۔مودی سے قربتیں بڑھتی رہیں۔ راجہ فاروق حیدر خان کی رائیونڈ سے بیجا وفاداری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔اب تک صرف صدر ریاست ’’وارے‘‘میں ہیں۔ن لیگ اور فاروق حیدر خان کیلئے مسائل اور مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔’’نمبردار اپنے گاؤں کے لوگوں کی کسی خوشی غمی میں شریک نہ ہوتا۔البتہ شادی ہویا فوتگی ،نمبردار صاحب اپنی چھڑی بھیجوانا کبھی نہ بولتے۔لوگ نمبردار کے طرز عمل سے رنجیدہ رہتے ۔مگر کبھی کسی نے لب کشائی نہیں کی۔پھر یوں ہوا۔کہ نمبردار صاحب فوت ہوگئے۔گاؤں والوں کو پتہ چلا تواُنکی اکثریت جنازے میں شریک نہ ہوئی ،البتہ ہر گھر سے ایک ایک چھڑی بھیجوادی گئی،یہاں تک کہ نمبردار کے گھر کا صحن چھڑیوں سے بھر گیا‘‘مقبوضہ کشمیر والے اپنے بیٹوں کی لاشیں اُٹھارہے ہیں ۔ہمارے بااثر طبقہ کے بیٹے اعلیٰ نوکریاں ،کاروبار پر لگ رہے ہیں ۔اُدھر بیٹیاں سروں سے چادریں چھیننے ،چوٹیاں کاٹنے کے واقعات کے علاوہ عصمت دری جیسے سفاک ترین جرم کا شکار بنتی آئی ہیں ۔اِدھر آزادکشمیر میں محکمہ تعلیم سمیت دیگر ذرائع سے خواتین کی ملازمتیں ،روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔اُدھر جوان کشمیر کی آزادی کی تحریک میں جوق درجوق شامل ہورہا ہے۔اِدھر این ٹی ایس کے گورکھ دھندے سے گزر کر نوکری چاہتا ہے۔کل کلاں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے اگر آزادکشمیر کی طرف سے اپنی عملی جدوجہد میں صرف اخباری بیانات /تقریروں کا حصہ رد کردیاتو؟؟؟سارا کھیل تماشا ختم ہوجائیگا۔راجہ فاروق حیدر خان بیس کیمپ کی بے حسی کا علاج کریں۔اگر صرف سرکاری ملازمین ہی قومی دنون پر سرگرمیاں کرنے لگیں تو آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی سڑکوں پر لاکھ دو لاکھ لوگوں کا آنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔اور جب اتنے لوگ مقبوضہ کشمیر والوں کے عزم ،جدوجہد اور اس نتیجے میں ملنے والے زخموں کو محسوس کرتے ہوئے ’’سینز فائر لائن ‘‘کی طرف مارچ کرنے لگے تو پھربیس کیمپ کی قیادت کو اپنے بیانات اور دیگر مواقع پر ’’عالمی برداری ،عالمی برادری ‘‘کی رٹ لگانے کی ضرورت نہیں رہیگی۔چالیس لاکھ آبادی کے بیس کیمپ سے اگر پانچ لاکھ لوگ سیز فائر لائن کی طرف چل نکلیں ،کون مائی کا لال روک سکے گا۔اور اگر چند سو یا چند ہزار جانیں چلی بھی گئیں تو دُنیا کو بھاگ کر مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا پڑیگا۔کیونکہ ایٹمی ممالک میں جنگ کا مطلب کرہ ارض کی تباہی ہے ۔اور دُنیا امن کی راہیں تلاش کرتی ہے۔
 

Agha Safeer
About the Author: Agha Safeer Read More Articles by Agha Safeer: 9 Articles with 8029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.