گھر میں نقب زنی کی واردات

ایک بچے کی اصلاح کا حیرت انگیز واقعہ جسے اپنے گھر سے روپے اٹھانے کی عادت پڑگئی تھی!!!

ساجد ایک اچھا،ذہین اورمحنتی طالب علم تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے بڑوں کا کہنا مانتا ۔پڑھائی میں دل وجان سے محنت کرتا تھا۔وہ ہرسال اپنی جماعت میں اول آتا۔ جب وہ ساتویں کلاس میں آیا تو اس کی جماعت میں ایک نیا طالب علم داخل ہوا۔اس کا نام عارف تھا۔ عارف تھا تو خوش شکل لیکن عادات واطوار کے لحاظ سے حدرجہ خراب تھا۔ وہ بہت زیادہ باتونی تھا اور ہرایک کے سامنے اپنے سچے جھوٹے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتالیکن اس میں بھی کوئی شک نہ تھا کہ بولنے میں وہ ماہر تھا۔ جلد ہی اس نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ساجد جیسے ذہین اور محنتی طالب علم کو بھی اپنے فریب جال میں جکڑ لیا۔ آہستہ آہستہ ساجد کو اس کی کمپنی میں بہت مزا آنے لگا۔عارف کی صحبت میں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ساجد کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوگیا۔ اب تو وہ کبھی کبھی اسکول سے بھی غائب ہونے لگا ۔اورعارف کے ساتھ قریب کے پارک ،بازار اورریسٹورنٹ میں سیر وتفریح ،کھانے پینے اورگھومنے میں مصروف رہنے لگا۔اب ساجد کا پورے مہینہ کا جیب خرچ محض ایک ہفتہ میں ہی ختم ہوجاتا۔ یہ اس کی پورے مہینے کی ضروریات کے لئے ناکافی تھا۔اب وہ جیب خرچ کی کمی کو بہت شدت سے محسوس کرنے لگا۔ اس نے اپنے والد سے جیب خرچ بڑھانے کا کہاتو انہوں نے اپنی مجبوریوں کی فہرست اسے سنادی ۔ جب ساجد نے اپنے دوست عارف سے اس سلسلے میں بات کی تو عارف نے اس سے کہا دیکھو دوست اپنا حق لینا پڑتا ہے۔ کوئی نہ دے تو چھین لو،چرالو لیکن چھوڑو نہ۔تمہارے والد کی دولت تمہاری ہی تو ہے۔ تم ایساکرو انہیں بغیر بتائے ان کے بٹوے سے پیسے غائب کرنا شروع کردو ۔میں بھی تو ایسا ہی کرتا ہوں ۔کبھی کسی کو مجھ پر شک نہیں ہوا۔ بس ذرا ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ پھر وہ اس کے گھر کے بارے میں کھوج کرید کرنے لگا۔ عارف نے محسوس کیا کہ ساجد کے گھر والے ساجد پر اندھا اعتماد کرتے ہیں ۔ اور ساجد کے لئے گھر سے اضافی روپے حاصل کرنا قطعا دشوار نہ ہوگا۔ اس نے اسے طرح طرح کے حیلے بہانے بتائے ۔لیکن ساجد کا دل مطمئن نہ ہوا۔ لیکن جب مستقل برین واشنگ کا سلسلہ چلتا رہا اور ساجد کے بڑھتے ہوئے اخراجات اوراپنے دوستوں سے لئے گئے قرض کی رقم بڑھتی گئی تو اس پر عارف کا یہ وار کامیاب ہوا۔
اس نے عارف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق ایک صبح پہلی دفعہ ڈرتے ڈرتے اپنے والد کے بٹوے سے 500 روپے کا نوٹ نکال لیا۔ چند ایک بار کامیابی سے ایسا کرنے کی صورت میں اس کے دل سے ڈر بھی نکل گیا۔پیسے کی فراوانی اورزیادتی کے سبب اب وہ زیادہ باعتماد ہوگیا۔ اب وہ بڑی مہارت سے اپنا کام سرانجام دیتا،یوں وہ کبھی اپنے بڑے بھائی کے پرس سے ،کبھی اپنی والدہ اورکبھی اپنے والد کے پرس سے کامیابی سے پیسے چرانے لگا۔

جب بار بار ایسا ہوا تو گھر میں ایک شور برپا ہوگیا کہ ایسا کون کرتاہے۔ساجد کے والدین کو اپنے بیٹے پر بڑا فخر تھا۔ اس کا ٹریک ریکارڈ بھی انتہائی شاندار تھا۔لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ گھر سے مستقل پیسے چوری ہونا شروع ہوچکے تھے۔

اس کے والدین بہت پریشان رہنے لگے۔ انہوں نے بڑی کھوج کرید کی ۔لیکن کچھ سراغ نہ مل سکا۔ ایک دفعہ ساجد کے والد اپنا بٹوہ میز پر رکھے بیٹھے تھے کہ دروازہ کی گھنٹی بجی۔ وہ اٹھ کر جانے لگے ابھی کمرے سے باہر نکلے تھے کہ انہوں نے ساجد کو اپنے کمرے میں جاتادیکھا۔ وہ نظراندازکرکے آگے بڑھے اچانک انہیں ایک خیال آیا وہ واپس مڑکر آئے ۔جوں ہی انہوں نے اپنے کمرے میں جھانکا تو عجب منظر ان کا منتظرتھا۔ ساجد ان کے پرس پر ہاتھ صاف کررہاتھا۔ اب جب کہ انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ یہ پیسے چرانے والا کوئی اورنہیں ان کا اپنا پیارابیٹا ہے تو ان کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ ساجد کے والد صاحب ایک پڑھے لکھے جہاندیدہ آدمی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سختی یا کسی بھی قسم کی سزا بچوں کے رویئے مستقل تبدیل کرنے سے قاصر ہے۔
انہوں نے اس معاملے کی کسی کو بھی خبر نہ کی۔ اور غوروفکر کے بعد ایک لائحہ عمل مرتب کیا۔

وہ کسی مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔انہوں نے ساجد کی نگرانی شروع کی۔ ساجد اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ اپنے والد کی نظروں میں آچکا ہے۔ اب کے بار جب ساجد نے اپنی والدہ کے پرس سے پیسے چرائے تو اس کے والد نے انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ پھر انہوں نے ساجد کا تعاقب کیا۔ ساجد اپنے دوست عارف کے گھر گیا۔ وہاں سے دونوں نے ایک پارک کا رخ کیا۔ پارک میں بیٹھ کر انہوں نے پہلے برگر اور آئس کریم کا آرڈر دیا۔ جب انہوں نے یہ چیزیں خرید لیں تووہ پارک میں ایک بینچ پر آکر بیٹھ گئے۔ابھی انہوں نے کھانا بھی شروع نہ کیا تھا کہ ان کے والد یک دم ان کے سامنے آگئے ۔ انہیں وہاں دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے۔

ساجد کے والد نے ان کی خریدی ہوئی اشیاء سامنے سے گزرتے ہوئے ایک گداگر کو دیں جو انہیں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوا۔

اس کے بعد وہ ساجد کی طرف متوجہ ہوئے ۔اسے کہا ساجد مجھے تم سے یہ امید نہ تھی کہ تم بھی چور بن جاؤ گئے۔ ساجد نے جھوٹ بولا کہ یہ اشیاء تو میرے دوست عارف نے خریدیں ہیں ۔ ساجد کے والد نے کہا دیکھو بیٹا میں تمہاری حرکتوں سے مطلع ہوچکا ہوں۔ اب میں تمہارے تمام معمولات جانتا ہوں ۔ اور مجھے بھی یہ خبر ہے کہ آج کل تم پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دےرہے۔اورتم چوریاں بھی کرنے لگے ہو۔ ویسے تم چور کب سے بن گئے ۔

اس نے کہا کہ کیا یہ واقعی چوری ہے۔ میں تو اپنی امی کے بٹوے سے پیسے لایا ہوں ۔ یہ چوری کیوں کر ہوئی ۔ اس کے والد نے کہا تم نے ان کی مرضی کے بغیر پیسے چرائے ہیں۔اور جب تم پیسے چرارہے ہوتے ہو اس وقت تمھارا دل گھبراتا ہے۔ تمہیں ڈر محسوس ہوتا کہ کوئی تمہیں دیکھ نہ لے۔ پھر اس پیسے کو خرچ کرتے وقت بھی تمہیں سچی خوشی نہ ملے گی۔یہی اگر تم اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر سب کے سامنے ایک پارٹی کی شکل میں چیزیں کھارہے ہوتے تو تم اس سے کہیں زیادہ لطف اندوز ہوتے۔ لیکن اب تم لوگ ڈرتے ڈرتے اسے کھاتے ہو کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ یعنی پیسے چراتے ہوئے بھی ڈر،پیسے خرچ کرتے ہوئے بھی ڈر، پھر ان سے خریدی ہوئی اشیاء کے استعمال کرنےپر بھی ڈر، اور اس کا تم اپنے والدین، بھائی ،بہن اوردوستوں سے ذکر بھی نہیں کرسکتے ۔یہ تمام امور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں یہ چوری ہی ہے اور تم بھی اسے چوری ہی سمجھتے ہو ورنہ یوں چوری چھپے نہ کھاؤ ۔اوریہ ذہن میں رکھو کہ آج اگر چھوٹی چوری کررہے ہو کل تم بڑی چوریاں اورڈاکےڈالنے لگ جاؤ گے۔ تمہارا نام بھی پھر چوروں اورڈاکوؤں کی فہرست میں لکھاجائے گا۔کیونکہ برائیاں کرنے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتاہے۔ اگراسے دھویا نہ جائے تو آہستہ آہستہ دل مکمل سیاہ ہوجاتاہے۔ ایک برائی دوسری برائی کا راستہ ہموار کردیتی ہے۔چھوٹی چوری سے انسان بڑی چوریوں کی طرف چلاجاتاہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس شخص پر جو رسی کا ٹکڑا چراتا ہے یا انڈا چراتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے کرتے یہ شخص بڑی چوریوں میں ملوث ہوجاتاہے اور پھر اللہ کی لعنت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اوراس طرح یہ شخص برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلاجاتاہے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس واپسی کا راستہ بھی نہیں رہتا۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے ۔ وہ کبھی نہیں چاہتا کہ انسان اچھائی کے راستے پر چلے۔ اس کے والد اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے دوسری طرف ساجد کی قلبی کیفیت بدل رہی تھی۔اس کی آنکھوں پر چھایا ہوا پردہ ہٹ گیا ، وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔وہ اپنے والد سے معافی مانگنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ تم اپنی والدہ اوربھائی سے بھی معافی مانگواور توبہ کرو کہ آئندہ ایسی حرکت کبھی نہ کرو گے۔ اورتم جو پڑھائی سے ہٹ گئے ہو تو اسے بھی صحیح روش پر لاؤ۔پھر واقعی ساجد اورعارف میں انقلابی تبدیلی آگئی۔ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی۔

اس کے بعد بارہا ساجد کے والد نے اسے آزمانے کی کوشش کی ۔خود کئی بار جان بوجھ کر گھر کے مختلف حصوں میں پیسے پھینک دیئے ۔ لیکن ساجد کو جب بھی پیسے ملتے تو وہ انہیں اپنے والد یا والدہ کی خدمت میں پیش کردیتا ۔ اور اس نے پیسے اٹھانے کی غلط حرکت آئندہ کبھی نہ کی۔

Abu Abdul Quddoos Muhammad Yahya
About the Author: Abu Abdul Quddoos Muhammad Yahya Read More Articles by Abu Abdul Quddoos Muhammad Yahya: 69 Articles with 150321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.