آج کل ہر قسم کی تجارت میں آسان سے آسان راہ فراہم کرنے
کی کوشش کی جارہی ہیتاکہ ہرکوئی تجارت اور خریداری سے فائدہ اٹھا سکے ،قطع
نظر اس سے کہ آدمی کم پیسے والا ہے یا زیادہ پیسے والا۔ اس کام کے لئے
تجارت میں قسطوں کی بیع لائی گئی تاکہ وقفہ وقفہ سے تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع
کرکے غریب سے غریب آدمی اپنی مرضی کا سامان خرید سکے ،اپنی مرضی کی تجارت
کرسکے اور من میں پیدا ہونے والا مہنگا سے مہنگا کام انجام دے سکے ۔ حج
وعمرہ کے سلسلے میں بھی ٹراویلس والوں کی جانب سے قسطوں کی اسکیم چلائی
جارہی ہے تاکہ جس کے پاس کم آمدنی ہو یا تھوڑے پیسے ہوں یا جو کبھی حج یا
عمرہ نہیں کرسکتا ہو ایسے افراد بھی حج وعمرہ کی ادائیگی کرسکے ۔
اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کچھ حج اور عمرہ ٹورس والے ایسی اسکیمیں بناتے
ہیں کہ حج اور عمرہ کے لئے قسطوں میں ادائیگی بھی کی جا سکتی ہے، تھوڑا
تھوڑا کر کے پیسہ قسطوں میں بھرنا ہوتا ہے اور جب پیسہ مکمل بھرا جاتا ہے
تب وہ حج یا عمرہ پر لے جاتے ہیں ۔ یہاں شرعی نقطہ نظر سے سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ کیا اسطرح قسطوں میں رقم بھر کر حج یا عمرہ کیا جا سکتا ہے؟ اس
طرح حج وعمرہ کی ادائیگی صحیح مانی جائے گی ؟
اس سوال کا شرعی اعتبار سے جواب جاننے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس
اسکیم کی حقیقت واضح کردی جائے ۔ ہر ہربڑے شہر میں سیکڑوں کی تعداد میں
ٹراولس ایجنسیاں ہونے کے باعث تجارت میں طبیعت کے حساب سے منافع نہیں ہوتا
ہے ، اکثر ایسے لوگ سستی تجارت کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور باطل
طریقے سے ان کا مال ہڑپتے ہیں ۔ قسطوں کے حج وعمرہ پیکیج کے پیچھے لوگوں کے
ساتھ ہمدردی کم، اکثرظلم وزیادتی مقصود ہوتی ہے ۔ اکثر وبیشتر ایسی اسکیم
والے لوگوں سے پیسہ لوٹتے ہیں ، ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو واقعی اس اسکیم
کے تحت حج وعمرہ کراتے ہیں مگر اکثر بدعنوانی کا شکار ہیں ۔ اس سلسلے میں
انٹرنیٹ اور اخبارات میں شائع قسطوں پہ حج وعمرہ کی خبریں ملاحظہ فرمائیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر ٹریولس ایجنسی کوحج وعمرہ کرانے کااختیار نہیں ہوتا
ہے ، ان کا اصل کام ہوائی ٹکٹ کا ہوتا ہے مگر یہ لوگ بغیر لائسنس کے
غیرقانونی طور پر حج وعمرہ کا ٹور لیکر جاتے ہیں ۔
حج وعمرہ اﷲ کی جانب سے ان لوگوں پر فرض ہے جنہیں اﷲ تعالی نے آسانی کے
ساتھ بیت اﷲ کا سفر کرنے کی طاقت دی ہو۔ آسان قسطوں پر حج وعمرہ کی اسکیم
چلانے والوں نے ہر کسی کو سبز باغ دیا اور شہروں میں اپنے ایجنٹ چھوڑ کر ان
کے ذریعہ ہرکسی کو حج وعمرہ کرنے پر اکسایا ۔ حج وعمرہ کرنا ہرمسلمان کی
دلی خواہش ہوتی ہے مگر نہ سب کے اوپر فرض ہے اور نہ ہی سب کی یہ خواہش پوری
ہوسکتی ہے ۔ یہ اﷲ کی توفیق پر منحصر ہے ۔ کتنے تو پیسے ہوتے ہوئے بھی اس
فریضے کی سعادت سے محروم ہیں ۔ بہر کیف! آسان قسطوں اور ایجنٹ کی چکنی چکنی
باتوں میں آکر بہت سے غریب ومزدور لوگ حج وعمرہ کے لئے پیسے جمع کرنے آجاتے
ہیں ۔ اس اسکیم میں بہت ساری خرابیاں ہیں جن میں سیچند اختصار کے ساتھ یہاں
بیان کرتا ہوں ۔
(۱)انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ، کب کسے موت آجائے کوئی نہیں
جانتا اس وجہ سے کسی کام کے اس طرح کا معاملہ کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ،
کوئی یہ کہہ سکتا ہے جو حکومتی پیمانے پر حج کرتا ہے اس کی موت کی بھی کوئی
خبر نہیں پھر وہ کیوں حج کرتا ہے ؟ ان دونوں معاملوں میں واضح فرق ہے ۔
حکومت کی جانب سے حج کا معاملہ بالکل واضح ہوتا ہے ، آدمی حج کی مکمل نیت
کرچکا ہوتا ہے ، اس کے سارے امور واضح اور قریب الانجام ہوتے ہیں جبکہ
اسکیم کامعاملہ معلق اور طویل المیعاد ہوتا ہے ۔ پتہ نہیں پیسہ جمع کرپائے
گا کہ نہیں ؟ عموما ایسے لوگ کم پیسے والے ہوتے ہیں ان کی اقساط مکمل نہ
ہونے کا خدشہ ہوتا ہے گوکہ اس میں شرکت کرنے والے اپنے آپ کو اس اسکیم کے
اہل پاتے ہیں پھر اس میں شریک ہوتے ہیں ۔ مگر حالات کاکسی کو اندازہ نہیں ،
معیشت کے علاوہ زندگی وموت کامعاملہ بھی اہم ہے ۔
(۲)قسطوں کی شکل میں ممکن ہے اصل قیمت سے زیادہ لیا جائے یالمبی مہلت کے
ساتھ نقد قیمت کے حساب سے کم لیا جائے ،دوسری صورت میں لوگوں کے پیسوں کو
ٹریولس والے ممکن ہے کسی تجارت میں لگاتے ہوں کیونکہ ٹکٹ اور خرچ سے پیسہ
کم لینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس پیسے سے پیسے کمایا جائے گاتبھی منصوبہ کی
تکمیل ممکن ہے ، اپنی جیب سے لگانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔پھر نہ جانے وہ
تجارت کیسی ہے ؟ اگر اسلامی تجارت بھی مان لیں تو نفع ونقصان کے تناظر میں
نقصان کاخمیازہ کون بھگتے گا ؟ ٹریلوس والے کہہ سکتے ہیں کہ ایجنسی کومالی
خسارہ ہوگیا اور لوگوں سے چھٹی پالیں گے ۔
(۳)یہ اسکیم والے اکثر بد عنوانیاں کرتے ہیں ، کبھی پاسپورٹ غائب کا بہانہ
بناکر تو کبھی کوئی دوسرا بہانہ بناکر اسکیم میں شامل لوگوں کامال ہڑپ
کرجاتے ہیں اور لوگوں کا حج وعمرہ ملغی کردیا جاتا ہے ۔
(۴)قانونی اعتبار سے بھی کم ہی ایجنسی کے پاس حج وعمرہ کالائسنس ہوتا ہے ،
اس وجہ سے اس اسکیم کا حصہ بننا قانون کی خلاف ورزی پر تعاون کرنا ہوتا ہے۔
(۵)میں نے کہاہے کہ اکثر ایسے ادارے مالی ہوس میں ایسا کرتے ہیں جن کیوجہ
سے جیسے تیسے لوگوں کو لالچ دے کر اس اسکیم میں پھنسایا جاتا ہے اور اعتبار
کرکے کم پیسے والے لوگ گھر کا قیمتی سامان بیچ کر قسطیں جمع کرنے لگ جاتے
ہیں کیا پتہ اس کام کے لئے کیا بیچنا پڑے اور آخر میں کن حالات سے دوچار
ہونا پڑے ؟
(۶)مسلمان کے لئے حج وعمرہ کی خواہش کرنا ایک مستحسن امر ہے ، اس کے لئیوہ
اﷲ سیاس کی توفیق طلب کرے اور جائز اسباب اپناکر محنت ومشقت کے ذریعہ مال
اکٹھا کرے اور اﷲ کے گھر کا سفر کرے مگر اس کام کے لئے استطاعت نہ ہونے کے
باوجود جوکھم مول لیناصحیح نہیں ہے۔
شرعی طور پر قسطوں کے ذریعہ پیسہ جمع کرکے حج وعمرہ کرنے کا حکم :
اوپر ٹرولس ایجنسی کے متعلق چند امکانی خدشات کا ذکر کیا گیا ہے ، بعض
ادارے لائسنس ہولڈر بھی ہوں گے اور بدعنوانی کئے بغیر سلامتی کے ساتھ حج
وعمرہ بھی کراتے ہوں گے تبھی تو لوگوں کو اعتماد بھی ہوا ہے ۔ اگر ہمیں
ایسے باوثوق اداروں کے متعلق خبر ہوتو کیا ہمیں اس کے ذریعہ قسطوں پر پیسہ
جمع کرکے حج وعمرہ کرنا چاہئے ؟ اگر کسی نے اس طریقے سے حج وعمرہ کرلیا تو
کیا اس کی عبادت صحیح ہے ؟
قسطوں کے کاروبار کے متعلق علماء کے درمیان جواز وعدم سے متعلق شدید اختلاف
ہے،اختلاف سے قطع نظر میری نظر میں دلیل کی روشنی میں عدم جواز کا پہلو قوی
معلوم ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :
نہی رسولُ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ عن بیعتینِ فی بَیعۃٍ(ٌجامع
الترمذی:1231، وسنن النسائی :4632)
ترجمہ:رسول اﷲﷺ نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
اس حدیث میں ایک سودے میں دو سودا سیکیا مرادہے اس سے متعلق علماء کے مختلف
اقوال ہیں ۔ ان اقوال میں ایک قول یہ بھی ہے کہ کسی ایک چیز کی قیمت نقد
میں کچھ اور ادھا ر میں کچھ اورہو ۔ اس کے قائلین کی بھی بڑی تعداد ہے بلکہ
صحابی رسول ابن مسعود رضی اﷲ عنہما کی بھی رائے یہی ہے ۔ شیخ البانی رحمہ
اﷲ بھی اسی جانب گئے ہیں ۔ اس بیع میں نقصان کا پہلو بھی ہے اور ادھار میں
قیمت کے اضافہ پر سود کا دخل بھی ہے جوکہ مہلت کے بدلے حاصل کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام میں ادھار بیع منع نہیں ہے اور نہ یہ
منع ہے کہ کوئی ایک چیز کی قیمت قسطوں میں جمع کرے بلکہ منع کی صورت یہ
ہیکہ ایک ہی چیز کی نقد اور ادھار (قسط) کی شکل میں دو قیمت متعین کی گئی
ہو۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے مسئلہ سمجھیں ۔
صورت مذکورہ مسئلہ میں اقساط کی اسکیم بظاہر آسان معلوم ہوتی ہیں مگر نقصان
سے خالی نہیں ہے جیساکہ اوپر کے سطور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، نبی ﷺ کا
فرمان ہے : لا ضررَ ولا ضِرارَ(صحیح ابن ماجہ:1910)
ترجمہ: نہ توکسی کونقصان دو اورنہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔
اور ایک سودے کی دو قیمت ممنوع ہونے کے اعتبار سے یہ کام ممنوع ٹھہرتا ہے۔
اس سے ملتا جلتا ایک قسم کا سوال شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ سے کیا گیا کہ بعض
لوگ اپنی کمپنیوں سے قرض لیتے ہیں اور حج کرتے ہیں اور یہ قرض ان کی تنخواہ
سے قسطوں کی شکل میں کاٹا جاتا ہے ایسی صورت کا کیا حکم ہے تو شیخ نے جواب
دیا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کے ذمہ قرض ہونے کی صورت میں اس پر
حج فرض نہیں ہے ۔ جب اس پر حج فرض نہیں ہے تو اس کام کے لئے قرض کیوں لے گا
؟ ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ میرے خیال سے اﷲ کی دی ہوئی رخصت اور اس کی رحمت
کی وسعت سے فائدہ اٹھائے اور ایسا قرض سے بچے جسکی ادائیگی کا علم نہیں ،
ہوسکتا ہے موت آجائے اور قرض باقی رہ جائے ۔ شیخ کی بات ختم ہوئی ۔
یہاں ایک امر وضاحت طلب یہ باقی ہی ہے کہ جس نے اقساط مکمل نہیں کئے کیا ان
کاجمع شدہ پیسہ واپس کیا جاتا ہے یا ضبط کرلیا جاتا ہے یا مزید جرمانہ عائد
کرکے حج وعمرہ کرایا جاتا ہے یا حج ہی ملغی کردیا جاتا ہے ؟
جہاں تک مسئلہ اس طریقہ پر انجام دئے گئے حج وعمرہ کا ہے تو حج وعمرہ صحیح
ہے البتہ عبادت کی ادائیگی کے لئے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے
ہمیں حج جیسی مقدس عبادت کو بالکل صحیح اورمناسب طور طریقے کے ساتھ انجام
دینا چاہئے ۔ |