دید و شنید ہے کہ کچھ سیاست دان ایسے غائب ہوگئے ہیں جیسے
گدھوں کے سر سے سینگ۔ جی یہ وہ موسمی سیاست دان ہوتے ہیں جو ہر انتخابات
میں نمودار ہوتے اور عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں۔ اپنے اٹوٹ بندھن اور
نہ ٹوٹنے والے رشتے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ ہار و جیت سے ماورا اپنے سماجی
تعلقات کی تجدید کو اہمیت دلانے کے لیے گرد پر بیٹھنے سے بھی گریز نہیں
کرتے، لیکن جیسے ہی نتائج ان کے خلاف آتے ہیں تو اس کے بعد انہیں ڈھونڈنے
کے لیے تلاش گم شدہ کے اشتہارات دینے پڑتے ہیں۔ سب سے زیادہ انہیں تلاش
پولنگ ایجنٹس کرتے ہیں جو اُجرت پر ان کے لیے پولنگ اسٹیشن میں بوتھ ایجنٹ
کا کام کرتے ہیں۔ ان کا معاوضہ ہزار سے دو ہزار روپے ہوتا ہے۔ خاص طور پر
خواتین پولنگ ایجنٹس کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اچھی خاصی
کارکنان رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے پاس بھی صبح سات بجے سے لے کر رات تین
بجے تک بیٹھ کر پارٹی کے لیے قربانی دینے والوں کی کمی ہوتی ہے۔ ان حالات
میں ڈھائی ہزار روپے سے لے کر چار ہزار روپے تک کی اجرت پر پبلک ہیلتھ
پروگرام سے وابستہ یا پولیو ورکرز ٹیم ارکان کی خدمات حاصل کرلی جاتی ہیں۔
ایک صوبائی حلقے میں کم ازکم 200 خواتین بطور پولنگ بوتھ ایجنٹس کی ضرورت
ہوتی ہے۔ اسی طرح پولنگ اسٹیشن سے باہر کیمپ کے لیے بھی پڑھی لکھی عورتوں
کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ان خواتین کے ووٹ تلاش کرکے انہیں بوتھ تک
پہنچانا ایک اہم ذمے داری ہوتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی
جماعت عام انتخابات میں تمام پولنگ اسٹیشن میں خواتین پولنگ ایجنٹ مہیا
کرسکیں۔ راقم کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایسا ہونا قریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس
لیے باامر مجبوری اجرت پر خواتین پولنگ ایجنٹس کا حصول یقینی بنانے کے لیے
ان کے شناختی کارڈ قبل ازوقت لے لیے جاتے ہیں اور ان سے طے کرلیا جاتا ہے
کہ ان کی ایک روزہ خدمات کا معاوضہ کتنا اور کیسے دینا ہوگا۔ جو پولنگ
ایجنٹ ماضی کے انتخابات کا تجربہ رکھ چکے ہیں، وہ اپنے معاوضے کو ایڈوانس
میں حاصل کرلیتے ہیں۔ خاص طور پر طلبا و طالبات کی تعداد نووارد ہوتی ہے،
اس لیے وہ چکنی چپڑی باتوں میں آکر پولنگ ایجنٹس بننے کے لیے تیار ہوجاتے
ہیں۔
انتخابات میں بغیر ناشتہ کیے یہ بوتھ ایجنٹس پولنگ اسٹیشن جاپہنچتے ہیں۔
جلد بازی میں پانی و ناشتے کا اہتمام نہیں کرپاتے، انہیں یقین ہوتا ہے کہ
ان سے کیے گئے وعدے کے مطابق انہیں ’’نہاری‘‘ یا ’’حلوہ پوری‘‘ کا ناشتہ
پولنگ اسٹیشن میں تیار ملے گا، لیکن وہاں تو پینے کا پانی بھی مل جائے تو
بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ جیسے تیسے دوپہر آجاتی ہے، بھوک و پیاس سے بُرا حال
پولنگ ایجنٹس ووٹرز کے کارڈ اور شناخت سے زیادہ بریانی اور پانی کی راہ
تکتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے وہ بے دلی کے ساتھ آنے والے ووٹرز
کو بھی نظرانداز کرنے شروع کردیتے ہیں۔ ایسے میں کسی سیاسی جماعت کے جانب
سے اپنے پولنگ ایجنٹ کو ملنے والی بریانی کی خوشبو سے ان کا غصہ ساتویں
آسمان تک پہنچ جاتا ہے۔ منت سماجت سے حاصل پانی کے دوگھونٹ غصہ سمجھ کر پی
لیتے ہیں۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر جانے کی تیاری کرتے ہیں لیکن شناختی
کارڈ اور معاوضے کی امید انہیں صابر بننے پر مجبور کردیتی ہے۔ بہت کم ایسا
ہوتا ہے کہ وقت پر ناشتہ، کھانا، چائے اور پانی مل پاتا ہو، یہ ضرور ہے کہ
بہترین مینجمنٹ کے ساتھ کام کیا جائے تو پولنگ ایجنٹس اور ان کے ورکرز کو
پریشانی نہیں ہوتی۔ راقم دیکھ چکا ہے کہ پولنگ ایجنٹس اور ورکرز کا خیال
رکھنے کے لیے خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقوں میں پولنگ اسٹیشنز کی
قریبی جگہوں پر ہی گائے کو ذبح کرکے صبح سے ہی دیگیں چڑھانے اور اتارنے کا
سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، لیکن شہری علاقوں میں ریڈی میڈ بریانی کا ٹرینڈ ہے،
اس لیے ایسے امیدوار جو اپنے لیے پولنگ ایجنٹ کا بندوبست نہیں کرپاتے وہ
سنجیدہ افراد پر مشتمل ٹیم بھی نہیں بنا پاتے۔ پولنگ ایجنٹ چاہے اس کی
وابستگی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، بھوک و پیاس کی کیفیت میں مبتلا ہونے
کے بعد اپنے انتخابی امیدوار کو ہزاروں کوسنے دے چکا ہوتا ہے۔
تلاش گمشدہ کی اس مہم میں صرف پولنگ ایجنٹس ہی نہیں بلکہ ساؤنڈ سسٹم مہیا
کرنے والے، ٹینٹ و کرسیاں لگانے والوں سمیت، ووٹرز کو علاقے سے پولنگ
اسٹیشن تک پہنچانے والے ٹرانسپورٹرز کو بھی انتخابی امیدوار کی تلاش ہوتی
ہے۔ صرف وہی کامیاب ہے جس نے ایڈوانس میں اپنی مکمل ریکوری کرلی ہو، لیکن
گارنٹی سے کہتا ہوں کہ امیدوار چاہے جیتا ہو یا ہارا۔ الیکشن کے بعد اُسے
تلاش کرنا بھوسے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ جیتنے والے امیدوار
کو ناراض نہیں کیا جاسکتا، اس لیے دل پر بھاری پتھر رکھ لیے جاتے ہیں اور
ہارا ہوا امیدوار اپنی ناکامی کا غصہ اُن سب پر اتارتا ہے جو پیسوں کا
تقاضا کرنے کے لیے اُس تک کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے ہیں۔ مس کال پر فون
اٹھاکر گھنٹوں وعدے کرنے والا امیدوار انتخابات سے قبل ایک ’’محبوب‘‘ کی
طرح ہوتا ہے جو اپنی ’’محبوبہ‘‘ کے نخرے اٹھانے کے لیے آسمان سے تارے توڑ
کر لانے کے وعدے کرتا ہے۔ لیکن انتخابات کے بعد وہ محبوب، مضروب بن جاتا ہے
اور اس کا ’’کارندہ‘‘ سب کو فون پر ایک جواب دیتا ہے کہ ’سر‘ بیمار ہیں۔ آپ
سے بعد میں خود رابطہ کرلیں گے، فکر نہ کریں، پریشان نہ ہوں۔ ہم ویسے نہیں
جیسے دوسرے تھے۔ اور پھر وقت گزر جاتا ہے۔ صنم ملا نہ وصال صنم۔
یہ ہمارے سیاسی ڈھانچے کا دوسرا رخ ہے جو ایک کلچر کی حیثیت اختیار کرگیا
ہے۔ لاکھوں کارڈز لکھنے کے لیے اجرت پر ورکرز رکھے جاتے ہیں۔ رابطہ آفس کے
لیے اجرت پر ورکر حاصل کرتے ہیں۔ کارنر میٹنگ کے لیے اجرت پر ورکر لائے
جاتے ہیں۔ اجرت پر بیانات چلوائے جاتے ہیں، اجرت پر انٹرویو کیے جاتے ہیں۔
اجرت پر ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اجرت پر کام کرنے والوں کو بھی اجرت دی جاتی
ہے یہاں تک کہ بریانی کی اجرت پر ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ جھنڈے لگانے سے لیکر
نعرے لگانے تک سب کام اجرت میں ہوتے ہیں۔ اب آجر ماہر ہو تو اجرت پر نتائج
بھی تبدیل کرا سکتا ہے۔
جہاں ہمارے ادارے انتخابی ماحول تبدیل کرنے کے لیے سنجیدہ پالیسیاں نہیں
بناتے، وہاں ہم عوام بھی اسی نظام میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ صاف و شفاف
انتخابات کے لیے اس جدید دور میں پرنٹنگ سمیت اربوں روپے کے اخراجات محض
خرافات کے سوا کچھ نہیں۔ ایک انتخابی امیدوار ووٹرز لسٹ پر دو لاکھ سے
زیادہ خرچ کرتا ہے۔ جو کام ایک ڈیٹا دینے سے ہوسکتا ہے وہاں ووٹرز لسٹ کے
حصول اور اس کی فوٹو کاپیاں کروانا غیر معمولی و فالتو اخراجات ہیں۔
پولنگ اسٹیشن کی تعداد ایک صوبائی حلقے میں کم ازکم 115سے لیکر130تک ہوتی
ہے۔ اس کے بجائے ایک گراؤنڈ میں پچاس بوتھ ایک ساتھ بنا کر اضافی اخراجات
سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک صوبائی حلقے میں کم ازکم 400بوتھ ہوتے ہیں۔ جو ووٹر
کے انتخابی حلقے سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر متعدد پولنگ اسٹیشن میں بنائے
جاتے ہیں۔الیکٹرونک بائیو میٹرک نظام دنیا بھر میں رائج ہے اور پاکستان کا
نادر ادارہ ’نادرا‘ تو کئی ممالک کو اپنی خدمات بھی پیش کرچکا ہے۔ پرنٹنگ
کے اربوں روپے کے اخراجات کے بجائے ایک بار بائیو میٹرک نظام اپنالیں۔ ایک
فیصد دھاندلی بھی ممکن نہیں ہوگی اور نتیجہ آنے میں ایک گھنٹے کا وقفہ بھی
نہیں لگے گا۔بائیو میٹرک الیکٹرول سسٹم کے لیے تمام اعتراضات چور مچائے شور
کے علاوہ کچھ نہیں، کیونکہ اس سے دھاندلی و غیر شفاف انتخابات کا راستہ رک
جاتا ہے۔نئی حکومت کو ان گنت چیلنجز درپیش ہیں۔ شفاف انتخابات کے لیے ہر
نئی حکومت کے پاس وقت و اصلاحات کی کمی ہوتی ہے۔ اس لیے ان سے یہ توقع نہیں
کرنی چاہیے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لیے شفاف میکنزم کو ترجیح دیں گے
کیونکہ یہ سب ان کے حق میں بہتر نہیں۔
|