پاکستان کے اردوروزنامہ ایکسپریس کے مطابق سعودی
عرب میں ہونے والی علما کانفرنس نے افغانستان میں جنگ بندی کی ضرورت پر زور
دیتے ہوئے حکومت اور طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔برطانوی
نشریاتی ادارے کے مطابق سعودی شہزادہ خالد الفیصل کی زیر سربراہی جدہ میں
علما کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر سے دوسوسے زائد مذہبی رہنماؤں نے شرکت
کی جن میں پاکستان کے بارہ علما بھی شامل تھے۔ کانفرنس کے اختتام پر ’مکہ
اعلامیہ‘ جاری کیا گیا جس میں افغانستان میں فریقین سے جنگ بندی کرکے امن
مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستان
میں موجود فریقین جنگ بندی کرکے تشدد، اختلافات اور بغاوت کے خاتمے کے لیے
اسلامی اقدار پر مبنی براہ راست امن مذاکرات شروع کریں۔اختتامی خطاب میں
اسلامی ممالک کی تنظیم او، آئی، سی کے سربراہ یوسف بن احمد العثیمین نے کہا
کہ مکہ اعلامیہ مسئلہ افغانستان کا پر امن شرعی حل پیش کرتا ہے۔اس موقع پر
سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کہا کہ مکہ کانفرنس سے افغانستان میں سلامتی
اور استحکام کا نیا باب کھلے گا۔ 13جولائی 2018ء کو روزنامہ جسارت نے افغان
طالبان کا ردعمل تفصیل کے ساتھ شائع کیا جس سے کانفرنس منعقد کرنے والوں کو
سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔
تفصیلات کے مطابق افغان طالبان نے سعودی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے
کہ وہ ایک اسلامی ملک ہے اورہم ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ کفر
اور اسلام کی جنگ میں وہ امر یکا جیسے حملہ آور کا ساتھ دے گا۔افغانستان کے
مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونے والی امن کانفرنس سے ہمیں خدشہ ہے کہ
افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائیگااور یہ
ہمارے لیے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ
ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی کو کرنے دیں
گے۔ اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے۔جمعرات
12جولائی کو ساڑھے آٹھ سو الفاظ پر مشتمل اپنے طویل بیان میں افغان طالبان
نے افغانستان میں جاری سترہ سالہ مزاحمت کو ’جہاد‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا
کہ سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ کفر
اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکا جیسے حملہ آور کا ساتھ دے گا۔افغانستان کے
مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونیوالی امن کانفرنس سے ہمیں خدشہ ہے کہ
افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائیگااور یہ
ہمارے لیے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ
ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی کو کرنے دیں
گے۔ اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے۔قبل ازیں
سعودی عرب میں منعقد ہ علما کانفرنس میں شہزادہ خالد الفیصل نے زور دیا ہے
کہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے تمام فریقین خطے میں امن و امان
کی بحالی کے لیے مذاکراتی عمل شروع کریں۔ امیر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے
اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ سعودی عرب اور او آئی سی کے اشتراک سے
افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے نئے دروازے کھلیں گے جو جنگ زدہ ماحول کے
خاتمے کا باعث بنیں گے۔ شہزادہ خالد الفیصل نے واضح کیا کہ آج ہم بہت
پرامید ہیں کہ ہماری کوششوں سے ماضی کا’’ سیاہ باب‘‘ بند ہو جائے گا اور’’
نئے دور ‘‘کا آغاز ہو گا۔ افغانستان میں استحکام اور سیکیورٹی کے حالات
بہتر ہوں گے لیکن اس کی تکمیل کے لیے فریقین کو برداشت، مفاہمت اور مذاکرات
کا راستہ اختیار کرنا ہوگا جیسا کہ مذہب اسلام اجازت دیتا ہے۔
جدہ میں منعقدہ دوروزہ اجلاس کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ
الفیصل نے زور دیا کہ مختلف افغان علما کے مابین تفریق اور اختلاف کو ختم
کرنے کے لیے مسلسل سیاسی کوششیں جاری رکھی جائیں۔او آئی سی کے جنرل
سیکریٹری یوسف العثیمین نے اجلاس کے انعقاد پر سعودی عرب اور شہزادہ الفیصل
کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے اختتام پر مکہ اعلامیہ منظور کیا
گیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مکہ اعلامیہ افغانستان میں جاری
بحران کے خاتمے کے لیے مثبت روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔اعلامیے میں مطالبہ کیا
گیا کہ افغان فریقین جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کریں اور تشدد، تفرقے اور
بغاوت کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی اقدار کے تناظر میں امن مذاکرات کا آغاز
کریں۔اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ ہم افغان حکومت اور طالبان پر جنگ بندی
اور براہ راست مذاکرات کے لیے زور دیتے ہیں۔ قومی مذاکرات ہی تنازعے کے حل
کا باعث بن سکتے ہیں۔دوسری جانب طالبان نے بیان جاری کیا جس میں سعودی عرب
میں منعقد ہونے والے اجلاس کو مسترد کرتے ہوئے مکہ اعلامیے کو رد
کردیا۔انہوں نے کہا کہ اجلاس میں شریک شرکا ء افغانستان میں امریکی قبضے پر
بات کرنے میں ناکام رہے اور کہا کہ مذکورہ اجلاس کامقصد افغانستان کو دوسرے
فلسطین میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
اس اعلامیہ کے سامنے آنے سے پہلے ہی اس بات کا خدشہ تھا کہ یہ کانفرنس
افغانستان کے حوالے سے کچھ ایسی حماقت کرنے والی ہے جس کے اثرات دوررس ہوں
گے۔یہی وجہ ہے کہ طالبان نے اس کانفرنس کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار
کردیا ۔روز نامہ جسارت(کراچی) کے 13جولائی 2018ء کی اشاعت کے مطابق طالبان
نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ ۔ افغان طالبان نے سعودی حکومت کو خبردار کرتے
ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک اور ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ
کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امر یکا جیسے حملہ آور کا ساتھ دے
گا۔افغانستان کے مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونے والی امن کانفرنس سے
ہمیں خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا
جائیگااور یہ ہمارے لیے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔کسی کو یہ حق
حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی
کو کرنے دیں گے۔ اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی
چاہیے۔ اپنے طویل بیان میں افغان طالبان نے افغانستان میں جاری سترہ سالہ
مزاحمت کو ’جہاد‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے
ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکا
جیسے حملہ آور کا ساتھ دے گا۔قبل ازیں سعودی عرب میں منعقد ہ علما کانفرنس
میں شہزادہ خالد الفیصل نے زور دیا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے
کے لیے تمام فریقین خطے میں امن و امان کی بحالی کے لیے مذاکراتی عمل شروع
کریں۔ امیر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ
سعودی عرب اور او آئی سی کے اشتراک سے افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے
نئے دروازے کھلیں گے جو جنگ زدہ ماحول کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔ شہزادہ
خالد الفیصل نے واضح کیا کہ آج ہم بہت پرامید ہیں کہ ہماری کوششوں سے ماضی
کا سیاہ باب بند ہو جائے گا اور نئے دور کا آغاز ہو گا۔ افغانستان میں
استحکام اور سیکیورٹی کے حالات بہتر ہوں گے لیکن اس کی تکمیل کے لیے فریقین
کو برداشت، مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا جیسا کہ مذہب
اسلام اجازت دیتا ہے۔جدہ میں منعقدہ دو روزہ اجلاس کے اختتامی تقریب سے
خطاب کرتے ہوئے شہزادہ الفیصل نے زور دیا کہ مختلف افغان علما کے مابین
تفریق اور اختلاف کو ختم کرنے کے لیے مسلسل سیاسی کوششیں جاری رکھی
جائیں۔او آئی سی کے جنرل سیکریٹری یوسف العثیمین نے اجلاس کے انعقاد پر
سعودی عرب اور شہزادہ الفیصل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے
اختتام پر مکہ اعلامیہ منظور کیا گیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مکہ
اعلامیہ افغانستان میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے مثبت روڈ میپ فراہم کرتا
ہے۔اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ افغان فریقین جنگ بندی پر آمادگی کا
اظہار کریں اور تشدد، تفرقے اور بغاوت کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی اقدار کے
تناظر میں امن مذاکرات کا آغاز کریں۔اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ ہم افغان
حکومت اور طالبان پر جنگ بندی اور براہ راست مذاکرات کے لیے زور دیتے ہیں۔
قومی مذاکرات ہی تنازعے کے حل کا باعث بن سکتے ہیں۔دوسری جانب طالبان نے
بیان جاری کیا جس میں سعودی عرب میں منعقد ہونے والے اجلاس کو مسترد کرتے
ہوئے مکہ اعلامیے کو رد کردیا۔انہوں نے کہا کہ اجلاس میں شریک شرکا ء
افغانستان میں امریکی قبضے پر بات کرنے میں ناکام رہے اور کہا کہ مذکورہ
اجلاس کامقصد افغانستان کو دوسرے فلسطین میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
بی،بی،سی اردونیوز کے مطابق کانفرنس کے اس کانفرنس کے’’ دعوت نامے‘‘ میں
افغانستان میں جاری مزاحمتی کارروائیوں کو دہشت گردی سے تعبیر کیا گیا ہے
اور اس میں ملوث افراد کو غیرقانونی مسلح گروہ اور جرائم پیشہ افراد کے
ناموں سے پکارا گیا ہے۔حد یہ کہ کابل میں تعینات ایک سعودی سفارت کار نے
کچھ عرصہ قبل افغانستان میں جاری مسلح کارروائیوں کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر
کیا تھا جس پر طالبان کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ
افغان ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کو بھی اس کانفرنس سے کوئی خاص امید
وابستہ نہیں تھیں ۔بی،بی،سی اردو سروس کے پاکستانی نامہ نگار رفعت اﷲ
اورکزئی نے بتایا کہ افغانستان کے طالبان نے شاید پہلی مرتبہ اسلامی ملک
سعودی عرب کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ایک سخت بیان جاری کیا تھا جس میں
کہا گیا کہ وہ ایک اسلامی ملک اور ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ
’کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکہ جیسے حملہ آوار کا ساتھ دے گا۔اسلام
آباد(پاکستان) میں مقیم افغان امور کے ماہر اور سینئیر صحافی طاہر خان کا
کہنا ہے کہ طالبان ہمیشہ سے اپنی مزاحمت کو ’جہاد‘ کہتے آئے ہیں اور ماضی
میں کئی اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اس جہاد کی حمایت بھی کرتے آئے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب جیسا ملک جسے تمام اسلامی دنیا میں ایک
خاص حیثیت حاصل ہے، اس مزاحمت کو اسلامی نہیں کہیں گے تو یقینی طور پر اس
سے طالبان کا جو 'جہادی بیانیہ' ہے وہ کمزور پڑے گا۔تاہم بعض تجزیہ نگاروں
کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور طالبان کے مابین حالیہ تناؤ کی وجہ صرف 'جہادی
بیانیہ' کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات بھی ہیں جس میں
افغانستان کے اندر ایران کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور شاید طالبان
کا ان کے قریب ہونا بھی ہے۔ افغانستان پر گہری نظر رکھنے والے سینئیر صحافی
سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ ایران اور افغان طالبان
میں قربت بڑھتی جا رہی ہے جس سے بظاہر سعودی عرب ناراض نظر آ رہا ہے۔انہوں
نے کہا کہ ماضی میں جب قطر میں طالبان کا دفتر بن رہا تھا تو اس وقت سعودی
عرب نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ طالبان ان کے ملک میں آکر سیاسی
دفتر کھولیں اور اس ضمن میں طالبان کا ایک گروپ آمادہ بھی ہوا تھا لیکن بعد
میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ سمیع یوسفزئی نے مزید کہا کہ افغان
طالبان اپنے جاری 'جہاد' کے حوالے سے تمام باتوں کو انتہائی سنجیدگی سے
لیتے ہیں اور شاید اس وجہ سے ان کا ردعمل قدرے سخت آیا ہے۔
سینئیر صحافی اور جیو ٹی وی کے مشہور اینکر حامد میر کا کہنا ہے کہ نوے کی
دہائی میں بھی سعودی عرب نے اسامہ بن لادن کے ایشو پر افغان طالبان پر دباؤ
ڈالنے کی کوشش کی تھی اور ان کو دہشت گرد قرار دیا تھا لیکن طالبان نے اس
وقت بھی ان کی کوئی بات نہیں مانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اب یہ
سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب امریکہ کا غلام ہے اور یہ سب کچھ انہی کے کہنے پر
کیا جا رہا ہے۔ تاہم سعودی عرب میں جاری تبدیلی کی پالیسی کا بھی اس میں
عنصر شامل ہو سکتا ہے۔ نوجوان سعودی ولی عہد کی قیادت میں جو نئی اقتصادی
اور سماجی اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں ان میں امریکہ کا کردار بھی
انتہائی اہم ہو گا۔ ایسے میں سعودی عرب کا جھکاؤ امریکہ کی جانب زیادہ ہونے
کا امکان ہے۔ افعان طالبان کے لیے جہاں میدان جنگ میں دولتِ اسلامیہ جیسی
مشکل درپیش ہے وہی میدان سیاست میں علماء کے فتووں اور اعلانات کا سامنا
کرنا پڑا رہا ہے۔
امریکہ شکست اور ذلت سے پاگل ہو چکا ہے ۔وہ اپنی کٹی ناک سے متعلق یہ ناکام
تاثر دینے کی کوشش میں لگا ہے کہ میں ابھی تک جو کچھ چاہوں گا وہی
افغانستان میں ہوگا ۔وہ باعزت فرار چاہتا ہے تاکہ اس نے سویت یونین کے
نکلنے کے وقت جو تالیاں پیٹ کر دنیا میں روس کو ذلیل کرنے میں کوئی کمی
نہیں چھوڑی تھی وہی کچھ روس اور دیگر اتحادی اس کے ساتھ نا کرے ۔اس کے لئے
وہ اب اپنے مسلم اتحادیوں میں سب سے بھروسہ مند سعودی عربیہ سے کام لے رہا
ہے جس کا ظلم پہلے ہی ’’اخوان المسلمون اور حماس ‘‘کو تباہ وبرباد ‘‘کر چکا
ہے ۔جس نے’’ حرمین کی مذہبی چادر اوڑھ کر‘‘عالم عربی کی مشہور اسلامی
تحریکات کو ختم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے کہ اب عرب میں پیٹ بھر
جانے کے بعد خونِ مسلم کے پیاسے امریکہ کے ساتھ مل کر وہ افغانستان میں
طالبان کو غیر مؤثر کر نے کی کوششوں میں پھر سے ایک بار علماءِ کرام کی فوج
لیکر جھٹ گیا ہے ۔ویسے بھی سعودی عربیہ کانیاولی عہد عرصہ سے نئے نئے شگوفے
چھوڑ کرسعودی عربیہ کو ’’لبرل اور سیکولر راستے‘‘پر چلاتے ہو ئے ترقی کی
راہ پر ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور بقول ولی عہد کے ہم نے امریکہ کے
کہنے پر دنیا میں’’وہابیت‘‘پھیلائی ہے ۔اور اب اس ’’برینڈ‘‘کو وہ بند کرکے
کچھ نیا بنانے کے خواہش مند ہیں ۔ایک طرف انھوں نے اعتدال پسند تحریکات کو
عرب فوجی ڈکٹیٹروں کی پیٹھ تھپتھپا کر فنا کر دیا تودوسری طرف ان کے علما
کو پھانسیوں پر چڑھا کر یا مروا کر یا جیلوں میں سڑواکر ختم کردیا وہی خود
ہی ’’شدت پسندی اور انتہا پسندی‘‘کو ’’بقول ان کے وہابیت‘‘کے بینر تلے عام
کر کے عالم اسلام کو مغرب کی خواہش پوری کرنے کے لئے کینسر زدہ کردیا اور
جب بھی کسی نے اس ظلم عظیم پر ان کی نکیر کر دی تو انہی حکمرانوں کو تلوے
چاٹنے والے ’’علماء کے لباس پہنے بے شرم مولویوں اور واعظوں‘‘نے آسمان سر
پر اٹھا کر ان کے خلیفۃ المسلمین ہونے کی قسمیں کھائیں حتیٰ کہ وہ بے چارے
خود یہی کہتے رہے کہ ہم نہ خلیفہ ہے نا ہی خلافت کے قائل ،ہاں یہ تو چند
اخوانیوں کا سردرد ہے جن کو ختم کرنے میں ہمارا رول سب سے زیادہ ہے ۔
امریکہ نے روس کے خلاف جب افغانوں کی مدد کرنے حکم دیا تو انھوں نے اس کے
جہاد ہونے کے فتوے صادر کئے ۔جب امریکہ کا موڈ بدلا تو اس نے ’’افغان
مجاہدین‘‘کو دہشت گرد اور طالبان کو حقیقی نمائندہ قراردیا تو ان عربوں نے
طالبان کی بھرپور مدد کی اور جب امریکہ بہادر کا موڈ القائدہ کو لیکر خراب
ہوا تو ان عربوں نے رنگ بدلنے میں امریکہ اور پاکستان کا مکمل ساتھ دیا ۔گو
یا اس کی پالیسی کسی اصول اور ضابطے کی پابند نہیں ہے بلکہ یہ صرف امریکہ
بہادر کی کارستانی کے دم قدم سے زندہ ہیں باقی کچھ بھی نہیں ۔ سعودی عربیہ
اگر مخلص ہوتا تو جس شام ،عراق اور یمن میں اس کے درہم و دینار سے موت
رقصاں جاری ہے وہ ان جنگ زدہ علاقوں کو بھی اس کا نفرنس کا حصہ بناتا وہ
شام،عراق،یمن ،صومالیہ اور مصر میں بھی جنگ بندی اور امن کے قیام کے لئے
اعلامیہ جاری کرتا، جہاں زندگی کے آثار مٹتے جا رہے ہیں اور انسانی آبادیاں
صرف بم اور بارود سے آشنا ہوتی جارہی ہیں ۔آخر وہ آس پاس کے ممالک میں امن
کے قیام کے برعکس دور دراز عجمی ملک کے لئے اس قدر بے چین کیوں ہوا ؟دنیا
جانتی ہے کہ یہ ڈرامے صرف امریکہ اور اس کے حواریوں اور افغانستان میں ان
کے ایجنٹوں کے تحفظ کے لئے کئے جاتے ہیں تاکہ بڑے شیطان کا مزاج اور طبیعت
بگڑ نہ جائے ۔کیا سعودی عربیہ اس طرح کی حماقتیں کر کے اسلامی اور جہادی
تحریکات کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی
عربیہ کی سانسیں امریکہ ہی کی مرہون منت ہیں ،نہیں بالکل نہیں تو پھر بھی
یہ کوششیں کیوں؟ صرف اس لئے کہ سعودی عربیہ جیسی چھوٹی سی امریکہ کالونی
امریکہ سے نا نہیں کہہ سکتی ہے ۔ایسے میں یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ
امریکہ سعودی عربیہ کو لیکر نہ صرف اپنے بلاک کو مضبوط بنانا چاہتا ہے بلکہ
اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کا کمزور ہوتا جا رہا ہے بلاک عارضی حلوں کو لیکر
کچھ حاصل کرنے کامیاب ہو جائے ۔اس کا اصل ڈر یہ ہے کہ اس کے عالمگیر ایجنڈے
اور عالمی پولیس مین کے رول میں بڑی روکاوٹیں اسلامی اور جہادی تحریکات ہیں
لہذا انہیں ہر حال میں دبانا ضروری ہے۔امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مسلم
حواریوں کو لیکر اس میں کامیاب ہو گا جبکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ قتل
عام کے باوجود دنیا کا کوئی مسلم یا غیر مسلم ملک اس میں کامیاب نہیں ہو
سکا ہے اور نا ہی اس کی امیدرکھنی چاہیے اس لئے کہ نظریوں کو جنگوں سے نہ
آج تک شکست سے دوچار کیا جاسکا ہے اور نا ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان
ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ شرمناک کام جو بھی انجام دے گا تاریخ میں اس کا
نام ذلت کے ساتھ یاد کیا جا ئے گا ۔
|