تخلیق پاکستان سے تکمیل تک

تحریر: رضی الرحمن جانباز (ملتان)
رات اپنی تاریکی لیے صبح کی آغوش میں جا چھپی تھی اور افق سے 14 اگست کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ دن کے اجالے میں ایک تاریکی جو کولکتہ، بہار اور دہلی سے اٹھی تھی اب مشرقی پنجاب تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لینے جا رہی تھی۔ برصغیر کی تاریخ کا یہ وہ تاریک باب تھا جس کے آگے چنگیز خان کے بنائے ہوئے کھوپڑیوں کے مینار بھی ہیچ نظر آتے ہیں۔

ہندوستان کے وہ دور افتادہ علاقے جن سے ہجرت کر کے پاکستان آنا ممکن نہیں تھا۔ وہاں کے مسلمانوں پر تو ویسے ہی عرصہ حیات تنگ کیا جاچکا تھا۔ لیکن اب انسان نما یہ بھیڑیے مشرقی پنجاب میں خون مسلم سے ہولی کھیلنے کی تیاری کرچکے تھے۔ مشرقی پنجاب کے وہ مسلم اکثریتی علاقے جو پاکستان میں شامل ہونا تھے وہاں مسلمانوں نے قرآن مجید، سکھوں نے گروگرنتھ اور ہندوؤں نے گائے ماتا پر قسمیں اٹھا کر ایک دوسرے کی جان ومال اور عزت کی حفاظت کا یقین دلایا تھا۔

جب گورداسپور کا علاقہ بھارت میں شامل ہونے کا اعلان ہوا تو آسماں بھی وہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا ۔ جب ہندوؤں اور سکھوں نے اپنے گھروں کے گرد پہرہ دینے والے محافظ مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ محلے داریاں، صدیوں پرانے تعلقات کا پاس توڑ دیا گیا۔ گروگرنتھ اور گائے ماتا پر کیے گئے عہدوپیمان پاش پاش کر دیے گئے۔ سکھوں کو خالصتان کا خواب دکھا کر مسلمانوں کے قتل عام کا ہدف دیا گیا۔ مسلمانوں سے ہتھیار پہلے ہی ضبط کر لیے گئے۔ شام ہوتے ہی کیل کانٹے سے لیس سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں نے مسلمانوں کی آبادیوں کو محاصرے میں لے کر آگ اور خون کا کھیل شروع کر دیا۔ گھر بار جلا دیے گئے، گولیوں کی بوچھاڑ سے نہتے مردوں کے سینے چھلنی کر دیے گئے، دودھ پیتے بچوں کو ماؤں کے سامنے نیزوں کی انیوں میں پرو دیا گیا۔ اس سرزمین پر ماؤں بہنوں کی عصمت و عفت کو پامال کیا گیا جہاں ایک ہزار سال سے مسلمانوں نے ان کی خواتین کو ماؤں بہنوں کی طرح مقدس سمجھا تھا۔ چہار سو آگ اور خون کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔ جالندھر، پٹیالہ، فیروز پور، پٹھانکوٹ،اجنالہ، گورداسپور اور دیگر اضلاع سے ہمارے آباؤاجداد رخت سفر باندھ کر وطن عزیز کی طرف گامزن ہو رہے تھے۔ وہ قافلے جو ہزاروں افراد کی صورت میں چلتے قدم قدم پر سکھ جتھوں کی تلواروں نیزوں سے کٹتے، لٹتے، پٹتے جب راوی عبور کر کے پاک دھرتی پر قدم رکھتے تو ان کی تعداد سینکڑوں میں رہ چکی ہوتی۔

پورے مشرقی پنجاب میں ہر طرف مسلمانوں کی بے گور وکفن لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ندی، نالوں اور دریاؤں کا پانی بھی آج ان مسلمانوں کے لہو سے سرخ ہو چکا تھا جن کی سطوت و اقبال کے پرچم ایک ہزار سال تک برصغیر پر لہراتے رہے۔ بھوک و افلاس کے مارے ہوئے، لٹے پٹے، زخموں سے چور مہاجرین جب پاک دھرتی پر قدم رکھتے تو پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگاتے ہوئے رب کے حضور سر بسجود ہو جاتے۔ اس آگ اور خون کے دریا کو فراموش کر کے وہ اس بات پر نازاں تھے کہ اب ہم آزاد ہیں۔

پاکستان اﷲ کے فضل سے وجود میں توآچکا تھا لیکن اس نوزائیدہ ریاست پر کہیں مہاجرین کا بے پناہ بوجھ تھا ان کی آبادکاری کا مسئلہ تھا اور کہیں اثاثوں سے محروم پاکستان کی فوج اور اسلحہ ابھی ہندوستان میں تھا۔ مسلم اکثریتی علاقوں سے محرومی بھی ایک مستقل مسئلہ تھا۔ گورداسپور کے مسلم اکثریتی علاقے سے پاکستان کو محروم کر کے بھارت کو کشمیر تک رسائی دے کر ریڈکلف نے دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل مسئلہ کا بیج بو دیا تھا۔ دشمن پاکستان کے لیے بڑے بڑے مسئلے کھڑے کر کے یقین کر بیٹھا تھا کہ پاکستان ان مسائل کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے خود ہی ہندوستان کی جھولی میں آ گرے گا۔ لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے قائد اعظم کی قیادت میں پوری قوم نے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے لیکن ہندو کی مکاری اور شرپسندی میں تغیر نہ آیا۔ کبھی چوروں کی طرح 1965ء میں جنگ چھیڑ دی گئی اور کبھی 1971ء میں مکاری سے پاکستان کو دو ٹکرے کر دیا گیا، ایٹمی دھماکے کر کے طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔ الغرض کہ مدینہ کی طرز پر لاالہ اﷲ محمد الرسول اﷲ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس ریاست کو چیلنجز بھی مدینہ والے درپیس تھے۔ لیکن جہاں عبداﷲ بن ابی جیسے منافقوں نے اس مدینہ ثانی کو گزند پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا وہاں اﷲ کے بے پایاں فضل و کرم سے اﷲ کے مخلص اور مجاہد بندوں نے اپنا سب کچھ اس پاک دھرتی پر وار دیا اس کی طرف آنے والا ہر تیر اپنے سینے پر روک کر اس کی حفاظت کی۔

آج وہی خطرات پاکستان کو ہیں جو کل مدینہ کی ریاست کو تھے۔ اس وقت کی سپر پاورز روم اور ایران مدینۃالرسول کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے کیونکہ ان کو علم تھا کہ لا الہ اﷲ محمدالرسول اﷲ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس ریاست کو اگر ختم نہ کیا گیا تو یہ ہمیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ اسی طرح آج کی سپر پاورز کو بھی یہ اندیشہ ہے کہ اگر پاکستان کو ختم نہ کیا گیا تو دنیا میں ہمارے ظلم و استبداد کے نظام نہیں چل سکیں گے، ان کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ اگر آج اس پاکستان کو ختم نہ کیا گیا تو کل ہمارا سورج غروب ہو جائے گا۔

اس طرح اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے ہمارے خلاف منصوبے بنائے۔ سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ نظریہ پاکستان کو ان میں سے ختم کر دیا جائے، نسل نو کو ان کے آباؤاجداد کی قربانیوں سے بیخبر کر کے ہندو کی تہذیب و ثقافت میں رنگ دیا جائے تاکہ وہ اس الگ وطن حاصل کرنے کا مقصد فراموش کر دیں۔ دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ پاکستان کے اندر مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت پھیلا دی تاکہ یہ آپس میں ہی دست و گریباں رہیں اور اردگرد کے خطرات سے کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیں۔ وہ پاکستان جس کو اس دنیا میں مدینہ کا کردار ادا کرنا تھا، وہ پاکستان جسے بیت المقدس کو یہود کے پنجہ سے آزاد کروانا تھا، وہ پاکستان جسے کشمیری جو کئی دہائیوں سے ظلم کا شکار ہیں جو اپنی جان، مال، آبرو سب کچھ اس پاک دھرتی کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ جہاں شہداء سبز ہلالی پرچم میں دفن ہونے کی وصیت کر رہے ہیں، وہ کشمیری جو آج ہندوستان کی طرف سے پیش کیے گئے تمام لالچ کو جوتے کی نوک پہ رکھ کے پاکستان کی جنگ لڑ رہیں ہیں۔ آج ہمیں صرف ان کشمیریوں کو آزادی ہی نہیں بلکہ ان 30کروڑ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے جو آج ہندو کے ظلم و تشدد کا شکار ہیں، جنھوں نے اس وقت پاکستان بنانے کے لیے اتنی ہی قربانیاں دی تھیں جتنی ہم نے دیں۔

آج ان 30کروڑ مسلمانوں کو آزادی دلوانا قرض ہے ہم پر جیسے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے مکہ کے مظلوموں کو فتح مکہ کے ذریعے آزادی دلوائی تھی۔ آج مشرقی پاکستان کا انتقام قرض ہے بھارت کا ہم پر، وہ قیام پاکستان کے وقت تاریخ کے اندوہناک باب کا بھی قرض ہے ہم پر۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چھوڑ دیں اب سیاسی اور مذہبی فرقوں کی لڑائیاں، آپس میں کافر کافر کی گردانیں کہنا بند کردیں۔ آج ضرورت ہے کہ جیسے قیام پاکستان کے لیے نظریہ پاکستان پر متحد ہوئے تھے آج تکمیل پاکستان کے لیے بھی لا الہ اﷲ محمد الرسول اﷲ پر متحد ہو جائیں، آج خود کو ہندو اور انگریز کی ذہنی غلامی سے نکال کے اسلام کے درخشاں اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ قیام پاکستان کے لیے جس طرح ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دی تھیں آج تکمیل پاکستان کے لیے ہمیں بھی قربانیاں دینا ہوں گی۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اس مملکت خداداد کی تکمیل اس طرح ہی ممکن ہے کہ شہہ رگ کو ہندو سے آزاد کرایا جائے، ہندوستان میں بسنے والے 30کروڑ مسلمانوں کو آزادی کی نعمت حاصل ہو، ارض مقدس سے یہود کو بے دخل کر دیا جائے۔ یہ سب اس وقت ہی ممکن ہو گا جب ہم نظریہ پاکستان پر کھڑے ہوں گے۔ اﷲ پاکستان کی حفاظت فرمائے اسے دشمنوں کے شر سے بچائے، ہماری نسل نو کی حفاظت فرمائے اسے سلف صالحین کے نہج پر چلائے۔ (آمین)
خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.