انتخابات 2018 میں تصور کیا جارہا تھا کہ سندھ سے موروثی
سیاست کا خاتمہ ہوگا لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے ۔2018 کے عام انتخابات
میں بھی پیپلز پارٹی سندھ سے کامیاب ہوئی ۔سندھ میں پیپلز پارٹی 78 صوبائی
اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ سر فہرست رہی جبکہ پی ٹی آئی نے 22 ، ایم کیوایم
نے 16 اور جی ڈی اےنے سندھ اسمبلی کی 11 نشستیں اپنے نام کیں ۔ان انتخابی
نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں مظبوط اپوزیشن کا سامنا
کرنا پڑتا۔تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان تریم نے ایم کیو ایم کے مرکز
کا دورہ کر کہ ایم کیو ایم رہنما ؤں سے ملاقات کی ۔جہانگیر خان ترین نے ایم
کیو ایم رہنماؤں کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کامیاب
کوشش کی ۔
جہانگیر ترین اور ایم کیو ایم رہنما ؤں کی ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے
وفد نے بنی گالہ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات میں چند
مطالبات ان کے سامنے رکھے۔ان مطالبات میں مردم شماری کے معاملے پر حمایت
اور کراچی میں ترقیاتی کام سرفہرست تھے۔تحریک انصاف نے متحدہ قومی مومنٹ
پاکستان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرلی۔دوسری جانب
جی ڈی اے اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا نے بھی تحریک انصاف کا
ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے پیپلز پارٹی کو ٹف
ٹائم دینے کا فیصلہ کیا۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے فردوس شمیم
نقوی کا نام قائد حزب اختلاف کیلئے سامنے آرہا تھا ۔سندھ میں تحریک انصاف
کی اتحادی جماعتیں بھی اس بات متفق تھیں کہ تحریک انصاف جسے بھی نامزد کرے
اسے قائد حزب اختلاف کیلئے ووٹ دیا جائے گا ۔
ایسی نازک سیاسی صورت حال میں تحریک انصاف کراچی کے صدر اور ممکنہ امیدوار
برائے قائد حزب اختلاف سندھ فردوس شمیم نقوی سے سنگین سیاسی غلطی سرزد ہوئی
،کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ہم
مجبوری میں ایم کیو ایم کے پاس گئے کیونکہ ہمیں ووٹ پورے کرنے تھے۔فردوس
شمیم نقوی کے اس بیان کے بعد ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے شدید رد عمل
آیا تو تحریک انصاف نے بھی اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کی اور فردوس شمیم
نقوی کے اس بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا ،ترجمان تحریک انصاف نعیم
الحق نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم سے اتحاد غلطی نہیں حکمت عملی
ہے۔
ایک عام کہاوت مشہور ہے کہ قمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ واپس
نہیں آتے ،فردوس شمیم نقوی کو یہ بیان خاصہ مہنگا پڑ گیا۔پی ٹی آئی کی
اعلیٰ قیادت نے فردوس شمیم نقوی سے ان کے بیان پر باز پرس بھی کی ہے جبکہ
قیادت نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ متنازع بیان دینے کی پاداش میں فردوس شمیم
نقوی کو اب سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نہیں بنایا جائے گا۔تحریک انصاف
کی جانب سے اس عہدے کیلئے اب حلیم عادل شیخ کا نام زیر غور ہے ۔دوسری جانب
اس متنازع بیان کے بعد ایم کیو ایم پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی
قیادتوں کے مابین رابطہ ہوا جس میں مظبوط،متحرک اور متفقہ اپوزیشن لیڈر
لانے پر اتفاق ہوا۔گر ایم کیو ایم پاکستان اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا
اتحاد ہوجائے تو اسمبلی اراکین کی عددی اکثریت بڑھ جائے گی کیونکہ ایم کیو
ایم کے پاس 16 اور جے ڈی اے کی 10 نشستیں ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس سندھ
اسمبلی کی 23 نشستیں ہیں، اگر ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کا اتحاد ہوجائے تو
ممبران کی تعداد کُل ملا کر 26 ہوجائے گی اور اس طرح تحریک انصاف اپنا قائد
حزب اختلاف نہیں لا سکے گی۔
تحریک انصاف کو سندھ بلخصوص کراچی میں ایم کیو ایم کی اہمیت کو سمجھنا
ہوگا۔اس بات میں شک نہیں کہ تحریک انصاف اس وقت سندھ میں ایم کیو ایم سے
بڑی جماعت بن چکی ہے۔لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے پاس تجربہ کار قیادت ہے ۔اگر
ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میں اختلافات رہے تو تحریک انصاف سندھ میں
بھرپور اپوزیشن کا کردار اپنی اور عوامی خواہشات کے مطابق ادا نہیں کرسکے
گی ۔جس سے تحریک انصاف کو سندھ کی سیاست میں شدید دھچکا پہنچے گا ۔تحریک
انصاف کو پہنچنے والے اس شدید نقصان کا تمام تر فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی
کو ہوگا ۔
تحریک انصاف کو موجودہ صورت حال کو سمجھتے ہوئے ایم کیو ایم کے تحفظا ت کو
دور کرنا ہوگا۔فردوس شمیم نقوی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا بیان واپس
لیں تو یہ ان کے سیاسی مستقبل کیلئے بہتر ہوگا ۔تحریک انصاف کی قیادت کو
ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے رابطہ کرنا ہوگا اور انہیں اس بات پر امادہ
کرنا ہوگا کہ وہ وفاق میں عمران خان کی حمایت کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی
قائد حزب اختلاف کیلئے تحریک انصاف کی حمایت کریں ۔متحدہ قومی مومنٹ
پاکستان کو بھی کراچی کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف سے
تعلقات کو مظبوط کرنا ہوگا۔
اگر حزب اختلاف کی جماعتوں میں اتحاد نہ ہوا تو نقصان سندھ بلخصوص سندھ کے
شہری علاقوں کے عوام کا ہوگا۔ایم کیو ایم پاکستان جی ڈی اے اور تحریک انصاف
کو اب سندھ کے عوام کے مستقبل کا سوچنا ہوگا۔سندھ کے عوام اب تبدیلی چاہتے
ہیں ۔
|