ہمارا ملک ہندوستان ایک آزاد اور سیکولر ملک ہے جہاں
تمام ادیان ومذاہب کےمتبعین وپیروکاروں کو اپنی بات کہنے ،سننے ،پھیلانے
اور اپنی شریعت کے احکام وفرامین پر عمل کرنے کا پورا پوراحق حاصل ہے ۔ یہ
ملک ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو انگریزوں کے شکنجوں اور ظلم واستبداد سے آزادہوا،اس
میں اہل وطن اور خصوصا مسلمانوں کوکثیر تعداد میں اپنی جان ومال کا نذرانہ
پیش کرنا پڑاہے۔ مسلمانوں نے آزادی کی خاطر انگریزوں کے خلاف تحریکیں
چلائیں ، پھانسی کے پھندے پر لٹکے،جان ومال اور اہل وعیال کی قربانیاں پیش
کیںاور کالاپانی کی خوفناک وہیبت ناک سزائیں برداشت کیں ۔غرضیکہ ہر طرح
کےمصائب وآلام برداشت کرنےکےباوجود بھی ان کے پائے ثبات میںذرہ برابر بھی
لغزش نہ آئی بلکہ وہ بخوشی اپنےمنزل کی طرف رواں دواں رہے ۔
دراصل ۱۹۴۷ءکی آزادی سے پہلے ہمارا ملک انگریزوں کے ظلم واستبداد کا شکار
تھا وہ انگریز جو اس ملک میں ۱۶۰۰ء میں تجارت کی خاطرداخل ہوئے تھے
،آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی سیاسی چالوں، عیاریوں ومکاریوں کے ذریعہ
مسلمانوں کوشکست فاش دے کرسونے کی چڑیا کہے جانے والے اس ملک کے کرسی
اقتدار پراپنا تسلط قائم کرلیاتھااور قابض ہونے کے بعد ہندوستانیوں اور
خصوصا مسلمانوں کو اپنےظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا یہاں تک کہ
مسلمانوں کاجینا دوبھر ہوگیاتھا۔چنانچہ اس وقت مسلمانوں نے ملک کے حالات
اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انفرادی واجتماعی طور پر انگریزوں کے
خلاف تحریکیں چلائیں ،ان کے ظلم وستم اور سیاسی چالبازیوںکواپنی تقریروں
وتحریروں کے ذریعہ عوام الناس کے سامنے طشت ازبام کیا ،علمائے کرام نے
خصوصی طور پراس تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااورعوام میں آزادی کی
روح پھونکی ۔اس تحریک میںجماعت اہلحدیث کے مایہ ناز سپوت مولانا شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۷۶۲) کو اولین مقام حاصل ہے جنہوں نے اپنی
قائدانہ صلاحیتوں اور درس وتدریس کے ذریعہ علماء اور عوام کی ایک ایسی
جماعت تیار کی جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنے جان ومال کو قربان
کرنے کا فیصلہ کیااور آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز ؒ(م ۱۸۲۴) نے
دارالحرب کا فتویٰ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک کا اتنا اثر ہوا کہ
مختلف گروہوں اور ٹولیوںمیں بٹے ہوئے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئےاور
انگریزی حکومت کے خلاف زبردست متحدہ محاذ چھیڑدیا ۔اس کے بعد اس تحریک کو
مزید تقویت ملی اور اس تحریک میں شاہ عبدالحئی ،شاہ اسماعیل شہید اور شاہ
اسحاق رحمھم اللہ جیسے مایہ ناز اہل علم شامل ہوئے اور اس کو منظم ومستحکم
بناکر انگریزوں کے خلاف ببانگ دہل جہاد کا علم بلند کیا ۔اسی طرح ۱۸۳۱ءمیں
سید احمد شہید اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے بالا کوٹ کے میدان میں
اپنے رفقاء کے ساتھ وطن عزیز کو آزادکرانےکے لئے فرنگیوں اور ان کے اتحادی
سکھوں کے خلاف جہاد میں شرکت فرماکر جام شہادت نوش کیا۔اس طرح یہ تحریک
اپنے منزل کی طر ف رواں دواں رہی اور علمائے امت کا ایک عظیم قافلہ اس
تحریک میں شامل ہوتارہا ۔ ایک طرف جہاں پورے ملک کے باشندے اس تحریک میں
شریک ہوتے رہے وہیں دوسری طرف علمائے صادق پور،پٹنہ کا اس تحریک اور جہاد
میں ایک قائدانہ کرادار رہاہے مولانا ولایت علی عظیم آبادی ( م ۱۸۵۲) اور
ان کے بھائی مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م ۱۸۵۸) نے اس تحریک کو اپنے
خون جگر سے سینچا اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی ایسی روح پھونک دی کہ
وہ کامیابی کے سا تھ آگے بڑھتی چلی جو آزادی کی شکل میں نمودار ہوئی ۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک کو آزاد کرانے میں اپنے
جان ومال اور اعزہ واقارب کی قربانیاں پیش کیں ہیں اور علمائے اہلحدیث نے
خاص طورپر آزادی کی تحریک چلانے میں پیش پیش رہے ہیں ،غرضیکہ ۱۸۵۷ ءمیں
علماء کی ایک ایسی جماعت تیارہوئی جنہوں نے اپنے قلم وقرطاس اور خطبے ودروس
سے عوام کے دلوں میں آزادی کی مزید روح پھونکی،ان کے جذبات کو
جھنجھوڑا،انھیں اپنا مقام وحیثیت یاددلائی ۔ خصوصا حادثہ بالاکوٹ کے بعد
علمائے صادقپور نے اس تحریک میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن کی قربانیاں
کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہیں ۔جن کے بارے میں آزاد ہندوستان کے پہلے
وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ’’ اگر پورے
ہندوستانیوں کی قربانیوںکو ترازو کے ایک پلڑے میں اورعلمائے صادقپور ،پٹنہ
کی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو علمائے صادقپور کی قربانیاں
بھاری پڑیں گی ‘‘ ۔ یہ شہادت کسی عام انسان کی نہیں بلکہ ملک کے پہلےوزیر
اعظم کی ہے جنہوںنے مسلمانوں کے خون کے ذریعہ سینچے گئے اس عظیم انقلاب اور
آزادی کو اپنی آنکھوں سےدیکھا اور کانوں سےسنا تھا ۔ نیز۱۸۵۷ء اور اس سے
پہلے سے لے کر ۱۹۴۷ءتک ملک کی کوئی بھی ایسی سیاسی تحریک وجماعت نہ تھی جس
میں مسلمانوں اور علمائے امت نے حصہ نہ لیاہو،ان علماء کی ایک طویل فہرست
ہے جن میںشاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،شاہ اسماعیل شہید ،مولانا عبدالقادر
قصوری،مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا عبیداللہ احرار،مناظر اسلام
مولانا ابو الوفاءثناءاللہ امرتسری،مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،مولانا
حافظ محمد محدث گوندلوی ،مولانا ابو القاسم سیف بنارسی ،مولانا ابو القاسم
محمد علی مئوی،مولانا محمد نعمان مؤی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری،
مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی ،مولانا محمد ادریس خان بدایونی ،مولانا فضل
الہٰی وزیر آبادی ،شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی ،مولانا
محمد علی جوہر ، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرھم رحمھم اللہ خاص طور پر قابل
ذکر ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ان عظیم قربانیوں اورجانفشانی کے باوجود ہمیں ملک
میں امن وسکون سے رہنے کا حق نہیں دیا جارہاہے ،بات بات پر دیار غیر میں
جانے کی دھمکی دی جارہی ہے ،انتہا پسند اور دہشت گرد جیسے گھنائونے القاب
سے ملقب کیا جارہاہے ،ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش کرکے اس پر بھگوا
رنگ پوتا جارہا ہے ،ہمارے خلاف مختلف قسم کی سازشیں کی جارہی ہیں،عدالتوں
اورکچہریوں میں جانبدارانہ رویہ اختیارکیا جارہاہے ،کبھی اذان تو کبھی
قرآن مقدس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ،کبھی مدارس ومساجد کو نشانہ
بناکران کے خلاف ناپاک سازشیں اورمنظم تحریکیں چلائی جارہی ہیں اور ان مقدس
مقامات کونعو ذباللہ دہشت گردوں کے اڈے قرار دیئے جارہے ہیں۔ اور جب سے ملک
کے عظیم عہدوں خصوصا کرسی وزارت پر متعصب وتنگ نظر افراد براجمان ہوئے ہیں
تب سےاس ملک میں مسلمانوں کا جینا اور دو بھر ہوگیا ہے ،جنہوں نے اپنی نئی
حکمت عملی اور سیاسی پالیسیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرنے کا
کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے ۔ ان کے اشتعال انگیز بیانات نے مساجد
ومدارس اور مسلمانوں کے لئے مزیدخطرہ پیداکردیاہے۔ گذشتہ دنوں حکومت
مہاراشٹراکی جانب سے ریاست کے مدارس اسلامیہ کے متعلق جو فیصلہ آیاہے اس
پر پورا ہندوستان تقریباًیک زبان ہوگیاکہ یہ فیصلہ مدارس کے خلاف ہے۔ کہا
جارہاہے کہ مدرسوں کا وجود ملک کی سا لمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ وہاں دہشت
گردوں کوپنا ہ دی جاتی ہے او ران کی تربیت کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مزید یہ
کہ ان جگہوں میں جہاد کے لئے ذہن سازی کی جاتی ہے اور ماحول تیار کیا جاتا
ہے۔ لیکن ان جھوٹے اور شرمناک الزامات کے ٹھوس ثبوت تو کیا جزوی ثبوت بھی
پیش نہیں کئے گئے۔ (اورا ن شاء اللہ قیامت تک نہ پیش کرسکیں گے)اس کے
باوجود مختلف ذرائع ابلاغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مدرسوں
کے خلاف شر انگیز مہم مسلسل جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں
ان ہی مدارسِ اسلامیہ اور علمائے کرام کاکردار نمایاں تھااور ملک کو آزاد
کرانے والے ان ہی مدارس کے پروردہ تھے۔لیکن افسوس کہ آج ہندوستان کی تاریخ
کو مسخ کی جارہی ہے مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی ریشہ دوانیاں کی جارہی ہیں
ان کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جو کہ باغیرت
اہل وطن کے لئے بہت ہی شرمناک اور توہین کی بات ہے ۔
لہٰذا آج حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی حقیقت
کو پہچانیں ،اسلاف کے کارناموں کو یاد کریں ،اسلام کی روشن تعلیمات کو پوری
دنیا میں عام کریں ،سنگھیوں اور اغیار کے رخساروں پر تاریخ کے ان سنہرے
واقعات وحادثات اور مجاہدین آزادی کی خدمات جلیلہ کوبیان کرکے ان کے ذہن
ودماغ کے دریچوں کو کھولیں اور انھیں بتائیںکہ یہ ملک جتنا تمہارا ہے اتنا
ہی ہمارا بھی ۔ اس لئے ملک میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔کیونکہ اس
کی ملک کی آزادی میں سب نے مل کر اپنے جان ومال ،اعزہ واقارب اور آباء
واجداد کی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ یہ ملک سب کا ہے اور سب کا رہے گا اور اس
ملک میں سب کو امن وسکون سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ اسی میں سب کا ساتھ اور سب
کا وکاس کا نعرہ مضمر ہے ۔
اللہ ہمارا حامی وناصر ہے ۔ |