جب سے دنیا قائم ہوئی ہے انسانی معاشرہ اور اس معاشرہ کو
چلانے کے لیے قوانین بنتے آ رہے ہیں۔ کہیں صدارتی، کہیں ڈکٹیٹر، سول و فوجی
مارشل لاء، جمہوریت وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود اس انسانی معاشرے کو قائم
رکھنا، اور انصاف دینا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ ہاں اگر انسانیت اور
معاشرہ کو زندہ، صحت مند، قوانین کے مطابق چلانا مقصود ہے تو پھر بس ایک ہی
طریقہ ہے جو اللہ کے پیارے محبوب آقائے دو عالم احمد مجتبیٰ احمد مصطفی
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دیایعنی اسوہ حسنہ۔ نسخہ
کیمیا کے مطابق زندگی کا بسر کرنا۔ یہی مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ورنہ یہ رونا
چلتا ہی رہے گا اور چلتا ہی آرہا ہے۔ انسان کے اپنے مفاد میں بنانئے ہو ئے
چند قوانین چند لوگوں کی خواہش کی تکمیل تو بن سکتے ہیں لیکن پورے سسٹم کے
لیے نہیں۔
میرے پیارے وطن پاکستان میں جنرل الیکشن جولائی 2018ء میں منعقد ہوئے۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا الیکشن (۲۲ ارب روپے) قرار پایا۔ الیکشن
کو شفاف بنانے کے لیے پوری مشینری کو استعمال میں لایا گیا۔ کیا کاغذ، کیا
مقناطیسی سیاہی، کیا سیکورٹی اور سیکورٹی کیمرہ جات وغیرہ وغیرہ۔ الیکشن
کمیشن آف پاکستان نے اپنے طور پر وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتا تھا۔ اب اس
کے من میں کیا تھا یہ اللہ رب عزت کی ذات ہی بہتر جانتی ہے۔
محکمہ تعلیم،ڈاکٹر اور سول اداروں کے علاوہ پاک فورسز کو بھی اس نظام میں
بڑی تعداد میں شامل کیا گیا۔ پاکستانی مسلح افواج کو اس قومی فریضے کو ادا
کرنے کے لیے اپنی ریٹارئیرڈ (ریزرو) سٹاف کو بھی واپس بلانا پڑا۔ کیونکہ
سیکورٹی امور کے علاوہ بھارت اور افغانستان کی بارڈر کی طرف سے اچانک پیدا
ہونے والی سرحدی کشیدگی بھی اہمیت کا حامل ہے اور تھی۔ تمام پولنگ اسٹاف
اور تعینات عملہ نے اس الیکشن کو تاریخ کا ترین شفاف قرار دیا۔
الیکشن کے اگلے روز ہی ان سیاسی لیڈرز نے دھاندلی کا شروع با آواز بلند شرو
ع کردیا۔ یہ وہ سیاسی بصیرت رکھنے والی پارٹیاں ہیں جنہوں نے اس ملک
پاکستان میں ۵۲، ۵۲ سال حکمرانی کے مزے لوٹے۔ لیکن ناگہانی سیاسی موت نے ان
کو آلیا۔ جو کہ ان کے وہم و گمان میں دور دور تک نہیں تھا۔ لہذا حق حکمرانی
ان کا حق بن چکا تھا۔ حکمرانی نظر نہ آنے کی صورت میں وہ تمام مفاد پرست
لوگ اکٹھے ہو گئے جو حکمرانی کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے تھے۔ انہوں نے
ملک کر ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ ڈی چوک کو بند کرنے کی کوشش کی۔ اس میں
سب سے زیادہ پیش پیش مولانا فضل الرحمن تھا جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کا
خاندان پاکستان بننے کے بالکل خلاف تھا۔ اور پھر اس نے الیکشن کے بعد
۴۱اگست کویوم آزادی منانے کو مسترد کردیا۔ اس کی اس بات کو شہباز شریف ۳
بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے نے بھی درست قرار دیا۔ حکومت نہیں ملی تو
پاکستان مخالف ہو گئے۔
مختصر اً یہ کہ دھاندلی کیسے ہوئی؟ جب کے تمام پولنگ اسٹاف دھاندلی سے
انکاری ہے۔ پھر مختلف ویڈیو کلپس کہاں سے منظر عام پر آئے۔ اس کا جواب کچھ
اس طرح ہے۔ یہ وہ تمام کلپس ہیں جو پچھلے الیکشن ۳۱۰۲کے تھے پھر۔ بیلٹ
پیپرز ہاتھ کیسے لگے۔ یہ بھی تقریباً پرانے ہی تھے۔ اگر نہیں تو پھر یہ وہ
تمام بیلٹ پیپرز تھے جو دوران ٹریننگ بطور سیمپل(نمونہ) تربیتی کورس میں
تھے۔
بڑے پیمانے پر جو دھاندلی ہوئی ہے وہ یہ کہ اس دفعہ دھاندلی نہیں ہونے دی
گئی۔ کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سیاسی نام نہاد اور مفاد پرستوں کو
سابقہ روٹین کو بحال رکھتے ہوئے پولنگ اسٹیشن پر جعلی بیلٹ پیپر اپنی اپنی
پارٹی کی طرف سے تیار کرکے ان جگہوں پر چھپا دیئے گئے تھے جہاں پر ان کو
پورا یقین تھا کہ پولنگ عملہ یہاں اپنا دفتر لگا کر الیکشن کی کارروائی
شروع کرے گا۔ جب گنتی کا عمل شروع ہو گا۔ افراتفری کا سماں پیدا کیا جائے
گا، عملہ میں سے کسی نہ کسی کو ساتھ ملایا گیا ہو گا کہ جیسے ہی گنتی شروع
ہو وہ چھپائے گئے بیلٹ پیپرز کو اچانک نکال کر ان میں شامل کیا جائے اس طرح
دھاندلی کرتے ہوئے اپنا امیدوارکامیاب کروایا جائے۔ بد قسمتی سے ایسا نہ ہو
سکا۔ ایک فوجی جوان دو اندر اور دو باہر اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔ ان
جوانوں نے کھانا چھوڑ دیا لیکن اپنے فرض میں کوتاہی نہیں ہونے دی۔
سوال یہ پیداہوتا ہے پھر ان سیاسی لیڈرز کے ہاتھ بیلٹ پیپر ز کہاں سے آئے۔۔
تو جناب جیسے یہ الیکشن اختتام پذیر ہوا۔ ان کا تیار کردہ پلان جعلی ووٹ
اور بیلٹ پیپر کامیاب نہ ہوا تو انہوں نے وہ تمام بیلٹ پیپر ز نکال لیے جو
خود چھپا کر رکھے تھے۔ جسے کہا گیا جی دیکھیں سکول کھلا تو بچوں کے ڈسک یا
بنچ کے اندر سے بیلٹ پیپرز ملے۔ یہ وہی بیلٹ پیپرز تھے جو جعلی پلان کے تحت
گنتی میں شامل نہ ہو سکے البتہ ان کو بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ لیکن مزے
کی بات یہ ہے پولنگ اسٹیشن کے اندر کی ایک بھی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی
جس سے یہ سب کچھ دھاندلی کی مدد میں ثابت ہو سکے۔ آر ٹی ایس سسٹم فیل ہونے
کی صورت میں رات ۲۱بجے کے بعد تقریباً بہت سے رزلٹ الٹ پلٹ ہو گئے۔
میرے دوستو! حکمرانی اور وزرات کا ایسا نشہ ہے جس سے غنڈہ گردی اور خدائی
دعوے کرتے ہیں۔ جب یہ نشہ اترتا نظر آیا تو ان سب کو جان کے لالے پڑ گئے
ہیں۔ بس دعا کریں اور ذرا سوچیں یہ لوگ صرف دو پارٹیوں کے علاوہ کسی تیسری
پارٹی کو حکمرانی میں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اللہ کریم ہم سب کو سچا
پاکستانی بنائے آمین ثم آمین۔
گنتی میں غلطی ممکن ہے۔ لیکن اگر اس غلطی کو فوج کے سر تھوپا جائے تو یہ سر
اسر زیادتی ہے۔ اور اگر اس کو بنیاد بنا کر کوئی فوج کے خلاف بولتا ہے تو
وہ اپنے، اپنے بچوں ،خاندان اور ملک کے خلاف بولتا ہے۔ یا پھر وہ یہودی
ایجنڈے پر کام کرتا ہے ۔
|