لعنت بے شُمار

یہ اب سے پانچ برس پہلے کی بات ہے " ھماری ویب " کے ہوم پیج پر فیچرڈ آرٹیکلز کے تحت بی بی سی اردو کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی بعنوان:
سعودی عرب میں 30 ہزار پاکستانی غیر قانونی قرار
اس پر ہم نے جو تبصرہ تحریر کیا تھا آپ پہلے وہ ملاحظہ فرمائیے
" بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کو تعلیم و ہنر کے میدان میں کوئی قابلِ ذکر مقام حاصل نہیں ھے تیل کے نشے میں بد مست اس قوم کے نوجوانوں کا اپنے ملک کی ترقی خصوصا تعمیراتی عروج میں بھی کوئی نمایاں کردار نہیں ھے یہ ایشیائی محنت کشوں کا کمال تھا جنہوں نے سعودیہ اور امارات کے ریگزاروں کو گلزار بنا دیا ان میں بہت بڑا کردار پاکستانی ماہرین اور ہنر مندوں کا ھے جنہیں اب اپنے مطلب نکل جانے کے بعد دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینکا جا رہا ھے ۔ ان احسان فراموشوں اور مطلب پرستوں نے تو غیر ملکی محنت کشوں کو ان کی محنت و مشقت کا معاوضہ بھی دیانتداری کے ساتھ نہیں دیا اپنے نکمے نا اہل اور جاہل ملازموں کو ہمیشہ ان کے مقابلے پر اولیت اور فوقیت دی ۔ اور اب انہیں برسہا برس ان کے لق و دق صحراؤں میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے غریب الوطنوں کی ضرورت نہیں رہی اور اپنے مقامی نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے نام پر در حقیقت خالص قوم پرستانہ اور سفاکانہ قوانین وضع کر کے انہوں نے پاکستانی تارکین وطن پر اپنے ملک میں مزید قیام اور معاش کے دروازے عملاً بند کرنے شروع کر دیئے ھیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ نہایت ہی جاہلانہ اور وحشیانہ طریقہء کار سے بے شمار بیگناہوں کو گرفتار کر کے قید خانوں میں بھی ڈالا گیا پھر ملک سے نکال باہر کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ھے ۔ پاکستانی حکومت اور سفارت خانہ اس ساری صورتحال پر خاموش تماشائی بنا ہؤا ھے اس کھلے ظلم اور زیادتی پر کوئی آواز نہ اٹھانے والے صاحبان ِ اختیار پر لعنت بے شمار "

تبصرے کا اختتام جن الفاظ پر ہؤا وہ آپ نے دیکھ لئے آپ ذرا غور کریں ذہن پر تھوڑا سا زور ڈالیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ پانچ برس پہلے تک آپ نے یہ الفاظ کبھی سنے یا پڑھے نہیں ہونگے ہم نے بھی کبھی سنے یا پڑھے نہیں تھے اُس وقت رنج و غصے کی کیفیت میں یہ ہم سے اضطراری طور پر ادا ہوئے تھے اور اُس وقت خود ہمیں بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ الفاظ سوشل میڈیا پر اتنی مقبولیت حاصل کرینگے کہ ایک ضرب المثل کی صورت اختیار کر جائیں گے آج کسی بڑے سے بڑے بھی قابل مذمت ایشو پر بندہ اپنی ساری بھڑاس صرف ان لفظوں کے ذریعے نکال لیتا ہے ۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ خود ہم نے یہ الفاظ پھر کبھی دوبارہ استعمال نہیں کئے لیکن آج ہم نے انہیں اپنی اس تحریر کے عنوان کے طور پر منتخب کیا ہے جو کہ ہم نے " ھماری ویب " پر شائع ہونے والے ، جناب سید انور محمود صاحب مرحوم کے مضامین پر کئے گئے اپنے تبصروں کی مدد سے ترتیب دی ہے ۔ ناچیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہی میں سے چند فقروں کو انہوں نے اپنی ایک سو لفظی کہانی میں ہمارے نام کے ساتھ شامل کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے ۔ بقر عید کے اگلے روز انہیں بچھڑے ہوئے اسلامی ایک سال پورا ہو جائے گا ۔
§§§
اپنے 300 ویں آرٹیکل کے لئے آپ نے جس شخصیت کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا وہ اس اعزاز کی مستحق تھی تو نہیں ۔ خیر آپکو اس ہدف کی تکمیل بہت بہت مبارک ہو ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ کے علم عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور آپ کے قلم کی جولانیاں اور توانائیاں تادیر یوں ہی قائم و دائم رہیں ۔ مضمون نگاری کی دنیا آپ کے دم قدم سے آباد رہے ۔ آمین ۔
§§§
بالکل جناب، پتہ نہیں کچھ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں اور کسے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ کیسی ستم ظریفی کی بات ہے جن کا باپ پاکستان بنانے کے "گناہ" میں شریک نہیں تھا جن کا دادا تاج برطانیہ کا وفادار اور تنخواہ دار تھا اور ہزاروں بیگناہ محب وطن قبائلیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے عوض ملٹری کراس کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جن کی بڑے سے بڑے نزاعی معاملے میں اپنی رائے کی تبدیلی بلکہ قلابازی بس ایک ڈیل کی مار ہوتی ہے وہ آج پاکستان اور اسلام کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں ۔ عورت کی حکومت کو حرام قرار دینے والوں کو کشمیر کمیٹی کی صدارت پیش کی گئی تو وہی حکومت حلال ہو گئی ۔ عورت کی اعلیٰ تعلیم کے خلاف بڑھ چڑھ کر فتوے صادر کرنے والے منافقوں فسادیوں کی اپنی عورتوں کو جب کوئی مسئلہ پڑتا ہے تو فوراً کسی لیڈی ڈاکٹر کا پتہ کر کے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں بلکہ جب خود اپنے سر پر پڑتی ہے تو اسی حرام تعلیم یافتہ، مردوں کے ساتھ پڑھنے اور کام کرنے والی بے حیا دوزخی عورت کے آگے چاروں شانے چت پڑ جانے پر بھی راضی ہو جاتے ہیں ۔ اس قماش کے تمام نام نہاد مولاناؤں سے میرا سوال ہے کہ عورت کی حرام طریقہء کار کے تحت حاصل کی گئی تعلیم و تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے ثمرات سے فیض اٹھانا حرام کیوں نہیں ہے؟
§§§
انٹرنیٹ پر مولانا مودودی کے بیٹے حیدر فاروق کا انٹرویو موجود ہے جس میں اس نے ذکر کیا کہ اُس کے والد نے قائد اعظم کے لباس کو نشانہءتنقید بناتے ہوئے کہا کہ جو شخص اسلام کو خود اپنے جسم پر نافذ نہ کر سکا وہ ملک میں اسلامی نظام کیا نافذ کرے گا ۔ اور یہ بھی کہ مولانا نے اپنی اولاد کو خود اپنی جماعت کے جلسوں اور سرگرمیوں سے ہمیشہ دور رکھا کبھی ان میں شرکت کی اجازت نہ دی ۔ اگر یہ کبھی دور کھڑے ہو کر بھی دیکھتے تھے تو انہیں بہت ڈانٹ پڑتی تھی ۔ حیدر فاروق کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ مولانا مودودی نے کبھی اپنی اولاد کو اپنی کتابیں پڑھنے نہ دیں ۔ انہیں اپنے نظریات و افکار سے ایسے دور رکھا جیسے کوئی منشیات فروخت کرنے والا اپنی پڑیاں باہر ہی کہیں چھپا آتا ہے وہ گھر میں نہیں لاتا اور اپنی اولاد کو اپنے دھندے کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتا ۔ اگرچہ حیدر فاروق کے اہلخانہ نے اس کے ان بیانات کی سخت مذمت کی اور ان کی حقیقت کا انکار کیا لیکن آج کے علماء کی منافقتیں دیکھیں وہی حال ہے یہ سیاست میں آتے ہیں بیوقوف عوام کو انقلاب کی پٹیاں پڑھا کر سڑکوں پر لاتے ہیں ان کے بچوں کو مرواتے ہیں اور خود اپنے بچے یہود و نصاریٰ کی گود میں دے رکھے ہیں ۔ دوغلے ملا سادہ لوح پسماندہ طبقے کے ان پڑھ بیروزگار نوجوانوں کے سامنے جنت کا نقشہ ایسے کھینچتے ہیں جیسے نعوذ باللہ وہ کوئی عیاشی یا فحاشی کا اڈا ہو اور وہاں کی راحتوں اور آسائشوں کا لالچ دے کر انہیں جہاد کے نام پر فساد بلکہ قتال اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنے یا اپنا گلا کٹوالینے پر اکساتے ہیں یہ مکار خبیث ملا خود اپنے بیٹوں کو جہاد پر کیوں نہیں بھیجتے؟
§§§
‎لوگوں کو موت کے لئے تیار کرنے والے یہ گفتار کے غازی خود سیکیورٹی گارڈز کی گود میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کافروں کے بنائے ہوئے مائیک میں گڑگڑا کر شہادت کی موت کی دعا مانگتے ہیں اور جہاد پر جاتے نہیں ۔ آرزو ہوتی ہے مکے میں مرنے کی اور مدینے میں گڑنے کی مگر جب بیمار پڑتے ہیں تو علاج کے لئے امریکہ یا یورپ کو دوڑ پڑتے ہیں اور وہاں جب ان کی تیمارداری نیم عریاں فیمیل فرنگی نرسیں کرتی ہیں تو پھر ان منافقوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا جب اپنے سر پر پڑتی ہے تو ان کی ساری شریعت دھری رہ جاتی ہے ۔ خود قدم قدم پر یہود و نصاریٰ کی ذرہ نوازیوں کے محتاج ہوتے ہیں اور انہی کی ٹیکنالوجی یوز کرکے لوگوں کو ان سے نفرت کرنا اور انہیں بددعائیں دینا سکھاتے ہیں ۔ اب تو ہمیں کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں رہی ۔ ایکدوسرے کو ختم کرنے ہم خود ہی کافی ہیں ۔ جس ملک میں دین کے ان نام نہاد خدمتگاروں کا یہ حال ہو جو قران و سنت سے اپنی مرضی کے مطلب نکالتے ہوں جو عوام کے سامنے جن ملکوں کے خلاف زہر اگل کر انہیں ان سے نفرت کی ترغیب دے کر اندر خانے انہی ملکوں کے پٹھو ہوں تو ایسے منافقوں اور حرامخوروں کے ہوتے ہوئے ملک و ملت کی جڑوں کو کھوکھلا ہونے سے کون روک سکتا ہے؟ کیسا ستم ہے کہ قیامِ پاکستان کے کٹر مخالفین کی آل اولادیں آج پاکستان اور اسلام کی ٹھیکیدار بنی بیٹھی ہیں ۔ (رعنا تبسم پاشا)

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1855205 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.