اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے الیکشن میں ہونے
والی دھاندلی کے خلاف احتجاج کے لئے سیاسی جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیادت
کارکنوں کے ساتھ پہنچ تو گئی مگر اس کی نظریں تمام وقت پارٹی صدر شہباز
شریف کو ڈھونڈنے میں لگی رہیں ، لیگی کارکن دائیں بائیں تکتے رہے مگر شہباز
شریف کو نہ آنا تھا نہ آئے ، ویسے تو نواز شریف کو پتا ہو گاکہ چھوٹے میاں
نے آج تک کتنی بار ان سے دھوکہ کیا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ہونے والا یہ
دوسرا بڑا دھوکہ تھا ، پہلا دھوکہ لاہور ایئر پورٹ جا کر نواز شریف اور
مریم نواز کاا ستقبا ل کرنے کااعلان کر کے دن بھر ادھر ادھر کی سڑکوں پر
گھما پھرا کر گلہ پھاڑتے نعرے لگاتے کارکنوں کو چکما دینے پر بے نقاب ہو
چکا ہے ، دوسرا موقع یہ تھا جب شہباز شریف موسم کی مجبوری بتا کر اسلام
آباداحتجاج میں نہ آسکے جبکہ لاہور ہی سے سعد رفیق، ایاز صادق، پر ویز ملک
سمیت دیگر راہنما اسلام آباد پہنچے ہو ئے تھے ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں،
سیاست میں منافقت کو بھی ڈپلومیسی کہا جاتا ہے ، سیاستدان کے دانت بھی
کھانے اور دکھانے کے وکھرے وکھرے ہی ہو تے ہیں ، شہباز شریف اور پرنس حمزہ
،مریم نواز کو جس طرح این اے 120میں تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہو گئے تھے اسی
طرح انہوں نے اسلام آباد جہاں پہنچنا ویسے تو انکی منزل مقصوداور زندگی کی
بڑی خواہش ہے لیکن مجبوری کی عالم میں فی الحال باپ بیٹوں نے پیٹھ دکھانے
میں ہی عافیت سمجھی ہے ، واقفان حال کہتے ہیں کہ شہباز شریف ماڈل ٹاؤن ،
نندی پور، 56کمپنیوں کے علاوہ کئی دیگر کیسوں کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور
عنقریب دھرے جانے والے ہیں ، اسٹبلشمنٹ کے سامنے’’ اچھا بچہ ‘‘بننے کی یہ
اداکاری انکے کسی کام نہیں آئے گی ، بیورو کریسی پر انحصار کرنے والے شہباز
شریف شاید کبھی حقیقی سیاستدان نہ بن سکیں ، انہوں نے نواز شریف کے جیل
جانے کے بعد لیگی کارکنوں کو مایوس کیا ہے ،سیاستدان مشکل میں ہوں تو
پارلیمنٹ یاد آنے لگتی ہے اس لئے پیپلز پارٹی نے سب کو حلقف اٹھانے پر
آمادہ کیا ہے تاکہ سیاستدان اپنے اصل پلیٹ فارم پرکھڑ ہونیکے قابل ہو جائیں
اور باقی لڑائی وہاں لڑی جائے ،یہ اچھی اور جمہوری سوچ ہے ، ماضی میں سیاست
دانوں نے پارلیمان اور جمہوریت کو پاؤں کی جوتی نہ سمجھا ہو تا تو آج انہیں
یہ وقت دیکھنا نہ پڑتا ،نواز شریف شروع میں قومی اسمبلی میں جانا وقت کا
ضیاع سمجھتے رہے ، پارلیمان ن میں بیٹھ کر سیاستدانوں نے پانامہ معاملے میں
ٹی او آر زبنا لئے ہوتے تو شاید نواز شریف بھی آج جیل میں نہ ہوتے ، ملک
میں سیاستدانوں کا انبار لگا ہوا ہے اور اس حوالے سے یہ دھرتی بڑی زرخیز ہے
لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ کی مضبوطی کبھی سیاستدانوں کا مقصد نہیں رہا جبکہ
وہی تو ان کا اصل فورم ہے ، مضبوط پارلیمنٹ کے بغیر سیاستدانوں کو بے رحم
اور طوفانی لہروں سے کوئی نہیں بچا سکے گا ، ورنہ باری باری سارے رگڑے
جائیں گے اس وقت تو یوں لگتا ہے ملک میں نگران حکومت ہے بھی اور نہیں بھی ،
نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کے احتساب کے فیصلے کسی نگران یا منتخب
حکومت نے نہیں کئے ، مگر ملک میں احتساب کی لہر جاری ہے ، سیاستدان پیشیاں
بھگتتیاور اپنے حال پر مسکراتے اور شاکر نظر آنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،یہ
کیسا بل؛ امتیاز احتساب ہے کہ جس میں سیاستدانوں کے سوا سب پوتر لگ رہے ہیں
ہر سیاسی جماعت کا کوئی نہ کوئی لیڈر مقدمات میں پھنسا ہوا ہے ،بعض لوگوں
کا خیال ہے کہ یہ بھی ڈرامے بازی ہی ہے ، اصل رگڑا شریف خاندان کو لگانا ہی
مقصود تھا ، دیکھیں اب چھوٹے شریف اور انکے پرنس بیٹے خود کو بچانے کے لئے
ان حالات میں مزید کتنے ڈاج دیتے ہیں اور نواز شریف کے بیانیہ سے کتنا
فاصلہ بنائے رکھتے ہیں ،ادھر تحریک انصاف بظاہر الیکشن جیت کر بھی خوش نہیں
نظر آ رہی کہ نمبر پورے کرتے کرتے ہلکان ہو گئی ہے ، کچھ بعید ہی نہیں کہ
ناتجربہ کاروں کا یہ ٹولہ راستے ہی میں ہی ایسی حکموت سے ہم باز آئے کہتا
ہوا بھاگ کھڑا ہو ، عمران خان تو ٹکٹیں دینے کے عمل کو ہی اپنے لئے بہت بڑا
عذاب قرار دے چکے ہیں ، طاقت کے اصل ایوانوں میں بیٹھی اصل طاقتور شخصیت
سیاستدانوں کی اس بے بسی ، لاچارگی اور پریشانی پر کھل کر ہنستی ہو گی ۔ |