پیغام قربانی

بابا جان آگئے۔جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا ننھا ارحم اعلان کرتادوڑتا ہوا میرے پاس آیا،اور میری ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ ارحم میرا سات سال کا بیٹا ہے۔ میری تنخواہ سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے تھے،اب جب سے اس نے سنا تھا کہ عیدالضحی آرہی ہے اور اس کے ساتھی بھی ہر روز بکرے ،گائے ،اونٹ اور اپنی پسند کے جانور خرید کر لا رہے ہیں،تو اس نے بھی ضد شروع کر دی کہ اسے بھی بکرا چاہیے۔اب میں سوچ رہا تھا کہ کسی طرح کچھ پیسے اکٹھے کر لوں اورایک بکرا لے ہی آؤں۔ارحم سے محبت بھی تو بے انتہا تھی۔اس کی کوئی بھی فرمائش میں رد نہیں کرتا تھا۔

اس کی فرمائش کے اگلے دن سے میں نے دو گھنٹے اور ایکسٹرا کام کرنا شروع کر دیااور جتنا بھی کماتا وہ سب ایک جگہ رکھ لیتا تھا۔یہ سب کرتے ہوئے مجھے ایک ماہ گزر چکا تھا،اب میرے پاس اتنی رقم اکھٹی ہو گئی تھی کہ میں آرام سے ایک بکرا لے سکتا تھا۔وہ دن میرے لئے بہت خوشی کے دن تھے۔ارحم کی ہر خواہش کو پورا کرنا میری اولین ترجیح تھی۔میں نے ارحم سے وعدہ کیا تھا کہ اس اتوار ہم مویشی منڈی جائیں گے اور اس کی پسند کا بکرا خرید لائیں گے۔وہ بہت شدت سے ایک ایک دن گزار رہا تھا۔ہر صبح جب وہ نماز کے لئے اٹھتا تو سب سے پہلا سوال وہ یہی کرتا کہ آج کون سا دن ہے؟اس کی معصومیت پر مجھے اور بھی پیار آتا تھا۔اﷲ تعالیٰ نے والدین کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سارا دن کام کر کے تھک ہار کر میں گھر آتا تو اس کی مسکراہٹ دیکھ کر میری ساری تھکن اتر جایا کرتی تھی۔

یہ جمعہ کا دن تھا،عید میں چند روز باقی تھے۔میں آفس پہنچا تو مجھے شفیق صاحب نے بلا لیا۔کچھ آفس کے معاملات تھے جو ہمیں مل کر حل کرنے تھے۔وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا،اچانک شفیق سر بولتے بولتے چپ ہو گئے۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو درد کی شدت سے ان کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔میں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو فوراًان کو ہسپتال لے گیا۔وہاں جا کر پتہ چلا کہ ان کو دل کا دورہ پڑا تھا،اگر ذرا سی بھی دیر ہو جاتی تو ان کی جان کو خطرہ تھا۔میرے پاس جتنے پیسے تھے میں نے ڈاکٹر کی فیس اور دواؤں پر لگا دیے۔جب ان کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو میں نے ان کے گھر کال کرکے بتا دیا۔ان کی فیملی کے آتے ہی میں ہسپتال سے چلا آیا۔پورا راستہ میں یہی سوچتا آیا کہ اب ارحم کو کیا جواب دو ں گا۔سر شفیق سے میرا رشتہ انسانیت کا تھا۔میں نے انہیں ہمیشہ اپنے لئے مہربان پایا تھا،میرے ہر مشکل وقت میں انہوں نے میرا ساتھ دیا تھا تو بھلا میں کیوں نہ ان کا ساتھ دیتا۔ایک طرف دل کو سکون ملا تھا کہ آج میں نے کسی کی مدد کی اور ان کی جان بچا سکا،دوسری طرف اپنے لاڈلے بیٹے کی آس بھی میں نہیں توڑ سکتا تھا۔انہی سوچوں میں گم میں گھر پہنچ چکا تھا۔

ارحم کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اس کے ساتھ میں باتیں کرنے لگا۔میں نے ارحم سے پوچھا کہ آپ کو پتا ہے قربانی کتنی طرح کی ہوتی ہے؟اس نے سوچا پھر جواب نہ ملا تو کندھے اچکا کر بولا،پتا نہیں بابا جان۔میں نے ارحم کو اپنے ساتھ لٹا لیا،اور بولا:بیٹا ،قربانی دو طرح کی ہوتی ہے،ایک جیسے یہ ہم عیدالاضحی کے دن جانور ذبح کرتے ہیں۔دوسرے وہ قربانی بیٹا،جو ہم اپنی ضرورت کو بھول کر کسی دوسرے کی ضرورت اور خوشی کے لئے اپنی کوئی پیاری چیز یا اپنی خوشی کو بھول کر اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔یعنی اس کی مدد کرتے ہیں،چاہے ہمیں اس وقت اس چیز کی بہت ضرورت ہو۔اس طرح ہم نے اپنی خوشی اور ضرورت کی قربانی دی تو یہ ایک عظیم قربانی ہوگی۔اگر ہم ایسا کریں گے تو اﷲ تعالیٰ ہم سے بہت خوش ہوں گے۔تو بیٹا بتاؤ،ہمیں ایسا کرنا چاہے ناں کہ ہم دوسروں کے لیے اپنی ضرورت کی قربانی دیں۔کیا آپ ایسا کریں گے؟،میں نے ارحم سے پوچھا ،جو بہت توجہ سے میری بات سن رہا تھا۔اس نے فوراً سر ہلا کر کہا: جی باباجان،میں بھی ایسا کروں گا۔شاباش میرا بیٹا۔میں نے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔میرا بیٹا بہت سمجھدار تھا۔ہفتے کا دن گزر گیا،اتوار آیا اور گزر گیا،ارحم نے مجھ سے مویشی منڈی جانے کی ضد نا کی شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ میں اسے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا۔

میں اب بھی زیادہ محنت کر رہا تھا کہ شاید کوئی سبب بن جائے اور میں ارحم کی خوہش کو پورا کر سکوں۔دو دن رہ گئے تھے عید میں،اب تو جانوروں کی قیمتیں اور بھی بڑھ گئیں تھیں۔میں شام کو تھکا ہارا گھر گیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے ارحم کو ایک بہت ہی پیارے بکرے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا۔باباجان،یہ دیکھیں،یہ آپ نے میرے لئے سرپرائز رکھا تھا نا ں اور آج مجھے مل گیا،وہ مجھ سے لپٹ کر بولا۔

یہ سب کیا؟کون لایا؟،میں نے سوال کیا۔تبھی سر شفیق کمرے سے باہر آئے،وہ آفس نہیں آرہے تھے کہ ڈاکٹر نے انہیں آرام کا کہا تھا،پر آج وہ میرے گھر میں موجود تھے۔مجھے پتا تھا تم ایسے ہی حیران ہو گے برخودار۔یہ سب تمہاری نیکی کا صلہ ہے۔بس مجھے کچھ دیر ہوئی آنے میں لیکن اتنی نہیں۔یہ بکرا میں لایاہوں،مجھے سب پتا ہے کہ تم دن رات اتنی محنت کیوں کر رہے تھے۔یہ لو یہ تمہارا انعام، انہوں نے ایک لفافہ میری جانب بڑھایا۔اس کی ضرورت نہیں تھی سر۔ان کی شفقت و محبت پا کر آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ ضرورت نہیں بس میری خوشی ہے۔میں نے خاموشی سے وہ لفافہ پکڑ لیا۔سر شفیق نے مجھے گلے لگا لیا۔میں سوچ رہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے ،کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔ارحم کی خواہش بھی پوری ہوگئی تھی اور میری قربانی بھی قبول ہو گئی تھی۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.