اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کوشان وشوکت عطا فرمائی اور اسے
اپنی عظمت اور جلال کے ساتھ خاص فرمایا اور اس میں داخل ہونے والوں کے
لئےاسے امن والا گھر بنادیا۔یہ وہی مبارک گھر ہے جس سے اللہ کے پیارے حبیب
ﷺ نے ہجرت فرمائی مگرآپ ﷺ نے نہ تو اسے چھوڑا،نہ اس سے تعلق توڑا اور نہ ہی
آپ ﷺ کا دل اس سے ہٹ کردوسرے قبلہ کی طرف متوجہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ
نے آپ ﷺ پر یہ آیات مبارکہ نازل فرمائیں ۔
ترجمہ:ہم دیکھ رہے ہیں باربارتمہارا آسمان کی طرف منہ کرناتو ضرور ہم تمہیں
پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے۔(پ۲،البقرۃ:۱۴۴)
اور اللہ تعالیٰ بیت اللہ شریف کی عظمت و شان یوں بیان فرماتا ہے:
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا
وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (96)فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ
ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ
مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ
عَنِ الْعَالَمِينَ (97)
ترجمہ:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ
میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما۔ اس میں کھلی نشانیا ں
ہیں،ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو ا س میں آئے امان میں ہو اوراللہ
کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو
تواللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔(پ4،ال عمران: 96۔97)
آیات بینات میں بیان کردہ اہم الفاظ کی تفسیر:
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: ''اس آیت مبارکہ
میں''بيت''سے مراد کعبۃ اللہ شریف ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کی
سیدھ میں زمین میں رکھا۔جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت سیدنا آدم علی نبیناوعلیہ
الصلوۃ و السلام کو جنت سے (زمین پر) اتارا گیا اور آپ علیہ السلام نے حج
بیت اللہ فرمایاپھرفرشتوں سے ملاقات ہوئی توانہوں نے عرض کی: ''اے آدم علیہ
السلام!آپ کا حج قبول ہوگیا۔اورہم نے آپ سے دوہزار سال پہلے بیت اللہ شریف
کا حج کیا تھا۔ آپ علیہ السلام نے ان سے دریافت فرمایا: ''تم حج میں کیا
پڑھتے تھے ؟'' انہوں نے عرض کی : ہم’’سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الا
اللہ واللہ اکبر‘‘
پڑھا کرتے تھے۔پھر حضرت آدم علیہ السلام بھی طواف میں یہی پڑھتے اور اللہ
تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے: ''اے اللہ ! میری اولاد میں اس گھر کو تعمیر
کرنے والا بنا۔تواللہ تعالی نے وحی فرمائی کہ''میں اپنا گھر تیری اولاد میں
سے اپنے خلیل (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام)سے بنواؤں گا۔میں اس کے ہاتھوں
اس کی تعمیر کا فیصلہ کر چکا ہوں۔''
جب حضرت نوحعلیہ السلام کے دورمیں طوفان آیا تو اللہ تعالی نے بیت اللہ
شریف کو چوتھے آسمان پر اٹھا لیا، وہ سبز زمرد کا تھا اور اس میں جنت کے
چراغوں میں سے ایک چراغ تھا ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام حجر اسود کو
اٹھاکرجبل ابوقبیس میں چھوڑآئے تاکہ غرق ہونے سے محفوظ ہو جائے۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک بیت اللہ کی جگہ خالی رہی۔جب آپ علیہ
السلام کے ہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا
ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بیت اللہ شریف کی بنیادرکھنے کا
حکم دیا ۔آپ علیہ السلام نے عرض کی : ''یا اللہ! مجھے اس کی نشانی بیان
فرما دے۔''تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کی مقدار ایک بادل بھیجا جو آپ
علیہ السلام کے ساتھ ساتھ چلتا رہا یہا ں تک کہ آپ علیہ السلام مکہ
مکرمہپہنچے تو بیت اللہ شریف کے مقام پر وہ بادل رک گیا۔آپ کوپکاراگیا:''اے
ابراہیم (علیہ السلام)! اس بادل کے سائے پر بنیاد رکھو،نہ کم کرنا نہ زیادہ۔''
حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتاتے جاتے اور وہ
عمارت بناتے جاتے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیمعلیہ السلام
کوپتھر اٹھا اٹھا کر پکڑاتے۔''
اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان میں''اٰیت بینت''سے مرادواضح آیا ت ہيں جواجر
و ثواب کے اضافے پر دلالت کرتی ہیں۔اور''ومن دخلہ کان امنا''سے مراد یہ ہے
کہ وہ جہنم سے امن میں ہو گیا،بعض نے کہا کہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہو
گیا، بعض نے کہا کہ شرک سے محفوظ ہوگیا ۔ اور ''استطاعت'' سے مرادیہ ہے کہ
زاد راہ اور سفر پر قادر ہو اور بدن صحیح ہونیز راستہ بھی پر امن ہو ۔
اور''ومن کفر '' کا مطلب یہ ہے کہ جو حج کرنے کو نیکی اور نہ کرنے کو گناہ
نہ سمجھے۔
حج کا ثواب:
اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:''جس نے حج
کیا اور فحش کلامی نہ کی اور فسق نہ کیا تو وہ گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے
اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پید اہواتھا۔''( صحیح البخاری)
حرمین شریفین میں مرنے کی فضیلت:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبئپاک صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:''جو حرمین شریفین( یعنی مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ) میں سے کسی حرم میں مرے اسے قیامت کے دن امن والوں
میں سے اٹھایا جائے گا۔''(شعب الایمان)
ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر:
حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:'' مکۂ مکرمہ میں ایک
نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ، ایک روزہ ایک لاکھ روزوں کے برابر ہے
اورایک درہم صدقہ کرناایک لاکھ درہم صدقہ کرنے کی طرح ہے۔ اسی طرح ہر نیکی
ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔''(احیاء علوم الدین)
بیت اللہ کا طواف:
حدیث پاک میں ہے کہ ''بیت اللہ شریف کا طواف کثرت سے کروکیونکہ تم بروز
قیامت اپنے نامۂ اعمال میں اسے سب سے افضل اور سب سے قابل رشک عمل پاؤ
گے۔''اورایک روایت میں ہے کہ''جو بارش میں طواف کے سات چکر لگائے اس کے
گذشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔''(احیاء علوم الدین)
گناہوں سے پاک:
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبئ مکرم
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''جس نے پچاس بار بیت اللہ
شریف کا طواف کیاتو وہ گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے
پید اہواتھا۔''(جامع التر مذی )
جنت میں داخلہ:
منقول ہے کہ ''اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ سے وعدہ فرمایا کہ ہر سال چھ لاکھ
افراد اس کا حج کریں گے، اگر کم ہوئے تو اللہ تعالی فرشتوں سے ان کی کمی
پوری فرمادے گا ۔اور بروز قیامت کعبہ شریف پہلی رات کی دلہن کی طرح اٹھایا
جائے گا تو جن لوگوں نے اس کا حج کیاوہ اس کے پردوں کے ساتھ لٹکے ہوں گے
اوراس کے گرد چکر لگارہے ہوں گے یہاں تک کہ یہ جنت میں داخل ہوگا تووہ بھی
اس کے ساتھ داخل ہو جائیں گے ۔''(احیاء علوم الدین)
حجر اسودنفع بھی دیتا ہے اور نقصان بھی:
حدیث پاک میں ہے کہ'' حجراسود ایک جنتی پتھر ہے۔ اسے قیامت کے دن اٹھایا
جائے گا۔اس کی دو آنکھیں اور زبان ہوگی جس سے وہ کلام کریگا اورہر اس شخص
کی گواہی دے گا جس نے اسے حق وصداقت کے ساتھ بوسہ دیا ہوگا۔ سرورِ کائنات
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس کواکثربوسہ دیا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار اسے بوسہ دیتے ہوئے
ارشادفرمایا: ''میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نقصان دیتاہے نہ نفع،اگر
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ
دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے عرض کی:''اے امیرالمؤمنین!یہ نفع بھی دیتا ہے اور نقصان بھی۔'' تو
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا:''اے ابو الحسن! یہاں
آنسو بہائے جاتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔''
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''اے امیرالمؤمنین !یہ نفع
ونقصان اللہ تعالیٰ کے اذن سے دیتا ہے۔'' تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی
عنہ نے پوچھا:''وہ کیسے؟''توحضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض
کی : ''وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی اولادسے عہد
لیا تو اس عہد نامہ کی ایک تحریر لکھ کراس پتھر کو کھلا دی۔اب یہ مومنوں کے
لئے وفائے عہدکی گواہی دے گا اور کافروں کے خلاف انکار کی۔
حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت لوگ جو کلمات پڑھتے ہیں،ان کا یہی معنی ہے(اور
وہ یہ ہیں: ''اللھم ایمانا بک وتصدیقا بکتابک ووفآء بعھدک واتباعا لسنۃ
نبیک محمدصلی اللہ علیہ وسلمیعنی اے اللہ ! میں تجھ پر ایمان لاتے ہوئے
،تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے، تیرے عہد کو پورا کرتے ہوئے اور تیرے نبی
حضرت سیدنا محمدصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے (اسے
بوسہ دیتا ہوں)۔(احیاء علوم الدین)
طواف اور نماز کرنے والوں کی بخشش:
حدیث پاک میں ہے کہ ''اللہ تعالیٰ ہر رات اہل زمین کی طرف نظر رحمت
فرماتاہے اور سب سے پہلے اہل حرم کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اوراہل حرم میں
بھی سب سے پہلے مسجد حرام والوں پر نظر رحمت فرماتاہے۔پھر جس کو طواف کرتے
ہوئے پاتاہے اسے بخش دیتا ہے اور جسے نماز میں مشغول پاتا ہے اس کی مغفرت
فرما دیتا ہے اور جسے کعبہ کی طرف رخ کئے ہوئے پاتا ہے اسے بھی معاف
فرمادیتا ہے ۔''(احیاء علوم الدین )
رحمتوں کا نزول:
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضور سید
المبلغین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: ''اس بیت
اللہ شریف پر ہر دن ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔ ساٹھ طواف کرنے
والوں کے لئے ،چالیس نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس اسے دیکھنے والوں کے
لئے ۔''(احیاء علوم الدین)
حج کرنے والے خوش نصیب :
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ شریف کی عمارت بناکر فارغ ہوئے
اور طواف کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی
کہ''لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔'' آپ علیہ السلام نے عرض کی:'' میری آواز
کیسے پہنچے گی؟''تو اللہتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''اے ابراہیم (علیہ
السلام)!تیرا کام ہے ندا کرنا پہنچانا ہمارے ذمہ ہے ۔'' تو حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے جبل ابوقبیس پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارا:
''اے اللہ تعالیٰ کے بندو! تمہارے ربنے گھر بنا یا اور تمہیں اس کا حج کرنے
کاحکم دیاہے۔'' تو اللہ تعالیٰ نے سب زمین والوں کو آپ علیہ السلام کی آواز
سنائی توجنوں، انسانوں ،پتھر اور مٹی کے ڈھیلوں،پہاڑوں اور ر یتلے میدانوں
اور ہر خشک و تر نے جواب دیا۔ مشرق و مغرب والوں کو آواز پہنچائی تو ماؤں
کے پیٹوں سے اورمردوں کی پشتو ں سے سب نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا:
لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملکلا شریک
لک
تو آج وہی شخص حج کریگا جس نے اس دن جواب دیا تھا ۔ جس نے ایک مرتبہ لبیک
کہا تو وہ ایک مرتبہ حج کریگا، جس نے دو مرتبہ کہاوہ دو مرتبہ اور جس نے
تین مرتبہ لبیک کہا وہ تین مرتبہ حج کریگا اور جس نے اس سے بھی زیادہ
بارلبیک کہا وہ اتنی ہی بار حج کریگا ۔''
(شعب الایمان)
خانہ کعبہ شفاعت فرمائے گا:
حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں، تورات شریف میں ہے
کہ''اللہ تعالیٰ بروز قیامت اپنے سات لاکھ مقرب فرشتوں کو بھیجے گا، جن میں
سے ہر ایک کے ہاتھ میں سونے کی ایک زنجیرہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
''جاؤ! اور بیت اللہ شریف کو ان زنجیروں میں باندھ کر محشرکی طرف لے آؤ۔''
فرشتے جائیں گے، ان زنجیروں سے باندھ کر کھینچیں گے اور ایک فرشتہ پکارے
گا: ''اے کعبۃ اللہ!چل ۔'' توکعبہ مبارکہ کہے گا:''میں نہیں چلوں گا جب تک
میرا سوال پورانہ ہو جائے۔''
فضائے آسمانی سے ایک فرشتہ پکارے گا : ''تو سوال کر۔'' تو کعبہ عرض کریگا
:''اے اللہ!تو میرے پڑوس میں دفن مؤمنین کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔''
تو کعبہ شریف کو ایک آواز سنائی دے گی: ''میں نے تیری درخواست قبول فرما
لی۔''
حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ''پھر مکہ کے مردوں کو
اٹھایا جائے گا جن کے چہرے سفید ہوں گے۔ وہ سب احرام کی حالت میں کعبہ کے
گرد جمع ہو کر تلبیہ( یعنی لبیک )کہہ رہے ہوں گے۔ پھر فرشتے کہیں گے: ''اے
کعبہ!اب چل۔'' تو وہ کہے گا:''میں نہیں چلوں گا یہاں تک کہ میری درخواست
قبول ہوجائے۔'' توفضائے آسمانی سے ایک فرشتہ پکارے گا: ''تو مانگ،تجھے دیا
جائے گا۔''تو کعبہ شریف کہے گا :''اے اللہ! تیرے گنہگار بندے جو اکٹھے ہو
کر دور دور سے غبار آلود ہو کر میرے پاس آئے۔ انہوں نے اپنے اہل وعیال اور
احباب کو چھوڑا۔ انہوں نے فرمانبرداری اور زیارت کے شوق میں نکل کر تیرے
حکم کے مطابق مناسک حج ادا کئے۔ تو میں تجھ سے سوال کرتاہوں کہ ان کے حق
میں میری شفاعت قبو ل فرما، ان کو قیامت کی گھبراہٹ سے امن میں رکھ اور
انہیں میرے گرد جمع فرمادے۔''
توایک فرشتہ ندادے گا: ''ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے تیرے طواف کے
بعد گناہوں کا ارتکاب کیا ہو گا اور ان پر اصرار کرکے اپنے اوپر جہنم واجب
کرلی ہوگی۔ ''تو کعبہ عرض کریگا:''اے اللہ!میں تجھ سے ان گنہگاروں کے حق
میں شفاعت قبول ہونے کا سوال کرتاہوں جن پر جہنم واجب ہو چکی ہے۔'' تو اللہ
تعالیٰ فرمائے گا: ''میں نے ان کے حق میں تیری شفاعت قبول فرمائی ۔''تو وہی
فرشتہ ندا کریگا:''جس نے کعبہ کی زیارت کی تھی وہ لوگوں سے الگ ہو جائے۔''
اللہ تعالیٰ ان سب کو کعبہ کے گرد جمع کردے گا۔ ان کے چہرے سفید ہوں گے
اوروہ جہنم سے بے خوف ہو کر طواف کرتے ہوئے تلبیہ کہیں گے۔پھر فرشتہ پکارے
گا:اے کعبۃ اللہ!چل توکعبہ شریف تلبیہ کہے گا:
لبیک اللھم لبیک، والخیر کلہ، بیدیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد
والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
پھر فرشتے اس کو کھینچ کر محشرتک لے جائیں گے ۔(احیاء علوم الدین)
اے اللہ ! ہمیں بھی حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرما۔ آمین
|