عیدقربان بھی قریب ہے اور فضول رسومات، غیرضروری اخراجات
اوربے جامطالبات کے خاتمے کے لیے چلائی گئی شادی آسان کروتحریک کی آگاہی
مہم میں عوام الناس کوشادی بیاہ کے بارے میں انبیاء کرام علیہم السلام،
اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین اوراولیاء کاملین کی شادیوں کے احوال
کے ساتھ شادی بیاہ سے جڑے مسائل اوران کے حل کے لیے دیگرذرائع کے ساتھ
اخبارات میں مضامین لکھنابھی شامل ہے۔شادی آسان کروتحریک کی آگاہی مہم کے
طورپرمضمون لکھے ہوئے کئی ماہ ہوچکے ہیں۔ اس لیے آج کی اس تحریرکے لیے ایک
ایسے موضوع کاانتخاب کیاگیا ہے جوعیدقربان کے عین مطابق بھی ہے اورشادی
آسان کروتحریک کے موضوعات کے مطابق بھی۔
قربانی کاذکرکیاجائے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کاذکرنہ کیاجائے یہ ممکن
ہی نہیں ہے۔ مسلمان ہرسال دس ذوالحجہ کوجوقربانی کرتے ہیں ۔ اس قربانی کی
ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی تھی۔شادی
آسان کروتحریک کی آگاہی مہم کے طورپر اس سے پہلے ہم نے جوتحریرلکھی اس میں
ہم نے پیارے نبی ،سرکاردوجہاں، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست
مبارک سے ہونے والی شادیوں کاتذکرہ کیاتھا۔اس تحریرمیں حضرت ابراہیم علیہ
السلام کی شادیوں کاتذکرہ کیاجارہا ہے۔کتاب قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ
مسلسل چالیس دن تک آتش کدہ نمرودمیں رہنے کے بعدجب حضرت ابراہیم علیہ
السلام اس آتش کدہ سے باہرآئے توملک شام کی طرف چل دیئے۔وہاں جاکرایک
شہرجوخزائن الوجہ کہلاتاہے آپ علیہ السلام نے وہاں قیام کیا۔اس شہرمیں
پہنچنے کے بعدکیادیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمی نفیس لباس پہن کرایک عظیم الشان
میدا ن کی طرف چلے جارہے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دیکھ کرلوگوں
سے دریافت کیاتم کہاں جارہے ہو۔انہوں نے کہایہاں ایک بادشاہ کی شہزادی ہے
اوروہ صاحب جمال ہے اورخیال یہ کیاجاتاہے کہ اس جیساآج سارے عالم میں کوئی
نہیں ہے۔ہرملک کے بادشاہ اورشہزادے اس کی خواستگاری کرتے ہیں وہ شہزادی کسی
کوقبول نہیں کرتی۔کہتی ہے کہ میں اپنی پسندکی شادی کروں گی۔آج تقریباًسات
دن ہورہے ہیں لوگ برابروہاں جاتے ہیں ۔ اس کاطریق عمل یہ ہے کہ جب سب جمع
ہوجاتے ہیں وہ شہزادی خودنکل کردیکھتی ہے لیکن پسندکوئی نہیں کرتی۔یہ بات
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سنی توانہی لوگوں کے ساتھ ہولیے اوراسی
میدان کے ایک گوشہ میں جابیٹھے ۔جب دوپہرہوگئی اورتما م لوگ حاضرہوگئے تووہ
شہزادی اپنے ساتھ سترخواصیں لے کراورتاج زریں سرپررکھ کراورنقاب چہرے پرڈال
کراورایک تہرنج زریں جواہرات سے جڑاہواہاتھ میں لے کرمیدان میں جاکرایک سرے
سے سب کودیکھنے لگی۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچی دیکھاکہ ایک
نوران کی پیشانی پرچمکتا ہے اوروہ نورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کاتھا۔وہ شہزادی اس نورکودیکھ کران کے حسن وجمال پرعاشق ہوگئی اورتہرنج
زریں کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی گودمیں ڈال دیااورخودتکت پرجابیٹھی۔اس
کے بعدبادشاہ وقت لے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبادشاہ کے پاس لے
گئے۔درحقیقت وہ نورجس پرشہزادی عاشق ہوئی وہ نورمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم تھا۔جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشانی پر ظاہر ہواتھا۔بادشاہ نے
اسے دیکھ کراپنی بیٹی کی طرف نگاہ کی اورکہا ۔اے بیٹی نیک شوہرتونے
پایامگرمردغریب ہے کچھ فائدہ نہیں۔سب امراء نے مل کرحضرت ابراہیم علیہ
السلام سے اس کی شادی کردی اورتمام رسومات بادشاہ نے اداکیں اورسارے شہرمیں
خوشی وخرمی ہوئی ۔اوریہ بھی بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ مانندسائرہ
خاتون اورحواعلیہم السلام کے نہ کوئی حسن وجمال میں ہواہے نہ ہوگا۔شادی کے
چندماہ بعدحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک مصرکی طرف جانے کاقصدکیا۔سائرہ
خاتون نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی اور بغیر تمہارے میری زندگی محال
ہے۔لہذا مجھ کوبھی اپنے ہمراہ لے چلو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا
تمہاراباپ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ سائرہ خاتون بولیں میرے باپ کی قدرتمہارے
وجودکے سامنے میرے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے۔اگرچھوڑے گا توفبہاوگرنہ بے حکم
اس کے تمہارے ساتھ چلوں گی۔کیونکہ تمہارے بغیرمیری زندگی محال اوروبال
ہے۔پھرسائرہ خاتون نے اپنے باپ سے رخصت مانگی ،اس نے ان کواجازت دے دی۔تب
حضرت ابراہیم علیہ السلام سائرہ خاتون کولے کرشہرسے نکلے اوراللہ تعالیٰ
کاحکم بھی یہی تھا۔راستے میں کچھ لوگوں نے کہا اے حضرت ابراہیم علیہ السلام
مصرکابادشاہ بہت ظالم ہے اوروہ عورتوں کی خواہش بہت رکھتا ہے اوربالخصوص
عروس نوکابہت زیادہ شائق ہے اوربہت جلداس کی طرف مائل ہوجاتاہے۔اس کے راستے
پردس دس آدمی متعین رہتے ہیں جوکوئی مال واسباب مصرلے جاتاہے تواس کوپکڑاس
سے اس مال کامحصول لیتاہے اوراگرکوئی سوداگرعورت کوساتھ لے جاتاہے توہ اس
عورت کواس سے چھین لیتا ہے۔یہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری شادی
کی ابتداء ہورہی ہے۔یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام اندیشہ کرنے
لگے۔کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ناموس میں بزرگ تھے اورسائرہ خاتون کے
برابرحسینہ سارے جہان میں کوئی عورت نہ تھی۔اس راہ کے سواجانے کے واسطے
کوئی دوسری راہ بھی نہ تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک صندوق
بناکرسائرہ خاتون کواس میں چھپاکرقفل لگادیااورصندوق کواونٹ پرکسوادیا۔جب
شہرمیں جاپہنچے تومحصول والے آکرصندق کھولنے لگے تاکہ اس کی جنس دیکھ کراس
کے موافق اس کامحصول لیویں ۔ اس پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا
صندوق مت کھولو اس محصول جوہوگاوہ میں دوں گا۔اگرتم یہ چاہوصندوق کے وزن کے
برابرسوناچاندی بھی لوتوبھی تم کودے دی جائے گی۔یہ سن کراوربھی زیادی
اشتیاق ہواکہ نہ معلوم اس میں کیاچیزہے ضرورکھولناچاہیے چنانچہ انہوں نے
بالاصراراس صندوق کوکھولا تودیکھتے کیاہیں کہ ایک عورت صاحب جمال وحسن سے
مملوآفتاب کے ماننداس میں بیٹھی ہے۔جس کاثانی اگرتلاش بھی کیاجائے
توملناناممکن ہے۔جب محصول والے حضرت ابراہیم علیہ السلام اورسائرہ خاتون
کوبادشاہ کے نزدیک لے گئے بادشاہ ملعون نے پوچھا یہ عورت تمہاری ہے۔حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ کوجواب دیاجواسلامی جواب تھا۔آپ علیہ السلام
نے فرمایا یہ میری بہن ہے۔بیوی کوبہن کہنا(سابقہ شریعت میں ) درست ہے۔یہ
جواب سن کراس ملعون نے کہا تم اپنی بہن کومجھے دے دو۔تب حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے فرمایا وہ اپنی ذات کی مالک ہے۔سائرہ خاتون نے کہا پناہ مانگتی
ہوں میں اللہ تعالیٰ سے وہ ملعون یہ سن کرہنسااورحکم کیاکہ ان کوحمام میں
لے جاؤ اور نہلا دھلا کراورلباس فاخرہ پہناکرخوشبوسے معطرکرکے میرے پاس
لاؤ۔بحکم اس ملعون کے ایساہی کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ
السلام کوبھیجاکہ پردہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں سے اٹھادیں تاکہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ تمام گفتگوجوملعون حضرت سائرہ خاتون کے ساتھ
کرے سن سکیں اوران کے تمام حالات آنکھوں سے دیکھیں ۔جب جمال مبارک حضرت
سائرہ خاتون کااس ملعون نے دیکھاتوفوراًاس نے دست درازی کاقصدکیااسی وقت اس
کاہاتھ شل اورخشک ہوگیاپھراس نے چاہاکہ بے ادبی کرے تب اللہ تعالیٰ کے حکم
سے اپنے زانوتک زمین میں دھنس گیا۔ جب اس کاکوئی بس نہ چل سکاتوکہنے لگایہ
عورت توجادوگرہے ۔حضرت سائرہ خاتون نے اس ملعون سے کہا اے بدبخت میں
جادوگرنہیں ہوں لیکن خاوندمیراخداوندقدوس کادوست ہے جوسب کی نگہبانی کرنے
والاہے اورمیراخداواندکریم کی درگاہ میں دعاکرتاہے کہ تاکہ تومجھے بے عزت
نہ کرسکے ۔ یہ سن کراس نے توبہ کی فی الفورہاتھ اس کادرست ہوگیازمین نے بھی
اس کوچھوڑدیا۔پھرجب دوسری مرتبہ سائرہ خاتون کی طرف نگاہ بدسے دیکھا تواسی
وقت اندھاہوگیاتب اس ملعون نے کہا اے بی بی معصوم میرے حال پردعاکرواورمیں
اس کام سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرتاہوں۔ جب سائرہ خاتون نے دعاکی تواللہ
تعالیٰ کے حکم سے اس کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔پھرجب حالات ٹھیک ہوگئے توغلبہ
شیطانی سے عہدشکنی کرنی چاہی کہ حضرت سائرہ خاتون پردست درازہوں تواس وقت
تمام بدن اس کاخشک اورشل ہوگیااورپھرآنکھیں جاتی رہیں۔پھرکہنے لگا اے بی بی
پاک دامن میرے واسطے اپنے خداسے دعاکیجئے۔ حضرت سائرہ خاتون بولیں اے بدبخت
یہ دعامیری نہیں ہے۔بلکہ میرے شوہرجومیرے ساتھ ہیں ان کی دعاہے
جوخداوندکریم سے دوست ہیں۔اگروہ چاہیں تجھے معاف کریں یانہ کریں ۔ تب اس نے
کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کویہاں لاؤ۔اس کے بلانے پرجب حضرت ابراہیم
علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے تواس ملعون نے کہا اے ابراہیم علیہ السلام
مجھے معاف کیجئے میں نے آپ پربڑاظلم کیاہے اورمیں ا ب توبۃا لنصوح کرتاہوں
۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ سے کہا یہ میرے حکم سے نہیں ہے ۔یہ
سب خداوندقدوس کے حکم سے ہوتاہے جوتمام جہان کارب ومالک ہے۔دیکھوخداکی مرضی
کیاہے اسی کے مطابق کرناہوگا۔اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نے
آکرفرمایا کہ اے ابراہیم خدائے تعالیٰ نے تمہیں سلام کہااورفرمایاہے کہ جب
تک یہ تمام ملک اورخزانہی اپناتم کونہ دے تم ہرگزاس سے راضی نہ
ہونا۔پھرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ سے یہ بات کہی کہ میرارب
ایسافرماتاہے ۔بادشاہ نے یہ باتیں سنتے ہی تمام سلطنت اوراپناخزانہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کودے دیا۔یہ کیفیت ہونے پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے
اس بادشاہ کے حال پردعاکی اس نے دعاکی برکت سے صحت وتندرستی پائی ۔مروی ہے
کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مملکت کے دوحصے کرکے جوجانب کنعان تھا
وہ آپ علیہ السلام نے خودرکھ لیااورباقی جوبچااسی کوواپس کردیا۔بادشاہ نے
ایک صاحب زادی دوشیزہ نیک روخوبصورت صاحب جمال لاکرحضرت سائرہ خاتون سے کہا
اے نیک بخت بی بی میں نے تمہاری بے حرمتی کی کوشش کی اورمیں نے تم کودیکھ
کراندیشہ بدکیا۔تمہارے عفومعاف کے شکرانہ میں یہ بی بی ہاجرہ تمہیں
کودیتاہوں اورجوگناہ وتقصیریں مجھ سے ہوئیں معاف کیجئے۔حضرت ابراہیم علیہ
السلام حضرت سائرہ خاتون اوربی بی ہاجرہ کولے کرکنعان کوچلے۔راستہ میں حضرت
سائرہ خاتون اپناحال جوبادشاہ کے ہاں گزراتھا وہ بیان کرنے لگیں ۔حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے سائرہ خاتون تم خاطرجمع رکھو۔اب کچھ اندیشہ
مت کرو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے میری آنکھوں کے سامنے پردہ غیب
اٹھادیاجوجوباتیں تجھ پرگزرتی تھیں مجھ پرسب ظاہرہوجاتی تھیں اورجوتم کرتی
اورکہتی تھیں سووہ میں دیکھتااوربرابرسنتاتھا۔بعداس کے حضرت سائرہ خاتون نے
بی بی ہاجرہ کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں دے دیا۔کتاب ازواج
الانبیاء میں ہے کہ مصرسے نکلے ہوئے دس سال کاعرصہ گزرچکاتھا لیکن حضرت
سارہ اولادکی نعمت سے اب تک محروم رہیں حالانہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم
علیہ السلام سے اولاددینے کاوعدہ فرمایاتھا ۔حضرت سائرہ خاتون نے حضرت
ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ مجھے تواولادکی طرف سے ناامیدی ہوچکی ہے ۔آپ
ہاجرہ سے عقدکرلیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاددینے کاوعدہ فرمایاہے
توشایداسی سے کوئی اولادہو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سائرہ خاتون
کی خواہش کے موافق حضرت بی بی ہاجرہ سے عقدکرلیا۔خداکی شان کہ ایک سال
بعدہی ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیداہوئے۔اسی کتاب ازواج
الانبیاء میں ہے کہ حضرت سائرہ خاتون کی وفات کی تھوڑی مدت کے بعدحضرت
ابراہیم علیہ السلام ایک اورعورت کواپنے نکاح میں لائے جس کانام
قطورایاقنطوراتھا۔جس کے بطن سے چھ لڑکے پیداہوئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے ایک اورعورت سے بھی نکاح کیاجس کانام حجوراتھا۔کتاب میں اس بیوی کانام
حجون یاحجین بھی لکھاگیا ہے۔اس کے بطن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سات
بیٹے پیداہوئے۔
اس تحریرکامقصدیہ ہے کہ نکاح کرناکتناضروری ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے حضرت سائرہ خاتون، حضرت بی بی ہاجرہ ،حضرت قطورایاقنطورااورحجوراسے نکاح
کیا۔شادی کرناتوانبیاء کی سنت بھی ہے۔اس مقدس عمل کوہم نے اپنی ساکھ بچانے،
ناک اونچی کرنے اورمعاشرے میں اپناوقاربنانے کے چکرمیں زیادہ سے زیادہ
اخراجات اورفضول رسومات سے مشکل بنادیا ہے۔اخراجات کم سے کم کریں اوررسومات
ختم کرکے سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق شادیاں کریں توشادیاں
آسان بھی ہوجائیں گی، گھرمیں برکت بھی رہے گی اورگھراجڑنے سے بھی محفوظ
رہیں گے۔ |