اﷲ کے نام کی عظمت وفضیلت

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رحمت ِ عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: بیشک اﷲ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، (یعنی) سو میں ایک کم، جس نے ان کو(یاد کیا، یا ان کو پڑھا، یا ان کے معانی جانے اور ان پر عمل کیا اور محفوظ کر لیا )وہ جنت میں داخل ہوگا۔(متفق علیہ)

بلاشبہ اﷲ جل جلالہ و عم نوالہ و اعظم شانہ کی عبادت و معرفت کا جذبہ اور حوصلہ انسانی فطرت اور طبیعت کا خاصہ اور ایک حصہ ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کے انسان نے اپنے خالق وحقیقی مالک کے وجود کو دیکھا تونہیں، لیکن اس کے باوجود جب کبھی اس کی زندگی میں کوئی خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے توعموماً جبینِ انسانی میں سجدۂ شکر مچلنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس ان دیکھی غیبی ہستی کا شکر ادا کرے ، ایسے ہی جب کوئی ناگوار حادثہ پیش آتا ہے تو انسانی ہاتھ اسی نادیدہ ذات کی طرف بے اختیار بڑھتے اور پھیلتے ہیں اور آنکھیں اپنے عجز کے اظہار میں اشکبار ہو جاتی ہیں،اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کا کوئی زمانہ اور کائنات کا کوئی خطہ خدا پرستی کے اس فطری جذبہ سے خالی نہیں رہا ہے ،ہمیشہ سے دنیا والے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔

اﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو ،اﷲ جل شانہ کی ذاتِ منبع الکمالات کو ملحدین و منکرین کے علاوہ (جن کی تعداد ہر زمانہ میں کالعدم رہی ہے )ہر قوم و مذہب کے لوگوں نے آج تک مختلف ناموں سے مانا اور پکارا ہے اور مانتے اورپکارتے رہیں گے ،کوئی خدا کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی گوڈ) (God کہہ کر، کوئی اِشور کہہ رہا ہے تو کوئی پرمیشور،غرض جو جس نام سے بھی اﷲ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اگر تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے کہ و ہ نام اﷲ جل شانہ کی الوہیت و عظمت اور ذات و صفات کے خلاف نہیں تو فقہی نقطۂ نظر سے اس نام سے پکار نے میں کوئی مضائقہ نہیں،کیونکہ اﷲ جل شانہ خود ارشاد فرماتے ہیں:آپ کہہ دیجیے کہ اﷲ جل شانہ کہہ کر پکارو! یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو پکار سکتے ہو ایک ہی بات ہے، اس کے بہت سے بہترین نام ہیں یا تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔(بنی اسرائیل)

اس آیتِ کریمہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں :(1)اﷲ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، خواہ کسی بھی زبان میں ہو، کیونکہ اس کی عظمت والا نام عربی زبان کے ساتھ ہی خاص نہیں اور نہ ہی صرف انسانوں کی زبانوں کے ساتھ خاص ہے ، بلکہ مختلف مخلوقات کی زبانوں پر بھی تواسی کا نام ہے ۔

اگر گوشِ ہوش سے سنا جائے تو پتوں اور کلیوں کی سر سراہٹ،پھولوں کی مسکراہٹ، پرندوں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ’’اﷲ، اﷲ ‘‘کی آواز آتی ہے :وَاِنْ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ(بنی سرائیل)

اس آیت میں اسی کو فرمایا ہے ،جس کامطلب یہ ہے کہ اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو۔ معلوم ہوا ہر مخلوق اس کو پکارتی ہے اور پکار سکتی ہے ۔

اﷲ جل شانہ کے اسماءِ حسنیٰ :
(2)دوسری بات یہ واضح ہو گئی کہ اﷲ جل شانہ کے بہت سے بہتر نام ہیں،بلکہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں، اسی کو فرمایا: وَلِلّٰہِ الأَسْماَءُ الْحُسْنیٰ(الأعراف)اور حدیث مذکور میں اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے سرکار ِ دوعالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اِنََّ لِلّٰہِ تِسْعَۃَوََّتِسْعِیْنَ اسْماً حق تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ کی تعداد ننانوے ہے ، جو شخص ایمان اور عقیدت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے ننانوے نام محفوظ کر لے ،یا ان کے ذریعہ دعا کرے ،یاان کے ذریعہ اپنے رب کو یاد کرے ، یا ان کے معانی جان کر عمل کرے تو وہ جنت میں جائے گا۔

لیکن یہاں علماءِ محدثین فرماتے ہیں کہ اس تعبیر سے اﷲ جل شانہ کے اسماءِ حسنیٰ کی تکثیر بیان کرنا مقصود ہے ، تحدید نہیں، ورنہ ان ننانوے اسماءِ حسنیٰ کے علاوہ بھی اﷲ جل شانہ کے ایسے بہت سے نام ہیں جن کا ذکر کلام اﷲ اور احادیث ِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم میں نہیں، البتہ ننانوے کا جو عدد ذکر کیا گیا اس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث ِ پاک میں اسماءِ حسنیٰ کو یاد کر نے والے کے لیے جنت کی جو فضیلت ہے وہ ان ہی ننانوے ناموں کے ساتھ مخصوص ہے ۔(مظاہرِ حق جدید) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ جس نے ’’اللّٰہم‘‘سے دعا مانگی اس نے گویا تمام ہی اسماءِ حسنیٰ کے ذریعہ دعا مانگی ۔( مظاہرِ حق جدید )

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اﷲ جل شانہ کے جتنے بھی اسماءِ حسنیٰ ہیں وہ سب کے سب اس کی الوہیت و ربوبیت اور شانِ عظمت و رفعت،قدرت وقوت، نصرت و حفاظت، محبت و ہدایت،شفقت و سخاوت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں،ان تمام اسماءِ حسنیٰ میں لفظ اﷲ اسمِ ذات اور باقی اسماءِ صفات ہیں،جیسا کہ خود قرآنِ پاک کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے ،فرمایا:وہ اﷲ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اسے تمام کھلی چھپی باتوں کا علم ہے ، وہی رحمٰن و رحیم ہے ۔(الحشر)

یہاں اسماءِ حسنیٰ میں لفظ اﷲ کو اسم ِ ذات قرار دیا اور موصوف بنایا، اور دوسرے اسماءِ حسنیٰ کو صفت بنایا ہے ، پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس کی عظمتِ شان اس کے ہر ہر عظیم الشان نام سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔

ایک حیرت انگیز حکایت :
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق منقول ہے کہ مقامِ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد اہل و عیال کے نان نفقہ سے مطمئن کرنے کی غرض سے حق تعالیٰ نے حکم فرمایا: موسیٰ! تمہارے قریب جو چٹان ہے اس پر عصا مارو،تعمیل ارشاد میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب عصا مارا تو چٹان کے دو ٹکڑے ہو گئے اور درمیان سے ایک پتھر نکلا،پھر حکم ہوا کہ اس پتھر پر بھی عصا مارو،حکم کی تعمیل فرمائی تو اس سے ایک اور پتھر نکلا،ارشاد ہوا کہ اس پتھر پر ایک اور ضرب مارو،اب کی بار جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا تو اس میں سے ایک عجیب و غریب کیڑا نکلا،جس کے منہ میں بطورِ غذا ایک ہرا پتہ تھا اور ہونٹ ہل رہے تھے ،کان لگا کر معلوم کیا تو آواز آرہی تھی : ’’سُبْحاَنَ مَنْ یَراَنِیْ، وَیَسْمَعُ کَلاَمِیْ، وَیَعْرِفُ مَکاَنِیْ، وَ یَذْکُرُنِیْ، وَلاَ یَنْساَنِیْ‘‘پاک ہے وہ جو اس جگہ بھی مجھے برابر دیکھتاہے ،میری بات کو برابر سنتا ہے ،میرے مکان اورمسکن سے بھی واقف ہے ،مجھے برابر یاد رکھتا ہے ، بھولتا نہیں ۔(گلستانِ قناعت)

واقعی وہ ایسے ہی بلند و بالا شان والا ہے :
اس کے مثل کوئی چیزنہیں ہے ۔(شوریٰ) مگراس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ
تو دل میں تو آتا ہے ، سمجھ میں نہیں آتا
میں جان گیا تری پہچان یہی ہے مولیٰ!

اﷲ جل شانہ کی رفعت :
ظاہر ہے کہ ذات خدا وندی کو ’’اﷲ‘‘ اسی لیے توکہتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ و ارفع اور بلند و بالاہے ، اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات اتنی بلند ہیں کہ پستی کا امکان ہی نہیں،وہ عجز و فنا سے بلند،ضعف و اضمحلال سے بلند،فقر و محتاجی سے بلند،سونے اور اونگھنے سے بلند،کمزوری اور سستی سے بلند،ہر قسم کے نقص و عیب اوروہم و گمان سے بلند ہے ، اس کی بلندی کے سامنے تمام بلندیاں ہیچ ہیں،اس کے علم کے سامنے سب علوم جہالت،اس کی سماعت کے سامنے سب کی سماعتیں بہرا پن، اس کی بصارت کے سامنے سب کی بصارتیں اندھا پن،اس کی فصاحت کے سامنے سب کی فصاحتیں گونگا پن،اس کے وجود کے سامنے سب کا وجود کالعدم اور اس کی بقا کے سامنے سب کی بقا فنا ۔وہ اس قدر بلند و بالا ہے کہ عظمتوں کی معراج اور بلندیوں کی انتہا اسی کے لیے ہے ۔

لفظ’’اﷲ‘‘ حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے :
اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح اﷲ جل شانہ کی ذات و صفات بلند و بالا ہیں، ان میں اس کا کوئی ثانی اور شریک نہیں،اسی طرح اس کا اسم ِ ذات بھی بلند و بالا ہے ، اس میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں،اس لیے علماء نے فرمایا کہ لفظ ’’اﷲ‘‘ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ خاص ہے ،لہٰذا لفظ ’’اﷲ ‘‘ سے حق تعالیٰ ہی کو موسوم کیا جا سکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی کو نہیں،چناں چہ ارشاد ربانی ہے :کیا کوئی اور ہے ؟ جو اﷲ کے نام سے موسوم ہو۔(سورۃ مریم)اسکی ایک تفسیر یہی منقول ہے ،اسی لیے اس مبارک نام کا نہ تثنیہ ہے اور نہ جمع ۔(قاموس الفقہ)

لفظ اﷲ کی ایک زبر دست خصوصیت یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں لفظ ’’اﷲ ‘‘تقریباً دو ہزار نوسو چالیس مرتبہ آیا ہے ۔ (حکا یتوں کا گلدستہ) حتیٰ کہ جمہور اہل علم نے تولفظ ’’اﷲ‘‘ہی کو اسم اعظم قرار دیا ہے ۔(مرقاۃ )

لیکن قطب ربانی، محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر لفظ ’’اﷲ‘‘ زبان سے اس حال میں ادا کیا جائے کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو، تب لفظ ’’اﷲ‘‘ اسم اعظم ہے ۔(مرقاۃ)اور ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ دل اگر غیر سے اور پیٹ حرام سے خالی ہو تو پھر اﷲ جل شانہ کا ہرنام’’اسم اعظم‘‘ہے ۔

لفظ ’’اﷲ‘‘ تو ایسا بابرکت نام ہے کہ اگر خدا نہ خواستہ غفلت کے ساتھ لیا جائے تب بھی برکت سے خالی نہیں،پھر عظمت کے ساتھ لینے کی کیا فضیلت ہوگی؟

اﷲ جل شانہ کا مقدس نام کائنات کی روح :
کیوں کہ اﷲ جل جلالہ کا مقدس نام تو اس وقت بھی تھاجب کائنات میں کچھ نہ تھااور اس وقت بھی ہوگا جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا،اﷲ جل جلالہ کا مقدس نام ہی کائنات کی اصل روح اور جان ہے ، یہ دنیا کی بستی اسی وقت تک آباد رہے گی جب تک کسی ایک کی زبان پر بھی یہ مقدس نام جاری رہے گا،اور جس وقت کوئی زبان بھی ’’اﷲ، اﷲ‘‘ کا ورد کرنے والی باقی نہ رہے گی اس وقت بساطِ عالم کو لپیٹ دیا جائے گا،آسمان کی قندیلیں بجھادی جائیں گی،دریاؤں اور سمندروں کا پانی خشک ہوجائے گا،نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے گا۔(مشکوٰۃ )

بس ثابت ہوگیاکہ اﷲ جل شانہ کی ذات جیسے عظیم ہے اس کا مقدس نام بھی اسی طرح عظیم ہے اور عظمت سے اس کا مقدس نام لینے والا بھی عظیم ہے ۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں: اﷲ رب العزت کا نام اتنا عظمت والا ہے کہ اگر ہم ہزار بار بھی مشک اورعنبر سے اپنی زبان دھو کر اس کا مقدس نام لیں تو اس کے تقدس کا حق ادا نہیں کر سکتے ، لیکن یہ اس کا انعام اور احسان ہے کہ اس نے اپنا مقدس اور عظیم نام ہماری ناپاک اورحقیر زبان پر بآسانی جاری فرمادیا، اب جو اس پاک نام کو وردِ زبان رکھے گا،اس کی زبان اور جسم دونوں پاک ہو جائیں گے ۔ ان شاء اﷲ۔حق تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت اور اپنے نام کی عظمت نصیب فرمائے ۔(آمین بجاہ سید المرسلین)
جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہ
٭…٭…٭
 

Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 189854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.