جہاز باہر کھڑا ہے۔ !

پاکستانی سیاست میں پاور ٹریڈنگ سارا سال چلتی ہے۔بلکہ سینٹ کے الیکشن تو ہوتے ہی گھوڑی پال سکیم کے تحت ہیں۔گھوڑے بھی جانے پہچانے ہوتے ہیں۔۔اس لئے اسمبلی میں ایک مستقل اصطبل بن جانا چاہیے۔تاکہ خریداروں کو بیرونی منڈی میں نہ جانا پڑے۔

جہانگیر ترین کے جہاز میں موجود آزاد امیدوار

میں تقریبا تین دہائیوں سے موٹر سائیکل کا مسافرہوں۔ بالوں میں چاندی اتر آئی اور موٹر سائیکل کا رنگ نکل آیا۔ لیکن یہ بکھیڑاحل نہیں ہواکہ موٹر سائیکل کی سی سی یاگاڑی کی ہارس پاور کیا بلا ہے۔؟۔ البتہ دوستوں نے جب بھی موٹر سائیکل اوردشمنوں نے گاڑی خریدی۔میں نے یہ ضرور پوچھا کہ یہ کتنے سی سی ہے؟۔ایسے سوال پوچھنے میں کیا معرفت تھی۔ اور جواب جاننے میں کیاحکمت ۔آج تک نہیں پتہ ۔؟ شعور۔ابھی پورے طور پر ٹمٹمایا بھی نہیں تھاکہ ہارس پاور کے ساتھ۔ہارس ٹریڈنگ کا بکھیڑا بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ٹُو بی اور ناٹ ٹُو۔بی کی طرز پر عجب خود کلامی جاری رہتی۔ ہارس پاور اور ہارس ٹریڈنگ کبھی کبھار تو ا یسے مکس ہوجاتے کہ ’’پاور ٹریڈنگ‘‘ نامی ایک نئی ٹرم بن جاتی۔شروع شروع میں توپاورٹریڈنگ کی تھوڑی بہت سمجھ آتی تھی۔الحمد للہ اب بلکل نہیں آتی۔ کیفیت ۔ گجنی کے سنجےسنگھانیا جیسی رہی۔۔ اچانک ’’چھانگا مانگا کی سیاست‘‘ ۔ نامی ۔نئی آفت نے سر اٹھا لیا۔میں بچہ تھوڑا ہی تھا۔ اتنا تو جانتا تھاکہ چھانگا مانگا ایک جنگل ہے۔اور گھوڑے جنگل میں ہی ہوتے ہیں۔ مشکل یہ تھی کہ گھوڑوں کے ساتھ لوٹے بھی جوڑے جا رہے تھے۔ کبھی پیندے والے اور کبھی بن پیندے۔ لوٹے۔ جنگل اور گھوڑے۔یہ ایک بے جوڑ سا۔ جوڑ تھا۔میں نے اس پہیلی کو سمجھنے میں کئی سال لگائے بلکہ سالے بھی لگائے۔لیکن ککھ پلے نہیں پڑا ۔اُلٹا۔سالے’’ایلیکٹ ایبلز‘‘ کا نیا قضیہ کھل گیا۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا۔ کہ اگر ایلیکٹ ایبلز کی اہمیت ہے تو ’’آزاد قبیلے والے‘‘ آنکھ کا تارا کیوں بن گئے۔ میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ آزاد امیدوارپارلیمان کے بھوترے گھوڑے تھے۔ جن پر کاٹھی ڈال لی گئی ہے۔ جنہیں جہانگیر ترین نے ائیرکارگوسروس کے ذریعے بنی گالہ تک ٹرانسپورٹ کردیا ہے۔

جہاز تو دور ۔اوسط درجے کے گھروں میں گاڑیاں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ سکوٹر کو ہی گڈی کہتے ہیں۔ اوسط درجے کےرشتے دار اوسطاً روٹھے ہی رہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ شادی بیاہ پر جسے ضرورت ہوئی منالے گا اور منانے والے آ بھی جاتے ہیں۔ خاندانوں میں سرد جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے اور۔روٹھنے والے شادی جیسےتہوار کو بطورہتھیار استعمال کرتے ہیں۔کون کس سے ناراض ہے ؟ یہ راز عموماً تہواروں سے دو تین روز قبل کھلتا ہے۔جب خاندان کےبڑے اچانک سفارتکاری پر نکل جاتے ہیں۔روٹھا ہوا شخص اکثرتایا۔ہوتا ہے۔ یا ماما۔ کبھی کبھار جمائی بھائی بھی’’ محمود و ایاز‘‘کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ شادیاں دیرینہ رنجشوں کے خاتمے اور اگلی لڑائی کی بنیاد کاسبب بنتی ہیں۔روٹھوں کو منانے کےدوران بار بار بتایا جاتا ہےکہ’’چلومان بھی جاؤ گڈی پرلینے آئے ہیں‘‘۔اورپھر مان جانے کی اطلاع ملتے ہی تہوار میں یوں جان پڑ جاتی ہے۔جیسے جھنگ میں حضرت شاہ جیونہ کےمزارکاچراغ چڑھ جانے کے بعدعرس میں جان پڑتی ہے۔کہتے ہیں کہ چراغ نہ چڑھے تو گدھی نشین کی موت ہو جاتی ہے۔ اورچراغ چڑھتے ہی میلے کے سارے طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ ڈھول بجنے لگتا ہے اورکھسرے ٹھمکنے لگتے ہیں۔کھسرا ۔لاہور کا ہو یا پشور کا۔اس کا نام عہد حاضر کی فلمی ہیروئن والا ہوتا ہے۔ آج کل کھسروں کے نام دپیکا، قطرینہ، پریانکا، کرینہ، کنگنا اور سنی لیون ہیں۔ہر شہر کی اپنی اپنی دپیکا ہوتی ہے اور ہر شہری کی اپنی اپنی کنگنا۔’’روٹھے شریک‘‘ آجائیں تولگتا ہے تہواروں پرکھسرے نہیں بلکہ بالی وڈسٹار ٹھمک رہے ہوں۔اورشریکوں کے لئے یہ بات۔ تاحیات قابل فخررہتی ہے کہ گڈی پر لینے نہ آتے توکبھی نہ جاتے۔

بلکل ایسے ہی پی ٹی آئی سے روٹھ کر آزاد الیکشن لڑنے اور جیتنے والےتمام ممبران اسمبلی کے گھروں کے باہرجہاز کھڑا تھا۔روٹھوں کومنانے کے لئے۔ڈھول بجانے کے لئے۔اوران لمحوں کو تاحیات قابل فخربنانے کے لئے۔۔بنی گالہ میں چراغ چڑھنے کا انتظار ہو رہا تھا۔جہانگیر ترین نے ’’ککی چیلنج‘‘ خود قبول کیا تھا۔وہ ہر آزاد ممبر اسمبلی کے دروازے تک یوں پہنچے جیسےکیبل پہنتی ہے۔اپنے جہاز پر۔وہی جہاز جو ہمیشہ فضا میں ہوتا تھا۔زمین پر یوں کھجل ہو رہا تھا ۔ جیسے ہمارے محلوں میں ’’جہاز‘‘کھجل ہوتے پھرتے ہیں ۔میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ گھر کے باہر جہاز کھڑا ہوتو گھروالے دروازے بند کر لیتے ہیں اورہوائی جہاز کھڑا ہو تو سارا محلہ دیکھنے آتا ہے۔

جہاز امرا کی سواری ہے اور گھوڑا بادشاہوں کی۔جہاز چونکہ خلا میں اڑتا ہے اور خلاپر خلائی مخلوق کا قبضہ ہوتا ہے۔جہانگیر ترین کے جہاز کو اڑنے کی اجازت حاصل تھی۔اسی جہاز پر۔ن لیگ سے روٹھ کر جیتنے والے بھی۔ کئی ممبران بنی گالہ پہنچے۔کیونکہ ٹائی ٹینک کی سواری کوئی نہیں بنناچاہتا ۔اور گھوڑا۔ گھوڑا شطرنج کا ہو یا جنگ کا۔ اس کی چال سمجھنا مشکل ہوتا ہے ۔تمام گھوڑے چار چالیں چلتے ہیں۔ پہلی چال میں ہر پاؤں الگ الگ زمین پر پڑتا ہے۔دوسری چال دُلکی ہوتی ہے۔ تیسری چال میں تین آوازیں آتی ہیں اور چوتھی سرپٹ ہوتی ہے جبکہ شطرنج کا گھوڑا اڑھائی چالیں چلتا ہے۔ مرید کہتا ہے کہ شطرنج اور جنگ کے علاوہ گھوڑوں کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے۔ جوہوا پر سوار ہوتی ہے۔ یہ گھوڑے ماضی میں چھانگا مانگا لینڈ کرتے تھے اوراس بار بنی گالہ اترے ہیں کیونکہ حاکم کی اگاڑی سے بچناچاہیے۔

سیاست ایسا کھیل ہے۔ جو گدھے اور گھوڑے کی پہچان کرا کے چھوڑتا ہے۔ اگر سیاستدان گھوڑے نہ بنیں توان کی پارلیمانی حیثیت گدھوں کے برابر ہوتی ہے۔یہ بہت پرانی بات نہیں جب میاں نواز شریف نے امیر قطر کو گھوڑے کا تحفہ بھیجا۔ لیکن اس قطری نے ’’خط ‘‘ بھی نہ بھیجا ۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے یہی مہربانی ترک وزیر اعظم طیب اردگان پر کی تھی۔یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ ایک گھوڑا کتنے کا تھا لیکن اسےبھجوانے پرفی گھوڑا تقریبا 50لاکھ روپے لاگت آئی ۔آصف علی زرداری جب صدر مملکت تھے تب گھوڑے ایوان صدر میں ہوتے تھے۔ انہیں کھانے میں مربے اور بادام ملتے تھے۔اس بارگھوڑوں کی آؤ بھگت بنی گالہ میں صرف ایک کپ چائے اور بیان حلفی پر ہوئی۔ انہیں بنی گالہ کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا ہے۔سر پٹ دوڑتے سموں کی آوازیں اب نہیں آ رہی۔۔مرید کہتا ہے۔پاکستانی سیاست میں پاور ٹریڈنگ سارا سال چلتی ہے۔بلکہ سینٹ کے الیکشن تو ہوتے ہی گھوڑی پال سکیم کے تحت ہیں۔گھوڑے بھی جانے پہچانے ہوتے ہیں۔۔اس لئے اسمبلی میں ایک مستقل اصطبل بن جانا چاہیے۔تاکہ خریداروں کو بیرونی منڈی میں نہ جانا پڑے ۔مریدخاصا سمجھ دار لگ رہا تھا۔میں نے اسے 30 سال پرانا سوال بھی پوچھ لیا ۔کہ یہ ہارس پاورکتنی ہوتی ہے۔؟
بولا:جھنڈے والی گاڑی۔دو تین بڑے ٹھیکے اورنوٹوں کے چار پانچ کھوکھے۔

Ajmal malik
About the Author: Ajmal malik Read More Articles by Ajmal malik: 76 Articles with 104504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.