آنٹی اسٹیبلشمنٹ، انکل سام اور بیچارا پاکستان۔ ۔

خدا کرے کی میری عرض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

احمد ندیم قاسمی صاحب کا روح کو چھو جانے والا یہ شعر پڑھ کر شاید ہی کوئی شخص اپنے وطن سے محبت چھپا سکے، ان تڑ پا دینی والی سطور نے آج مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ فصلِ گل جس کی خواہش قاسمی صاحب کر رہے ہیں اس کو تلا ش کیا جائے، پاکستان کو بنے ہوئے اکہتر سال گزر چکے ہیں کیا پاکستان میں کوئی ایسی فصلِ گل کبھی اگی یا پھر یہ قاسمی کا اک تلمیہ ہی تھا۔ تاریخ کو کافی کھنگالا ، بہت سے دانشوروں کی کتابیں چھانیں لیکن فصلِ گل مسدود است!

جس بھی پوچھا ، بات کی ایک ہی جواب ملا یار امریکہ نے برباد کر دیا، یار اسٹیبلشمنٹ دھوکہ دے گئی۔ چلیں آپ کے دعوئوں کو یکسر مسترد نہیں کرتے کسی حد تک مان لیتے ہیں، جناب یہ بتائیں جب امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ سازشیں کر رہے تھے حضور کہاں تھے چلیں نہ بتائیں ہو سکتا ہے پاکستان انڈیا کا کرکٹ میچ ہو اور جان جائے میچ نہ جائے، یا پھر 14 اگست کی چھٹی منا رہے تھے اپنے پلنگ پر۔

جناب آپ کو مسائل تو تمام پتہ ہیں کیا حل کی جانب بھی کبھی توجہ دی، چلیں میں حضور کو بتاتا ہوں آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ محترم غور سے سنئیے آپ کے ساتھ مسئلہ نہیں مسائل ہیں اور ان کے ذمہ دار جناب خود ہیں ناراض مت ہوں بتاتا ہوں کیسے، کبھی تو آپ مذہب کے نام پر لٹتے ہیں، کبھی قومیت کی بنیاد پر، کبھی لسانی بھیڑئیے آپ کو نوچتے ہیں، تو کبھی عالمی طاقتیں آپ کی ذہانت سے مستفید ہوتی ہیں، کبھی انکل سام ترقی کا لولی پاپ دکھا کر چونا لگاتا ہے تو کبھی آنکھیں دکھا کر ڈراتا ہے، رہی سہی کسر حضور ہماری اپنی آنٹی اسٹیبلشمنٹ پوری کر دیتی ہے سسٹم کی خامیوں کی دلالی کرکے اور ہم ہنسی خوشی ان تمام گدھوں کو پلیٹ میں رکھ کر اپنا گوشت پیش کرتے ہیں کبھی جہاد کے نام پر، کبھی قومیت کے پرچم تلے، کبھی کفار کی چھانٹی اور جہنم پارسل کرنے کے نام پر اور کبھی عالمی قوتوں کی تجربہ گاہ کے طور پر، جہاں تمام عالمی قوتیں اپنے تجربات بغیر روک ٹوک کرتی ہیں اور سارہ فضلہ ہمارے لئیے چھوڑ جاتی ہیں۔

آپ بھلا امریکہ روس جنگ کیسے بھول سکتے ہیں ، یا پھر اوجڑی کیمپ، اور تو اور اسامہ بن لادن جیسی ہستی کا پاکستان سے اغواء، چلیں بچپن کی کچھ اور یادیں تازہ کرتے ہیں صدام حسین سے تو آپ سب واقف ہیں کبھی ہم ان کو مرد مجاہد اور پتہ نہیں کیا کیا کہا کرتے تھے پھر ایک دن اچانک پتہ چلا موصوف تو انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے۔ آخر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ، کیا واقعی میں ہم بہت بھولے ہیں یا مصیبت دیکھ کر اسی سے دوستی کرنے کی پرانی عادت کا شکار معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ابھی یمن ہو یا شام ہم اپنی روش پر قائم ہیں ، ہمیں بھی انکل سام کے ساتھ رہتے رہتے دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی لت لگ چکی ہے۔

بات کا فی دور نکل گئی اور مجھے مرحوم سعادت حسن منٹو کا وہ تاریخی خط اور جملہ یاد کروا گئی جو 1951_ میں انھوں نے اپنے مشہورِ زمانہ خط منٹو بنام انکل سام میں تحریر کیا تھا کہ" بدقسمتی سے یہ ملک آپ کا نہیں میرا ہے" لیکن بیچارے منٹو کو شاید انکل تو یاد رہے آنٹی کا کردار بھول گئے مست آدمی تھے کوئی بات نہیں شاید کسی آنٹی سے واسطہ نہیں رہا ہوگا۔ لیکن آج کل تو پاکستان چل ہی صرف آنٹیوں سے رہا ہے، منٹو بیچارا تو کہ کے چل دیا کہ یہ میرا ملک ہے تمہارا نہیں مگر ہم نے تو یہ ملک انکل سام کو کرائے پر دے دیا پھر چاہے وہ افغنستان سے اپنا ہی کچرا صاف کرے یا اسی کچرا میں لاکھوں معصوم لوگ دفن کر دے، ہمیں تو غرض صرف کرائے سے ہونی چاہیئے اور ادائیگی بھی بروقت تاکہ ہمارا میک اپ اور بنائو سنگھار کا خرچہ چلتا رہے باقی پاکستان کا کیا ہے اللہ مالک ہے ۔

جناب یہ وہ وجوہات ہیں جس کے باعث ہم آج ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ، کوئی ہماری بات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ، کوئی ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ ان تمام چیزوں کا واحد حل ہی خود انحصاری اور انکل سام اور آنٹی اسٹیبلشمنٹ پر عدم انحصار، ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں برابری کی بنیاد پر اقوام عالم سے تعلقات قائم کرتی ہیں ہمیں بھی انکل سام کے بوٹ پالش کرنے کے بجائے اسے سیدھا راستہ دکھا دینا چاہئے اور آنٹی اسٹیبلشمنٹ کا کام گھر کی حفاظت اور بچوں کی دیکھ بھال ہونی چاہئے ہر چیز میں ٹانگ اڑانے سے ٹانگ ٹوٹنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں ۔

پاکستان پائندہ باد! !!
 

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 54142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.