سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کے جن کے بے
قابو ہونے کی وجہ سے 4 ماہ سے تنخواہوں سے محروم اسٹیل ملز کے ملازمین اب
اس قابل بھی نہ رہے کہ اپنے بچوں کے اسکولوں کی بھاری فیس ادا
کرسکیں۔پاکستان اسٹیل ٹاؤن اور گرد ونواح میں رہنے والوں کو کم سے کم یہ
سہولت حاصل ہے کہ ان کے بچے اسٹیل ملز کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرلیتے
ہیں جہاں ان کے والدین کی طرح ہی تنخواہوں سے محروم اساتذہ انہیں پڑھا دیا
کرتے ہیں ۔مگر دور دراز کی آبادیوں میں رہنے والوں نے یا تو اپنے بچے گھر
بٹھا دیئے ہیں یا پھر سرکاری ،خیراتی اور فلاحی اداروں کے اسکولوں میں
بھرتی کرادئے ہیں ۔
شاہد بھی ایک ایسے ہی اسکول میں زیر تعلیم تھا جو ایک فلاحی تنظیم کے زیر
اثر کام کرتا تھا ۔فلاحی تنظیم طلبہ کو انتہائی کم فیس میں مناسب تعلیم
فراہم کرتی تھی۔اس سے قبل شاہد کراچی کےایک بڑے اسکول میں پڑھتا تھا ۔جشن
آزادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو اسکول میں اللہ کے کسی نیک بندے کی جانب
سے بچوں میں قومی پرچم،جھنڈیاں اور بیج تقسیم کئے گئے۔اس عمل کی وجہ سے
بچوں سے زیادہ ان کے والدین خوش تھے کیوں کے وہ اپنے بچوں کو یہ سب لے کر
دینے سے قاصر تھے ۔جشن آزادی کے ساتھ ساتھ ہی بڑی عید کا موسم چل رہا
تھا۔محلے بھر میں جانور آرہے تھے۔شاہد اسکول سے واپسی پر آج کھانا کھانے
سے انکاری تھا ۔شاہد اپنے والد سے بات کرنے کو بھی تیار نہ تھا۔ناراضگی کی
وجہ صرف یہ تھی کے محلے میں شاہد وہ واحد بچہ تھا جس کے گھر قربانی کا
جانور اب تک نہ آیاتھا اور نہ ہی آنے کی کوئی امید تھی۔شاہد کی ناراضگی
کی وجہ جاننے کے بعد اس کے والد اس بھی زیادہ آبدیدہ تھا ۔فرق صرف اتنا
تھا کہ بچہ سب کے سامنے رو لیتا ہے اور شاہد کے والد کو کمرے میں چھپ رکر
خدا کے سامنے رونا پڑا ۔
یہ کہانی کسی ایک گھر یا بچے کی نہیں۔پاکستان اسٹیل ملز میں ملازمت کرنے
والے بیشتر افراد کے گھروں کا یہی حال ہے۔کچھ ملازمین نے حالات سے تنگ آکر
خودکشی کرلی اور باقی روز جیتے اور روز مرتے ہیں ۔ پاکستان اسٹیل ملز کی
مشکلات ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں ،پاکستان اسٹیل ملز کے ذمے
مجموعی واجبات اب تک 200ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں ،ان میں نیشنل بینک
کے50ارب سے زائد،حکومتی قرض40ارب سے تجاوز کر چکے ہیں جبکہ حکومتی قرض
140ارب تک پہنچ چکا ہے سٹیل ملز پر نیشنل بینک،کے الیکٹرک،،گیس،میڈیکل
اخراجات،ملازمین کی تنخواہوں ،گریجویٹی اور پراوینڈ فنڈز کی مد میں یہ
واجبات ہیں ،پاکستان سٹیل ملز کے نقصانات میں ہر ماہ ایک ارب 40کروڑ روپے
کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ادارے کی اس خستہ حالی کے باعث پاکستان اسٹیل کے ملازمین4ماہ سے تنخواہوں
سے محروم ہیں، ان ملازمین میں اسٹیل ملز کے اسکولوں کالجوں میں پڑھانے والے
اساتذہ اور اسٹیل ملز کی ہی مساجد میں امامت کے فرائض سر انجام دینے والے
علما بھی شامل ہیں جنہیں انتظامیہ کی جانب سے یکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے
جیسے یہ افراد اسٹیل ملز کا حصہ ہی نہیں ہیں ۔ بدحالی کے شکار ملازمین نے
چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل کردی ہے۔ بدحالی کے شکار ملازمین کا کہنا یہ
ہے کہ ادارے کے حالات کی وجہ سے وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
ملازمین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لے کر مسئلہ حل کروانے کی اپیل کی
ہے ۔
اس ساری صورت حال کو جاننے کے بعد اگر پاکستا ن کی معیشت کا مطالعہ کیا
جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں اسٹیل کا کاروبار کرنے والے
لاکھوں افراد اب ارب بتی بن چکے ہیں ۔سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف
اور ان کا خاندان بھی اس کاروبار سے وابستہ ہے ۔ان کے اثاثے بھی کسی سے
پوشیدہ نہیں ۔اس کے علاوہ ملک میں اب کئی پرائیویٹ اسٹیل ملز ہیں جو کہ
منافع میں ہیں پھر پاکستان اسٹیل ملز کیوں نہ چل سکی ؟چیف جسٹس کو ملازمین
کی حالت کا نوٹس لینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی تحقیقات بھی کرانا ہوں گی کہ
ادارے کے اس حال کا ذمہ دار کون ہے۔ایسے کون سے عناصر تھے جنہیں اسٹیل ملز
کے چلنے سے نقصان ہوسکتا تھا؟یا پھر یہ کہہ لیجئے کہ یہ تحقیقات کرانا ہوں
گی کہ ایسے کونسے عناصر ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر اسٹیل ملز سے
وابستہ ہزاروں افرا د کامعاشی قتل کیا ۔
ذرائع کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی ٹیم کے ایک اہم رکن کو اسٹیل ملز کی
بحالی کا ٹاسک دیا ہے ۔عمران خان کے اس ساتھی نے پاکستان اسٹیل ملز سے
ریٹائرڈ ڈائریکٹرز سے اس سلسلہ میں رابطہ کیا ہے اور اسٹیل ملز کی بحالی
میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ان ریٹائرڈ ڈائریکٹرز نے حکومتی نمائندے
کو ایک ایسا پلان بنا کر دیا ہے کہ جس ہر عمل کرنے سے اسٹیل ملز کم از کم
اس حد تک بحال ہوجائے گی کہ جلد ملازمین کو تنخواہیں ملنا شروع ہوجائیں گی۔
انتخابات 2018 میں تحریک انصاف کو ان آبادیوں سے اچھا ووٹ حاصل ہوا ہے
جہاں اسٹیل ملز کے ملازم رہائش پذیر ہیں ۔عمران خان اور تحریک انصاف کو
اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا گیا ناجانے
کتنے مزید ملازمین خودکشی کرلیں ،عمران خان نے 1 کروڑ ملازتیں دینے کا
دعویٰ تو کیا تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اسٹیل ملز کے 12000ملازمین
کے محسن ثابت ہوں گے ؟واضح رہے کہ اسٹیل ملز صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس
87 میں واقعہ ہےجہاں ابھی ضمنی انتخابات ہونے ہیں ۔اگر عمران خان ان
انتخابات سے قبل اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے کوشش کریں تو شاید سندھ اسمبلی
میں ان کو ایک اور نشست حاصل ہوجائے ۔ |