حج اسلام کا پانچواں اور ایک اہم رکن ہے ، جس کو اس کی
ادائیگی کی توفیق نصیب ہوتی ہے وہ بڑا خوش نصیب انسان ہے ، اس کا ہرگز یہ
مطلب نہیں کہ جس مسلمان کو حج کرنے کی سعادت نہیں ملی وہ کمتر اور حقیر ہے
۔اللہ تعالی نے دین میں اعتدال رکھا ہے ، کسی کو معذور بناکر، کسی کودولت
سے مالا کرکے اور کسی کو غربت وافلاس کا شکار بناکر اصل مقصود امتحان لینا
ہے اور اس کے امتحان میں وہی کامیاب ہونے والا ہے جس کے پاس اعمال حسنہ ہوں
اور جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والاہو ۔ اعمال سے مراد ہر وہ قول وعمل جس سے
اخلاص کے ساتھ اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے اور عمل کی انجام دہی میں نبی
کریمﷺ کی سنت کی پیروی کی جائے ۔
دنیا میں بہت سے لوگ مالدار نظر آتے ہیں مگر کم ہی لوگ ہیں جو کسب معاش کے
لئے حلال ذرائع کو اپناتے ہیں اکثر لوگ جائزوناجائز کی پرواہ کئے بغیر مال
جمع کرنے میں لگے ہیں اور مالداروں کا بڑا طبقہ نہ تو صحیح سے زکوۃ کی
ادائیگی کرتا ہے ، نہ صدقہ وخیرات سے معاشرے کی غربت ختم کرنے کے درپے ہے
بلکہ ذاتی مصرف میں خرچ کرنے کے متعلق اسراف وتبذیر اور بے راہ روی کا شکار
ہے۔
کچھ لوگ ہیں جو حلال طریقے سے روزی کماتے ہیں اور اسے صحیح مصرف میں لگاتے
ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے مال کو نیکی کے راستے میں صرف توکرتے
ہیں ، مساجدومدارس کے لئے کافی خرچ کرتے نظر آتے ہیں ، فقراء ومساکین کا
بھی خیال کرتے ہیں ، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور حج وعمرہ کرتے ہیں مگر ان سب
میں ریاونمود ، شہرت طلبی اور واہ واہی کا پہلو نظر آتا ہے ۔ ہم کسی کی نیت
پہ شبہ نہیں کرسکتے کیونکہ نیت کا علم صرف اللہ کو ہے مگر ظاہر پر حکم
لگاسکتے ہیں ۔ ہم ان کاموں پر نکیر کرسکتے ہیں جو منکرات کے دائرے میں آتے
ہیں یا جن میں سنت کی موافقت نظر نہیں آتی یا پھر جن کی وجہ سے عمل میں
اخلاص ختم ہوسکتا ہےاور یہ حکم نبوی ہے کہ منکرات دیکھیں تو اس پر نکیر
کریں۔
حج ایک عظیم عبادت ہے جو زندگی میں ایک بار ہی فرض ہے ، اس فریضے کی
ادائیگی میں نہ تو کوتاہی برتی جائے اور نہ ہی ایسے اعمال انجام دئے جائیں
جن کی وجہ سے برے اثرات مناسک حج پر پڑیں ۔ اس مختصر مضمون میں یہ بتلانے
کی کوشش کروں گا کہ زندگی کے ایک ایسے عمل (حج) میں اخلاص نیت کو کس طرح
قائم رکھنا ہے تاکہ اللہ کے حضور یہ عمل قبول بھی ہوجائے اور گناہوں کا
کفارہ بن کر حصول جنت کا ذریعہ بن جائے ۔
جس طرح دیگر سارے اعمال کی قبولیت کا دارومدار اخلاص اور سنت کی پیروی پر
منحصر ہے اسی طرح حج کا بھی معاملہ ہے ۔ حج کی ادائیگی کرنے والوں کے لئے
حج کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ سنت کے مطابق سارے ارکان وواجبات کی
بجاآوری کرسکے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو دین کی تعلیم حاصل کرنے پر
ابھارا ہے ، اس کے پیچھے مقصد یہی ہے کہ ایک مسلمان صحیح سے دین پر عمل
کرسکے اور بطور خاص حج کے متعلق آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
يا أَيُّها الناسُ خُذُوا عَنِّي مناسكَكم ، فإني لا أَدْرِي لَعَلِّي لا
أَحُجُّ بعد عامي هذا(صحيح الجامع: 7882)
ترجمہ: اے لوگو! مجھ سے حج وعمرہ کے طریقے سیکھو کیونکہ مجھے نہیں معلوم
ہوسکتا ہے اس سال کے بعد میں حج نہ کرسکوں ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
رأيتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يرمي على راحلتِه يومَ النَّحرِ،
ويقول :لِتأْخذوا مناسكَكم . فإني لا أدري لعلِّي لا أحُجُّ بعدَ حَجَّتي
هذه.(صحيح مسلم:1297)
ترجمہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی
سواری پر (سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فر رہے تھے : تمھیں چا ہیے
کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ،میں نہیں جا نتا شاید اس حج کے بعد میں
(دوبارہ ) حج نہ کر سکوں۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ حج کرنے والوں کو اچھی طرح حج کرنے کا
مسنون طریقہ معلوم کرلینا چاہئے ۔کیا آپ نہیں جانتے کہ جن تین صحابہ نے سنت
کی خلاف ورزی کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ ﷺنے انہیں منع کردیا جبکہ ان
کی نیت خالص تھی مگر عمل سنت کے خلاف تھا ، حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
عن أنسٍ أنَّ نفرًا مِن أصحابِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سألوا
أزواجَ النبيِّ صلى اللهُ عليه وسلَّم عن عملِه في السرِّ ؟ فقال بعضُهم:
لا أتزوَّجُ النِّساءَ . وقال بعضُهم لا آكلُ اللَّحمَ . وقال بعضُهم : لا
أنام على فراشٍ . فحمد اللهَ وأثنى عليه فقال :ما بالُ أقوامٍ قالوا كذا
وكذا ؟ لكني أصلي وأنامُ . وأصوم وأفطرُ . وأتزوَّج النساءَ . فمن رغب عن
سُنَّتي فليس مِنِّي.(صحيح مسلم:1401)
ترجمہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند
صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں رضی اللہ عنہن سے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفیہ عبادت کا حال پوچھا۔ یعنی جو عبادت آپ صلی
اللہ علیہ وسلم گھر میں کرتے تھے اور پھر ایک نے ان میں سے کہا کہ میں کبھی
عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا: میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔ کسی
نے کہا: میں کبھی بچھونے پر نه سوؤں گا۔ سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ
کی تعریف اور ثنا کی یعنی خطبہ پڑھا اور فرمایا:کیا حال ہے ان لوگوں کا جو
ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں یعنی
رات کو اور سو بھی جاتا ہوں، اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا
ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ سو جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے
وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔
گویا حج میں سنت کی پیروی نہیں ہوگی تو حج قبول نہیں ہوگا ۔ سنت کی مطابقت
کے ساتھ اعمال حج میں اخلاص بھی ضروری ہے بلکہ عمل کی قبولیت کی شرط میں سے
ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى
دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما هاجر إليه(صحيح
البخاري:1)
ترجمہ: اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق
پھل ملے گا، پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے
وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔
جس عمل میں اخلاص نہیں ہوگا وہ رد کردیا جائے ، وہ اللہ کے یہاں نامقبول
ونامنظور ہے ۔ ایک مسئلہ تو یہ ہوا کہ عمل میں اخلاص نہیں تو عمل مردود ہے
،ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر عمل میں دکھاوا، شہرت ، ریاکاری اور دنیا
طلبی ہے تو پھر اس کا انجام بہت بھیانک ہے ۔ مسلم شریف کی طویل حدیث ہے ،
طوالت کی وجہ سے میں اس کا صرف ترجمہ پیش کررہاہوں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ
ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید
کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی
پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ
کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا
گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا
جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے
گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے
گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی،اسے پیش کیا
جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے
گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم
پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے
جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن
اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم
دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا
جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔
اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی
جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔
اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا
جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو
اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم:
1905) مترجم:پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری
اس حدیث میں تین آدمی غازی ، عالم اور سخی کا ذکر ہےجن سے جہنم کو سلگایا
جائے گامحض اس وجہ ہے کہ عمل میں اخلاص نہیں تھا، انہوں نے نیک عمل کیا تھا
جہاد کیا، علم حاصل کیا اور مال خرچ کیا مگر ان نیک کاموں میں اخلاص نہ
ہونے کے سبب ان سب کو جہنم رسید کیا جائے گا۔ اگر کسی کا عمل اخلاص سے خالی
ہوگا تو اس کا انجام بھی اسی طرح بھیانک ہوسکتا ہے ۔ اللہ کی پناہ ۔
عمل میں اخلاص کے فقدان سے آپ نے خسارہ دیکھ لیا، اگر کوئی عمل کرتا ہے اور
ساتھ ہی اللہ کے ساتھ شرک بھی کرتا ہے مثلا حج کی ادائیگی کررہاہے اور
غیراللہ کو پکارتا ہے ، ان سے اولاد مانگتا ہے، ان سے روزی روٹی کا سوال
کرتا ہے ، بگڑی بنانے کے لئے دست سوال دراز کرتا ہے تو اس عمل سے اس کے
سارے اعمال اکارت وبرباد کردئے جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ٹھکانہ قرار
پاتا ہے اور وہ ہمیشہ ہمیش وہاں رہے گا۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ((الانعام
:٨٨ )
ترجمہ: ہم شرک کرنے والے کے تمام اعمال برباد کر دیں گے۔
اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ
الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
(شالمائدة:72)
ترجمہ:جو شخص اللہ کےساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور
اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي
نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
(البینہ:6)
ترجمہ:جولوگ کافر ہیں یعنی اہلِ کتاب اور مشرک وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے
اورہمیشہ اس میں رہیں گے یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں۔
مذکورہ تمام نصوص سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی حج کرتا ہے اور اس میں سنت کی
پیروی نہیں کرتا تو اس کا حج مردود ہے ، اسی طرح کوئی حج میں اخلاص کا دامن
نہیں تھامنا تو اس کا بھی حج مردود ہے بلکہ جو حج کو شہرت وریاکاری کا
ذریعہ بناتا ہے اس کا بہت ہی بھیانک انجام ہے ۔اور جو حج کرتے ہوئے شرک
باللہ کرتا ہے اس کا حج باطل ہوتا ہی ہے دیگر سارے اعمال بھی برباد ہوجاتے
ہیں اور جہنم اس کا ٹھکانہ بنا دیا جاتا ہے جس میں ہمیشہ ہمیش کے لئے اسے
ڈال دیا جائے گا۔
اب ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مناسک حج کو کتنا احتیاط کے ساتھ ادا کرنے
کی ضرورت ہے ، اندھی تقلید اورمسلک پرستی چھوڑ کر محض سنت رسول اللہ ﷺ کی
تعلیم لینی ہے اور انہیں تعلیمات کی روشنی میں حج کرنا ہے ساتھ ہی ان تمام
کاموں سے بچنا ہے جس سے ریاکاری جھلکتی ہے مبادا ہمارا حج قبول ہونے کی
بجائے جہنم میں لے جانے کا ذریعہ نہ بن جائے ۔
جب ہم نے یہ جان لیا کہ حج کی قبولیت کے لئے اخلاص نیت شرط ہے ، اس کے بغیر
ہمارا حج قبول نہیں ہوگا تو پھر ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ
کون سے امور ہیں جن سے اخلاص ختم ہو جاتا ہے یا کم ہوسکتا ہے ۔
(1) ریا کاری : عبادت کے لئے ریاکاری زہر ہلاہل ہے ، اوپر اس بات کودلائل
سے ہم نے جانا ہے ۔ریاکاری یہ ہے کہ کوئی عبادت دوسروں کو دکھانے کی نیت سے
انجام دے۔ عبادت کسی قسم کی ہو خواہ حج ہو یانماز وروزہ ، اگر اس میں
ریاکاری داخل ہوگئی تو وہ عمل باطل ہوجاتا ہے ۔ اس وقت برائی عروج پر ہے ،
دنیاکٹورے میں سما گئی ہے اور ساتھ ہی سوشل میڈیا کافی پاور فل ہے ، ان سب
باتوں کو ذہن میں رکھیں ، ممکن ہے ہماری ادنی سی بھول ریا کاری کا سبب بن
جائے۔ ریاکاری کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں مثلا کوئی اپنے حج کی تشہیر کرے
تاکہ لوگ اسے حاجی کہیں اور لوگوں میں اپنے حج کی تشہیر کرنے کی یہ نیت بھی
ہو کہ اسے حاجی کہہ کر پکارا جائے ۔ لوگوں سے کہلوائےیا خود اپنے سے کاغذوں
پر حاجی لکھے یا لوگوں کے حاجی کہنے پر بجائے ناراض ہونے کے خوش ہوجائے اور
جو حاجی نہ کہے اس سے ناراض ہوجائے ۔ آج کل حج پر آنے سے پہلے کافی دعوتیں
ہوتی ہیں ، پورے گاؤں بلکہ گاؤں سے باہر تمام رشتہ داروں اور امراء کے یہاں
مہینوں کھانے پینے کی مہنگی مہنگی دعوتیں ہوتی ہیں ، یہ ایک بہت ہی بھیانک
معاملہ ہے یہیں سے عمل پہ فخر، عبادت میں ریا اور اخلاص کافقدان ہونا شروع
ہونے لگتا ہے ۔حج کرنے والے کو اس عمل سے بالکلیہ بچنا چاہئے اور جو نظارہ
حج پر جانے سے پہلے گاؤں والوں سے رخصت کے وقت نظر آتا ہے اللہ کی پناہ
۔دوران حج اپنے اوقات کو عبادتوں پر صرف نہ کرکے سیلفی لینے اور لمحہ بہ
لمحہ عبادتوں کی تصویر کشی کرکے سوشل میڈیا پر بھیجنے میں ضائع کرتے جو نہ
صرف تضییع وقت ہے بلکہ بربادی اعمال ہے۔ مسلمانوں میں شرک کرنے والے لوگ حج
پہ بھی شرک کرتے ہیں اور اپنے شرکیہ عقائد واعمال کے حساب سے اس مقدس فریضے
کے دورا ن بھی شرک سے باز نہیں رہتے ۔
(2) غیراللہ کا تقرب: کوئی اس نیت سے حج کرے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے علاوہ
فلاں ولی/ فلاں پیر/ فلاں آدمی (زندہ یا مردہ) کا تقرب حاصل ہوگا تو یہ بھی
ریاکاری کی طرح خطرناک ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ ایسے بھی مسلمان
ہیں جو غیراللہ کے تقرب کے لئے عبادتیں کرتے ہیں ، حج وعمرہ ادا کرتے ہیں ۔
ایسے لوگ گمراہ ہیں اور ان کا حج باطل ہے ۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے
اور ان کو بھی ہدایت دے قبروں کے گرد چکر لگانے کو طواف اور مزار کی زیارت
کو حج کا درجہ دیتے ہیں ۔ العیاذ باللہ
(3) دنیاوی منفعت کا حصول: اگر کسی نے اس نیت سے حج کیا کہ مال کمائے، یا
جا ہ ومنصب حاصل کرے، یا لوگوں سے اپنی تعریف کروائے تو اس کا حج دنیا کے
حصول کے لئے ہوگا اور ایسی عبادت اس کے منہ پر مار دی جائے گی۔ یہ تمام
صورتیں لوگوں میں کثرت سے رائج ہیں ۔ بہت سارے لوگ حج کوحصول زر کا ذریعہ
بنا رکھے ہیں، بہتوں نے اس نیت سے حج کیاکہ اسےکسی مدرسہ/مسجد/ یا تنظیم
وادارہ کا عہدہ مل جائے، لوگوں میں اس کا مرتبہ بڑھ جائےاور جہاں جائے اس
کی تعریف کی جائے ، اصل نام کے بجائے الحاح یا حاجی کہا اور لکھا جائے ۔
شایدباید کوئی ایسا شخص ملے گا جسے کوئی حاجی کہے تو اسے خود کو حاجی کہنے
سے منع کرے لیکن ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کو حج کے بعد حاجی کے بجائے
نام لیکر پکارا گیا تو ناراض ہوگئے ، بات چیت بند کردی ۔ حج سے پہلے جس نے
دعوت نہیں دی اس کے گھر کھجور وزمزم نہیں گیا مگر جنہوں نے جتنی عمدہ دعوت
کی ان کے گھر عمدہ سے عمدہ تحائف گئے ۔
(4) فخرومباھات: بلاشبہ حج کی ادائیگی عظیم سعادت ہے مگر اس کی وجہ سے
دوسروں پر اپنی برتری جتلانا، خود کو دوسروں سے بہتر جاننا، جوحج نہ کرسکے
اسے طعنہ دینا، جابجا اپنے حج کا ڈھنڈورا پیٹنا اخلاص کے منافی ہے ۔ گویا
آدمی نے حج کو لوگوں میں فخرکرنے کا ذریعہ بنالیا ، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ
حج پہ حج کرتے ہیں ، عمرہ پہ عمرہ کرتے ہیں اور لوگوں میں اسے فخریہ بیان
کرتے ہیں جبکہ گاؤں میں بلکہ پڑوس میں نادار ومسکین دانہ پانی کے لئے ترس
رہاہےاس پر خرچ کرنے کے لئے پیسہ نہیں ، مساجد ومدارس کے ائمہ ومدرسین اور
طلباء وواعظین کے حالات خستہ ہیں ان کے امدادپر کوئی توجہ نہیں ۔ میں نے
کتنے لوگوں کو قرض لیکریازمین بیچ کرصرف اس لئے حج کرتے دیکھا کہ اس کا
پڑوسی یا اس کے گاؤں کا فلاں آدمی حج کرلیا۔ یہ بھی حج میں تفاخر یا مقابلہ
کرنا ہوا جبکہ یہ فریضہ ہے جو صاحب استطاعت پر فرض ہے۔
(5) کبروغرور: عبادت میں انکساری اور تواضع مطلوب ہے ،اگر عبادت سے تواضع
نکال دیا جائے تو کبر اس کی جگہ لے لیتا ہے اس صورت میں انسان کو اپنا عمل
محبوب اوربہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔پھر بزعم خود بعض عملوں کی انجام دہی پر
تکبر کرتے ہوئے اکثر عملوں سے چشم پوشی کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے بہت
سارے لوگوں کے اعمال حقیر نظر آتے ہیں ۔ جس طرح بعض حجاج اس مرض کبر میں
مبتلا ہیں ویسے ہی بعض علماء ودعاۃ بھی اس کے نرغے میں ہیں ۔ یہ لوگ اپنے
علاو ہ کسی دوسرے کو عالم اور داعی نہیں سمجھتے اور یہ باور کراتے ہیں کہ
ان کے علاوہ علم ودعوت کا کوئی صحیح کام نہیں کر رہاہے۔
(6) جسمانی فائدے : بلاشبہ عبادت میں روحانی اور جسمانی فائدے بھی بے شمار
ہیں مگر کسی کوصرف اس نیت سے نہیں حج کرنا چاہئے کہ اس کے ذریعہ ورزش
ہوجائے گی ،یا میرا جسم تندرست ہوجائے گا۔غرض اس نوع کی خاص کوئی دنیاوی
غرض وغایت نہ ہوگوکہ اس سے حج فاسد نہیں ہوگا تاہم کمال اخلاص میں نقص پیدا
ہوگا ۔ ہاں اگر کسی کو جسمانی بیماری ہے تو حج کے دوران اللہ سے اس کی
شفایابی کی دعا کرے اور اللہ سے اس حج کے ذریعہ گناہوں کی پاکی کے ساتھ
جسمانی طہارت وپاگیزگی کی امید رکھے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ان کے علاوہ اللہ کا خوف نہ ہونا، ایمان کا کمزور ہونا ، دل کا مادی امور
سے شغف ہونا بھی اخلاص کو متاثر کرنے والے امور ہیں ۔ ایک مومن کو اللہ کا
خوف کھانا چاہئے تاکہ اس سے ڈر کر اخلاص کے ساتھ بندگی بجالائے اور ایمان
کے ساتھ عمل صالح تسلسل کے ساتھ بجالاتا رہے اور دلوں کو دنیا کی آلائشوں
سے ہمیشہ پاک کرتا رہے۔
اللہ تعالی ہمیں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے اور حج کرنے والے تمام
موحدین کے حج کو قبول فرماکر جنت میں داخلہ نصیب فرمائے ۔بطور خاص شرک کرنے
والے مسلمانوں کو مقاصدحج سمجھنے اور شرک سے توبہ کرنے کی سعادت بخشے اور
پھر تمام مسلمانوں کو ایک جگہ ہونے کی توفیق دے جس طرح حج میں سب کو جمع
کیا تھا۔آمین
|