In this year I have lost 3 dear people from cancer. I
have made commitment to myself that I will use my writing skills to
arise awareness against this deadly disease. Please join me in this
effort. Contribute your Sadqat, Zakat to Shaukat Khanam memorial
hospital.
"آو کینسر کے عفریت کو شکست دیں"۔
Written by: Mona Shehzad.
اس سال کے آغاز سے اب تک میں نے اپنے قریبی تین لوگوں کو کینسر سے لڑتے اور
بتدریج ہارتے دیکھا ہے۔ سب سے پہلے ہمارے احباب کے حلقے میں ایک جوان سالہ
دوست کو زندگی کی جنگ لڑتے اور دو ماہ میں ہارتے دیکھا ۔ پھر میں نے اپنے
عزیز از جان ماموں جان کی پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر سنی اور
ڈیڑھ ماہ میں ان کی موت کی خبر سنی ۔میرے ماموں جن کی آواز ایک عجیب سی گھن
گرج رکھتی تھی، میں نے فون پر ان کو بولنے کی جدوجہد کرنے کی کوشش کرتے سنا
۔میری آخری فون کال میں بڑی دقت سے بولے :
"بیٹا! پریشان مت ہونا، دعا کرنا کہ اس مرض کو ہم مینج کرسکیں تو کوئی مہلت
مل جائے ورنہ جو رب کی رضا"
13 جولائی کو بروز جمعہ میرے ماموں ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر اس جہان فانی
سے کوچ کر گئے ۔
19 جولائی کو مجھے اپنی والدہ کا ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ CCU سے فون آیا۔ میں
اسی رات پاکستان کے لئے روانہ ہوگئی ۔میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ
درحقیقت اللہ تعالی مجھے میرے اباجی سے آخری ملاقات کے لئے لے کر جارہا ہے
۔ مجھے جاکر پتا چلا کہ اباجی گردوں کی سرجری کے باعث انفیکشن کے باعث
ہسپتال میں داخل ہیں۔اباجی کی زرد رنگت اور تکلیف میرے چشم تصور میں اس
دوست کا چہرہ لاتی رہی جس کو ابھی کچھ مہینے پہلے ہی ہم نے الوداع کیا تھا
۔ میں نے اپنے گمان کو سختی سے جھٹلایا اور اپنے آپ کو وہمی قرار دیا
۔اباجی مجھے دیکھ کر بیماری کے باوجود بہت خوش ہوئے ۔ انھوں نے مجھے دیکھ
کر تھمبس اپ کا نشان بنایا اور بولے :
"اللہ تعالی سے ہمیشہ بیٹیوں کی دعا کرو۔ لوگ بیٹوں کے لئے منتیں مرادیں
مانگتے ہیں۔مگر درحقیقت بیٹیاں وقت آنے پر بیٹوں سے بڑھ کر ثابت ہوتی ہیں۔"
میں وہاں جاکر اباجی کی صورتحال دیکھ کر از حد پریشان ہوئی ڈاکٹروں پر زور
ڈالا تو چند ٹیسٹوں بعد پتا چلا کہ اباجی کینسر کا شکار ہیں۔کینسر کا آغاز
پروسٹیٹ گلینڈز نے ہوا اور وہ گردوں میں سرایت کرتا ، ان کی انتڑیوں کو
متاثر کرتا ، جگر کو کھاتا ، ہڈیوں کو دیمک لگاتا ان کے پھیپھڑوں میں ٹیومر
بناتا ان کے دماغ تک جا پہنچا ہے۔ میں نے اپنے زہین فطین اباجی کو بھولتے
دیکھا ۔ اباجی اکثر میرا نام بھول جاتے ۔ میں نے ان کو کھانا پینا چھوڑتے
دیکھا ۔میرے وہ اباجی جو Food lover تھے ۔ان کو Liquid پیتے یوئے بھی ضد
کرتے دیکھا ۔ اباجی کو سانس لینے کی جدوجہد کرتے دیکھا ۔میرا تعلق ایک
متمول گھرانے سے ہے اور اباجی نے ساری عمر OGDC میں ملازمت کرنے کے باعث
شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل جیسے ہسپتال سے علاج و معالجہ کی سہولت میسر ہونے
کےباوجود ہم کینسر کے ہاتھوں ہار رہے تھے ۔میں رات دن اس کوشش میں تھی کہ
کہیں سے کوئی علاج ایسا ہوجائے کہ میرے والدین شفا یاب ہوجائیں ۔ایک رات
CCU میں بیٹھے چند الفاظ میرے ذہن میں آئے۔ یہ الفاظ نہیں میری بے بسی کی
انتہا ہے ۔ شاید آپ کو ان میں چھپا کرب نظر آئے۔
آج کل عجب حقیقتوں کا ظہور یورہا ہے۔
مجھ پر اذیتوں کا نزول ہورہا ہے۔
اب ہے وحشتوں کا بسیرا اس دل وحشی میں۔۔۔۔
یہ کیسا ستم ؟ستم گیر ہورہا ہے ،
نکل نہ جائے میرا دم ۔۔۔۔
کچھ ایسی حقیقتوں کا علم ہورہا ہے۔
موت و زندگی کی کہانی ہے بہت چھوٹی سی ۔۔۔
بس اس کا علم مجھے اب ہورہا ہے۔
آجائے گا سکون کبھی مجھے بھی۔۔۔
پر ابھی تو میرا جان کنی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔۔۔
یہ وفا کس وقت ناپید ہوئی دنیا سے۔
اس کا ادراک مجھے اب ہورہا ہے۔
سہمی سی زندگی ہے موت کے سائے میں۔۔۔۔
میرے رخ سے دھیرے دھیرے جیسے سورج غروب ہورہا ہے۔
میں دیوانہ وار کوشش کررہی ہوں ۔۔
پر لگتا ہے کہ دلدل کا عزم مجھ پر قوی ہورہا ہے۔
دکھتا ہے جنھیں روز وشب کا سفر آسان ۔۔۔
کبھی وہاں بھی جھانک کر دیکھو ،
سفید کوٹوں والوں ، ٹھنڈی دیواروں کے بیچ،
دن کیسے گزرتا ہے؟
رات کیسے ڈھلتی ہے؟
ہے میری محبوب ہستیاں میرے سامنے۔۔
پر عجب ہے مولا! مجھ سے تو کچھ بھی نہیں ہورہا ۔۔۔
میں بے بسی کی انتہا پر تھی مگر اللہ تعالی کے رحیم و خبیر ہونے پر محکم
یقین تھا ،ہے ا،ور رہے گا۔ مگر والدین ہماری زندگی میں سورج جیسے ہی ہوتے
ہیں جو ہمیں نہ صرف روشنی دیتے ہیں بلکہ اپنے پیار کی حدت سے تمازت بھی
دیتے ہیں ۔ موت کا استعارہ دلدل جیسا ہی ہے کہ جو اس سے نکلنے کے لئے جتنی
کوشش کرتا ہے اتنا ہی اس میں ڈوبتا جاتا ہے ۔ جب میں آخری دفعہ اباجی سے
ملنے ہسپتال گئی تو انھوں نے کہا :
بیٹا! اللہ تعالی نے ملاقات کروادی اگرچہ آدھی تھی مگر یوگئ ۔اب مجھے رخصت
دو اور اپنی مٹھی کھول کر مجھے اپنے پیار سے آزاد کردو ۔آپ مسافر ہو اس لئے
دوران سفر اللہ تعالی سے ضد کر کے میری آسانی کے لئے دعا کرنا "۔
میں برستی آنکھوں سے واپس آگئی، سارے سفر اللہ تعالی سے ضد کرتی رہی ۔میں
واپس آکر بھی اپنا آپ وہاں چھوڑ آئی تھی ۔پھر 16اگست کو 1:30am پر میرے
اباجی کینسر سے جنگ ہار گے اور میرا سورج غروب ہوگیا ۔میرے سر پر موجود
سایہ دار درخت کٹ گیا۔ میرا آپ سب سے سوال ہے کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ
ہم کینسر جیسے عفریت کے خلاف نبرد آزما ہوئیں؟
میرے اباجی کو بہترین علاج و معالجہ کی سہولیات میسر تھیں مگر کیا
ہمارے ملک کے غریب عوام کو یہ سہولیات حاصل ہیں؟
ہمیں شوکت خانم میموریل ہاسپٹل جیسے ہسپتال ہر شہر میں درکار ہیں ۔ مگر
ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ عوام میں آگاہی کا سفر ضروری ہے ۔مردوں میں پروسٹیٹ
گلینڈز کا کینسر قاتل ہے تو عورتوں میں بریسٹ کینسر اور اووروین کینسر قاتل
ہے ۔ میرا آپ سب سے سوال ہے کہ ابھی اور کتنے پیارے اس عفریت کے ہاتھوں ہم
نے کھونے ہیں؟
خدارا اپنے صدقات و زکوات ان ہسپتالوں میں دیجئے ۔اللہ نہ کرے کہ کبھی اس
عفریت کا رخ آپ کے پیاروں کی طرف ہوجائے ۔ للہ جاگ جائیں ۔کینسر کے مریض کی
تکلیف کا آپ لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے ۔شاید جان کنی کی سختی ہی اس تکلیف
کا صحیح بیان ہے۔ کینسر ایک مرض نہیں ایک ہولناک عفریت ہے جو مریض کے ساتھ
ساتھ اس کے گھر والوں کا سکون بھی نگل جاتا ہے ۔ اگر آپ دس ڈالر بھی عطیہ
کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجئے سوچئے نہیں۔ اپنی قربانی کے لئے شوکت خانم
میموریل ہاسپٹل کو ضرور پیسے بھجوائیں ۔ میرے ماموں اور والد ایک بھرپور
زندگی گزار کر اس جہان فانی سے گئے مگر ان نوجوانوں اور بچوں کا سوچیں جو
اس مرض کے ہاتھوں علاج و معالجہ کی سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث دھیرے
دھیرے رخصت ہورہے ہیں ۔ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے بس اسی سوچ کے تحت عمل کے
لئے میدان میں اتر آئیے ۔اللہ تعالی ہمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ہماری کوششیں قبول فرمائے ۔
|