بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
وحیدالعصر‘تاج الشریعہ
( ۹ ۳ ۴ ۱ ھ )
جذباتِ قلبی :……ڈاکٹراقبال احمد اختر القادری
(یکے ازخلفائے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ/پرنسپل‘ مادرِ علمی انسٹی ٹیوٹ
اوف اسلامک ایجوکیشن،نارتھ کراچی)
۷؍ ذی القعدہ ۱۴۳۹ھ/ ۲۰؍جولائی ۲۰۱۸ء کی شام اخترانِ فلک کا اچانک بادلوں
کی اوٹ میں چھپ جانے کا عقدہ تب کھلا جب عالم اسلام میں یہ جان کاہ خبربجلی
کی طرح پھیلتے ہوئے فقیر تک پہنچی کہ
رفت اخترؔ رَضا خاں ذی احترام
چرخِ ادراک و دانش را ماہِ تمام
دنیا سے سنیت کا سکندر چلا گیا
آہ و بکا ہے چار سو اختر ؔچلا گیا
وارثِ علومِ رَضا‘جانشین مفتی اعظم ہند ‘سیدی وسندی‘ مرشدی و مولائی‘ قطب ِ
وقت ‘ مخدوم دوراں’’وحید العصر تاج الشریعہ‘‘ (۱۴۳۹ھ)حضرت علامہ مفتی
محمداسماعیل رضا خاں المعروف بہ مفتی محمد ا ختر رضاخاں قادری الا ز ہری
میاں ابن مفسر اعظم علامہ شاہ محمد ابراہیم رضا خاں قادری ابن حجۃ الاسلام
علامہ محمد حامد رضا خاں قادری ابن مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خاں محدث بریلوی نوراﷲ مرقدہم کیا گئے قلب ِمضطرب پر قیامت گزر گئی
،انا ﷲ و انا الیہ رٰ جعون……گرفتارِغم ‘ اسیرِغم …… دلی کیفیت کس طر ح بیاں
کرے!
کھویا کھویا سا پھر رہا ہوں میں
گویا صحرا میں لٹ گیا ہوں میں
آنکھوں سے آنسو رواں ، کیا کروں کیا نہ کر وں، آنسو ہیں کہ تھمتے ہی
نہیں!ہمارا یہ حال ہے تو پھر اہل خانہ کس کیفیت میں ہوں گے! جب جب خیال آتا
ہے‘ دل غم میں ڈوب ڈوب جاتا ہے ……انا ﷲ وانا الیہ رٰجعون !
یہ غم کسی ایک خاندان کا غم نہیں، یہ غم‘ عالمی غم ہے، پورے عالم اسلام
کاغم ، یہ غم‘اس دور کا غمِ عظیم ہے…… دنیائے اہل سنت افسردہ ہے……ہر آنکھ
اشکبار‘ ہر دل سوگوار…… وہ جنہیں دیکھے بنا اورجن کی آواز سنے بنا قرار نہ
تھا، اب ان کی یادیں اوران کی باتیں ہی دلوں کا قرار ہیں…… ان کی شخصیت باغ
و بہارتھی ، صد حیف! یہ بہار نذرِخزاں ہوگئی ،انا ﷲ وانا الیہ رٰجعون …… وہ
ہمیشہ دلوں میں رہیں گے ، وہ بظاہر آنکھوں سے دور ہوگئے مگر دل کے قریب ر
ہیں گے……قریب‘ ہاں اتنے قریب کہ
دل میں سجی ہے تصویر یار کی
جب نگاہ نیچے کی دیدار ہوگیا
مولیٰ کریم ان کی تربت ِ انور کو اپنے انوار وتجلیات سے معمور فرمائے …… ہم
سب کو اس صدمہء جانکاہ پر صبر و استقامت عطا فرمائے اور ہم سب کو اپنی اور
اپنے حبیب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی یاد و محبت میں ایسا محوکردے کہ دنیا
کے سارے غم و آلام سے بے نیاز کر دے۔ آمین
کیا کہوں تم سے بے قراری کی
بے قراری سی بے قراری ہے
اس میں شک نہیں کہ خاندانِ رضویہ کا ملت اسلامیہ پر بڑا احسان ہے خاص کر
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول ﷺ
کا جو حیرت انگیزوعالمگیر انقلاب برپا کیا ‘وہ کسی سے پوشیدہ نہیں
عشق را دامن دراز ست از ثریا تا ثریٰ
شہرۂ آفاق خواہی ، بلبل و پروانہ باش!
سیدی مرشدی حضور تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کی زیارت کیے ہوئے زیادہ عرصہ
نہیں گزرا ‘ان کے نورانی چہرے اورروحانی سراپا کی دید سے آج تک قلب و
نظرمیں اُجالا ہے …… یقین نہیں آتا کہ وہ تشریف لے گئے
جمالک فی عینی و ذکرک فی فمی
ان کی اصاغرنوازی اور علم پروری کا کیا کہنا……ضعف و بیماری سے قبل آپ ہر
سال کراچی تشریف لایا کرتے تھے‘ آپ کا آنا ہمارے لیے مثل عید ہوا کرتا،
فقیر آفس سے چھٹیاں لے کر ہر روز و شب آپ کی صحبت و خدمت میں گزارتا‘اس
دوران اپنی بعض علمی کاوشوں پر اصلاح اور مشورہ بھی لیتا رہتا ‘ آپ فقیر کی
کتب و رسائل کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور دعاؤں سے نوازتے‘ ایک مرتبہ کراچی
ہوتے ہوئے حرمین شریفین جا رہے تھے ‘اس دوران فقیر نے اپنے تیس رسائل کا
سیٹ یہ عرض کر کے آپ کے سامان میں رکھ چھوڑا کہ جب فرصت ہو ملاحظہ فرما
لیجیے گا……اﷲ اکبر! وہاں جا کرجب کسی نے وہ رسائل دکھائے تومدینہ منورہ سے
ا پنی تقریظ ارسال فرماکراصاغرنوازی اور علم پروری کی ایسی مثال قائم کی جس
کی نظیر کم ہی ملے گی‘اس تقرظ میں تحریر فرمایا:
’’ مدینہ منورہ حاضر ہوا تو ایک عزیز نے عزیزی ڈاکٹر محمد اقبال احمد
اخترالقادری کے متعدد رسائل دکھائے جنہیں فقیر نے اہل سنت کے لیے نہایت
مفید پایا۔ موصوف اپنی دلنشیں تحریروں میں مسلک اعلیٰ حضرت کی خوب احسن
انداز میں ترجمانی کرتے ہیں ،ان کا انداز سہل ہونے کے ساتھ ساتھ متاثر کن
بھی ہے۔ تبلیغ دین متین میں اکثر سفر پر رہتا ہوں میں نے ہندوستان کے مختلف
شہروں کے علاوہ برطانیہ،افریقہ،ھالینڈ اور سری لنکا وغیرہ ممالک میں بھی ان
کی نگارشات کو مقبول عام پایا۔ موصوف کو اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا شاہ
احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اﷲ تبارک و تعالیٰ عنہ سے والہانہ عقیدت ہے
فقیر جب بھی پاکستان گیا ان کو ہر جگہ اپنے گرد و پیش ہی پایا جو کہ ان کی
فاضل بریلوی سے عقیدت و محبت کی دلیل ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تبارک و
تعالیٰ اس صالح نوجوان کو دنیائے اہل سنت کے لیے چشمہء علم بنائے۔ آمین‘‘
وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کی روحانی فیض رسانی‘بے پناہ شفقت
و محبت، بیکراں عنایات اور بے پایاں نوازشات نا قابل فراموش ہیں…… افسوس یہ
پیکر محبت و صفا ہم سے جدا ہو گیا
می روی و گریہ می آید مرا ساعتے بنشیں کہ باراں بگز رد
’’وحید العصر تاج الشریعہ‘‘حضرت علامہ مفتی محمد ا ختر رضاخاں قادری الا ز
ہری نوراﷲ مرقدہ کے ایوانِ علم و عمل اور ان کی تابناک زندگی کے گوشوں کو
چند اوراق میں بیان کرنا محال ہے ‘ وہ شہر عشق و محبت‘ مرکز اہل سنت بریلی
شریف کی آن،بان،جان اور شان تھے…… ۲؍ فروری ۱۹۴۳ء کوبریلی شریف ہی میں
پیدا ہوکر اپنے قدوم لزوم سے خانوادے کو رونق بخشی اورسارے عالم کو اپنے
اختر ِعلوم سے منور کر تے ہوئے ۷؍ ذی القعدہ ۱۴۳۹ھ/ ۲۰؍جولائی ۲۰۱۸ء کی
شام وہیں فلک ِموت کی آغوش میں چھپ گئے…… انا ﷲ و انا الیہ رٰجعون
وہ عالم اسلام کی ان قد آور شخصیات میں تھے جنھیں ماضی و حال کے بے پنا علم
و فضل اور تقویٰ وطہارت کی لازوال دولت سے نوازا گیا تھا…… اُن کی سب سے
بڑی خدمت‘ خود اُن کی اپنی تابناک اور قابل عمل زندگی ہے جو اِتباع شریعت و
سنت کا چلتا پھرتا نمونہ تھی…… انہوں نے عہد ِحاضر کے فتنہ پرور ماحول میں
اپنی تحریرو تقریر سے ملت ِاسلامیہ کی قدروں کی جو حفاظت فرمائی وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں……ان کی نورانی شخصیت میں روحانیت کا جمال بھی تھا اورشریعت کا
جلال بھی ……اُن کے پیکر میں استحکام کا سکون بھی تھا اور انقلابی شرارے
بھی……بحیثیت ِمفتی‘ دینی فیصلوں کے نفاذ میں اُن کی پرشکوہ اور مبسوط شخصیت
جب ایک بار اپنی رائے پیش کر دیتی تو کسی کو تنقید اور تبصروں کی مجال نہ
تھی…… اُن کے فکر و نظر کی اصابت، علم وفن کا تبحر، فضل و کمال کی انفرادیت
اور شریعت و سنت کے ارتقاء کی راہوں میں ان کے جذ بہء ایثار کی عظمت کواہل
عجم ہی نہیں عرب کے علماء و مشایخ نے بھی تسلیم کیا …… اُن کے معاصرین میں
دور دور تک اُن کی علمی و روحانی اور فقہی صلاحیتوں کے اعتبار سے کوئی ہم
پلہ نظر نہیں آتا…… اعلیٰ ذہانت، دور اندیشی،استحضارِعلمی، معاملہ فہمی،
فقہ میں محارت اور حاضر دماغی انھیں اپنے اجدادکرام‘ خاص کر اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا اور مفتی اعظم ہندشاہ محمد مصطفی رضا خاں قادری رحمۃ اﷲ
علیہم سے ورثہ میں ملی تھی…… علوم متداولہ میں ید ِطولیٰ اور فقہ کی جزئیات
پر بلا خیز دِقت نظر دیکھ کربڑے بڑے افتاء کے مسند نشین خوشگوار حیرت میں
پڑجایا کرتے …… قرآن، تفسیر،حدیث ، ادب ، تاریخ، فلسفہ، منطق، کلام اور
جمیع علوم پر گہری نظر اور وسیع مطالعہ تھا……درس و تدریس اورعالمی تبلیغی
دوروں کے علاوہ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ عربی میں بھی تصنیفی کام کیاجسے
پڑھ کر اہل عرب بھی دنگ رہ گئے ،کراچی کی عالمی میلاد کانفرنس منعقدہ
۲۰۰۲ء کے موقع پر اس فصاحت و بلاغت سے عربی خطاب فرمایا کہ اُن کی عربی
سلاست ِکلام سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ عجمی نہیں کوئی عربی عالم ہیں ، گویا
عربی زبان و ادب اُن کی ذاتی میراث بن چکے تھے جس کا اظہار اُن کی انشاء
پردازی اور عربی خطابت میں مقتضائے حال مقولے، مقفیٰ و مسجع عبارات اور
موزوں اشعار کے فی البدیہہ استعمال سے صاف ہوتا تھا……ان کی لکھی قصیدہ بردہ
شریف کی شرح ’’الفردۃ فی شرح البردۃ‘‘ عربی زبان و ادب میں ایسا شاہکار ہے
جسے پڑھ کر ان کی عالمانہ ندرت‘ عربی زبان و سخن پر گرفت اور انداز ِکلام
کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے‘ ساتھ ہی اُن کی اعلیٰ ذہانت کے نقش و
نگار ، زبان و بیان کی سلاست، عربی جملوں کی ترتیب و تہذیب میں فصاحت و
بلاغت اور معنی خیز استعارے،تخیل ومحاکات کی فراوانی، جذباتِ دل کے
انکشافات، عشق کا فیضان اور درد مند دل کا الہام بڑے بڑوں کو ایک لمحے کے
لیے ورطہء حیرت میں ڈال دیتے ہیں…… لوح وقلم کے اِن تمام مراحل سے گزرتے
ہوئے ان کی معقولیت پسند دل نوازی ، اجتہادِ فکراور جرأت رِندانہ ہر ہر لفظ
سے نمایاں ہے…… عشق کی منزل یقینی طور پر ایک دشوار منزل ہے، اس سے سرخرو
ہوکر گزرنا اتنا آسان نہیں ہوتا‘ترجمانی کے لیے الفاظ ان کا بار اُٹھاہی
نہیں سکتے……’’الفردۃ فی شرح البردۃ‘‘ کو پڑھیں تو سطر سطر پرعشق بے نیاز کا
پہرہ نظر آئے گا جو حضرت تاج الشریعہ کی داخلی زندگی کا حسن و کمال بھی
تھا……’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ کی شرح کے ایک ایک لفظ سے کوثر وتسنیم کے چشمے
پھوٹے پڑتے ہیں‘اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اس قصیدہ کی عربی شرح لکھ کر حضرت
امام بوصیری کے جذب ومستی، فکر وفن،ان کے بے پناہ عشق اور ذوق تصوف کود و
با رہ زندہ کرد یا ہے‘ تو بے جا نہ ہوگا ۔
وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ نے عالمی تبلیغی دوروں میں مصروفیت
کے با وجود قلمی میدان کو بھی تشنہ نہ چھوڑا ‘ ان کی تصنیفات نے اپنے دامن
سیماب میں معلومات وحقائق کے جتنے اقلیم اور آفاق تلاش کیے یہ انھیں کا حصہ
ہے…… ان کی تمام تحریروں میں موضوع سے متعلقہ مباحث سے مظاہرات فن کا عکس
پھیلا نظر آتا ہے ……
وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ نثر کے ساتھ ساتھ د بستانِ رَضا کے
نہایت ہی پرجوش‘ معتبر اور بلند پایہ شاعر بھی تھے، ان کے اشعار کا ایک ایک
لفظ ادبِ لطیف کے عرق دو آتشہ میں ڈوبا ہوانظر آتا ہے، وہ جس جذ بہء بے
خودی اور سوزِ دروں سے اپنے محبوبِ حقیقی کوپکارتے ہیں اس میں بظاہر کسی
اور ترفع کی گنجائش نظر نہیں آتی…… کشورِ نور کے پیکر ِلطیف اورعرشِ اولیٰ
کے مسندنشین کی با رگاہِ ناز میں ان کی اجابت کا حال‘ اﷲ اکبر! مدحت ِسرکار
دو عالمﷺ کرتے وقت وہ افکار و خیالات کی شاطگی کے بجائے اپنے عشق لازوال تک
براہ راست رسائی حاصل کر کے اپنے اعجازِ ہنر سے اصنافِ سخن کے ماہرین کو د
یدۂ حیر ت میں گم کر دیتے ہیں…… فن شاعری میں زبان و بیان کی اہمیت کیا ہے،
ترسیل و ابلاغ کی راہوں میں کس قدر دشواریاں در پیش ہوتی ہیں، ایک سخنور کو
زندگی کی تزئین و تعمیر اور اس کے بقا کے لیے کیا کردار ادا کرنا چاہیے،
حضرت تاج الشریعہ کا سیال قلم فطرت کی حنا بندیوں سے خوب واقف تھا، وہ غیر
مرئی سے مرئی کی صورت پذیری کا ہنر جانتے تھے……فن شاعری اور نعت گوئی ان کے
لیے کوئی نئی چیز نہ تھی کہ یہ تو انہیں گٹّی میں ملی تھی……’’الفردۃ فی شرح
البردۃ‘‘ کے علاوہ ان کے مجمو عہ ہائے کلام’’نغماتِ اختر‘‘ اور’’سفینہء
بخشش‘‘ پاک و ہند سے متعدد بار شائع ہوکر اہل سخن سے مسلسل دادپا رہے ہیں۔
وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کی تصنیفات کی ایک گرانقدر فہرست
ہے …… عربی ہو یا فارسی ، اردوہو یا انگریزی‘ان سب زبان و ادب پر انہیں
مکمل دسترس حاصل تھی…… ان کی جامع اور وقیع تصانیف سے ہر صنف سخن پر ان کی
گہری نظر اور وسیع مطالعہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تحقیق و تدقیق کے
حوالے سے ان کا رنگ دوسروں سے حددرجہ منفرد اور اثر پذیر ہے…… انہوں نے
اپنی وقیع ومؤثر نگارشات کے ذریعے ملک و بیرون ملک کی جدیدکلیات و جامعات
کا رشتہ اسلاف ِکرام کی خانقا ہوں سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا …… خاص
کر ان کی عربی تصانیف نے عالم عرب میں اہل سنت و جماعت کا حقیقی تعارف پیش
کیا‘ جن میں معمولات اہل سنت کوپہلی بار استدلال کی سطح پر پیش کیا گیا
تھا‘آپ کی اس حکیمانہ روش سے عالمی سطح پر مسلک حق اہل سنت اور خانوادۂ
رضویہ کا وقار بلند ہوا۔
اپنے اجدادِ کرام کی طرح وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کی بحر
علوم شخصیت عالم اسلام میں مرجع فتاوٰی بھی رہی ہے اوررہتی بھی کیوں نہ کہ
ان کی ذات مرکز علم و فن تھی…… وہ مفتی بھی تھے ……وہ قاضی بھی تھے ……وہ
مفسر بھی تھے ……وہ محدث بھی تھے ……وہ فقیہ بھی تھے ……وہ فلسفی بھی تھے ……وہ
مایہ ناز مفکر بھی تھے……وہ ایک عظیم دانشور بھی تھے ……وہ کہنہ مشق شاعربھی
تھے ……وہ ادیب بے بدل بھی تھے ……وہ دعوت و عزیمت اور جرأت و استقامت کی
تمام تر خوبیوں سے مرصع و مسجع بھی تھے تو بھلا پھر کیوں نہ مرجع فتاوٰی
ہوتے……ان کے فتاوٰی کے مجموعہ کی اب تک پانچ جلدیں بنام’’العطایہ الر ضویہ
فی فتاوٰی الازہریہ‘‘ مدون ہوچکی ہیں اور مزید پر کام جاری ہے…… اس سے قبل
فتاوٰی تاج الشریعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
وہ صفاتِ حسنہ کے جامع اور کوہِ ہمت و استقامت تھے…… وہ شہید ِتسلیم و رضا
تھے کہ انہوں نے نہ صرف غیروں بلکہ اپنوں کی نشتر زنی پرجس حکمت اور ضبط و
تحمل کا مظاہرہ فرمایا وہ ان کا خاص امتیاز رہا…… فقیر نے انہیں یونہی شہید
ِتسلیم و رضا نہیں کہ دیا‘ بلکہ اس پر ساری دنیا گواہ و شاہد ہے کہ وہ
رضائے الٰہی میں فنا ہوکر شہید ِتسلیم و رضا کے منصب ِعالی پراس شان سے
متمکن و فائز ہوئے کہ کروڑوں انسانوں کا اژدھام دیکھنے کواُمنڈ آیا
قسمت نگر کہ کشتہ شمشیر عشق یافت
مر گے کہ زندگاں بہ دعا آرزو کنند
خم ہیں یہاں جمشید و سکندر اس میں کیا حیرانی ہے
ان کے غلاموں کا اے اخترؔ رُتبہ ہی کچھ ایسا ہے
وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کا چلے جانا‘عالم اسلام اور خاص کر
دنیائے اہل سنت کے لیے سخت جا ن کاہ غم ہے……اﷲ کریم حضرت تاج الشریعہ نوراﷲ
مرقدہ کو جوارِ قدس میں مقام رفیع عطا فرمائے…… ان کی تربت ِپاک کو اپنے
انوار وتجلیات سے معمور فرماکر کروڑہا رحمتوں اور برکتوں کی بارش فرمائے،
آمین…… مولائے کریم ہم سب کو ہمت و استقامت اور صبر و شکیب ارزانی عطا
فرمائے……حضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کے لائق و صالح جانشین حضرت علامہ
مفتی صاحبزادہ محمد عسجد رضا خان قادری مدظلہ العالی کو اپنے اجداد کرام کا
مظہر کامل بنائے……ان کے وجودِ عسجد سے فیض رَضا کا چشمہ جاری وساری رہے……
اﷲ کریم وحید العصرحضرت تاج الشریعہ نوراﷲ مرقدہ کے ارادت مندوں اور تمام
اہل سنت کا اختر بلند فرمائے۔آمین
یا الٰہی دو جہاں میں سرخ روئی ہو عطا
کر بلند اختر‘ حضور اخترؔ رَضا کے واسطے |