عمل سے زندگی بنتی ہے

پھر سے شور اٹھا ہے خاکوں کے مقابلے کا! میں ایک بات سوچتی ہوں کہ جب مسلمانوں کو غرض نہیں کہ کس طرح کسی مذہب کے مقدس پیشواؤں کا مذاق اڑایا جائے یا کس طرح ان کی تذلیل کی جائے تو آخر دوسرے مذاہب کو اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے اس قدر محنت کرتے ہیں؟ اپنا وقت اپنا پیسہ اس کام پر لگانے کے پیچھے کیا راز ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ کیا یہ مقابلہ ہر دو تین سال بعد صرف یہ دیکھنے کے لیے نہیں ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام اختلافات زیادہ پائیدار ہیں یا نام محمد کی پاسداری و حفاظت زیادہ اہم ہے؟ کون سا مقابلہ ہوگا جب مسلمان اسے آزادی اظہار رائے کہہ کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں گے؟ لیکن آخر اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ مسلمانوں کی محبت کی گہرائی کی پیمائش سے کسی کا کیا مفاد وابستہ ہوسکتا ہے؟ کیا اطمینان چاہتے ہیں یہ لوگ؟ اور کیا مقصد ہے جو حاصل ہوکر نہیں دے رہا ہے؟ ہر بار جب خاکوں سے متعلق مقابلہ شروع ہوتا ہے ہر مسلمان فرقہ اپنے جھگڑے پیچھے کرکے دوسرے فرقے سے اتحاد کا اعلان کردیتا ہے. اس میں کیا خاص بات ہے؟ نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم میں ایسی کیا کشش ہے جو اپنی طرف اٹھنے والی آنکھ کو جھک جانے پر مجبور کردیتی ہے؟ اپنے نام لیواؤں کو ہر اختلاف بھلا کر یک جان کر دیتی ہے؟ یہ جو کردار کے غازی نہیں رہ گئے کیوں نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر شہید ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں؟ مجھے ان سوالات کے جو جواب ملتے ہیں وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب کا وہ مقام ہے کہ اللہ اس کی ناموس حفاظت کے لیے جو چاہے کر سکتا ہے وہ محبوب جس پر رب العالمین اپنے فرشتوں کے ساتھ خود بھی درود بھیجتا ہے اس کے نام کی سلامتی اور آبرو کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ اور کیا یہ حفاظت ان بے عمل غفلت کی کہر میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں کے احتجاج کی محتاج ہے؟ ہرگز نہیں! لیکن بس یہ اللہ کی طرف سے ایک موقع ہوتا ہے مسلمان کے لیے کہ وہ اس نبی سے اپنی محبت ثابت کرے کہ جس نے اپنی موت کے وقت بھی اللہ سے اپنی امت کے مستقبل کا سوال کیا تھا. وہ نبی جس کی محبت پر ماں باپ کی محبت پیچھے کیے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا. مقابلے ہوتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ آج کتنے باعمل لوگ باقی رہ گئے ہیں؟ اگر ہم اپنے آپ کا ایک نظر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی ایک چھوٹی سی سنت بھی ایسی نہیں جو اب ہماری زندگی میں شامل رہ گئی ہو. سنت رسول اللہ پر کوئی عمل نہیں اور رسول اللہ سے محبت کے دعوے؟ عام زندگی میں انسان کسی سے محبت رکھتا ہے تو اس کی زندگی میں اس کے محبوب کی پسند نا پسند کی جھلک ملنے لگتی ہے، دوست اپنے دوستوں سے ملتے جلتے لباس پہننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے جیسا انداز گفتگو اپناتے ہیں، شوہر بیوی ایک دوسرے کی پسند نا پسند میں ڈھلنے کی کوشش کرتے ہیں. تو جب عام زندگی میں محبوب کی مشابہت اتنی اہم ہے تو کیا رسول اللہ، خاتم الأنبياء والمرسلين، رحمت دو عالم کی محبت اتنی کمزور کہ صرف باتوں سے کام چلایا جا رہا ہے؟ صرف دعوے؟ نعرے بازی، احتجاج؟ یہ کافی ہے ناموسِ رسول اللہ کے لیے؟ ہمارے رسول کے نام پر انگلی اٹھانے والے دراصل یہی تو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس امت کو نبی کی سنت پر عمل کرنے کا شوق نہیں ہے اسے نبی پر جان دینے کا شوق کیسے ہو سکتا ہے؟ اس بات پر ان کی حیرت صدیاں گذرنے کے بعد بھی برقرار ہے، ہر بار کتنے ہی سرپھرے اٹھتے ہیں اور نام محمد پر جان قربان کردیتے ہیں. ٹھیک ہے میں مانتی ہوں کہ یہ محبت بھی ایک معجزہ ہے جس کا ثبوت عملی زندگی میں نہیں دیتے ہم لیکن اس کے نام پر آنچ بھی آنے کا امکان ہو تو سب ایک ساتھ چلا اٹھتے ہیں. مگر ساتھیو! ایک بات قابل توجہ ہے کہ جس نام کی حفاظت رب العالمين خود کرتے ہیں تو ہمیں دراصل کیا ایسا کرنا چاہیے کہ سچ مچ ہم محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے مشابہت اختیار کر سکیں؟ ہمارا امتحان اسی لئے لیا جاتا ہے اور لیا جاتا رہے گا کہ ہم تو اب الگ الگ انداز کے لوگ ہیں، الگ الگ حلیے الگ الگ ترجیحات. تو کیا اب بھی ہم ایک نام کی عزت کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں گے؟ اگر ہم اپنے انداز اپنے عمل میں اپنے نبی کریم کی مشابہت اختیار کر لیں تو دیکھنے والوں کو ہماری آزمائش کی ہمت نہیں ہوگی. انھیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جس امت کو اپنے نبی کے عمل دہرانا پسند نہیں وہ کیا محبت رکھتی ہوگی؟ میں نے کہا نا کہ یہ تو بس ایک معجزاتی محبت ہے کہ ہم جس نبی کے کسی عمل سے محبت نہیں رکھتے اسے نہیں اپناتے اسی کے نام کی حفاظت پر جان دینے کو تیار ہیں! لیکن کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ہم باتوں کے بجائے عمل سے بھی ثابت کردیں؟ کسی کو بھی یہ موقع کیوں دیں کہ وہ اپنی حیرت مٹانے کے لیے ہمارے جذبات سے کھیلنے لگے؟ اس مقابلے کا صحیح جواب یہی ہے کہ ہم خود اپنے آپ میں رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ و سلم جیسے نظر آئیں. پھر کیا کوئی جرات کرسکے گا کہ ہمارے سامنے ہمارا مذاق بنائے؟ سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم صرف داڑھی رکھنا نہیں، صرف اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھانا نہیں، صرف نماز روزہ زکوٰۃ نہیں سنت ایک ضابطہ حیات ہے جس میں ڈھل کر نرمی اور خلوص کا پیکر بن جاتا ہے انسان. دوسروں کے لیے سراپا محبت مگر دین پر انگلی اٹھانے والے کے لیے سخت گیر. اور ہمارے پاس تو ایک نایاب مثال موجود ہے جو دین کے پیروکار ہیں وہی دین کی مخالفت پر دلائل جمع کر رہے ہیں، اسلام کی اہمیت کم اور انسانیت کی اہمیت بڑھا رہے ہیں. اسلام اور انسانیت الگ الگ ہوسکتی ہے؟ جس دین کے پیغمبر اپنی موت کے وقت اپنی امت کو غلاموں کے متعلق نصیحت کرتے ہیں ان کا خیال رکھنے ان سے نرمی کرنے کی وصیت کرتے ہیں بھلا وہ انسانیت کے خلاف کوئی بات کرسکتے ہیں؟ جتنے لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں ان کی غلط فہمی کا جواب اس سے بہتر طریقے سے دیا ہی نہیں جا سکتا ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ کو زندگی کے ہر شعبے میں رائج کردیں اور اپنے اخلاق اور اطوار سے ثابت کریں کہ "ہم اپنے نبی سے اپنے والدین سے بڑھ کر محبت رکھتے ہیں". کیوں کہ نبی کی محبت انسانیت کی ضمانت ہے ❤️

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔ ❤️

فاطمہ عنبرین
 

فاطمہ عنبرین
About the Author: فاطمہ عنبرین Read More Articles by فاطمہ عنبرین: 14 Articles with 27924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.