مولانا طارق جمیل بہت دلنشین انداز میں خطاب فرماتے ہیں
اور سننے والے ان کے بیان کے سحر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ علامہ ڈاکٹر طاہر
القادری کا خطاب بھی سامعین کو اپنے گرفت میں رکھتا ہے۔ ان کے مدلل اور
علمی خطاب کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں علامہ طاہر القادری سویڈن
کے دورہ پر تشریف لائے اور انہوں نے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ ان
کے تین روزہ دورہ کے دوران کوشش کے باوجود ان سے ایک اہم انٹرویوکرنا چاہتے
تھے لیکن یہ نہ ہو سکا ۔ کچھ یہی صورت حال مولانا طارق جمیل کے سویڈن کے
دورہ میں پیش آئی اور ان سے بھی انٹرویو کا وقت نہ مل سکا ۔دور جدید کے
مسائل کے حوالے سے وہ سوالات جو ان دونوں شخصیات سے کرنا چاہتے تھے وہ اب
اس کالم کی صورت پیش کررہے ہیں تاکہ وہ دونوں شخصیات یا دیگر علماء کرام
اپنے جوابات سے ہماری رانمائی فرماسکیں۔ علامہ طاہر القادری کا سویڈن میں
خطاب بہت اہم تھا اور انہوں نے عملی نوعیت کی ایسی باتیں ارشاد فرمائیں
جنہیں اپنانے کی بہت ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ان
کا خطاب پونے دوگھنٹوں پر محیط تھا اور ہال میں شدید گرمی کی وجہ سے لوگوں
کا برا حال ہورہا تھا خصوصاََ عورتوں اور بچوں کے لیے بہت مشکل صورت حال
تھی۔ اس قدر طویل خطاب کی بجائے بہتر ہوتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ
تقریر کرتے اور باقی وقت سوالات کے لیے وقف کرتے کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں
بہت سے سوالات تھے جو ان سے پوچھنا چاہتے تھے۔ ایک اور اہم معاملہ یہ کہ
بلاوجہ تاخیر سے اچھا تاثر نہیں ملتا۔ اسٹاک ہوم میں منہاج القرآن کی تقریب
پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر عبد الستار بابر کا کہنا
تھا کہ دو گھنٹے کی تاخیرپر کم از کم معذرت تو کرنی چاہیے تھی۔یورپ میں
جہاں پابندی وقت ایک عام شعار ہے وہاں اس طر ز عمل سے علماء کیا تبلیغ کریں
گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امت مسلمہ کو جو درپیش چیلنج ہیں ان کے بارے میں
کچھ نہیں کہا گیا۔
بہر حال اب ان سوالات کی جانب جو ان سے پوچھنا چاہتے تھے۔ پہلا سوال کیا آپ
اس سوچ سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی ایک فقہ دور جدید کے ہمارے تمام مسائل حل
نہیں کرسکتی اور اس لیے ہمیں ایک فقہ سے نکل کر دوسری فقہی پیراڈائم میں
جانے کی ضرورت ہے۔ کیاکچھ فقہی مسائل پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں اور کیا
امور پر آئمہ اربعہ سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔علامہ اقبال نے اپنے خطبات
میں اجتہاد کی جس ضرورت پر زور دیا ہے کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں اور اس
کا طریقہ کیا ہو گا۔کیا اس دور میں اجماع امت ممکن ہے اور اس کا اجماع کا
فورم کیا ہوسکتا ہے۔ کیا دور حاظر میں عالم اسلام میں کسی مسئلہ پر اجماع
امت کی کوئی شکل موجود ہے ۔ایک اور اہم مسئلہ پردے کا ہے۔ یورپ میں عورتوں
کوعملی زندگی میں مصروف رہتے ہوئے ملازمت بھی کرنا پڑتی ہے۔ کیا عورت کے
لیے چہرے اور بالوں کو ڈھانپنا لازم ہے اور کیا نقاب پردے کا لازمی جزو ہے۔
ہماری شادی بیاہ اور دوسری سماجی تقریبات میں ہماری ملی روایات اور تہذیب
اسلامی کی چھاپ ختم ہوتی جارہی اور نام نہاد جدیدیت کا رنگ گہرا ہوچکا ہے ۔اس
چیلنج کا مقابلہ کیسے کریں گے ۔کیا اسلام کا مقصد صرف تزکیہ نفس ہے اوریاست
کا قیام اس کا مقصد نہیں؟ حلال حرام کی اتھارٹی کس کے پاس ہے؟ کیا حلال
حرام ہمیشہ کے لیے قطی ہوتا ہے یا بدلتا رہتا ہے ۔ کیا علما کو یہ حق حاصل
ہے کہ کسی چیز کو ایک وقت میں حرام قرار دیں لیکن کچھ عرصہ بعد اسے حلال
میں شمار کریں ۔فنون لطیفہ آرٹ ،موسیقی، مجسمہ سازی اور دیگر فنون کیا
اسلامی نقطہ نظر سے درست ہیں۔
یورپ میں مسلمان ایک اقلیت ہیں اور آپ کی نگاہ میں مسلمانوں کو یہاں کس طرح
چیلنجز درپیش اور آپ کی نظر میں ان کا کیا حل ہے۔کیا یورپ میں مسلمانوں کو
الگ سے شرعی عدالتوں کی ضرورت ہے یا مروجہ ملکی قوانین اور عدالتی نظام ہی
کافی ہے۔فتوی کی قانونی حیثیت کیا ہے اور ایسا جاری کرنے کا کسے حق حاصل
ہے۔ نیز کسی کے خلاف مذہبی نظریات سے اِختلاف پر لوگوں کے جذبات ابھارنا
کیا درست طرز عمل ہے ۔سود جسے حرام قرار دیا گیا ہے اس کی درست تعبیر کیا
ہے؟ یورپ کے ایک غیر مسلم معاشرہ میں رہتے ہوئے ایک مسلمان کو گھر، گاڑی
اور دیگر ضروریات کے لیے اکثر قرض لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جس پر کچھ
اضافی رقم یا سروس چارجز دینا پڑتے ہیں۔ کیا یہ جائیز ہوگا۔ سرمایہ پر
منافع لینا اگر سود کے زمرہ میں آتا ہے تو اگر سرمایہ کی صورت بدل کر اس سے
گھر یا گاڑی خرید کر کرایہ پر دی جائے تو اس کا منافع کیسے جائیز ہوگا۔قرآن
حکیم کے اکثر مترجمین نے اپنے ترجمہ میں بریکٹ ڈال کر میں اپنی جانب سے وہ
الفاظ لکھے ہوتے ہیں جو آیت میں ہوتے ہی نہیں۔ کیا یہ درست رویہ طرز عمل
ہے۔ وہ الگ سے فٹ نوٹ میں تشریح لکھ دیں تو الگ بات ہے لیکن ترجمہ میں
بریکٹ ڈال کر لکھنا درست طرز عمل ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث کے مطالعہ سے یہ
کیسے معلوم ہوگا کہ یہاں حکم دیا جارہا ہے اور یہاں صرف تاکید کی جارہی ہے۔
اعضا کی پیوند کاری اور بعد از موت اعضا عطیہ کرنے کے بارے میں آپ کی کیا
رائے ہے۔اولاد سے محروم جوڑوں کو اولاد کے حصول کے لیے سیروگیٹ مدر کا
طریقہ اپنایا جارہا ہے۔ کیا شریعت اسلامی کے مطابق یہ درست ہو گا۔ کیا حصول
اولاد کے لیے بچی دانی کا عطیہ لینا جائیز ہوگا۔ہمیں امید ہے کہ ہمارے
ہمارے صاحبان علم ان اہم سولات کے جوابات عنائیت فرما کر راہنمائی فرمائیں
گے ۔ |