چندسکوں میں بکتا ہے یہاں انسان کا ضمیر
کون کہتا ہے میرے ملک میں مہنگائی بہت ہے
آخروجہ کیا ہے کہ پاکستان آئے روز مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے
اس ملک کا جو بھی حکمران آیا اس نے معیشت،سیاست،معاشرت،عدل وانصاف ملک
کوکرپشن سے پاک کرنے کے دعوے کیے مگرجب ہم اس کے نتیجے پرپہنچتے ہیں تو
نتیجہ صفرہی نکلتا ہے سیاست کا مطلب خدمت ہے لیکن اس نظریے کوچھوڑ کرہمارے
حکمرانوں نے سیاسی کرپشن کو زیادہ ترجیح دی جس وجہ سے ان کے خزانے توبھرگئے
پرعوام کے چولہے ٹھندے پڑگئے اب جیسے ہی عیدقریب آرہی ہے مہنگائی اپنے عروج
کوچھو رہی ہے اب گائے کا ایک حصہ 10,000سے اوپرتک ہے اور اگربکرامنڈی جائیں
تو 90,000سے تو کئی جانور ملنے سے رہا اور تواور بکرے 40,000ہزار سے لے
کرلاکھوں تک چلے جائیں عیدپرجانوروں نے قرباں ہونا ہے مگر عید سے پہلے عام
عوام قربان ہورہی ہے اب اگرکوئی آدمی جانورلے بھی آئے تو چنددنوں میں
بیمارہوجاتا ہے کیونکہ بیوپاری حضرات کے دل سے اﷲ کا خوف نکل گیا ہے اسی
وجہ سے اسپغول کا چھلکا گندم مکس کرکے جانوروں کو کھلاتے ہیں جس سے جانوروں
کاپیٹ پھول جاتا ہے مگرجب لوگ انہیں خریدکرگھرجاتے ہیں وہ بہت ہی کمزور
ہوجاتے ہیں اب انسان کس پراعتبارکرے مسلمانوں کی اس سنت کو بھی لوگوں نے
اپنا کاروباربنا لیاہے پہلے ہی پیٹرول، بجلی،گیس اور روزمرہ کی چیزوں میں
اضافہ سے عوام بے حال تھی عیدپرمہنگائی نے عوام کی کمرتوڑ کررکھ دی اس ڈیڑھ
ماہ میں مہنگائی کی شرح میں تقریباً 80فیصداضافہ ہوا ہے اگرایسا چلتارہا تو
لوگ جلد نئے پاکستان کے خواب کو خودہی توڑدیں گے ۔قربانی اﷲ تعالیٰ کی رضا
اور خوشنودی کیلئے ہوتی ہے اسی وجہ سے جتنی بھی مہنگائی ہوعوام قربانی
ضرورکرتے ہیں تا کہ اس کا پورا پورا اجرمل سکے اسی حوالے سے حضرت زید بن
ارقم سے روایت ہے کہ آپ نے حضورنبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ اے اﷲ کے پیارے
حضور قربانی کا ہمیں کتنا اجرملتا ہے توآپ ﷺ نے فرمایا قربانی کے جانورکے
ایک ایک بال کے برابرثواب(ابن ماجہ)اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ کے نزدیک قربانی سے زیادہ کوئی عمل
زیادہ پیار نہیں ہے قربانی کا جانورآخرت کے روز اپنے سینگ بال اور کھروں کے
ساتھ آئے۔ قربانی کرتے ہوئے جانور کا خون زمین پرگرنے سے پہلے اﷲ پاک قبول
کرلیتے ہیں اسی وجہ سے قربانی خوش دلی سے کرو(ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ)حضرت
عمرفاروق فرماتے ہیں آپ ﷺ مدینے میں دس سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کی (ترمذی)۔100میں
سے پچاس لوگوں کو قربانی کے فلسفے کا پتہ بھی نہ ہوگا کہ کس طرح اﷲ کے
پیارے دوست حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اﷲ کی رضا کے لیے اپنے ہی لخت جگرکی
گردن پر چھری چلا دی آپ کی عاجزی و انکساری اﷲ پاک کو اتنی پسند آئی کہ اﷲ
پاک نے فرشتوں سے فرمایا کہ اے فرشتو گواہ رہنا میں سنت ابراہیمی کو قیامت
تک زندہ رکھوں گا اور کئی سو سال بعد بھی لوگ سنت نبوی کو نبھاتے ہوئے
قربانی کرتے ہیں۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ہم سنت ابراہیمی کی پیروی
کررہے ہیں؟ کیا ہم اﷲ پاک کی رضا اور خوشنودی کیلئے قربانی کرتے ہیں یا اس
لیے کہ ہمارے بچے کھل کرگوشت کھائیں گے؟ کیا ہم دنیا کے دکھاوے کیلئے
قربانی کررہے ہیں کہ لوگ ہماری تعریفیں کریں ؟ کیاہمارے دل میں
غروروتکبرتونہیں ؟ کیا ہم قربانی کے فلسفلے کو سمجھ کے کیا قربانی صحیح
معنوں میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں ؟ قربانی کا طریقہ جو شریعت میں ہے کیا اس
پر عمل کرکے قربانی کرتے ہیں ۔گوشت کو تین حصوں میں بانٹنے کا حکم دیا گیا
ہے پہلا حصہ اپنا دوسراقرباء اور تیسراہمسائیوں کا۔یہ تو حقیقت ہے کہ ہم جب
قربانی کاگوشت دوستوں اور رشتہ داروں کوبھیجیں گے ان کے دل سے خلوص ومحبت
کے ساتھ دعائیں نکلیں گی نفرت اور حسدوکینہ دور ہوگابعض لوگ ڈھٹائی پن کا
مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی کا لیبل لگا کرگوشت خود ہڑپ جاتے ہیں یہ لوگ بھی
قربانی کی تین حصے ہی کرتے ہیں فرج کا پہلا حصہ فرج کا درمیانہ حصہ او
رفریج کا نچلا حصہ ہے اس سے خود بھی خوش اور خدا بھی خوش ۔اگرآپ لوگ سوچ
رہے ہیں کہ یہ لوگ کسی کوگوشت نہیں دیتے تو یہ بھی غلط سوچ ہے کیونکہ یہ
لوگ رات کو ایک دوسرے کیساتھ سالم رانوں کا تبادلہ کرکے ثواب کمالیتے ہیں
حقیقت تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے قربانی کی ہواسے گوشت نہیں بھیجنا چاہیے
کیونکہ جو ان لوگوں کو گوشت جائے گا وہ کسی مستحق غریب کے منہ میں چلاجائے
گا جس سے ثواب ضائع نہیں ہوگا میرایہ کہنے کا مطلب کسی کی دل آزاری کرنا
نہیں بلکہ اس وجہ سے کہا جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اس سے باز آکے سنت
ابراہیمی کی پیروی کریں تاکہ آخرت کے روز قربانی کا جانور ہماری سفارش کرے
شکایت نہیں ۔سفارش کی بات کریں تو ہم اپنے سیاستدانوں کے پاس سفارشیں لے
جاتے ہیں جو روز تین تین لباس تبدیل کرکے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں مگر
عام عوام کو عید کے روز بھی نیالباس لینے کیلئے کئی سوبار سوچنا پڑتا ہے اس
مہنگائی کی وجہ سے لوگ سوچتے ہیں چلو کوئی نہیں ہم نے پچھلی عیدپرتو لیاتھا
اس بار اپنے بچوں کے کپڑے لے لیتے ہیں بچوں کے کہنے پر کہ آپ بھی لے لیں تو
بڑے کہتے ہیں نہیں ویسے بھی عید کے فوراً بعدقربانی گاہ جانا ہے تو نئے
کپڑوں کا جواز ہی نہیں بنتا اسی بات کا بہانہ بنا کربچوں کو چپ کرادیتے ہیں
مگر کس کا دل نہیں کرتا کہ وہ عید نماز ادا کرنے جائے اوراس کے تن پر نیا
لباس نہ ہو مگرہمارے حکمرانوں نے اتنا زیادہ ہم پرمہنگائی کا ظلم کیا ہے کہ
ہم دووقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں تو کیسے عیدمنائیں۔ارباب اقتدار قالینوں
کے بغیرگاڑی سے اپنے پاؤں باہرہی نہیں نکالتے اور یہاں ہماری بیٹیاں عروسی
جوڑے کی راہ تکتے تکتے بالوں میں چاندی لے کے ساری زندگی گھربیٹھ جاتی ہیں
۔ارباب اقتدار لوگوں میں نمایاں نظرآنے کیلئے مہنگی ترین گاڑیاں ،سوٹ بوٹ
اورگھڑیاں پہن کرآتے ہیں مگرلوگ ان کی وجہ سے اﷲ پاک سے شکایت کرتے ہیں اور
مایوس ہوجاتے ہیں مایوسی گناہ ہے مگراس گناہ کے ذمہ دارعوام نے حکمران ہیں
کسی غریب کی مددکرنے کے بجائے مہنگائی کم کرنے کے بجائے اپنے خزانے بھرے
جارہے ہیں کیا عوام انسان نہیں ہیں جولوگ دوسرے سے خودکواعلیٰ سمجھتے ہیں
اﷲ پاک انکو جلد نشان عبرت بنا کرتاریخ کے کوڑے دان میں ڈال کر اوپرگمنامی
کا پردہ ڈال دے گا۔ |