سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی یہ پیغام دے کر اس جہان
سے رخصت ہوگئے کہ اس جہان فانی میں کچھ بھی اٹل نہیں ہے۔اب کی بار اس سلسلے
کی شروعات ۶ اگست کو آر کے دھون سے ہوئی جو اندرا گاندھی خاص معتمد بلکہ
آنکھ اور کان سمجھے جاتے تھے ۔ان کے صرف ایک دن بعد کرونا ندھی نے کوچ کیا
اور ایک ہفتہ بعد ۱۳ اگست کو سومناتھ چٹرجی چل بسے اور ۳ بعد اٹل بہاری
واجپائی آنجہانی ہوگئے۔ اس طرح دس دن کے اندرہندی سیاست کے ایک عہد کا
خاتمہ ہوگیا اور اگست ۲۰۱۷ ہندوستانی سیاست کے لیے ایک ماتم کا مہینہ بن
گیا جبکہ اس کا نصف ابھی باقی ہے۔ ان لوگوں کا تعلق بھی ملک کے مختلف حصوں
سے تھا ۔ ایک اس مغربی پنجاب سے آیا تھا جو اب پاکستان کا حصہ ہے دوسرے کی
پیدائش شمال مشرق کےتیز پور آسام میں ہوئی تیسراوسطی ہندوستان میں گوالیار
کا رہنے والا تھا اور چوتھاجنوب میں تمل نادو کے ناگاپٹنم ضلع کا رہنے والا
تھا ۔ان میں سے ایک زندگی بھر کنوارہ رہا دوسرے نے تین شادیاں کیں تیسرے نے
۷۴ سال کی عمر میں شادی کی اور چوتھا نے ایک بیوی کے ساتھ عمومی ازدواجی
زندگی گذاری ۔ ان کی دلچسپیاں بھی مختلف تھیں کوئی شاعر تھا تو ادیب کسی نے
وکالت کا پیشہ اپنایا تو کوئی عوامی تو داخلی سیاست میں مصروف عمل رہا ۔
ہندی سیاست کےمختلف رنگوں کی نمائندگی ان لوگوں نے کی۔ ان میں سے ایک دائیں
بازو کا اور دوسرا بائیں بازو کے نظریات کا حامل تھا ۔ باقی دوجو اعتدال
پسندی کے قائل تھے ان میں بھی ایک قومیت اور دوسرا علاقائیت کا دم بھرتا
تھا۔ مؤخر الذکر تین معروف رہنما وں کی شناکت بھی ایک دوسرے سے بہت ہی
مختلف اور متضادتھی ۔ ان میں اٹل جی مذہبی براہمن تھے جبکہ سومناتھ براہمن
اور ہندو مہاسبھا کے رہنما نرمل چندر چٹرجی کی اولاد ہونے کے باوجود ملحد
براہمن تھے ۔ویسے تو کرناندھی بھی ملحد تھے لیکن وہ نہ صرف غیر براہمن تھے
بلکہ ہندوستان میں براہمنوں کے خلاف اٹھنے والی سب سے زیادہ طا قتور جماعت
ڈی ایم کے کے ۱۰ مرتبہ صدت منتخب ہوئے تھے۔ اس طرح ایک عالمی اشتراکیت کا
حامل تھا دوسرا قومی فسطائیت کا قائل تھا اور تیسرا علاقائی تشخص کا
علمبردار تھا۔ ان تمام اختلافات کے باوجود وہ ایک خاص عہد کے نمائندہ تھے
اور مخصوص سیاسی ماحول کبھی ایک دوسرے کے ہمنوا بن جاتے تھے تو کبھی باہم
برسرِ پیکار ہوجاتے تھے ۔
یہ لوگ گزشتہ نصف صدی تک سیاسی افق پرچھائے رہے ۔ اس دوران وقوع پذیر ہونے
والی سیاسی اتھل پتھل پر غائر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ گویا کٹھ
پتلی کا یہ ایک کھیل تھا جس میں مختلف لوگ اپنے اپنے وقت ظاہر ہوکر اپنا
ایک خاص کردار اداکرتے تھے اور کبھی عارضی تو کبھی دائمی طور پر غائب
ہوجاتے تھے۔خود انہیں بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب کسے کیا کرنا ہے ؟ لیکن
بہت کچھ ہوجاتا تھا ۔ کسی کا ستارہ چمک جاتا تھا اور کسی کاڈوب جاتا تھا
لیکن کھیل جاری و ساری رہتا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں بہت زیادہ مقبول
وزرائے اعظم کی فہرست جب بھی بنائی جائے گی اس میں پردھان سیوک کا تو نہیں
مگر اٹل جی کا نام ضرور شامل ہوگا ۔ اس لیے کہ ان کے دامن پر نہ تو فسادات
کا خون اور بدعنوانی کا داغ لگا ۔ رام مندر تحریک سے انہوں نے ایک خاص
فاصلہ بنائے رکھا اور گجرات کے فسادات کی کھل کر مذمت کی۔ ملک کے سب سے
زیادہ دبنگ اسپیکرس میں سومناتھ چٹرجی کو ضرور شمار کیا جائے گا اس لیے کہ
انہوں نے پارٹی لائن سے اٹھ کر اس عہدے کا تقدس قائم رکھنے کے لیے اپنے
سیاسی مستقبل کو داوں پر لگا دیا۔ علاقائی سیاست کو ویسے تو بہت سارے لوگوں
نے اپنا شعار بنایا لیکن ان میں طویل ترین عرصے تک دبدبہ قائم رکھنے والوں
میں کروناندھی سرِ فہرست ہوں گے ۔
ان تینوں کے اندر اٹل جی نسبتاً زیادہ خوش قسمت تھے اس لیے کہ انہیں تین
مرتبہ وزیراعظم بننے کا موقع ملا ۔ پہلی بار ۶ا دن دوسری بار گیارہ ماہ اور
تیسری مرتبہ ۵۵ ماہ تک وہ وزیراعظم رہے۔ یہ جھوٹ تواتر کے ساتھ پھیلایا
جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی مدت کار مکمل کی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بدقسمتی
سے وہ ایک مرتبہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کرپائے۔ ایک مرتبہ اعتماد کا ووٹ
حاصل کرنے میں ناکامی کے سبب اور دوسری مرتبہ حمایت گنوانے کی صورت میں
انہیں استعفیٰ دینا پڑا اور تیسری مرتبہ انتخاب جیتنے کی جلدی میں انہوں نے
۶۰ کے بجائے ۵۵ ماہ بعد انتخاب کروا دیا۔ انسان کی کامیابی کا دارومدار اس
کی صلاحیت و محنت سے زیادہ خوش بختی یا بدبختی پر ہوتا ہے اس لیے کہ جو
ہستی اپنے بندوں کو صلاحیتوں سے نوازتی اور محنت و مشقت کے مواقع اور
توانائی فراہم کرتی ہے وہی کاتب تقدیر بھی ہے۔ وہ جب جو چاہتی سے دیتی ہے
اور جس وقت چاہتی ہے اسے چھین بھی لیتی ہے ۔ اس قائدۂ کلیہ کو اٹل جی اور
ان کے دست راست اڈوانی جی کے سوانحی واقعات سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
کانگریس اور جن سنگھ میں بنیادی فرق یہ تھا کہ ایک گاندھی اور نہرو جیسی
معروف شخصیات کی مدد سے چلنے والی پارٹی تھی اور دوسری اصول و نظریات کی
حاملجماعت تھی۔ جن سنگھ کے رہنما شیاما پرشاد مکرجی کانگریس اور ہندو
مہاسبھا سے ہوکر آئے تھے اس لیے ان کا منفرد ذاتی تشخص نہیں تھا ۔ سنگھ
پریوار نے جنگ آزادی سے خود کو دور رکھ کر کانگریس کی مانند احسان جتانے
کا ایک نادر موقع گنوا دیا تھا۔ سنگھ چونکہ فسطائی نظریات کی حامل انتہا
پسند جماعت ہے اس لیے اس کے سیاسی دھڑے میں اعتدال پسند اٹل کے مقابلے سخت
گیر مدھوک یا اڈوانی کی اہمیت زیادہ ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جن
سنگھ کے اندر اٹل جی ایک جوشیلے مقرر اور شاعر تھے جبکہ اڈوانی جی بہترین
منتظم اور صحافی، اس لیے اڈوانی کو فوقیت ملنی چاہیے تھی ایسا بھی نہیں
ہوا۔جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو انگریزی داں اڈوانی کو وزیرا مواصلات اور
ہندی کے کوی کو وزیرخارجہ بنا دیا گیا۔ یہ قسمت کا کھیل نہیں تو کیا ہے؟
اٹل جی نے۱۹۵۷ میں اپنا پہلا انتخاب تین حلقوں سے لڑا ۔سنگھ کے بڑے دانشور
دین دیا ل اپادھیائے کی جنم بھومی متھرا سے ان کی ضمانت ضبط ہوگئی ۔ لکھنو
میں وہ دوسرے نمبر پر آئے مگر بلرام پور سے کامیاب ہوگئے ۔ سنگھ کے بند
کنوئیں سے نکل کر جب وہ ایوان پارلیمان میں پہنچے تو انہوں نے پنڈت نہرو کو
دیکھا اور گروجی کو چھوڑ کر ان کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ وہںا سے جن سنگھ پر
نظریاتی شناخت کمزور ہونی شروع ہوئی اور اس پر شخصیات پرستی کا رنگ چڑھنے
لگا ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اٹل جی جنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ اور
پھربی جے پی کے پہلے صدر بنے لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد پہلے ہی انتخاب میں
اندرا گاندھی کی ہمدردی والی راجیو گاندھی کی لہر نے بی جے پی کو ۲ پر
پہنچادیا۔ اٹل جی خود اپنی جنم بھومی گوالیار سے ہار گئے اور انہیں پارٹی
کی باگ ڈور اڈوانی کو سونپنی پڑی ۔ اڈوانی جی نے جلد بازی میں رام مندر کی
تر یک سے اپنیشبیہ بگاڑ کر اپنا بیڑہ غرق کرلیا ۔
جنتا دل کے بکھرنے کے بعد بی جے پی کے امکانات روشن ہوئے تو اندرا گاندھی
کے دست راست ماکھن لال فوتیدار نے بی جے پی کے دوستوں کو مشورہ دیا کہ وہ
اٹل جی کو وزیراعظم کا چہرہ بناکر پیش کریں حالانکہ اس وقت پارٹی کی صدارت
اڈوانی جی کے پاس تھی اور انہیں سنگھ کاا عتماد حاصل تھا۔ اس بات سے اڈوانی
کی سمجھ میں آگئی چنانچہ اسی ممبئی میں جہاں اٹل جی کو پارٹی کا پہلا صدر
بنایا گیا تھا ان کو وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار بنادیا گیا۔ لال کرشن
اڈوانی کی سیاسی زندگی کا یہ سب سے اہم اور انوکھا فیصلہ تھا اس لیے کہ
اعلان کے بعد جب اٹل جی نے کہا صدر ہونے کے سبب اڈوانی جی ہی امیدوار ہوں
گے تو اسے مسترد کرتے ہوئےصدر نے ترمیم سے انکار کردیا ۔ بعد میں اٹل جی نے
ادوانی جی سے کہا اتنا بڑا فیصلہ سنانے سے قبل آپ نے مجھ سے بھی نہیں
پوچھا تو ان کا جواب تھا اگر پوچھتا تو کیا آپ مان جاتے ؟ اسی طرح جب
آرایس ایس معروف دانشور گووندآچاریہ نے اڈوانی سے سوال کیا کہ آپ نے
سنگھ سے مشورہ کیوں نہیں کیا تو وہ بولے ایسا کرنے کی صورت میں یہ فیصلہ نہ
ہوتا ۔
اس طرح اٹل جی پہلے وزیراعظم کے امیدوار اورپھر وزیراعظم بن گئے ۔ یہ خوش
قسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ حسن اتفاق ہے کہ ۲۰۰۵ میں ازخود اپنی
سبکدوشی کا اعلان بھی اٹل جی نے عروس البلاد ممبئی ہی میں کیا تھا۔ اس طرح
ان کی زندگی کے تین اہم ترین فیصلوں کا شاہد یہ شہر بن گیا۔ اٹل جی جس طرح
پنڈت نہرو سے متاثر ہوئے اسی طرح نریندر مودی نے ہوش سنبھالا تو اندرا
گاندھی کا دبدبہ دیکھا اورلاشعوری طور پر انہیں اپنا آئیڈیل بنا لیا۔یہ ان
کے طریقۂ کار میں صاف جھلکتا ہے اور انہیں اٹل جی سے الگ کرتا ہے۔ لوگ
کہتے ہیں اٹل جی کے دفتر ان کے علاوہ ہر کوئی اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتا
تھا اور اب صرف اور صرف ایک فرد کی آمریت ہے۔ ویسے تو مودی جی مزاجاً اٹل
جی کے نہیں بلکہ اڈوانی جی کےشاگرد تھے کیونکہ جب رام رتھ یاترا سومناتھ سے
چلی تو وہی اس کے کرن دھار تھے ۔ اٹل جی نے مودی جی کو گجرات فساد کے بعد
بھرے جلسے میں راج دھرم کا پالن کرنے کی تلقین کرکے پھٹکار لگائی تھی اور
استعفیٰ دینے پر دباو بنایا توگوا کی مجلس عاملہ میں اڈوانی جی کے کہنے
پرمود مہاجن نے انہیں بچایا ۔۲۰۰۴ میں قومی انتخاب کے بعد بھی اٹل جی نے
کھلے عام ہار ٹھیکرا گجرات کے فسادات پر پھوڑا اور مودی جی کو اس کے لیے
موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ پہلے بھی گجرات کے
وزیراعلٰی نریندر مودی کے استعفے کے حق میں تھے اور اب بھی ہیں۔ بی جے پی
کے شکست کی بڑی وجہ گجرات کے فسادات ہیں۔
آگے چل کر جب اسی گوا میں مودی جی کو وزیراعظم کا امیدوار بنایا گیا جہاں
ان کا پتہ صاف ہورہا تھا تو اڈوانی جی ناراض ہوگئے۔ بھوپال کے اندر بھری
محفل میں مودی جی کو رسوا کیا جس کا بدلہ تریپورہ میں مودی جی نے لےلیا ۔
یہ ہندی سیاست کا نہایت دلچسپ باب ہے کہ سخت گیر مودی نے انتخاب لڑنے کے
لیے اڈوانی جی کے بجائے اٹل جی کے لب و لہجے میں ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘
کا نعرہ بلند کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اندراگاندھی کے نقشِ
قدم پر سارے بزرگوں کو ٹھکانے لگا کر بی جے پی کو کانگریس جیسی شخصی پارٹی
میں بدل دیا جس میں’ اندرا از انڈیا اور انڈیا از اندرا ‘ کی جگہ’ ہر ہر
مودی گھر گھر مودی ‘ کا شور بپا ہے۔ پنڈت نہرو کے بعد جس طرح کا نگریس کا
ایک دور ختم ہوگیا اور اندرا گاندھی کے ساتھ ایک نئی کانگریس کا آغاز ہوا
اسی طرح اٹل جی کے ساتھ بی جے پی کا ایک یگ بیت گیا اور مودی جی کے ساتھ
ایک نیایگ شروع ہوگیا ۔اب نہ وہ کانگریس ہے جو آزادی سے پہلے بنی تھی اور
نہ وہ جن سنگھ ہے جو آزادی کے بعد قائم کی گئی تھی ۔ سب کچھ بدل گیا ہے
سارا فرق مٹ گیا ہے ۔ نظریات اپنی موت مر چکے ہیں اور اقتدار کی حریص سیاسی
جماعتیں ا فراد کی اجارہ داری بن کر رہ گئی ہیں۔ اٹل جی کی ایک نظم میں اس
حقیقت کا دلچسپ اعتراف ہے؎
کورو کون ؟ کون پانڈو ، ٹیڑھا سوال ہے
دونوں اور شکونی کا کوٹ جال ہے
مہابھارت ہونا ہے،
کوئی راجہ بنے، رنک کو رونا ہے
اٹل ، سومناتھ اور کرونا ندھی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان تینوں کو اپنی
پارٹی کے اندر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی
۔ ڈی ایم کے کے بانی انا دورائی کی موت کے بعد ان کے اصلی وارث کرونا ندھی
تھے لیکن ایم جی آر نے بغاوت کردی ۔ کرونا ندھی اگر ان کے سامنے ہتھیار
ڈال دیتے تو پارٹی نہیں ٹوٹتی اور وہ اقتدار میں حصے دار رہتے لیکن انہوں
نے اپنے تشخص کو برقرار رکھا ۔ جے للیتا نے ان کو ڈرانے دھمکانے کی بہت
کوشش کی لیکن وہ ان سے بھی ڈرے بغیر ڈٹے رہے ۔ سومناتھ چٹرجی کو پارٹی نے
نافرمانی کے سبب نکال دیا بعد میں جب سیتارام یچوری پارٹی کے جنرل سکریٹری
بنے تو ان سے کہا گیا کہ درخواست دے کر پھر سےپارٹی میں شامل ہوجائیں ۔ ان
کی خوددواری نے یہ گوارہ نہیں کیا وہ کہتے تھے پارٹی نے نکالا ہے تو وہ
واپس لے ورنہ مجھے ضرورت نہیں ۔ اٹل جی کو پہلی مخالفت کا سامنا بلراج
مدھوک سے ہوا ۔ اڈوانی کی مدد سے اٹل نے مدھوک کو بن باس پر روانہ کردیا ۔
اس کے بعد جب وہ وزیراعظم تھے تو سنگھ نے انہیں ان کو مکھوٹا کے تضحیک
آمیز لقب سے نواز کرہٹا نے کی کر کوشش کی مگر اٹل نے اسے ناکام کرکےاپنے
معتمد بنگارو لکشمن کو پارٹی کا صدر بنوا دیا۔ اس اقدام سےاٹل جی کا تو کچھ
نہیں بگڑا مگر بیچارے بنگارو کواس کی بہت بڑی قیمت طرح چکانی پڑی ۔ ان پر
رشوت خوری کا الزام لگا اور انہیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ کوئی مدد کے
لیے نہیں آیا کیونکہ پارٹی اڈوانی کے قبضے میں تھی ۔
اٹل جی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے سنگھ پریوار بہت کم پسندیدہ
ہونے کے باوجود عوامی مقبولیت کےسبب سب سے آگے رہے۔ ایک خاص مدت کے بعد
سنگھ ان کی ضرورت نہیں تھا بلکہ وہ سنگھ کی مجبوری بن گئے تھے۔ اٹل جی کو
آخری دن جب اسپتال میں داخل کیا گیا تو یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ اب
سناونی دور نہیں ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی سیاستدانوں کا ہوڑ لگ گئی۔ وزیراعظم
کے بعد راہل گاندھی اور کیجریوال اسپتال پہنچ جانا یہ ظاہر کررہا تھا کہ
حالت نازک ہے ۔ بی جے پی کا مجلس عاملہ کے اجلاس کو ملتوی کرنا اور
کیجریوال کا سالگرہ کی مبارکباد دینے والوں کو گھر آنے سے منع کرنا یہ
ظاہر کرتا تھا کہ اب رسمی اعلان باقی ہے ۔ اس کے بعد بی جے پی اور پھر غیر
بی جے پی وزرائے اعلیٰ نے دہلی کی جانب کوچ کیا ۔ تین ارکان پارلیمان کو
اٹل جی کے گھر پرتعینات کرکے راستہ بند کردیا گیا لیکن سنگھ کا دروازہ نہیں
کھلا۔ وزیراعظم تو ایک دن میں دوبار اسپتال سے ہو آئے لیکن ایک بھی قابلِ
ذکر سنگھی رہنما اسپتال کے قریب نہیں پھٹکا۔ کیا یہ محض ایک حسن اتفاق ہے؟
جن سنگھ سے لے کر بی جے پی تک کےطویل سفر میں سنگھ کو اٹل جی کی ضرورت ان
کی حیات میں بھی تھی اور ان موت کے وقت بھی ہے ۔ انہوں نے آن بان کے ساتھ
زندگی گذاری اور شا ن سےپرلوک سدھارے ۔ لال کرشن اڈوانی کی طرح وہ کبھی بھی
پارٹی پر بوجھ نہیں بنے اور نہ ہزیمت کے صدمے سہے۔ پارٹی کا باگ ڈور جب ان
لوگوں کے ہاتھوں میں آئی جو انہیں درکنار کرسکتے تھے تو وہ یادداشت کھو
چکے تھے ۔ ان کو بدم بھوشن کے خطاب سے نواز دیا گیا اس لیے کہ وہ بے ضرر
ہوچکےتھے۔ اے بی پی کے تازہ جائزے کے بعد کہ وسطی ہندوستان کی تینوں بڑے
صوبوں میں کمل کی لٹیا ڈوب رہی ہے اٹل جی کی موت بی جے پی کے لیے تنکے کا
سہارا ہے۔ ان کا انتقال ایک سال کے بعد ہوتا تو ہر دو صورت میں کہ بی جے پی
کے پاس اقتدار ہوتا یا نہیں ہوتا، اس کو اٹل جی ایسی شدید ضرورت نہیں ہوتی
لیکن اب وہ اس کے لیے انتخابی مہم کابہت بڑا وسیلہ بن گئے ہیں ۔
جن سنگھ کے پہلے صدر شیاما پرشاد مکرجی کے تعاون کے لیے جب آر ایس نے اٹل
بہاری واجپائی نامی ایک نوجوان کو بھیجا تو اس نے مکرجی کے بعد پارٹی کی
باگ ڈور سنبھال لی ۔ اس موقع پر لال کرشن اڈوانی کوان کے ساتھ کردیا گیا۔
شاید سنگھ کے ذمہ داروں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ پارٹی کا نظم وضبط سنبھالنا
اس شعلہ بیان مقرر اور شاعر کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ یہ حسن اتفاق ہے اٹل کے
بعد اڈوانی بھی پارٹی کے اندر تو اس عہدے پر فائز ہوگئے جو ان کے رہنما نے
خالی کیا تھا۔ حکومت میں ایسا نہیں ہوسکا۔ بی جے پی کو اگر اڈوانی جی کی
حیات میں اقتدار نصیب ہی نہ ہوتا تب بھی وہ صبر کرلیتے لیکن قدرت کا کرنا
یہ ہوا کہ کمل تو کھلا مگر اڈوانی جی کی قسمت نہیں کھلی ۔اٹل جی اس عذاب سے
محفوظ و مامون رہے۔ انہوں نے ہنستے مسکراتے زندگی کے دن گزارے اور اسی عالم
میں دنیا سے کوچ کرگئے۔ لیکن جاتے جاتےایک ایسی نظم چھوڑ گئے جو ان کی
بہترین آپ بیتی ہے؎ (طویل نظم کا اقتباس )
اونچے پہاڑ پر ، پیڑ نہیں لگتے ،پودے نہیں اگتے ، نہ گھاس ہی جمتی ہے
جمتی ہے تو صرف برف، جو کفن کی طرح سفید اور،
موت کی طرح ٹھنڈی ہوتی ہے،
سچائی یہ ہے کہ ، کیول اونچائی کافی نہیں ہوتی
سب سے الگ تھلگ شونیہ میں اکیلا کھڑا رہنا
پہاڑ کی مہانتا نہیں، مجبوری ہے
جو جتنا اونچا ہوتا ہے ، اتنا ہی تنہا ہوتا ہے
چہرے پر مسکان سجائے من ہی من روتا ہے
میرے پربھو!مجھے اتنی اونچائی کبھی مت دینا
غیروں کو گلے نہ لگا سکوں اتنی رو کھائی کبھی مت دینا |