ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہم بہت دھوم دھام
اورشایان شان طریقے سے اپنے پیار ے آقا علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا جشن ولادت
مناتے ہیں ۔اس دن ہم مختلف اندازاورطریقوں سے اپنے آقاعلیہ الصلوٰۃ
والتسلیم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔لیکن کیایہ اظہار صرف ظاہری مقال
اور اس ایک دن تک محدود کرکے ہم اپنے فرض کی مکمل ادائیگی کررہے ہیں ۔ جس
طرح مغربی اقوام پورے سال میں ایک دن مخصوص کرکے فادر ڈے ،مدر ڈے اوردیگر
مختلف ایام(Days) مناتی ہے یااس محبت کاہمہ جہت اثر ہماری زندگی کے ہرشعبے
میں بھی نظر آنا چاہے۔یوں توکوئی بھی مسلمان ایک لحظہ بھی آپ کی یاد کو دل
سے نکال نہیں سکتاہے اورنہ ہی اس بات کا تصورکرسکتاہے اوراگرنکالتاہے تو یہ
اس کی انتہائی بدبختی اوربدقسمتی ہوگی۔لیکن مقام تاسف ہے کہ تمام تر اظہار
عشق ومحبت کے دعووں کے باوجودہمیں اپنی زندگیوں میں اس محبت کا اثر نظرنہیں
آرہا۔اگرہم اپنے معاشرے اور ارد گرد پر غور کریں تو آج ہمارے نوجوان طبقہ
کے لئے بالخصوص اور پورے معاشرے کے لئے بالعموم ہیروز اورآئیڈیل
کھلاڑی،اداکار، فنکار، گلوکار،اوردوسرے شعبدہ باز ہیں ۔ جن کے متعلق وہ
جانناچاہتے ہیں کہ ان کے روز وشب کیسے گزرتے ہیں ۔ان کی عادات
واطوار،پسندیدہ لباس،رنگ،طعام،مشروبات سے واقفیت حاصل کرناچاہتے ہیں ۔
الغرض ان کے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے اوران کی نقالی میں خوشی محسوس
کرتے ہیں ۔جب کہ انہیں یہی جستجو،انہماک ، وقت اورتوجہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت
طیبہ کوجاننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے صرف کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم
نے آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ (Excellent Pattern)کو ہمارے لئے بہترین نمونہ
قراردیاہے۔لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ
(الاحزاب ٣٣:٢١)''بے شک تمہاری راہنمائی کے لئے اللہ کے رسول (کی زندگی)
میں بہترین نمونہ ہے ''۔
قرآن زندہ اوربرحق کتاب ہے ۔اب یہ کتاب جوہمیں حکم دے رہی ہے ہماری
بقا،ترقی اورکامیابی کا راز اس کی کامل اتباع واطاعت میں ہے۔جب ہم
صورتاًوسیرتاً آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ (Excellent Pattern)کی پیروی کریں گے۔
اپنے کردار کو آپ ﷺ کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں گے۔جن باتوں پر آپ نے
عمل کیا اورجو احکامات آپ ﷺ نے اس امت کو دیئے ان احکامات کو جاننے اوران
پر عمل کرنے کی سعی کریں گے۔ تو ہماری دنیا بھی بقعہ نور بن جائے گی جب کہ
آخرت توہوگی ہی نورانی،جہاں بلاکسی غم و پریشانی، ملے گی حیات جاودانی،ابدی
جوانی اورنعمتوں کی فراوانی (انشاء اللہ العزیز)۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورآپ ﷺ نے ہرلحاظ سے کامل واکمل نمونہ
پیش فرمایالیکن ہم نے بدقسمتی سے دین اسلام کو چندمخصوص عبادتوں تک محدود
کرلیا ہے۔یہ عبادات بلا شک وشبہ دین کا ایک بہت بڑا اوراہم حصہ ہیں ۔تعمیر
سیرت کا ایک انتہائی موثر ذریعہ ہیں لیکن دین صرف انہی تک محدود نہیں ہے
۔بلکہ تمام معاشرت،تمدن،سیاست اورثقافت کاڈھانچہ اس دین سے قائم ہے اگر وہ
ڈھانچہ قائم نہ ہو تو یہ عبادات محض رسمی کاروائی (Formality)کہلائیں
گی۔مثلاً نماز بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے اب انسان اگر ایک طرف نماز
بھی پابندی سے اداکرتاہے اوردوسری طرف بے حیائی اور برے کاموں سے باز نہیں
آرہا تو یہ لمحہ فکریہ ہے اسی بات کو اگر یوں کہاجائے کہ ''رہ گئی رسم اذاں
روح بلالی نہ رہی'' تو بے جانہ ہوگا۔
ہماری زندگی لازما مکمل طورپر آپ ﷺ کے احکامات کے تابع ہو کیونکہ ایک
مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک وہ ہررشتے اورتعلق سے بڑھ
کر آپ سے محبت نہ کرے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیاہے:
فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ
أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِوَ النَّاسِ اَجْمَعِینْ
قسم ا س ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص کامل
مؤمن نہیں ہوسکتا ہے جب تک میں اس کے والد،بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ
محبوب ترنہ ہوجاؤں۔ اس حدیث کے منظوم مفہوم کو والدمحترم مولانامحمد رمضان
صاحب نے اس طرح بیان کیاہے:
ایمان معتبر نہیں محبوب گرنہیں
ترجیح اگر رسول ﷺ کو ہر ایک پر نہیں
ہے بعدمیں رسول کے والد ہو یا ولد
کچھ بھی نہیں رسول ( ﷺ ) جو محبوب تر نہیں
جب حدیث مبارکہ سے یہ بات متحقق ہوگئی کہ ایک مسلمان کا ایمان اس وقت تک
کامل نہیں ہوتا جب تک وہ تمام موجودات (افراد واشیاء )سے بڑھ کر آپ ﷺ سے
محبت نہ کرے تو اس امریعنی محبت کا لازمی تقاضا اورنتیجہ یہی ہے کہ ہم ہر
ہر شے میں اپنی پسند کو نبی کی پسند کے تابع کردیں ۔بقول والدمحترم
اے صاحبان عقل جو ہیں آپ ہوشمند
کیجئے وہی پسند نبی ( ﷺ ) کو جو ہوپسند
جو کچھ نبی( ﷺ ) نے کردیا اچھا وہی ہے کام
زیبانہیں غلام کو اس میں ذراکلام
اب نبی اکرم ﷺ کی پسند و ناپسند ،محبوب ومذموم ،مرغوب و مکروہ ہمیں کس طرح
معلوم ہوگا اس کے لئے حیات طیبہ (ﷺ ) کا مطالعہ کرنا پڑے گا ۔اس مطالعہ سے
جو ہمیں علم حاصل ہوگا وہ موجب خیروبرکت اوراس پر عمل کرنادنیامیں ذریعہ
ترقی اور آخرت میں باعث نجات اوراس کا پھیلاناکارثواب الغرض یہ علم وعمل نہ
صرف یہ کہ آج اس جہاں میں بلکہ کل بروز قیامت بھی کام آئے گا۔بقول
والدمحترم
پڑھیئے حیات طیبہ اورکیجئے عمل
کام آئے گا یہ علم و عمل آج اور کل
سیرت طیبہ و احادیث مبارکہ کی اہمیت کے حوالے سے تفسیر قرطبی میں سورہ حشر
کی اس آیت وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ
فَانتَہُوا(الحشر:٧)پس جو چیز تمہیں پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع
کریں (اس سے)باز رہو۔کی تفسیرمیں بیان کیاگیا ہے کہ امام شافعی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ فرماتے تھے مجھ سے جو سوال کرو میں اس کا قرآن مجید سے جواب دوں
گا پھر سوال پوچھے جانے پر آپ اس آیت کی تلاوت فرماکر مسئلہ کا حل حدیث
مبارکہ سے پیش کردیتے۔
جب ہم آپ کی حیات طیبہ کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں
رعایا سے حکمران تک ،گدا سے بادشاہ تک ،سپاہی سے کمانڈرانچیف تک ،غریب سے
امیر تک،عورت سے مرد تک، بچے سے بوڑھے تک ،غلام سے آقا تک ،عربی سے عجمی
تک،دیہاتی سے شہری تک ،چھوٹے سے بڑے تک سب ہی کے لئے آپ کی حیات طیبہ مکمل
نمونہ نظرآتی ہے گویا کہ ہر شخص اپنی جگہ یہ سمجھتا ہے کہ حضور ﷺ زندگی کا
پیمانہ میرے لئے ہی تراشاگیا ہے۔آپ کی حیات طیبہ سب کی ضرورتوں کوکفایت
کرتی ہے ۔سب کے لئے سازگار ہے اوراپنا رہنمابنانے پرسب کو زندگی کی منزل
مقصود تک پہنچا تی ہے۔ بحیثیت قانون ساز،جج(منصف)، کمانڈر ان چیف،
معلم،مصلح معاشرہ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو سے نبی پاک ﷺ کے احکامات اور
آپ ﷺ کا اسوہ کمال کی انتہائی بلندیوں پر ہے۔اوراس میں ایسی
لچک(Flexibility) ، وسعت(Scope) ، جامعیت(Comprehensiveness)، عملیت
(Practicality) ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسان کے لئے ترقی کا دامن کھلا رکھیں
گے۔آج بھی چودہ سو برس سے زائد گزرجانے کے باوجود زمانے کے ہزاروں نشیب و
فراز ،تغیر وتبدل،دلوں کے مزاج،خطوں کی آب وہوا،تہذیبوں اورثقافتوں کے تنوع
اور اختلاف، زبانوں کی تفریق،اہلیتوں وصلاحیتوں میں انفرادیت کے باوجود جب
بھی کوئی تعلیم یافتہ فردخواہ اس کاتعلق سائنس وفلسفہ،تعلیم و
نفسیات،فلکیات وجغرافیہ،طب و علم تشریح الابدان،الغرض کسی بھی شعبہ کا
انتہائی ماہر اورقابل ترین فرد جب تعصب اورمفادات کے دائرے سے باہر آکر آپ
ﷺ کے اسوہ حسنہ کی طرف دیکھے گا تو وہ ضرور پکار اٹھے گابقول جرمن شاعر اور
پروفیسرجیمس ہوگ(James Hogg)''ہرزمانے میں اصلاح معاشرہ(Society) کا سب سے
بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو رائج کیاجائے ''یا جیسا کہ
برنارڈ شا (Bernard Shaw)اپنی کتاب (Genius of Islam) میں لکھتاہے:
Muhammad was a saviour of Humanity, the Mercy for all men and an
exemplar in every age.
''محمد ﷺ انسانیت کے نجات دہندہ ،تمام لوگوں کے لئے باعث رحمت وبرکت اور
تمام زمانوں کے لئے مثالی شخصیت ہیں ۔''
ایسا کیوں نہ ہو جب کہ خود آپ سربراہ مملکت ہونے کے باوجود آپ کاکردار
اوراخلاق ایسا کہ نہ صرف یہ کہ روزمرہ زندگی کے تمام امور اپنے ہاتھوں سے
خود انجام دیتے بلکہ دوسروں کے کام بھی کردیتے،مالک ایسے کہ دونوں جہانوں
کے خزانے آپ کے پاس لیکن اس کے باوجود مہینوں آپ کے گھر چولہانہ جلتا،جرنیل
ایسے کہ معمولی سی غیرمسلح فوج کے ساتھ ہزاروں کے کفار کے لشکر کو شکست دے
دی اورصلح پسند ایسے کہ سینکڑوں جانثار پروانوں کی موجودگی میں کفار کی
شرائط پر صلح کرلی،عادل ایسے کہ فرمایا کہ اگرمیری بیٹی فاطمہ بھی اس کی
جگہ چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیاجاتا،بہادر ایسے کہ تنہاہزاروں کے
مقابلے میں اورثابت قدم ایسے تمام مشرکین مکہ کی دشمنی وسخت ایذائیں آپ کو
حق کی تبلیغ سے نہ روک سکی،رحم دل ایسے کہ چڑیاکی بھی اپنے بچوں سے دوری کی
تکلیف دیکھی نہ گئی معاف کرنے والے ایسے کہ اپنے عزیز ترین چچا کا جگر
چبانے والی ہندہ کوبھی معاف کردیا،خیرخواہ ایسے کہ اپنی ذات کے دشمنوں کو
بھی جہنم سے آزادی دلانے میں اپنی جان مشقت میں ڈال دی(فَلَعَلَّکَ بَاخِع
نَّفْسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ
اَسَفًا الکہف٦)،فصیح اللسان اوربلیغ کلام ایسے کہ آپ کے ایک قول کی تشریح
میں جلدوں کی جلدیں لکھ دی جائیں اور پھر بھی تشنگی باقی رہے اور بات کرنے
کاانداز ایسا دلنشیں اوردھیما کہ الفاظ تک گنے جاسکتے ہوں اورلاکھوں کے
مجمع میں ہر شخص یہ سمجھے گویا اسی سے مخاطب ہیں ،معلم ایسے کہ جنھوں نے آپ
سے کمزور حفظ کی شکایت کی وہی سب سے زیادہ روایتیں کرنے والے بن گئے۔
یہ شکستہ اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اسوہ حسنہ کو جاننے اور اس پر عمل کرنے
کی اہمیت اور اس کے ثمرات کی معمولی جھلک ہے ورنہ درحقیقت آقائے دوجہاں ﷺ
کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے والا بھی لافانی اورلازوال ہوجاتا ہے اور اس بات
کا حقیقی وصحیح اندازہ تو آخرت میں ہوگا جب انسان سے دنیا کی کثافتیں
اورزنگ صاف ہوجائے گا اوراس کے حواس کئی گنا زیادہ قوی ہوجائیں گے۔ |