تحریر:ارم فاطمہ، لاہور
بقر ہ عیدآنے میں کچھ دن ہی رہ گئے تھے۔ احد بہت بے چین تھا کہ کب وہ ابو
کے ساتھ بکرا منڈی جاکر اپنی پسند کا بکرا خریدے گا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی
ایسا بکرا خریدے جو محلے میں سب سے اونچا اور مضبوط ہو۔ جب محلے کے بچے اور
اس کے کلاس فیلو بکرے کی تعریف کرتے تو وہ بہت فخرسے اتراتا اور کہتا ’’
میرا بکرا سب سے اچھا ہے اور اﷲ ہماری قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔ بکرا خریدنے
کے بعد وہ روز اسے لے کر گراؤنڈ میں جاتا اورخوشی خوشی سب کو بکرا دکھاتا۔
عید سے پہلے وہ اپنے امی ابو کے ساتھ عید کے کپڑے لینے جاتا۔ عید پر وہ دو
یا تین سوٹ ضرور خریدتا تاکہ عید کے ہر دن نیا سوٹ پہنے۔ اس کے ابو اس کی
ہر خواہش پوری کرتے تھے اس لیے وہ دوسرے بچوں کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگا
تھا۔
اسکول کا آخری دن تھا۔ کلاس ٹیچر مس رابعہ نے اسلامیات کی کلاس لیتے ہوئے
قربانی پہ بات کرتے ہوئے کہنے لگیں، ’’ 10ذوالحج کو ہم عید الاضحی مناتے
ہیں۔
اس دن اﷲ کی خوشنودی کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ اﷲ کے نزدیک اس قربانی کی
اہمیت زیادہ ہے جو خلوص نیت سے اور اس کی رضا کو سامنے رکھ کر کی جائے۔
اپنی قیمتی چیز اﷲ کی راہ میں قربان کی جائے ۔ اﷲ کو فضول خرچی کرنے والے
لوگ پسند نہیں اور وہ لوگ بھی جو دکھاوا کرنے کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ وہ
ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو اس کے بندوں کا خیال رکھتے ہیں اور انہیں اپنی
خوشیوں میں شریک کرتے ہیں ۔اس لیے آپ لوگ کوشش کیا کریں کہ اپنی باتوں سے
اور عمل سے کسی کا دل نہ دکھائیں اور سب کے ساتھ مل کر خوشی سے عید منائیں‘‘۔
ان شاء اﷲ عید کے بعد جب کلاس ہوگی تو میں آپ سب سے پوچھوں گی کہ آپ نے
میری باتوں پر کتنا عمل کیا۔ سب بچے بہت غور سے مس رابعہ کی باتیں سن رہے
تھے۔ احد بہت خاموش تھا۔ سب بچے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے کیوں کہ اب ان
کی ملاقات عید کے بعد ہونی تھی۔گھر آکر بھی اس نے خاموشی سے کھانا کھایا
اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ اس کے ذہن میں مسلسل مس رابعہ کی باتیں
آرہی تھیں۔ اسے یاد آیا جب پچھلے سال وہ بکرا لے کرگراؤنڈ میں گیا تھا ،
اپنے دوستوں کو اور محلے کے بچوں کو بکرا بڑے فخر سے دکھاتا تھا۔ وہ بکرے
کو رسی سے پکڑ کر گراؤنڈ کا چکر بھی لگاتے تھے۔ ان میں اسامہ بھی ہوتا تھا۔
وہ ایک غریب بچہ تھا۔ وہ بڑی حسرت سے بکرے کو دیکھتا تھا مگر احد اسے ہاتھ
نہیں لگانے دیتا تھا۔ کیا میری قربانی اﷲ کو پسند آتی ہوگی ؟ وہ سوچنے لگا،
سوچتے سوچتے سوگیا۔
شام کو جب وہ بکرے کو گراؤنڈ میں لے کر گیا تو اس نے دیکھا آج بھی اسامہ
بکرے کو دور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بکرے کی رسی لے جاکر اس کے ہاتھ میں دی
تو وہ خوشی سے مسکرانے لگا۔ احد کو ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔
اس نے رات کو فیصلہ کیا کہ وہ کسی کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے گا۔ وہ ابو
کو ساتھ لے کر اسامہ کے گھر گیا۔اپنے عید کے کپڑوں میں سے ایک جوڑا اسے دیا
اور کہنے لگا، ’’ کل ہمارے گھر آنا عید کی نماز پڑھنے چلیں گے اور پھر
قربانی کریں گے ، مل کر کام کریں گے ‘‘۔ واپس گھر آتے ہوئے احد بہت خوش تھا۔
اس نے مس رابعہ کی باتوں سے قربانی کا اب اصل سبق سیکھا تھا۔ سب سے اچھی
بات یہ تھی کہ اس نے نہ صرف اپنی اصلاح کی تھی بلکہ اس پر عمل بھی کیا تھا۔
|