حج…… عشق الٰہی اور عالمی بھائی چارگی کا عظیم الشان مظہر

’’حج‘‘ ارکانِ اسلام کا چوتھا عظیم الشان رکن ہے جو اپنی اہمیت و افادیت اور فضائل و برکات کی بناء پر ہرسال بڑے جوش و جذبے اور انتہائی محبت و عقیدت سے منایا جاتا ہے۔چنانچہ ماہِ ذی الحجہ کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر کے مسلمان مختلف ملکوں، مختلف علاقوں اور مختلف خطوں سے اکٹھے ہوکر دیوانہ وار ’’اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، لاالٰہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد‘‘ کی صدائیں لگاتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں ، اپنی جبین نیاز اپنے خالق حقیقی کے سامنے رکھتے ہیں اور ’’حج‘‘ جیسی عظیم الشان عبادت ادا کر تے ہیں۔ یقینا بندۂ مؤمن کے لئے اپنی زندگی میں ’’حج‘‘ جیسی عظیم الشان سعادت کرنا اس کی ایمانی معراج کے مترادف ہے۔

’’حج‘‘ لغت میں مطلق ’’قصد‘‘ کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اصطلاحِ شریعت میں اپنے گھر سے چل کر ’’حج بیت اﷲ‘‘ کی نیت سے احرام باندھ کر ایام حج میں مقررہ تواریخ و اوقات میں چند مخصوص ارکان،چند مبارک افعال اور چندمقدس مناسک کی انجام دہی کا نام ’’حج‘‘ہے ۔ان میں ’’طوافِ خانہ کعبہ‘‘ اور وقوفِ عرفات‘‘ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

قرآنِ مجید نے ’’بیت اﷲ‘‘ کی خصوصیات میں ’’حج‘‘ کو بھی ذکر کیا ہے۔ اور صاحب استطاعت شخص پر بیت اﷲ کا حج کرنا فرض قرار دیا ہے۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ لوگوں میں حج (کے فرض ہونے) کا اعلان کردو! لوگ تمہارے پاس حج) کے لئے چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جوکہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی۔ (الحج:۲۷/۲۲)ایک دوسری جگہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: اﷲ کے لئے لوگوں کے ذمہ بیت اﷲ کا حج کرنا ہے ان پر جوکہ اس تک جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔ (آلِ عمران: ۹۷/۳)

بیت اﷲ تک پہنچنے کی طاقت و قدرت سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے زائد اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اﷲ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام و طعام کا خرچہ برداشت کرسکے اور اپنی واپسی تک اپنے ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے۔

حج کرنے کے بے شمار فضائل و برکات احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث پاک میں آتا ہے رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جلد کرے۔ (ابوداؤد، دارمی) ایک حدیث میں آتا ہے سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے خاص اﷲ کے لئے حج کیا اور اس میں نہ فحش گوئی کی نہ کیا تو وہ شخص اس دن کی مانند لوٹتا ہے جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ (بخاری و مسلم) ایک اور حدیث میں آتا ہے رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج اور عمرہ کو ملاکر کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جیساکہ بھٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور (یعنی حج مقبول) کی جزاء اور اس کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔(ترمذی، نسائی)ایک دوسری حدیث میں آتا ہے سرورِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ دعاء مانگیں تو اﷲ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔اور اگر وہ استغفار کریں تو اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت کرتے ہیں۔ (نسائی، ابن ماجہ)

اسی طرح حج سے پہلو تہی برتنے اور اسے ادا نہ کرنے کی بھی وعیدیں احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو ’’حج‘‘ سے کھلم کھلا ضرورت یا ظالم بادشاہ یا رکاوٹ کے قابل بیماری نے حج سے نہ روکا ہواور پھر بھی (باوجود فرض ہونے) اس نے حج نہ کیا ہو تو چاہے وہ یہودی ہوکر مرے چاہے نصرانی ہوکر۔ (مسند دارمی)

علماء نے لکھا ہے کہ حج کے ساتھ ساتھ جس شخص کے پاس مدینہ منورہ جاکر مسجد نبیؐ کی زیارت کرنے کی گنجائش ہو تو وہ ضرور روضۂ اقدس کی زیارت کا شرف حاصل کرے کہ اس کی بڑے فضائل و برکات وارد ہوئے ہیں، بلکہ کئی روایات میں تو اس کی باقاعدہ تاکید بھی آئی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت ضرور ہوگی۔ (دار قطنی، آثار السنن)

اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں ’’حج بیت اﷲ‘‘ سے متعلق مسلمانوں کے بعض ایسے متحیر العقول اور نادر المنقول واقعات ملتے ہیں کہ جن سے انسانی عقل حیراں و ششدر رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ احقیقت ہے کہ مسلمانوں میں ہر زمانے میں بعض ایسے اسلام پسند اور نیک لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے حج جیسے عظیم الشان دینی رکن کے ساتھ محبت و عقیدت اور شیفتگی و فریفتگی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ذیل میں دو مثالوں پر اکتفاء کرتا ہوں:

۱-یہ غالباً سنہ 2012 ء کی بات ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ’’محمد‘‘ اور ’’صفیہ‘‘ نامی دو نوے(۹۰) سالہ میاں بیوی تھے جن کے یہاں اﷲ کریم نے کوئی اولاد نہیں اُتاری اور یہ گزشتہ ستر (۷۰) سال سے حج کی خواہش دل میں پالے ہوئے ہیں۔ ان ستر (۷۰) برسوں میں ان دونوں نے محنت مشقت کرکے حج کے لئے رقم جمع کی اور مآل کار ان کی خواہشوں نے پھول اوڑھ لئے ،دونوں عزت مآب ہستیاں جب حج کی سعادت حاصل کر رہی تھیں تو ان سے پوچھا گیا’’اور کیا خواہش ہے؟۔‘‘ تو جواب ملا ’’ایک اور حج کرنے کی تمنا ہے، اﷲ کریم ہماری عمریں دراز فرمائے ، ہم مزید ستر (۷۰) سال انتظار کرلیں گے۔‘‘

۲-ایک شخص خلیفہ مامون الرشید کی خدمت میں حاضر ہوا اور حج کے لئے روپیہ، پیسہ مانگا۔ مامون نے کہا اگر تو صاحب مال ہے تو سوال کیوں کر رہا ہے ؟اور اگرصاحب مال نہیں تو تجھ پر حج بھی فرض نہیں ۔ اس نے فی البدیہہ جواب دیامیں آپ کو بادشاہ سمجھ کر آیا ہوں ، مفتی سمجھ کر نہیں ، مفتی تو شہر میں آپ سے زیادہ اچھے موجود ہیں، آپ مجھے فتویٰ نہ سنائیں ، کچھ دے سکتے ہیں دے دیجئے ورنہ انکار کردیجئے !مامون کو اس کی اس بیدار مغزی پر ہکا بکا رہ گیا اور اس کو حج کے لئے رقم دے دی ۔

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 253836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.