ماہ عید الاضحٰی اور سنت ابراہیمی

قربانی:
ماہ ذی الحج میں لاکھوں، کروڑوں مسلمان حج کے فریضہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور بہت سے خوش نصیب صاحب استطاعت حضرات سنت ابراہیمی علیہ السلام کو قربانی کرکے زندہ کرتے ہیں۔ قربانی شعائر دین ہے۔ مختصراً طور پر قربانی مخصوص ایام میں جانور کو ذبح کرنا ہے اور اس واقعے کا خلاصہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ماہ ذی الحج میں خواب دیکھا کہ غیبی آواز آئی، ’’اے ابراہیم!آپ کا رب آپ کو بیٹے کے ذبح کا حکم فرما رہا ہے‘‘۔ یہی خواب مسلسل تین روز رؤیا ہوا۔ چنانچہ اس حکم کو اﷲ عزوجل کی جانب سے ہونے پر یقین ہوا اور استدال سمجھا اور اپنے لخت جگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اس بارے میں آگاہ فرمایا، اطاعت گزار فرزند نے خود کو قربانی کے لیے پیش کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کو وادی منیٰ لے گئے اور آپ کو چہرے کے بل لٹا دیا۔ آپ نے نام الٰہی عزوجل لے کر چھری چلائی لیکن بحکم الٰہی ایک جنتی مینڈھا صاحبزادے کے فدیے کے طور پر بھیجا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا اور یہ ہی واقعہ سورۃ الصفت میں 10 آیتوں میں بیان فرمایا۔

حدیث پاک میں قربانی کی فضیلت
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ نے فرمایا کہ عید کے دن کوئی عمل اولاد آدم کا اﷲ کے نزدیک قربانی سے زیادہ محبوب نہیں وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی سے کرو‘‘۔ (ابن ماجہ و ترمذی)
ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول اﷲﷺ نے صحابہ کرام کے استفسار کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ:ہر بال کے عوض (قربانی کے جانور کے بالوں) نیکی ہے
قربانی ایک اہم فریضہ ہے سنت ابراہیم علیہ السلام اور اطاعت الٰہی عزوجل کا درس ہے۔ قربانی کی استطاعت جو رکھتا ہے وہ لازم طور پر راہ خدا وندی عزوجل میں قربانی کا جانور ذبح کرے اور اس قربانی میں خلوص نیت قربانی کے احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے ادا کرے نہ کہ بے جا نمودونمائش کی نیت سے قربانی کرے۔
قربانی کے احکام و شرائط:
قربانی کے مختصراً احکام شرعی درج ذیل ہیں ان کے مطابق عمل کر کے کامل طریقے سے اپنی قربانی ادا کریں۔
*مسلمان ہونا
*مقیم ہونا
*مالک نصاب ہونا
*بالغ ہونا
*مسلمان ہونے سے مراد ہے کہ مسلم ہو، کلمہ گو ہو، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں ہے۔
*مقیم ہونے سے مراد ہے کہ وہ شرعی مسافر نہ ہو یعنی اپنے رہائشی شہر سے ساڑھے ستاون میل (92 کلو میٹر) دور جانے کے ارادے نے نکل گیا ہو اور پندرہ دن سے اور تین دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو وہ مسافر ہے ورنہ مقیم ہے اور مسافر پر شرعاً قربانی واجب نہیں ہے۔
*مالک نصاب سے مراد ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا کوئی اور مال ضرورت زندگی سے زائد سامان: مثلاً ایک گھر رہنے کا ہے اور ایک گھر کرائے کے لیے دیا ہوا ہے۔
کسی بھی قسم کا قرضہ ہو ہو یعنی زکوۃ، کفارہ، فدیہ یا عادتاً لیا ہوا قرضہ اور وہ قرض اتنا ہے کہ دینے کے بعد وہ صاحب نصاب نہ رہے گا تو اس پر قربانی نہیں، وہ قرضہ پہلے ادا کرے گا۔
*زکوۃ ادا کرنے پر سال گزرنا ضروری ہے۔ قربانی کے لیے مال پر سال گزرنا ضروری نہیں ہے۔
*بالغ ہونا ضروری ہے۔ اگر نا بالغ صاحب و نصاب ہے تب بھی اس پر قربانی نہیں واجب، مرد کی بلوغت کی عمر کم از کم 12سال اور عورت کی 9 سال ہے۔
قربانی کے جانوروں کی عمر
*اونٹ: 5سال کا ہو اور چھٹے سال میں جا رہاہو
*گائے: 2 سال کی ہو تیسرے میں جارہی ہو۔
*بکری: ایک سال کی ہو، دوسرے میں جا رہی ہو۔
کم ہو تو جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز ہے، افضل ہے۔
*دنبہ،مینڈھا: چھ ماہ کا ہو تو قربانی ہو جائیگی مگر دیکھنے میں سال بھر کا لگے اتنا فربہ ہو۔(ردلمختار)
قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہیے؟
* قربانی کا جانور موٹا تازہ اور ااچھا ہونا چاہیے۔ عیب نہیں ہونا چاہیے اگر تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائیگی مگر مکروہ، اگر زیادہ ہو تو ہو گی ہی نہیں۔ (عالمگیری)
* اگر جانور قربانی سے پہلے مر گیا تو مالدار نیا جانور لائے گا، غریب نہیں لائیگا۔
* اگر بوقت ذبح قربانی کے جانور میں عیب پیدا ہو گیا تو ایسی صورت میں مالدار اور غریب دونوں کی قربانی کریں گے۔
* اگر گائے بکری کے پیٹ میں ذبح کرنے کے بعد بے جان بچہ نکلا تو قربانی ہو جائے گی البتہ مردار بچہ کا کھانا حرام ہے۔ زندہ ہے تو ذبح کر دیا جائے گا۔
* ذبح کے وقت زندہ انتہائی نا تواں ہوتا ہے کسی فقیر کو فوراً صدقہ کر دیا تو قربانی ہو جائے گی۔
* اگر جانور قربانی سے پہلے گم ہو گیا یا چوری ہو گیا تو بھی وہی حکم ہے کہ غنی جانور لائے گا اور غریب دوسرا جانور نہیں لائے گا۔
* قربانی کا گوشت نیاز، فاتحہ میں استعمال کر سکتے ہیں۔
* قربانی کے تین حصے کیے جائیں گے۔ ایک حصہ فقراء کے لیے، ایک حصہ دوست و احباب اور ایک حصہ گھر والوں کے لیے ہونا چاہیے۔
* قربانی کی کھال بیچنا جائز نہیں، اگر بیچی تو قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔
* قربانی کی کھال کسی صحیح مصرف میں استعمال ہونی چاہیے۔ دشمنان ملک و ملت بد مذاہب تنظیموں کو نہ دی جائے کہ ملک و قوم کو اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچے۔
* اگر حصہ ڈالا جائے تو وزن کر کے تقسیم کیا جائے۔ کمی بیشی کی صورت میں ایک دوسرے کو معاف کر دینے سے حق معاف نہ ہو گا۔ گوشت تقسیم مساوی کرنا شرعاً حق ہے بندہ شرعی حق کو معاف نہیں کر سکتا۔
قربانی کا وقت:
* قربانی کا وقت 10 ذی الحج صبح صادق 12 ذی الحج کے غروب آفتاب تک ہے۔ لیکن 3 دن، 2راتوں کو ایام نحر کہتے ہیں۔
* چوتھے دن جائز نہیں (درالمختار)
*عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔
*جانوروں کے حرام اجزاء:
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے انکے اجزاء میں حرام اور بعض مکروہ تحریمی ہیں۔ مثلاً رگوں کا خون، پتا، مثانہ، علامت مادہ و نر، خصیہ، حرام مغز، غدود گردن کے دو پٹھے، جگر کا خون، تلی کا خون، گوشت کا خون، دل کا خون، اوجھڑی، آنتیں، نطفہ، نطفہ کا خون، اور وہ پورا جانور جو مردہ نکلا یا بے ذبح مر گیا۔ کپورے بھی کھانا نہیں چاہیے۔ (فتاویٰ رضویہ)
*طریقہ قربانی:
* قربانی کی جگہ کو صاف کر لیں، چھری وغیرہ جانور کے سامنے نہ لے کر جائی، چارہ پانی دے دیں۔
*جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کی طرف اسکا منہ ہو اور ذبح کرنے والا اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری دے جلد ذبح کر دیا جائے اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھ لی جائے۔
اِنی وجہت وجہی للذی السموت و الارض حَنیفاً و ما اَنَا من المشرکین ۃ اِنَ صلاتی و نسکی و معیای و مماتی ﷲ رب العالمین ۃ لا شریک لہ و بذ لک اُمرتُ و انا من المسلمین۔
اللھم لک و منک بسم اﷲ اﷲ اکبر
*دعا ختم کرتے ہی چھری چلا دیں قربانی اپنی طرف سے تو ذبح کے بعد یہ پڑھے
*اللھم تقبل منی کما تقبلت من خلیلک ابراھیم علیہ السلام و حبییبک محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
* ذبح کے وقت چار رگیں کٹنی چاہیے یا کم سے کم تین اس زیادہ نہ کاٹیں،
*چھری مہری تک نہ پہنچ جائے کہ تکلیف ہو، ٹھنڈا ہونے پر پاؤں کاٹیں اور کھال اتاریں۔
* اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر اور خود بھی موجود رہیں۔
* عید کے دن تک بال ناخن نہ ترشوائیں۔ عید کے دن موئے زیر ناف مونڈھنے افضل ہے۔
*فرمان ﷺ ہے کہ ’’سرکار اعظم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ مجھے ذی الحج کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا اﷲ تعالیٰ نے اس دن کو میری امت کے لیے عید بنایا‘‘۔
*اس شخص نے عرض کی کہ اگر میرے پاس منحہ کے علاوہ کوئی جانور نہ ہو تو میں اسکو ذبح کروں؟ فرمایا،’’ نہیں تم اپنے بال، ناخن اور مونچھیں ترشواؤ اور موئے زیر ناف مونڈو اسی میں تمہاری قربانی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری ہو جائے گی‘‘۔
رب تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کامل اور خلوصِ نیت سے قربانی ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، نمودو نمائش سے دور رکھے اور اس قربانی کے ذریعہ غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ آمین

Dur-e-Sadaf Eman
About the Author: Dur-e-Sadaf Eman Read More Articles by Dur-e-Sadaf Eman: 49 Articles with 46357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.