ویسے تو تعلیم ہر فرد پر فرض ہے کیونکہ تعلیم کے حصول کے
بعد انسان میں بہتر کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے مگر خواتین کیلئے تعلیم بے حد
ضروری ہے کیونکہ ایک عورت نے پورے کنبے کی تربیت کرنا ہوتی ہے موجودہ دور
میں جہاں فروغ تعلیم کیلئے بے تحاشہ کام کیا گیا ہے وہاں ایک چھوٹی سی غلطی
ہوئی کہ معاشرے کے افراد میں یہ شعور پیدا نہیں کیا گیا کہ لڑکوں کے ساتھ
لڑکیوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے اور اس شعور کی قلت کے باعث کئی
گھرانوں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم سے دور کر دیا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے ۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ریاست میں پیدا ہونے والے ہر باشندے کے حقوق
یکساں ہیں اور کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کے حقوق غصب نہیں کر سکتا مگر
افسوس ہے کہ کچھ افراد کی تا حال یہ سوچ ہے کہ لڑکوں کو تعلیم یافتہ بنایا
جائے جبکہ لڑکیوں کو پڑھائی سے دور رکھا جائے کیونکہ انہوں نے تو پرائے گھر
جانا ہے ۔ایک دور تھا کہ علاج بہت مشکل تھا کیونکہ طبیب بہت کم ہوا کرتے
تھے اس وجہ سے علاج میں بہت مشکل پیش آتی تھی لیکن جس طرح سائنس نے ترقی کی
میڈیکل کے شعبے میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی ،ایسی بے شمار بیماریاں جو کہ
لاعلاج تھیں ان کا علاج اب ممکن ہو گیا ہے۔اب جہاں مرد میڈیکل کے شعبہ میں
آرہے ہیں وہاں خواتین بھی پیچھے نہیں میڈیکل کے شعبہ میں خواتین بھی مردوں
کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ جہاں ہر سال
ہزاروں لڑکے ڈاکٹر بنتے ہیں وہاں ہزاروں لڑکیاں بھی ڈاکٹر بنتی ہیں۔ ہمارے
معاشرے میں بہت سی ایسی خواتین ڈاکٹر موجود ہیں جن کو شعبہ طب میں آنے سے
پہلے بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب وہ مخالفت کا سامنا کرتے
ہوئے ڈاکٹربن گئیں تو پھر وہ اپنے خاندان کی قابل فخر شخصیت بن گئیں اور جب
انہوں نے مریضوں کا علاج معالجہ کیا تو نہ صرف ان کے خاندان کو خوشی ہوئی
بلکہ جن مریضوں کا علاج ہوا وہ بھی مطمئن نظر آئے۔اگر بات کریں شعبہ تدریس
کی تو کئی خواتین بطور اساتذہ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں اور نئی نسل کو
زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔اسلام نے عورت کیلئے ذمہ دارانہ معاشرتی
حیات کا تصور دیا ہے۔ وہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں ہر روپ میں زندگی میں
مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لئے اسلام اخلاقی و روحانی، علمی و فکری کسی
اعتبار سے عورت کو پیچھے نہیں رکھتا،صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے
میں عورت ہی پہلا مدرسہ ہے۔قرآن پاک میں مرد اور عورت کے یکساں حقوق کو اس
طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ’’اور جو کوئی نیک عمل کرے گا ،خواہ وہ مرد ہو یا
عورت شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو۔اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کروائیں
گے۔اور آخرت میں ایسے لوگوں کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں
گے‘‘۔ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد و عورت کی کوئی تفریق
نہیں ہے۔ دونوں کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں،عورت کو چادر اور چار دیواری کا
تحفظ دے کر اسے ہوس زدہ نظروں سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔اسلام ویسے تو تمام
انسانوں کو یکساں بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن حقوق نسواں یعنی عورتوں
کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔آخری خطبہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ ؐنے
عورتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا۔"دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے
کچھ حقوق ہیں۔اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں۔عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک
کرو،کیونکہ وہ تمہاری پابند ہیں۔اور خود وہ اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں۔ہم
سمجھتے ہیں کہ بطور مسلمان سب سے پہلے ہمارا دین ہمیں اس بات کی نصیحت کرتا
ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق دئیے جائیں اور اس کے بعد ہماری ریاست کے آئین
میں بھی تحریر ہے کہ تمام افراد کے حقوق مساوی ہیں تو پھر تعلیم نسواں کی
مخالفت کیوں کی جاتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام افراد میں
تعلیم نسواں کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کی جائے تاکہ جنسی تفریق کا
خاتمہ ہو اورآج کی بچیاں آج پڑھ لکھ کر مستقبل کی تعلیم یافتہ خواتین بن
سکیں کیونکہ جب خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی تو نہ صرف وہ بچوں کی بہتر تعلیم
و تربیت کر سکیں گی بلکہ مختلف اداروں میں بھی اپنے فرائض انجام دے کر ملک
و قوم کا نام روشن کریں گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مکتبہ فکر کے افراد کو
تعلیم نسواں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ قوم خواندہ ہو سکے۔ |