امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی
تصوف و سلوک میں اولاً نسبت محافظ ختم نبوت پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ
اللہ سے قائم ہوئی تھی ،یاد رہے کہ آپ نے ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا
عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی، علوم ظاہریہ
مولانا غلام مصطفیٰ صاحب رحمہ اللہ ،مفتی حسن رحمہ اللہ سے اور فن قرات کی
تعلیم شیخ عاصم عمر رحمہ اللہ سے حاصل کی تھی ۔بلاشبہ پیکرغیرت وجرات اور
حمیت دین سے سرشار امیر شریعت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے
جہاں جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرنے میں تحریکی کردار ادا کیا وہیں برطانوی
سامراج کے پروردہ شدھی و سنگٹھن تحاریک اور مرزاغلام احمد قادیانی کی
خودساختہ اور جھوٹی نبوت کے خلاف سینہ سپر ہو کر ان کے گھڑ ربوہ میں کھڑے
ہوکر ان کو للکارا اور اسلام کی حقانیت کو بیان کیا۔(حیات امیرشریعت )
ختم نبوت کے حوالے سے امیرشریعت رحمہ اللہ کی جدوجہد کو جاننے سے پہلے ایک
پس منظر کا جاننا ضروری ہے کہ مرزائیت نے جہاں اسلامی عقائد اور بنیادوں پر
حملے کئے وہیں انہی قادیانیوں نے ہندوؤں کی سوامی دیانند جیسی مقدس شخصیات
کی کردار کشی کرکے انہیں پیغمبر اسلام ﷺکی توہین کا موقع فراہم کیا،مرزا
قادیانی کی طرف سے "براہین احمدیہ" اور ہندومت کی طرف سے پنڈت دیانند نے "سیتارتھ
پرکاش "شائع کی گئیں اور اس سلسلے کوقاسم علی مرزائی نےکتاب "انیسویں صدی
کا مہا رشی دیانند" لکھ کر آگے بڑھایا جب کہ اس کا جواب آریہ سماجی لیڈر
پنڈت چمپادتی نے نعوذ باللہ "رنگیلا رسول " لکھ کردیا ،جس نے مسلمانوں کے
مذہبی جذبات کو سخت مجروح کیا اور یوں ہندوستان بھر میں فسادات اور احتجاج
کا سلسلہ شروع ہو ا۔
امیرشریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مرزا غلام احمد
قادیانی کے کفر پر 1920 میں اڑھائی سو سے زائد علماء کے ساتھ متفقہ فیصلہ
پر دستخط کرکے حکومت سے آریہ سماج کی کتب کی ضبطی کا بھی مطالبہ کیا ۔اس
متفقہ فتوی میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر اور اس کے متبعین کو کافر
اور مرتد قرار دے کرہر مسلمان کو ان سے قطع تعلق کرنے کا کہاگیا تھا۔دوسری
جانب جمیعت علماء ہند نے "رنگیلا رسول "کے مصنف شاتم رسول کو واجب القتل
قرار دے دیا تھا ،اور اس کتاب کومہاشہ راجپال نے نہ صرف طبع کروایا تھا
بلکہ تصنیف کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی ۔دوسری جانب عشاق رسولﷺ جذبہ حب
خاتم الانبیاء ﷺسے مغلوب ہوکر اس شاتم رسول کے بوجھ سے زمین کو آزاد کرنے
اورسبق سکھانے کا فیصلہ کرچکے تھے ،چنانچہ غازی عبدالعزیز رحمہ اللہ ،غازی
خدا بخش رحمہ اللہ ،مولوی عبدالرشید غازی رحمہ اللہ اورغازی علم الدین رحمہ
اللہ انہی فدایان نبوت میں سے تھے۔جب کہ علماء ہند نےمؤثر انداز میں عوامی
و قانونی جدوجہد کی ،4 اور5 جولائی 1927ء کی درمیانی رات لاہور دہلی دروازے
پر دفعہ 144 کے باوجود امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے بہت
بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "آج مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد
سعیدکے دروازے پرام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور ام
المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھاآئیں ،اور فرمایا ہم تمھاری
مائیں ہیں،کیا تمھیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں؟"۔۔۔۔۔ارے
دیکھو تو ۔۔۔!ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا دروازے پر تو کھڑی
نہیں ۔۔۔؟
اگر تم خدیجہ وعائشہ رضی اللہ عنھما کی ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو فخر
سے کم نہیں ہے۔یادرکھو!یہ موت آئے گی تو پیام حیات لے کر آئے گی۔(روزنامہ
زمیندار7جولائی 1927)
ڈپٹی کمشنر لاہور نے اس کا انتقام 10 جولائی کو دفتر پنجاب خلافت کمیٹی ،بیرون
دہلی دروازہ سے امیر شریعت اور خواجہ عبدالرحمن غازی کو دفعہ 107 اور 108
کے تحت گرفتار کرکے ایک ایک سال قید کی سزا سنا ئی گئی۔مدت پوری ہونے پر
رہائی کے بعد حضرت امیرشریعت نے قریہ قریہ ،بستی بستی اور شہر شہر ناموس
رسالت اور بیداری مسلم کے لیے دیوانہ وار پھرتے رہے ،قادیانیت،شدھی و
سنگٹھن تحاریک ،توہین رسالت کے طوفان بدتمیزی کے آگے سد سکندری بننے والا
اور انگریزی سامراج کے خلاف نبرد آزما ہونے والا یہ عظیم مجاہد جب خدام
الدین کے سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1930 بمقام لاہور میں تشریف لایا تو
محدث کبیر مولاناسید انور شاہ کشمیری ر حمہ اللہ نے یہ الفاظ ارشاد
فرمائے"دین کی قدریں بگڑ رہی ہیں ،کفر چاروں طرف سے یلغار کرچکا ہے،اس وقت
مسلمانوں کو اپنے لیے ایک امیر کا انتخاب کرنا چاہیے،اس کے لیے میں سید
عطاء اللہ شاہ بخاری کو منتخب کرتا ہوں ،وہ نیک بھی ہیں اور بہادر بھی ،اس
وقت تک انہوں نے فتنہ شاتم رسول اور شارداایکٹ کے سلسلے میں جس جرات اور
دلیری سے دین کی خدمات انجام دی ہیں ،آئندہ بھی ان سے ایسی ہی توقع ہے۔"یہ
الفاظ کہہ کر آپ نے اپنے ہاتھ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرف بڑھا دیئے ،اس
موقع پر پانچ سو کبار علماء کرام نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ،اور آپ کو
امیرشریعت کا خطاب عطا کیا گیا جو عنداللہ و عندالناس آپ کی جدوجہد قبولیت
کا مظہر تھا ۔
مجلس احرار کے زیرانتظام تین روزہ پہلا اجلاس 21بعنوان "تبلیغ اسلام "
اکتوبر 1934کو لاکھوں مسلمانان ہند نے شرکت کی ،اس کی صدارت اور خصوصی خطاب
امیرشریعت رحمہ اللہ نے کیا ،یہ کانفرنس مرزائی خلافت اور ان کے آقاؤں کے
لیےانتہائی پریشانی کاباعث بنی ،انتقاماً آپ کو اسی کانفرنس کی تقریر کی
بنا پر 7 دسمبر 1934 کو مسوری سے دفعہ 143 الف کے تحت گرفتار کرلیا گیا ،بعدازاں
ضمانت پر رہائی عمل میں لائی گئی ۔اس مقدمہ کا فیصلہ 20اپریل 1934کو
مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور نےآپ کو چھ ماہ قید بامشقت سنایا ،تاہم 6جون
1935 کو سیشن جج گورداسپور نے طویل جرح کے بعد سزا میں تخفیف کرکے تااختتام
وقت ِعدالت قید تک محدود کردیا تھا ۔ اس خفت کو مٹانے کے لیے مرزا بشیر
الدین محمود نے احرار کو مباہلے کی دعوت دی ،جیسے احرار نے قبول کرکے
تیاریاں شروع کردیں ،مرزائیت نے خائف ہوکر سرکار کے سامنے واویلا کرنا شروع
کردیا ،جس کے نتیجہ میں قادیان میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ،مجلس احرار نے
قادیان میں امیرشریعت کی امامت میں نماز جمعہ کا اعلان کردیا اور جس کے لیے
جاتے ہوئے جنیتی پور ریلوے اسٹیشن پر گرفتار کرلئے گے ،مگر نماز جمعہ کا
اعلان برقرار رہا اور ہر جمعہ کو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی رہیں ،بالآخر
ایک ماہ بعد دفعہ 144 اٹھا دی گئی اور امیر شریعت کو 15 اپریل 1936کو لاہور
جیل سے رہا کردیا گیا ۔(حیات امیرشریعت )
قیام پاکستان کے بعد قادیانی لابی انتہائی متحرک ہوئی ،ان کی سرگرمیوں کو
امیرشریعت رحمہ اللہ نے ملتان میں اپنے ایک خطاب میں یوں ارشاد فرمایا
"انگریزوں کا خود ساختہ پوداپاکستان میں بیٹھ کر بھی برطانیہ کے لیے جاسوسی
کررہا ہے۔میری حکومت نے اگر اس طرف توجہ نہ دی تو مجھے ڈر ہے کہ اس ملک پر
مرزائیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔"بلاشبہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی
خان شہید رحمہ اللہ کے بعد پیدا ہونے والی ناگفتہ بہ ملکی صورت حال میں
مرزائیوں کو کھلے عام اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملا اور اپنے خود ساختہ
الہامی عقیدہ "اکھنڈ بھارت "کے لیے جدوجہد شروع کردی ،اور مرزا بشیرالدین
محمود پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سرعام ہرزا سرائی کرنے لگا،جس کا
مقابلہ کرنے کے لیے 9 مئی 1951کو برکت علی ہال لاہور میں منعقدہ کنونشن سے
ملک گیر مرزائیت مخالف کا آغاز کردیا گیا ،امیرشریعت ناسازی طبیعت کے
باوجود بھرپور جذبات کے ساتھ میدان عمل میں اترے ،مزید یہ کہ 17۔18 مئی
1952 ء کو جہانگیر پارک کراچی میں مرزائیوں کے سالانہ اجتماع میں وزیر
خارجہ پاکستان سر ظفراللہ خان نے تقریر کرکے سرکاری عہدے کا فرقہ وارنہ
استعمال کیا ،جس پر 2 جون 1952 ء کو کراچی میں ہی آل پاکستان مسلم پارٹیز
کنونشن طلب کیا گیا ،جس میں دو دن کی بحث کے بعدقرارداد منظور کی گئی کہ
"مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،چودھری سرظفراللہ خان کووزارت
خارجہ کے عہدہ سے ہٹایا جائےاور مرزائیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹایا
جائے۔ان مطالبات کی تصدیق کے لیے 13 جولائی برکت علی ہال لاہور میں آل
پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا جس میں ایک مجلس عمل تشکیل دی گئی
،جس نے 23 جنوری 1953 کو وزیر اعظم سے مل کر اپنے مطالبات پیش کئے اور ایک
ماہ کی ڈیڈ لائن دی،22 فروری کی رات کو لاہور دہلی دروازے پر امیر شریعت نے
خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ"آج کا یہ اجتماع مرزائیوں اور سر ظفراللہ خان کے
خلاف مظاہرہ کرنے کیے منعقد ہوا ہے ۔جب کہ 26 جنوری کراچی کے اجلاس میں
مجلس عمل نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ رضاکار مطالباتی جھنڈے اٹھائے عام راستوں
سے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر جاکر مطالبات پیش کریں گے ،گرفتاری کی صورت
میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا،تاہم اسی رات آرام باغ کے جلسے کے بعد
امیرشریعت سمیت مجلس عمل کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا ،آپ کو سنٹرل جیل
کراچی ،سکھر جیل اور پھرسنٹرل جیل لاہور میں منتقل کیا گیا ،اس دوران تحریک
ناموس رسالت کے احوال اور حکومت کے جبر وتشدد کی وجہ سے آپ ہمیشہ بے چین
اور مضطرب رہتے تھے ،لاہور جیل میں اسیران ناموس رسالت کی دلجوئی کے لیے ان
کے پاس تشریف لے جاتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔اسی دوران آپ کو اپنے
مؤقف سے پھسلانے کی کوشش کی گئی مگر آپ ثابت قدم رہے اور بالآخر لاہور ہائی
کورٹ کے جسٹس اےرحمن کے حکم پر 18 فروری 1954 کو امیر شریعت کو ان کے رفقاء
کے ساتھ رہا کردیا گیا ۔12 ستمبر 1954 کو ملتان میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں
آپ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا امیر مقرر کردیا گیا ،آپ نے یہ ذمہ داری
سنبھالنے کے لیے مبلغین کی فکری و عملی تربیت کی ۔2جون 1955ء کوشیخ محمد
اکبرڈسٹرکٹ جج کیمبل پور نے مرزائی عورت سے نکاح کے کیس کے بارے میں جاری
اپنے فیصلے میں لکھا کہ "قادیانی مسلمانوں کا فرقہ نہیں ،اس لیے قادیانی
عورت کا نکاح مسلمان مرد سے نہیں ہو سکتا ہے۔اس فیصلہ پر امیر شریعت سید
عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا اور کہا
کہ "ڈسٹرکٹ جج کے قلم نے مرزائیت کو فنا کردیا ہے۔"یہی وہ بنیادیں تھیں جن
پر آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے قانون کی
عمارت کھڑی ہوئی میں اور مرزائیت کا مکروہ چہرہ تاقیامت پوری دنیا کے سامنے
واضح ہوگیا ۔
انگریز ی سامراج او راس کے پروردہ قادیانیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار
بننے والے عظیم مجاہد و قائد،داعی قرآن ،جدوجہد آزادی کے لیے قیدوبند کی
صعوبتیں برداشت کرکے حریت کا سبق پڑھانے والے امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ
بخاری رحمہ اللہ ایک عبقری شخصیت تھے ،آپ جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں
،آپ کی جرات ،بہادری ،خودداری اور حریت سے بھرپور زندگی نسل نوکے لیے مشعل
راہ اور مینارہ نور ہے ۔
|